لیلة القدر کی فضیلت اور اہمیت

0

 

لیلة القدر کی فضیلت اور اہمیت

اللہ تعالیٰ نے بعض دنوں اور راتوں کو دیگر دنوں اور راتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے، اور ان میں سب سے بابرکت اور عظمت والی رات "لیلة القدر" ہے۔ یہ رات رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آتی ہے اور بے شمار برکتوں، رحمتوں اور بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس رات کی بے پناہ فضیلت بیان کی گئی ہے، جو اس کی عظمت و رفعت کو ظاہر کرتی ہے۔

ليلة القدر كي وجه تسميه: يعني ليلة القدر كو "ليلة القدر" كيوں كها جاتا هے؟

ليلة القدر كي وجه تسميه كے متعلق مختلف اقوال وارد هيں ان ميں سے چند درج ذيل هيں:

·       ليلة الحكم يعني فيصلے كي رات:

            ليلة القدر كے معني هيں تقدير كے لكھنے اور فيصلے صادر كئے جانے كي رات، كه اس رات الله تعالى آنے والے سال ميں جو كچھ بھي امور واقع هونے هيں ان سب كے متعلق فيصله فرماتا هے اور پھر اس فيصلے كو مختلف امور دنيا اور نظام كائنات چلانے پر مامور فرشتوں كے حوالے كرتا هے اور وه فرشتے الله تعالى كے اس فيصلے كے مطابق سارا سال اس كائنات كے نظام كے امور چلاتے هيں۔

سورة الدخان ميں الله تعالى فرماتا هے:

ﵟفِيهَا يُفۡرَقُ كُلُّ أَمۡرٍ حَكِيمٍﵞ (الدخان:4)

اسي رات ميں هر ايك مضبوط كام كا فيصله كيا جاتا هے۔

مولانا مودودي اس كي تفسير ميں لكھتے هيں:

"يه ايك ايسي رات هے جس ميں وه افراد اور قوموں اور ملكوں كي قسمتوں كے فيصلے كر كے اپنے فرشتوں كے حوالے كر ديتا هے اور پھر وه انهي فيصلوں كے مطابق عمل در آمد كرتے رهتے هيں۔(تفهيم القرآن حاشيه متعلقه آيت)

امام قرطبي ليلة القدر كي وجه تسميه بيان كرتے هوئے لكھتے هيں:

قَالَ مُجَاهِدٌ: فِي لَيْلَةِ الْحُكْمِ. (وَما أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ) قَالَ: لَيْلَةُ الْحُكْمِ. وَالْمَعْنَى لَيْلَةُ التَّقْدِيرِ، سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُقَدِّرُ «4» فِيهَا مَا يَشَاءُ مِنْ أَمْرِهِ، إِلَى مِثْلِهَا مِنَ السَّنَةِ الْقَابِلَةِ، مِنْ أَمْرِ الْمَوْتِ وَالْأَجَلِ وَالرِّزْقِ وَغَيْرِهِ. وَيُسَلِّمُهُ إِلَى مُدَبِّرَاتِ الْأُمُورِ، وَهُمْ أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ: إِسْرَافِيلُ، وَمِيكَائِيلُ، وَعِزْرَائِيلُ، وَجِبْرِيلُ. عليهم السلام. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: يُكْتَبُ مِنْ أُمِّ الْكِتَابِ مَا يَكُونُ فِي السَّنَةِ مِنْ رِزْقٍ وَمَطَرٍ وَحَيَاةٍ وَمَوْتٍ، حَتَّى الْحَاجِّ. قَالَ عِكْرِمَةُ: يُكْتَبُ حَاجُّ بَيْتِ اللَّهِ تَعَالَى فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ أَبَائِهِمْ، مَا يُغَادَرُ مِنْهُمْ أَحَدٌ، وَلَا يُزَادُ فِيهِمْ. وَقَالَهُ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ.(الجامع لأحكام القرآن ص:20/130 طبع دار الكتب المصريه القاهرة)

