حضرت امام زین العابدینؒ: حیات، سیرت اور تعلیمات

0

 

حضرت امام زین العابدینؒ: حیات، سیرت اور تعلیمات

 

:تعارف 

حضرت امام زین العابدینؒ اسلامی تاریخ کی ایک نہایت ہی عظیم المرتبت اور قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ آپؒ کا شمار اہلِ بیت اطہارؑ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی حقیقی روح کو زندہ رکھا اور اپنے کردار، صبر، عبادت اور علمی خدمات کے ذریعے امتِ مسلمہ کو ایک روشن راستہ دکھایا۔ آپؒ کی شخصیت اپنے وقت میں تقویٰ، زہد، اور صبر کی علامت تھی، اور آج بھی دنیا بھر میں مسلمان آپؒ کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ 

نسب اور ولادت: 

حضرت امام زین العابدینؒ کا اصل نام علی بن حسینؒ تھا،  آپ كا شجره نسب يه هے :

شجره نسب: على بن حسين بن علي بن ابي طالب بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف الهاشمي القريشي .

لقب:  اور آپؒ کو  آپ كي عبادت گزاري اور كثرت سجود كي وجه سے "زین العابدین" (عبادت گزاروں کی زینت) اور "سجاد" (بہت زیادہ سجدہ کرنے والا) جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

ولادت و جائے ولادت:   آپؒ کی ولادت 38 ہجری (658ء) میں  مدینہ منورہ  میں ہوئی۔ 

آپؒ کا نسب عظیم المرتبت شخصیات سے جڑا ہوا تھا:   آپ كے  والدگرامي  حضرت امام حسینؓ بن علیؓ (نواسۂ رسول ﷺ اور شہیدِ کربلا) 

اور آپ كي والدہ كا نام  حضرت شہربانوؒ هے جو كه  ایران کے آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھي۔ تاريخ ابن خلكان ميں هے:

أم علي ‌زين ‌العابدين؛ سبية من بنات يزدجرد. (الكامل ص:2/120، وانظر ابن خلكان  وفيات الاعيان(1: 320)

" علی زین العابدین كي والده یزدگرد کی بیٹیوں میں سے ایک قیدی تھیں۔"

حضرت عمر رضي الله عنه كي خلافت كے زمانے ميں يزد گرد كي تين بيٹياں قيدي بن كر آئيں تو ان ميں سے ايك حضرت حسين رضي الله عنه كو ديا گيا جن سے حضرت زين العابدين پيدا هوئے۔(ديكھئےابن خلكان وفيات الاعيان حواله سابق)

آپؒ کی والدہ کا انتقال آپؒ کے بچپن میں ہوگیا تھا، اور آپؒ کی پرورش حضرت امام حسینؓ اور دیگر اہلِ بیت کے زیرِ سایہ ہوئی (ابن سعد،  الطبقات الکبریٰ ، ص: 5/ 151و ما بعد)

سانحۂ کربلا اور اس کے اثرات:

حضرت امام زین العابدینؒ کی زندگی میں سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا واقعہ"سانحۂ کربلا" تھا، جو 10 محرم 61 ہجری (680ء) کو پیش آیا۔ 

اس وقت آپؒ تقریباً 23 سال کے تھے، لیکن سخت بیماری کے باعث جنگ میں شریک نہ ہوسکے۔ یہ اللہ کی حکمت تھی کہ امام زین العابدینؒ کربلا میں زندہ رہے، تاکہ اہلِ بیت کی قیادت باقی رہے ۔  شمر ذي الجوشن نے آپ كو مارناچاها مگر الله كاكرنا ايسا هوا كه اسي كے فوج كے لوگوں نے آپ كو مارنے سے منع كيا اور يوں آپ كي زندگي بچ گئي۔ طبقات ابن سعد ميں هے:

وكان علي بن حسين مع أبيه وهو ابن ثلاث وعشرين سنة. وكان مريضا نائما على فراشه. فلما قتل الحسين عليه السلام. قال شمر بن ذي الجوشن: اقتلوا هذا. فقال له رجل من أصحابه: سبحان الله! أنقتل فتى حدثا مريضا لم يقاتل؟ وجاء عمر بن سعد فقال: لا تعرضوا لهؤلاء النسوة ولا لهذا المريض. قال علي بن الحسين: فغيبني رجل منهم وأكرم نزلي واختصني وجعل يبكي كلما خرج ودخل حتى كنت أقول إن يكن عند أحد من الناس خير ووفاء فعند هذا.(الطبقات الكبري ص:5/163 طبع دار الكتب العلمية بيروت)

"علی بن حسین (زین العابدینؑ) اپنے والد (امام حسینؑ) کے ساتھ تھے، اس وقت ان کی عمر تیئس (23) سال تھی۔ وہ بیمار تھے اور اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب امام حسینؑ شہید ہو گئے، تو شمر بن ذی الجوشن نے کہا: 'اسے بھی قتل کر دو۔' لیکن اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا: 'سبحان اللہ! کیا ہم ایک نوجوان، بیمار شخص کو قتل کریں گے جس نے جنگ بھی نہیں کی؟' پھر عمر بن سعد آیا اور کہا: 'ان عورتوں اور اس بیمار کو کچھ نہ کہو۔'

علی بن حسینؑ کہتے ہیں: 'پھر ان میں سے ایک شخص نے مجھے چھپا لیا، میری عزت کی، مجھے خصوصی طور پر ٹھہرایا، اور جب بھی وہ اندر آتا یا باہر جاتا تو روتا رہتا، یہاں تک کہ میں کہنے لگا: اگر کسی کے پاس خیر اور وفا ہو سکتی ہے تو وہ اسی کے پاس ہے۔'"

جب امام حسینؓ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے، تو دشمنوں نے آپؒ کو قیدی بنا لیا۔ اسیرانِ کربلا کو پہلے کوفہ اور پھر یزید کے دربار دمشق لے جایا گیا۔ یہاں امام زین العابدینؒ نے ایسا تاریخی خطبہ دیا، جس میں آپؒ نے یزید کے ظلم اور اہلِ بیت کے مقام و مرتبہ کو واضح کیا (الطبری، *تاریخ الامم والملوک*، جلد 3، ص 340)۔ آپؒ کے الفاظ نے یزید کو شرمندہ کر دیا، اور بالآخر اہلِ بیت کو رہا کر دیا گیا۔ 

طبري نے آپ كي يزيد كے دربار ميں آمد اور اسيري و رهائي كے واقعات كو يوں بيان كيا هے:

قَالَ: ولما جلس يَزِيد بن مُعَاوِيَة دعا أشراف أهل الشام فأجلسهم حوله، ثُمَّ دعا بعلي بن الْحُسَيْن وصبيان الْحُسَيْن ونسائه، فأدخلوا عَلَيْهِ والناس ينظرون، فَقَالَ يَزِيد لعلي: يَا علي، أبوك الَّذِي قطع رحمي، وجهل حقي، ونازعني سلطاني، فصنع اللَّه بِهِ مَا قَدْ رأيت! قَالَ: فَقَالَ علي:

«مَا أَصابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَها» ، فَقَالَ يَزِيد لابنه خَالِد: اردد عَلَيْهِ، قَالَ: فما درى خَالِد مَا يرد عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ يَزِيد: قل: «وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ» ، ثُمَّ سكت عنه،] قَالَ: ثُمَّ دعا بالنساء والصبيان فأجلسوا بين يديه، فرأى هيئة قبيحة، فَقَالَ: قبح اللَّه ابن مرجانة! لو كَانَتْ بينه وبينكم رحم أو قرابة مَا فعل هَذَا بكم، وَلا بعث بكم هكذا.