مجاہد نے فرمایا: "لیلۃ الحکم" (فیصلے کی رات) ہے۔ (وما أدراك ما لیلۃ القدر) یعنی "لیلۃ الحکم"۔ اس کا مطلب ہے "تقدیر کی رات"۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنی مشیّت کے مطابق اگلے سال تک کے امور کا فیصلہ فرماتا ہے، جیسے موت، زندگی کی مدت، رزق اور دیگر معاملات۔ پھر ان فیصلوں کو ان فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے جو امور کی تدبیر کرتے ہیں، اور یہ چار فرشتے ہیں: اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور جبرائیل علیہم السلام۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس رات میں "امّ الکتاب" (لوح محفوظ) سے وہ تمام امور لکھ دیے جاتے ہیں جو سال بھر میں واقع ہوں گے، جیسے رزق، بارش، زندگی اور موت، یہاں تک کہ حج کرنے والوں کے نام بھی لکھے جاتے ہیں۔ عکرمہ نے کہا کہ بیت اللہ کے حاجیوں کے نام اور ان کے والدین کے نام لیلۃ القدر میں لکھ دیے جاتے ہیں، ان میں نہ کوئی کم ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی زیادہ کیا جاتا ہے۔ یہی بات سعید بن جبیر نے بھی کہی۔

·       قدر و منزلت اور عظمت والي رات:

 بعض كهتے هيں كه اس كي قدر و منزلت اور اس كي عظمت، رفعت شان اور شرف كي وجه سے اس رات كو قدر كي رات كها گيا هے۔ جيسا كه امام قرطبي نے يه نقل كيا هے كه

وَقِيلَ: إِنَّمَا سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِعِظَمِهَا وَقَدْرِهَا وَشَرَفِهَا، مِنْ قَوْلِهِمْ: لِفُلانٍ قَدْرٌ، أَيْ شَرَفٌ وَمَنْزِلَةٌ. قَالَهُ الزُّهْرِيُّ وَغَيْرُهُ. وَقِيلَ: سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِأَنَّ لِلطَّاعَاتِ فِيهَا قَدْرًا عَظِيمًا، وثوابا جزيلا.(مصدر سابق)

ایک اور قول یہ ہے کہ اسے "لیلۃ القدر" اس کی عظمت، شرف اور منزلت کی وجہ سے کہا گیا، جیسے کہ کسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو عزت اور مقام حاصل ہے۔ یہ قول امام زہری اور دیگر مفسرین کا ہے۔  ایک اور تفسیر یہ ہے کہ اس رات کو "لیلۃ القدر" اس لیے کہا گیا کیونکہ اس میں عبادات کی بہت بڑی قدر و قیمت ہے اور اس کا ثواب عظیم ہے۔

·       بے وقعت و بے قدر كو وقعت و قدر ملنے كي وجه سے:

وقال أبو بكر الوراق: سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لأَنَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَدْرٌ وَلا خَطَرٌ يَصِيرُ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ ذَا قَدْرٍ إِذَا أَحْيَاهَا.

ابو بكر الوراق كهتے هيں اس رات کو "لیلۃ القدر" کہنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جو شخص بے وقعت اور بے مرتبہ ہو، اگر وہ اس رات عبادت میں مشغول رہے تو عزت و قدر کا مقام پا لیتا ہے۔

·       قدر و منزلت والي كتاب كا قدر  و منزلت والے رسول اور امت پر نزول كي وجه سے:

 وَقِيلَ: سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ أَنْزَلَ فِيهَا كِتَابًا ذَا قَدْرٍ، عَلَى رَسُولٍ ذِي قَدْرٍ، عَلَى أُمَّةِ ذَاتِ قَدْرٍ.

بعض نے کہا کہ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اس میں ایک باعظمت کتاب، ایک باوقار رسول پر، ایک باعظمت امت کے لیے نازل کی گئی۔

·       عالى مرتبه با وقار فرشتوں كے نزول كے سبب سے:

 وَقِيلَ: لِأَنَّهُ يَنْزِلُ فِيهَا مَلَائِكَةٌ ذَوُو قَدْرٍ وَخَطَرٍ.