قَالَ أَبُو مخنف، عن الْحَارِث بن كعب، عن فاطمة بنت علي، قالت:لما أجلسنا بين يدي يَزِيد بن مُعَاوِيَة رق لنا، وأمر لنا بشيء، وألطفنا، قالت: ثُمَّ إن رجلا من أهل الشام أحمر قام إِلَى يَزِيد فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هب لي هَذِهِ- يعنيني، وكنت جارية وضيئة- فأرعدت وفرقت، وظننت أن ذَلِكَ جائز لَهُمْ، وأخذت بثياب أختي زينب، قالت: وكانت أختي زينب أكبر مني وأعقل، وكانت تعلم أن ذَلِكَ لا يكون، فَقَالَتْ:كذبت وَاللَّهِ ولؤمت! مَا ذَلِكَ لك وله، فغضب يَزِيد، فَقَالَ: كذبت وَاللَّهِ، إن ذَلِكَ لي، ولو شئت أن أفعله لفعلت، قالت: كلا وَاللَّهِ، مَا جعل اللَّه ذَلِكَ لك إلا أن تخرج من ملتنا، وتدين بغير ديننا، قالت: فغضب يزيد واستطار، ثُمَّ قَالَ: إياي تستقبلين بهذا! إنما خرج من الدين ابوك  وأخوك، فَقَالَتْ زينب: بدين اللَّه ودين أبي ودين أخي وجدي اهتديت أنت وأبوك وجدك، قَالَ: كذبت يَا عدوة اللَّه، قالت: أنت أَمِير مسلط، تشتم ظالما، وتقهر بسلطانك، قالت: فو الله لكأنه استحيا، فسكت، ثُمَّ عاد الشامي فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هب لي هَذِهِ الجارية، قَالَ: اعزب، وهب اللَّه لك حتفا قاضيا! قالت: ثُمَّ قَالَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة: يَا نعمان بن بشير:جهزهم بِمَا يصلحهم، وابعث معهم رجلا من أهل الشام أمينا صالحا، وابعث مَعَهُ خيلا وأعوانا فيسير بهم إِلَى الْمَدِينَة، ثُمَّ أمر بالنسوة أن ينزلن فِي دار عَلَى حدة، معهن مَا يصلحهن، وأخوهن معهن عَلِيّ بن الْحُسَيْن، فِي الدار الَّتِي هن فِيهَا قَالَ: فخرجن حَتَّى دخلن دار يَزِيد فلم تبق من آل مُعَاوِيَة امرأة إلا استقبلتهن تبكي وتنوح عَلَى الْحُسَيْن، فأقاموا عَلَيْهِ المناحة ثلاثا، وَكَانَ يَزِيد لا يتغدى وَلا يتعشى إلا دعا عَلِيّ بن الْحُسَيْن إِلَيْهِ. قَالَ: ولما أرادوا أن يخرجوا دعا يَزِيد عَلِيّ بن الْحُسَيْن ثُمَّ قَالَ: لعن اللَّه ابن مرجانة، أما وَاللَّهِ لو أني صاحبه مَا سألني خصلة أبدا إلا أعطيتها إِيَّاهُ، ولدفعت الحتف عنه بكل مَا استطعت ولو بهلاك بعض ولدي، ولكن اللَّه قضى مَا رأيت، كاتبني وأنه كل حاجة تكون لك، قَالَ: وكساهم وأوصى بهم ذَلِكَ الرسول، قَالَ: فخرج بهم وَكَانَ يسايرهم بالليل فيكونون أمامه حَيْثُ لا يفوتون طرفه، فإذا نزلوا تنحى عَنْهُمْ وتفرق هُوَ وأَصْحَابه حولهم كهيئة الحرس لَهُمْ، وينزل مِنْهُمْ بحيث إذا أراد إنسان مِنْهُمْ وضوءا أو قضاء حاجة لم يحتشم، فلم يزل ينازلهم فِي الطريق هكذا، ويسألهم عن حوائجهم، ويلطفهم حَتَّى دخلوا الْمَدِينَة.