بعض نے یہ بھی کہا کہ اس میں عالی مرتبہ اور باوقار فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

·       خير و بركت اور مغفرت كے نزول كے سبب سے:

 وَقِيلَ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُنْزِلُ فِيهَا الْخَيْرَ وَالْبَرَكَةَ وَالْمَغْفِرَةَ.

ایک رائے یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ خیر، برکت اور مغفرت نازل فرماتا ہے۔

·       مؤمنوں كے لئے رحمت الهي مقدر هونے كے سبب سے:

 وَقَالَ سَهْلٌ: سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدَّرَ فِيهَا الرَّحْمَةَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ.

سہل نے فرمایا کہ اس کا نام "لیلۃ القدر" اس لیے رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں مومنوں کے لیے رحمت مقدر فرمائی۔

·       قدر كے معني تنگي يعني كثرت فرشتوں كي وجه سے زمين تنگ هونے كے سبب سے:

 وَقَالَ الْخَلِيلُ: لِأَنَّ الْأَرْضَ تَضِيقُ فِيهَا بِالْمَلَائِكَةِ، كَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [الطلاق: 7] أي ضيق.

جبکہ خلیل کا کہنا ہے کہ اس رات زمین فرشتوں کی کثرت سے تنگ ہو جاتی ہے۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ" [الطلاق: 7] یعنی جس کا رزق تنگ کر دیا جائے۔ مطلب يه هے كه يهاں قدر كے معني تنگي كے هيں۔(تفسير القرطبي تفسير سورة القدر ص:20/130-131)

·       ليلة المباركة يعني با بركت رات:

ليلة القدر كو قرآن كريم ميں "ليلة القدر" كے ساتھ ايك اور نام  "ليلة مباركة" سے بھي موسوم كيا گيا هے ۔

ﵟإِنَّآ أَنزَلۡنَٰهُ فِي لَيۡلَةٖ مُّبَٰرَكَةٍۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَﵞ  (الدخان:3)

بے شك هم نے اس (قرآن) كو بركت والي رات ميں نازل كيا هے بے شك هم ڈرانے والے هيں۔

چونكه اس رات ميں الله تعالى كي طرف سے بركتيں نازل هوتي هيں اس لئے اس رات كو ليله مباركه يعني بابركت رات بھي كها گيا هے۔ امام قرطبي كي كي وجه تسميه بيان كرتے هوئے لكھتے هيں:

وَوَصَفَهَا بِالْبَرَكَةِ لِمَا يُنْزِلُ اللَّهُ فِيهَا عَلَى عِبَادِهِ مِنَ الْبَرَكَاتِ وَالْخَيْرَاتِ وَالثَّوَابِ.(تفسير قرطبي سورة الدخان متعلقه آيت ص:16/126)

اور اس کو برکت والا قرار دیا کیونکہ اللہ اس میں اپنے بندوں پر برکتیں، بھلائیاں اور ثواب نازل کرتا ہے۔

لیلة القدر کي اهميت و فضيلت كا بيان قرآن کریم میں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں "سورۃ القدر" میں لیلة القدر کی شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ﵟإِنَّآ أَنزَلۡنَٰهُ فِي لَيۡلَةِ ٱلۡقَدۡرِ 1 وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ 2 لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡرٞ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرٖ 3 تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡرٖ 4 سَلَٰمٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطۡلَعِ ٱلۡفَجۡرِ 5ﵞ  (سورۃ القدر: 1-5)

ترجمہ: بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے طلوعِ فجر تک۔

اللہ تعالیٰ نے اس رات کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا، یعنی اس ایک رات کی عبادت 83 سال اور 4 ماہ کی عبادت سے بھی زیادہ افضل ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں پر بے پناہ فضل و کرم فرماتا ہے۔

يعني اس ايك رات ميں كي جانے والي عبادت ايك هزار مهينوں كي عبادت سے افضل و برتر هوتي هے اگر نيك نيتي كے ساتھ عبادت كي جائے۔

عن مجاهد: ليلةُ القدر خير من ألف شهر. قال: عَمَلها، صيامها وقيامها خير من ألف شهر. رواه ابن جرير.(تفسير ابن كثير، تفسير سورة القدر، و تفسير الطبري به تحقيق د عبد الله التركي ص:24/545)

مجاهد كهتے هيں كه ليلة القدر خير من الف شهر كا مطلب هے كه اس ميں كئے جانے والے عمل، اس كے روزے اور اس كا قيام ايك هزار مهينوں سے افضل هے، اس كو ابن جرير نے نقل كيا هے۔

اور هزار مهينے سے مراد ايسے مهينے هيں جن ميں ليلة القدر نه هو, جيسا كه ابن جريج , مجاهد اور امام شافعي وغيره نے اس كي وضاحت كي هے :

عن مجاهد: ليلة القدر خير من ألف شهر، ليس في تلك الشهور ليلة القدر. وهكذا قال قتادة بن دعامة، والشافعي، وغير واحد.(مصدر سابق)

مجاهد سے مروي هے كه شب قدر جو هزار مهينوں سے بهتر هے وه مهينے هيں جن ميں يه ليلة القدر موجود نه هو، قتاده بن دعامه اور شافعي وغيره نے بھي ايسا هي كها هے۔

سورة القدر كا شان نزول/سبب نزول:

كها جاتا هے كه بني اسرائيل ميں ايسا آدمي بھي تھا جو ايك هزار مهينوں تك عبادت الهي ميں مشغول رها يه بات جب صحابه كرام كو پته چلي تو انهوں نے تعجب كيا تو الله تعالى نے يه سورت نازل فرمائي اور مسلمانوں كے لئے بھي ايسا موقع فراهم كيا كه وه ايك رات كے قيام كے ذريعے ايك هزار مهينوں سے بھي زياده نيكي كما سكيں، تفسير ابن كثير ميں سورة القدر كے سبب نزل كے سلسلے ميں مرقوم هے:

عن مجاهد أن النبي صلى الله عليه وسلم، ذكر رجلا من بني إسرائيل لبس السلاح في سبيل الله ألف شهر قال: فعجب المسلمون من ذلك قال: فأنزل الله عز وجل {إِنّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} التي لبس ذلك الرجل السلاح في سبيل الله ألف شهر. وقال ابن جرير: حدثنا ابن حميد، حدثنا حكام بن مسلم عن المثنى بن الصباح، عن مجاهد قال: كان في بني إسرائيل رجل يقوم الليل حتى يصبح ثم يجاهد العدو بالنهار حتى يمسي، ففعل ذلك ألف شهر، فأنزل الله هذه الآية {لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} قيام تلك الليلة خير من عمل ذلك الرجل.(تفسير ابن كثير متعلقه سورة القدر ص:8/426 طبع العلمية)

مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا، جو اللہ کے راستے میں ایک ہزار مہینے تک اسلحہ پہنے رہا۔ اس پر مسلمانوں کو حیرت ہوئی، تو اللہ عز و جل نے یہ آیت نازل فرمائی: إِنّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.

یعنی وہ رات، جس میں قرآن نازل کیا گیا، اس ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس میں وہ شخص اللہ کے راستے میں اسلحہ پہنے رہا۔

ابن جریر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ابن حمید نے ہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے حکام بن مسلم سے، انہوں نے مثنی بن صباح سے، اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی تھا جو رات بھر عبادت کرتا اور صبح تک قیام میں رہتا، پھر دن میں دشمنوں سے جہاد کرتا یہاں تک کہ شام ہو جاتی۔ اس نے یہ عمل مسلسل ایک ہزار مہینے تک کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ. یعنی شبِ قدر میں عبادت کرنا اس شخص کے ایک ہزار مہینے کے عمل سے بہتر ہے۔

 

لیلة القدر کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:

نبی اکرم ﷺ نے بھی لیلة القدر کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی تلاش رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں کرنے کی تلقین فرمائی۔