وَقَالَ الْحَارِث بن كعب: فَقَالَتْ لي فاطمة بنت علي: قلت لأختي زينب: يَا أخية، لقد أحسن هَذَا الرجل الشامي إلينا فِي صحبتنا، فهل لك أن نصله؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا معنا شَيْء نصله بِهِ إلا حلينا، قالت لها: فنعطيه حلينا، قالت: فأخذت سواري ودملجي وأخذت أختي سوارها ودملجها، فبعثنا بِذَلِكَ إِلَيْهِ، واعتذرنا إِلَيْهِ، وقلنا لَهُ: هَذَا جزاؤك بصحبتك إيانا بالحسن من الفعل، قَالَ: فَقَالَ: لو كَانَ الَّذِي صنعت إنما هُوَ للدنيا كَانَ فِي حليكن مَا يرضيني ودونه، ولكن وَاللَّهِ مَا فعلته إلا لِلَّهِ، ولقرابتكم مِنْ رَسُولِ الله ص.(تاريخ الرسل و الملوك ص:5/461-463 طبع دار المعارف مصر)

امام زین العابدین کا یزید کے دربار میں حاضر ہونا:

راوی بیان کرتا ہے کہ جب یزید بن معاویہ بیٹھا، تو اس نے شام کے اشراف (معزز لوگوں) کو بلایا اور انہیں اپنے اردگرد بٹھایا۔ پھر اس نے امام زین العابدین، حضرت حسینؓ کے بچوں اور خواتین کو بلوایا۔ سب لوگ انہیں دیکھ رہے تھے کہ انہیں دربار میں لایا جا رہا ہے۔

یزید نے امام زین العابدین سے کہا:

"اے علی (بن حسین)، تمہارا باپ وہ شخص تھا جس نے میرے ساتھ قطع تعلق کیا، میرے حق کو نہیں پہچانا، اور میرے اقتدار پر جھگڑا کیا۔ اللہ نے اس کے ساتھ وہی کیا جو تم دیکھ چکے ہو۔"

اس پر امام زین العابدین نے جواب دیا:

"زمین میں یا تمہاری جانوں پر جو مصیبت بھی آتی ہے، وہ ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں لکھی جا چکی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔( سورہ الحدید: 22)

یزید نے اپنے بیٹے خالد سے کہا: "اس کا جواب دو۔" لیکن خالد کو سمجھ نہ آئی کہ کیا جواب دے۔

یزید نے کہا: "اسے کہو: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے سبب ہے، اور اللہ بہت سے گناہوں سے درگزر کرتا ہے۔(سورہ الشوریٰ: 30)

پھر یزید خاموش ہو گیا۔

یزید کی خواتين قيديوں سے گفتگو:

پھر یزید نے خواتین اور بچوں کو بلایا اور انہیں اپنے سامنے بٹھایا۔ جب اس نے ان کی حالت دیکھی تو کہا:
"
اللہ ابنِ مرجانہ (ابن زیاد) کو برباد کرے! اگر اس کے اور تمہارے درمیان کوئی رشتہ یا تعلق ہوتا تو وہ تمہارے ساتھ یہ سلوک نہ کرتا، نہ ہی اس طرح تمہیں میرے پاس بھیجتا۔"

ابو مخنف حارث بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت علی کہتی ہیں:

"جب ہمیں یزید کے سامنے بٹھایا گیا تو وہ نرم پڑ گیا، ہمارے لیے کچھ عطا کرنے کا حکم دیا، اور نرمی سے پیش آیا۔"

شامی شخص کا گستاخانہ مطالبہ:

پھر شام کا ایک سرخ و سفید رنگت والا شخص کھڑا ہوا اور یزید سے کہا:

"اے امیرالمؤمنین! مجھے یہ لونڈی (یعنی فاطمہ بنت علی) بخش دیں۔"(میں ایک خوبصورت لڑکی تھی)

یہ سن کر میں کانپ گئی اور ڈر گئی، یہ سمجھا کہ شاید ان کے لیے یہ جائز ہے۔ میں نے اپنی بہن زینب کے کپڑے پکڑ لیے۔ زینب عمر میں مجھ سے بڑی اور زیادہ سمجھدار تھیں۔ انہوں نے جانا کہ یہ جائز نہیں، تو بولیں:
"
اللہ کی قسم! تو جھوٹ بول رہا ہے اور کمینہ ہے! یہ تیرے لیے اور اس کے لیے جائز نہیں!"

یزید کو غصہ آیا اور بولا: "اللہ کی قسم! تو جھوٹ بول رہی ہے! یہ میرے اختیار میں ہے، اگر چاہوں تو کر سکتا ہوں!"

زینب نے کہا:نہیں! اللہ کی قسم! اللہ نے یہ اختیار تجھے نہیں دیا، سوائے اس کے کہ تُو ہمارے دین سے نکل جائے اور کوئی اور دین اختیار کرے!

یزید غصے سے پاگل ہو گیا اور کہا: کیا تُو مجھ سے ایسے بات کرتی ہے؟ تیرے باپ اور بھائی ہی دین سے نکلے تھے۔

زینب نے جواب دیا: "اللہ کے دین، میرے باپ کے دین، میرے بھائی کے دین، اور میرے نانا کے دین سے تُو اور تیرا باپ و دادا ہدایت پائے!"

یزید بولا: "تو جھوٹ بول رہی ہے، اے اللہ کی دشمن!"

زینب نے کہا: "تو ایک زبردست بادشاہ ہے، ظالمانہ زبان سے گالیاں دیتا ہے اور اپنے اقتدار کے ذریعے ظلم کرتا ہے!"

خدا کی قسم! ایسا لگا جیسے یزید شرمندہ ہو گیا، پھر خاموش ہو گیا۔

پھر وہی شامی دوبارہ بولا:"اے امیرالمؤمنین! یہ لڑکی مجھے دے دیں!"

یزید نے کہا: "دفع ہو جا! اللہ تجھے ہلاکت دے!"

یزید کا اہلِ بیت کو واپس مدینہ بھیجنا:

پھر یزید نے نعمان بن بشیر کو بلایا اور کہا:"انہیں وہ سب کچھ دو جو ان کے سفر کے لیے ضروری ہے، اور شام کے نیک و صالح شخص کو ان کے ساتھ روانہ کرو، اس کے ساتھ سواریاں اور مددگار بھی بھیجو تاکہ یہ لوگ مدینہ پہنچ جائیں۔" پھر یزید نے حکم دیا کہ خواتین کو الگ مکان میں رکھا جائے جہاں ان کے لیے سامانِ راحت ہو، اور ان کے ساتھ ان کا بھائی امام زین العابدین بھی ہوں۔

جب خواتین دار یزید میں داخل ہوئیں تو آلِ معاویہ کی کوئی بھی عورت ایسی نہ تھی جو ان کا استقبال کرتے ہوئے نہ روئی ہو اور امام حسین پر ماتم نہ کیا ہو۔ تین دن تک ان پر نوحہ جاری رہا۔ یزید امام زین العابدین کو ہر دن کھانے یا رات کے کھانے پر بلاتا۔

یزید کی ابنِ زیاد پر لعنت اور رخصتی:

جب اہلِ بیت کے روانہ ہونے کا وقت آیا تو یزید نے امام زین العابدین کو بلایا اور کہا:"اللہ ابنِ مرجانہ پر لعنت کرے! اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو وہ مجھ سے جو بھی مانگتا، میں اسے دیتا، حتیٰ کہ اگر مجھے اپنی اولاد قربان کرنی پڑتی، تب بھی میں حسین کو بچانے کی کوشش کرتا، لیکن جو کچھ ہونا تھا، وہ اللہ کی طرف سے طے تھا۔