1.       عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . ( بخاری كتاب الصوم باب من صام رمضان ايمانا و احتساباحديث نمبر 1901، مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب الترغيب في قيام رمضان و هو التراويح حديث نمبر 760)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جو شخص لیلة القدر میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اور جس نے ايمان اور ثواب كي نيت سے رمضان كے روزے ركھے اس كے پچھلے تمام گناه معاف كر ديئے جاتے هيں۔

اس حديث نبوي كے مطابق جو شخص ايمان كے ساتھ ثواب كي نيت سے اس رات كي شب بيداري كرے گا اس كے پچھلے تمام گناه معاف كر ديئے جائيں گے۔ علاوه ازيں اس كو 83 سال سے زياده عبادت كا اجر و ثوا ب ديا جائے گا۔ اس لئے ايك مسلمان كے لئے اس بات كا اهتمام كرنا نهايت مفيد هے كه وه ايك رات كي عبادات سے ايك هزار مهنيے كي عبادت كا ثواب حاصل كرے۔

2.     ليلة القدر ميں بكثرت يه دعا پڑھني چاهئے: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.يعني اے ميرے الله تو بهت زياده معاف كرنے والا هے مجھے معاف كر دے۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ القَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا؟ قَالَ: " قُولِي: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي ". (ترمذی ابواب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب حديث نمبر 3513، ابن ماجہ كتاب الدعاء باب الدعاء بالعفو و العافية حديث نمبر 3850)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: "یا رسول اللہ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلة القدر ہے تو میں اس میں کیا دعا کروں؟" آپ ﷺ نے فرمایا: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.

ترجمہ: اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرما۔

3.    ليلة القدر ماه رمضان كے آخري عشرے ميں آتي هے اس لئے اس كو رمضان كے آخري عشرے كي طاق راتوں ميں تلاش كرنے كا حكم هے جيسا كه حضرت عائشه رضى الله عنها سے مروي هے:

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:  تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ، مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. (بخاری كتاب فضل ليلة القدر باب تحري  ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر حديث نمبر 2017، مسلم كتاب الصيام باب فضل ليلة القدر حديث نمبر 1169)

حضرت عائشه رضى الله عنه سے روايت هے كه نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "لیلة القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

حضرت ابو سعيد كي روايت ميں هے:

 اعْتَكَفْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، فَخَرَجَ صَبِيحَةَ عِشْرِينَ فَخَطَبَنَا، وَقَالَ: إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، أَوْ: نُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الوَتْرِ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنِّي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَلْيَرْجِعْ. فَرَجَعْنَا وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً، فَجَاءَتْ سَحَابَةٌ فَمَطَرَتْ حَتَّى سَالَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ، حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ. (صحيح بخاري كتاب فضل ليلة القدر باب التماس ليلة القدر حديث نمبر 2016)

ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رمضان کے درمیانی دس دنوں میں اعتکاف کیا۔ پھر بیسویں صبح آپ ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے اور ہمیں خطبہ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:مجھے شبِ قدر دکھائی گئی تھی، لیکن پھر میں اسے بھول گیا یا مجھے بھلا دیا گیا۔ پس تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اور میں نے (رویا میں) دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس جو شخص رسول الله صلى الله عليه و سلم كے ساتھ اعتکاف میں تھا، وہ لوٹ آئے۔ چنانچہ ہم مسجد واپس آ گئے، حالانکہ آسمان میں کہیں بھی بادل کا نام و نشان نہ تھا۔ پھر اچانک ایک بادل آیا اور بارش برسنے لگی، یہاں تک کہ مسجد کی چھت، جو کھجور کی شاخوں سے بنی تھی، پانی ٹپکانے لگی۔ نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ مٹی اور پانی میں سجدہ فرما رہے ہیں، یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی مبارک پیشانی پر کیچڑ کا نشان دیکھا۔

رمضان كے آخري عشره كي طاق راتوں ميں شب قدر تلاش كرنے كا حكم ديا گيا هے اور يه واضح اور متعين نهيں كيا كه وه كونسي رات هے مگر  يه طاق راتيں 21 ويں كي رات 23ويں كي رات ، 25ويں   كي رات  27ويں شب اور 29 كي شب هے ۔ جامع ترمذي ميں هے:

 وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي لَيْلَةِ القَدْرِ أَنَّهَا لَيْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَلَيْلَةُ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، وَخَمْسٍ وَعِشْرِينَ، وَسَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، وَآخِرُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ.(ترمذي ابواب الصوم باب ما جاء في ليلة القدر حديث نمبر 782)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ وہ اکیسویں رات ہو سکتی ہے، تیئسویں رات ہو سکتی ہے، پچیسویں رات ہو سکتی ہے، ستائیسویں رات ہو سکتی ہے، انتیسویں رات ہو سکتی ہے، یا رمضان کی آخری رات ہو سکتی ہے۔

بعض لوگ 21ويں اور بعض 23 ويں اور كچھ لوگ 27 شب كو ليلة القدر قرار ديتے هيں، حضرت ابي كعب رضي الله عنه 27 شب كو ليلة القدر قرار ديتے هيں ، صحيح مسلم ميں هے:

زر بن حبيش يَقُولُ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رضي الله عنه. فَقُلْتُ: إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ. فَقَالَ: رحمه الله! أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ. أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ. وَأَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ. وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ. ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي. أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ. فَقُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ؟ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ! قَالَ: بِالْعَلَامَةِ، أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّهَا تطلع يومئذ، لا شعاع لها.(صحيح مسلم كتاب الصيام باب فضل ليلة القد حديث نمبر 762)

زر بن حبیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:  میں نے اُبَی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور کہا: "آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص پورا سال (عبادت میں) کھڑا رہے، وہ لیلۃ القدر پا لے گا۔" تو اُبَی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ ان پر رحم کرے! ان کی مراد یہ تھی کہ لوگ (صرف ایک رات کی تلاش پر) بھروسہ نہ کریں۔ البتہ وہ جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے، اور وہ آخری عشرے میں ہے، اور وہ ستائیسویں رات ہے۔" پھر انہوں نے بغیر کسی استثنا کے قسم کھا کر کہا کہ یہ ستائیسویں رات ہی ہے۔   میں نے پوچھا: "اے ابوالمنذر! آپ یہ بات کس چیز کی بنیاد پر کہتے ہیں؟"   انہوں نے جواب دیا: "نشانی یا علامت کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی کہ اس روز سورج (صبح) طلوع ہوتا ہے، تو اس کی کوئی کرن نہیں ہوتی۔"  (یعنی لیلۃ القدر کی ایک علامت یہ ہے کہ اگلی صبح سورج بے نور اور دھیما طلوع ہوتا ہے۔)

ترمذي كي روايت ميں بھي ابي بن كعب سے يهي مروي هے كه وه ليلة القدر رمضان كي 27ويں شب كو قرار ديتے تھے۔

عَنْ زِرٍّ قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أَنَّى عَلِمْتَ أَبَا المُنْذِرِ أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: بَلَى أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهَا «لَيْلَةٌ صَبِيحَتُهَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ»، فَعَدَدْنَا، وَحَفِظْنَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنْ كَرِهَ أَنْ يُخْبِرَكُمْ فَتَتَّكِلُوا.(جامع ترمذي ابواب الصوم باب ما جاء في ليلة القدر حديث نمبر 793)

زر بن حبیش سے روایت ہے کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ابو منذر! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ ستائیسویں رات ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ رات جس کی صبح کو سورج بے شعاع نکلتا ہے۔ ہم نے گنتی کی اور یاد رکھا۔ اللہ کی قسم! ابن مسعود جانتے تھے کہ یہ رمضان میں ہے اور یہ ستائیسویں رات ہے، لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ تمہیں بتائیں کہ کہیں تم (اس پر) بھروسہ نہ کر لو۔ 