"مجھے خط لکھنا، جب بھی کوئی ضرورت ہو۔"
پھر اس نے ان سب کو لباس دلوایا اور قاصد کو ان کے ساتھ روانہ کیا، جو راستے بھر ان کی خدمت کرتا رہا، ان کی ضروریات دریافت کرتا، راستے میں پیچھے رہ کر چلتا تاکہ وہ آزاد رہیں، اور جب وہ قیام کرتے تو قاصد اور اس کے ساتھی ان کے گرد پہرہ دیتے، یہاں تک کہ یہ قافلہ مدینہ پہنچ گیا۔

حارث بن کعب روایت کرتے ہیں: فاطمہ بنتِ علی نے فرمایا، میں نے اپنی بہن زینب سے کہا: اے بہنا! اس شامی شخص نے سفر میں ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے، کیا تم چاہتی ہو کہ ہم اس کا شکریہ ادا کریں؟ زینب نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے جس سے ہم اسے کچھ دے سکیں، سوائے اپنے زیورات کے۔ فاطمہ نے کہا: تو پھر ہم اپنے زیورات اسے دے دیتے ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنے کنگن اور بازو کے کڑے اتارے، اور میری بہن نے بھی اپنے زیورات اتارے۔ ہم نے وہ زیورات اس کے پاس بھجوائے اور اس سے معذرت کی، اور کہا: یہ تمہارے حسنِ سلوک کا بدلہ ہے، جو تم نے ہمارے ساتھ کیا۔

اس شامی شخص نے جواب دیا: اگر میرا حسنِ سلوک دنیا کے لیے ہوتا، تو تمہارے زیورات میرے لیے کافی اور باعثِ خوشی ہوتے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ لیکن اللہ کی قسم! میں نے جو کچھ کیا، وہ صرف اللہ کے لیے کیا، اور اس رشتہ داری کی وجہ سے کیا جو تمہیں رسول اللہ ﷺ سے ہے۔

مدینہ واپسی اور علمی و روحانی خدمات:

رہائی کے بعد امام زین العابدینؒ مدینہ واپس آئے اور اپنی بقیہ زندگی عبادت، تعلیم، اور روحانی اصلاح میں بسر کی۔ آپؒ نے سیاسی سرگرمیوں سے دور رہ کر دین کی روحانی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ 

تعلیمات اور علمی مقام:

امام زین العابدینؒ اسلامی علوم میں نہایت اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ ان كي علميت كے بڑے بڑے محدثين سب معترف تھے، ان كا كهنا هے كه آپ كي جيساعلمي رسوخ كسي كو حاصل نهيں تھا، قريش ميں آپ اس وقت افضل ترين شخصيت تھي. موطا مالك ميں آپ كي علميت اور ثقاهت كے متعلق علماء حديث كے اقوال يوں منقول  هيں:

قال ابن عيينة عن الزهري: ما رأيت قرشيا أفضل منه .وقال ابن سعد: كان ثقة مأمونا كثير الحديث عاليا رفيعا ورعا. وقال أبو بكر بن أبي شيبة: أصح الأسانيد كلها الزهري عن علي بن الحسين عن أبيه عن علي. وقال ابن المديني وغيره: مات سنة اثنتين وتسعين. [التذكرة: 53650، التقريب: 4715](موطا مالك بروايةيحيي بتحقيق  محمد مصطفي الاعظمي، طبع  مؤسسه زيد بن سلطان النهيان الامارات العربيه المتحده  ص:6/84)

ابن عیینہ نے زہری سے روایت کیا: "میں نے قریشیوں میں ان سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔"
ابن سعد نے کہا: "وہ ثقہ، امانت دار، کثیر الحدیث، بلند مرتبہ اور پرہیزگار تھے۔"
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: "تمام اسناد میں سب سے صحیح سند زہری کی علی بن حسین سے، ان کے والد سے، اور وہ علی سے ہے۔"
ابن المدینی اور دیگر نے کہا: "وہ 92 ہجری میں وفات پا گئے۔"

جاحظ آپ كے متعلق كهتے هيں :

علي بن الحسين ‌زين ‌العابدين الذي كان يقال له: علي الخير وعلي الأغر وعلي العابد، وما أقسم على الله بشيء إلا وأبر قسمه.(عمرو بن بحر الجاحظ الرسائل السياسية ص:449، طبع مكتبه الهلال بيروت)

علی بن حسین زین العابدین، جنہیں علی الخیر، علی الأغر اور علی العابد کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، وہ ایسے برگزیدہ ہستی تھے کہ جب بھی وہ اللہ کے حضور کسی بات پر قسم کھاتے، تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور سچ کر دکھاتا۔

 آپؒ کی تعلیمات کا محور: 

1.       عبادت اور توحید :

  آپ كي تعليمات ميں توحيد كو بنيادي اهميت حاصل تھي آپ كي تبليغ و تنذير ميں يه بات نهايت نماياں تھي كه آپ لوگوں كو صرف الله تعالى كي عبادت كي طرف بلاتے تھے، جيسا كه انبياء عليهم السلام كا عمل تھا۔ شرك اور بدعات سے بچنے كي تلقين كيا كرتے تھے۔

2.     اخلاقی اصلاح :

 اسي طرح آپ كي تعليمات ميں اصلاح اخلاق كو بھي نماياں حيثيت حاصل تھي۔  آپ كا كهنا تھا كه انسان كے لئے ضروري هے كه با اخلاق هو اس لئے كي نبي كريم صلى الله عليه و آله وسلم كي بعثت كا ايك اهم مقصد بھي يهي تھا كه لوگوں كو مكارم اخلاق كي تعليم دي جائے ۔

3.    انسانی حقوق اور سماجی انصاف :

انساني حقوق كي ادائيگي اور سماجي انصاف پر بھي آپ زور ديتے تھے۔ آپ كي تعليمات ميں يه بات نهايت اهميت كي حامل تھي كه لوگ حقوق الله كے ساتھ حقوق العباد كي ادائيگي كا بھي اهتمام كريں۔

4.    حديث كي ترويج اور اس پر عمل:

  آپ كي تعليمات ميں سے ايك يه بھي تھا كه آپ اپنے ماننے والوں كو تلقين كرتے تھے كه نبي كريم صلى الله عليه و آله وسلم سے جو بھي صحيح حديث منقول و مروي هو اس پر عمل كيا جائے۔ احاديث كي كتابوں ميں آپ كي مرويات اس بات كي دليل هے كه آپ كا ايك اهم شغف حديث رسول صلى الله عليه وسلم كي ترويج اور اس پر عمل كرنا بھي تھا۔

5.     دعاؤں کے ذریعے روحانی تربیت :

 تزكيه نفس كے لئے قرآن كريم كے ساتھ احاديث مباركه پر عمل كرنا بھي ضروري سمجھتے تھے۔ اس كے ساتھ ساتھ دعاؤں كے ذريعے بھي روحاني تربيت كا اهتمام كرتے تھے۔ اس لئے كه دعا كے متعلق ارشاد نبوي هے  كه دعا هي عبادة هے يا يه كه دعا عبادت كي اصل (مغز) هے۔

            دعا انسان كو اپنے رب كے حضور حاضري دينے پر آماده كرنے كے ساتھ ساتھ جب انسان الله كے حضور هاتھ پھيلا كر عاجزي كا اظهار كرتا هے تو يه اور بھي  بنده اور رب كے درميان تعلقات كي مضبوطي كا سبب بن جاتا هے۔ يهي وجه هے كه آپ سےدعاؤ ں پر مشتمل ايك صحيفه بھي منقول هے جو كه "صحيفه سجايه" كے نام سے مشهور هے۔

صحیفۂ سجادیہ – اہلِ بیت کی زبور:

آپؒ سے منسوب مشہور کتاب "صحیفۂ سجادیہ"ہے، جس میں 50 سے زائد دعائیں موجود ہیں۔ صحیفہ سجادیہ قرآن و نہج البلاغہ کے بعد، اہل تشیّع کے ہاں اہم مرتبے والی کتاب مانی جاتی ہے اور زبور آل محمد و انجیل اہل بیت کے عناوین سے مشہور ہے۔شيخ صدوق كے مطابق چونكه ان دعاؤں میں:  - اللہ سے تعلق  - اخلاقی و روحانی اصلاح  - اجتماعی عدل و انصاف  - حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے،  اسی وجہ سے صحیفۂ سجادیہ  کو  "زبور آل محمد" بھی کہا جاتا ہے (شیخ صدوق،  عیون اخبار الرضا ،ص:2/ 237)۔ 

اخلاق و زہد:

امام زین العابدینؒ انتہائی نرم مزاج، متحمل مزاج اور صابر تھے۔ آپؒ کے زہد و تقویٰ کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ان ميں سے چند نمونے از خرارے كے تحت نقل كي جاتي هيں: 

درگزر اور حلم:

ایک شخص نے آپؒ کو برا بھلا کہا، لیکن جب وہ شخص مالی پریشانی میں مبتلا ہوا، تو امام زین العابدینؒ نے اس کی مدد کی (ابن عساکر،  تاریخ دمشق ، ص: 41/ 386)۔ 

غریبوں کی مدد:

آپؒ رات کے اندھیرے میں غرباء کے گھروں میں راشن پہنچاتے تھے، لیکن کسی کو علم نہ ہوتا۔ آپؒ کی وفات کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ مدینہ کے یتیموں اور غریبوں کا خفیہ مددگار کون تھا (مسعودی،  مروج الذہب ، ص: 3 /207)۔ 

وفات اور مدفن:

خانوادہ نبوت کے اس چشم و چراغ نے ساری زندگی سنتِ نبوی اورحضرات صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا، ان کے سنہ وفات کے بارے میں اختلاف ہے، ،99,95, 94,93,92 اور100 ہجری کے مختلف اقوال منقول ہیں، مگر صحیح قول کے مطابق زین العابدین بروز منگل14 ربیع الاول94 ہجری میں دار فانی سے داربقاکی طرف کوچ کر گئے، جنت البقیع میں جنازہ پڑھا گیا اور وہیں پر مدفون ہوئے۔(تہذیب الکمال: 404,403/20،سیر اعلام النبلا:400/4،الثقات:160/5،تہذیب التہذیب:307/7، تاریخ الاسلام:184/3،الطبقات:221/5،الکاشف:37/2)

جبكه بعض روايتوں كے مطابق حضرت امام زین العابدینؒ نے 25 محرم 95 ہجری (713ء) کو  مدینہ منورہ  میں وفات پائی۔ بعض  اهل تشيع كي روایات کے مطابق، اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے زہر دے کر آپؒ کو شہید کرایا ۔    اهل سنت كي روايات ميں وفات كے بيان ميں زهر خوراني كا ذكر نهيں ملتا۔  و الله اعلم بالصواب

آپؒ کو جنت البقیع  میں دفن کیا گیا، جہاں آج بھی زائرین بڑی عقیدت سے آتے ہیں۔   

خلاصه:

حضرت امام زین العابدینؒ کی زندگی صبر، عبادت، اخلاق، اور خدمتِ خلق کا ایک روشن نمونہ ہے۔ آپؒ نے امت کو سکھایا کہ ظلم کے خلاف حق گوئی کیسے کی جائے اور اللہ کی طرف رجوع کیسے کیا جائے۔ آج بھی آپؒ کی تعلیمات ہر دور کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ 

حوالہ جات:

1. ابن سعد، *الطبقات الکبریٰ*، جلد 5، ص 151، 222 

2. الطبری، *تاریخ الامم والملوک*، جلد 3، ص 340 

3. ابن اثیر، *الکامل فی التاریخ*، جلد 4، ص 98 

4. شیخ صدوق، *عیون اخبار الرضا*، جلد 2، ص 237 

5. ابن عساکر، *تاریخ دمشق*، جلد 41، ص 386 

6. مسعودی، *مروج الذہب*، جلد 3، ص 207

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)