 اس  حدیث ميں لیلۃ القدر یعنی قدر والی رات کے بارے میں ہے جس کی علامات میں سے یہ ہے کہ اس رات کے بعد صبح کو سورج کی روشنی کم ہوتی ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے لیکن وہ لوگوں کو صاف صاف بتانا نہیں چاہتے تھے تاکہ لوگ صرف اسی رات پر تکیہ نہ کریں بلکہ پورے رمضان میں عبادت کرتے رہیں۔ معلوم هوا كه الله تعالى نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كو بتانے كے بعد اس كو بھلايا تاكه لوگ صرف اسي ايك رات كو قيام نه كريں بلكه رمضان كي آخري عشرے كي ساري طاق راتيں شب بيداري كريں، قيام كريں اور الله كي عبادات ميں مشغول رهيں۔

یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ لیلة القدر رمضان كي آخري عشرےكي طاق راتوں ميں هے اور   اس میں قيام كرنے ،عبادت کرنے سے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اور جو شخص خلوصِ دل سے اس رات کو عبادت میں گزارے، وہ عظیم اجر و ثواب کا مستحق بن جاتا ہے۔

لیلة القدر میں کیے جانے والے اعمال

اس بابرکت رات میں عبادت کے چند اہم اعمال درج ذیل ہیں:

1.       نماز (نوافل): زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرنا چاہیے، خاص طور پر تہجد کی نماز ادا کرنی چاہیے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔

2.     قرآن کریم کی تلاوت: اس رات قرآن کریم کی تلاوت کرنا نہایت فضیلت والا عمل ہے، کیونکہ اسی رات میں قرآن نازل ہوا۔

3.    دعا و استغفار: اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہیے، خصوصاً مذکورہ دعا "اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي" کا زیادہ سے زیادہ ورد کرنا چاہیے۔

4.    درود شریف: رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہیے، تاکہ اللہ کی رحمت حاصل ہو۔

5.     صدقہ و خیرات: اس رات میں صدقہ و خیرات کرنا بھی بہت اجر و ثواب کا باعث ہے۔

6.     ذکر و اذکار: سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ جیسے اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے۔

7.    مغفرت طلب کرنا: اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ نیک عمل کرنے کی نیت کرنی چاہیے۔

لیلة القدر کی اہمیت اور امت مسلمہ پر اس کا انعام

لیلة القدر اللہ تعالیٰ کی جانب سے امتِ محمدیہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ سابقہ امتوں کی عمریں طویل ہوا کرتی تھیں، اور وہ سالہا سال عبادت کرتے تھے، لیکن ہماری امت کی عمریں نسبتاً کم ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے لیلة القدر عطا فرمائی، تاکہ صرف ایک رات میں انسان ہزار مہینوں کی عبادت کا اجر حاصل کر سکے۔

عن أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: ‌إِذَا ‌كَانَتْ ‌لَيْلَةُ ‌الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِيلُ فِي كَبْكَبَةٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ يُصَلُّونَ وَيُسَلِّمُونَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قاعد يذكر اللَّهِ عز وجل. ("جامع البيان" للطبري 30/ 260، "معالم التنزيل" للبغوي 8/ 491، "زاد المسير" لابن الجوزي 9/ 193.)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب لیلة القدر آتی ہے تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر اللہ کی عبادت کر رہا ہو۔

اس حديث پر اس كي سند كے اعتبار سے اگرچه كلام كيا گيا هے مگر مفهوم كے اعتبار سے ديكھا جائے تو الله تعالي سوره قدر ميں خود يه فرماتا هے كه اس رات فرشتے زمين پر اترتے هيں اور حضرت جبرائيل امين بھي ان كے ساتھ هوتا هے۔

یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ اس رات میں عبادت کرنے والوں پر اللہ کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے، اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

خلاصه كلام:

لیلة القدر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں، مغفرت اور برکتوں سے معمور رات ہے۔ جو شخص خلوص نیت کے ساتھ اس رات کو عبادت میں گزارے، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس رات کی تلاش کرے اور اسے غفلت میں نہ گزارے بلکہ ذکر، عبادت، توبہ اور دعا میں مصروف رہے تاکہ وہ اس کے فیوض و برکات سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مبارک رات کی قدر کرنے اور اس میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)