حضرت علی بن ابی طالبؓ: حیات و خدمات
تعارف:
حضرت علی بن ابی طالبؓ اسلام کی
تاریخ میں ایک نہایت ممتاز اور عظیم المرتبت شخصیت ہیں۔ آپ نہ صرف نبی اکرمﷺ کے
چچا زاد بھائی اور داماد تھے بلکہ خلافتِ راشدہ کے چوتھے خلیفہ بھی رہے۔ آپؓ کی
بہادری، علم، تقویٰ، عدل و انصاف اور روحانی بصیرت تاریخِ اسلام میں ایک روشن باب
کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کو "باب العلم" (علم کا دروازہ) بھی کہا جاتا ہے،
کیونکہ آپ کی فقہ، حکمت اور دانشمندی اسلامی تاریخ میں منفرد مقام رکھتی ہے۔
نام، نسب اور خاندان:
آپؓ کا اصل نام "علی"
اور کنیت "ابوالحسن" اور "ابوتراب" تھی۔ آپ کے والد ابوطالب نبی
کریمﷺ کے چچا تھے اور بنی ہاشم کے ایک معزز فرد تھے۔ آپ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت
اسدتھیں، جو ايك نیک سیرت خاتون تھیں اور
نبی کریمﷺ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
آپ کا شجرہ نسب یوں ہے:
علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف الهاشمي القريشي ۔
آپؓ كے والد ابو طالب كا اصل نام
عبد مناف تھا۔ آپؓ کا خاندان قریش کے معزز ترین گھرانوں میں شمار ہوتا تھا اور آپ
خود بھی ہاشمی خاندان کے چشم و چراغ تھے، جو عزت، شرافت اور دین داری میں ممتاز
تھا۔
ولادت اور بچپن:
حضرت علیؓ 13 رجب 600ء کو مکہ
مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ کی پرورش نبی اکرمﷺ کے زیر سایہ ہوئی،
کیونکہ قریش میں قحط کے دوران رسول اللہﷺ نے اپنے چچا ابوطالبؓ کے مالی بوجھ کو کم
کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو اپنے گھر لے لیا اور ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری
سنبھالی۔
نبی کریمﷺ کے ساتھ رہنے کے باعث
آپؓ نے ابتدائی عمر سے ہی صداقت، دیانت، سخاوت اور بہادری جیسے اعلیٰ اوصاف
اپنائے۔ آپ کو نبی اکرمﷺ کی صحبت نصیب ہوئی، جس کی وجہ سے آپؓ کی شخصیت میں بے
پناہ علمی اور روحانی بلندی پیدا ہوئی۔
قبولیت اسلام اور آپ ﷺ كي حمايت
كا جذبه:
حضرت علیؓ سب سے پہلے اسلام قبول
کرنے والے کم عمر افراد میں شامل ہیں۔ جب نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا
فرمائی تو آپؓ نے فوراً ان کی نبوت کی تصدیق کی۔ اس وقت آپؓ کی عمر تقریباً 10 سال
تھی۔
جب الله تعالى نے كل كر انذار كرنے
اور تبليغ كا كام كرنے كا حكم ديتے هوئے اپنے رشته داروں كو دعوت اسلام دينے كا
حكم ديتے هوئے يه آيت نازل فرمائي كه
ﵟ وَأَنذِرۡ
عَشِيرَتَكَ ٱلۡأَقۡرَبِينَﵞ(الشعراء:214) كه آپ
اپنے قريبي رشته داروں كو ڈرائيں۔
رسول اللہﷺ نے اپنے
قریبی رشتہ داروں كے لئے ايك كھانے كي دعوت كا اهتمام كيا اور پھر اس ميں ان کو
دعوتِ اسلام دیتے هوئے كها كه الله نے مجھے نبي بنا كر مبعوث كيا هے ، "تم
میں سے کون ہے جو میرے اس مشن میں میرا ساتھ دے گا؟" تو آپؓ نے سب سے پہلے حمایت کا اعلان کیا۔ اور
كها كه
"یا نبي اللہ!اگرچه ميں ناتواں اور كم
سن هوں ميرے آنكھيں دكھ رهي هيں ليكن میں
آپ کا ساتھ دوں گا!" (تاریخ طبری، ص: 2/321 طبع دار المعارف مصر)
یہ اعلان اس بات کی دلیل ہے کہ
حضرت علیؓ ابتداء ہی سے نبی کریمﷺ کے مشن کے لیے مکمل طور پر وقف ہو چکے
تھے۔ اور يه عهد جو آپ نے اس مجلس ميں كيا آخر تك نباهيا۔ زندگي كے هر موڑ
پر جهاں بھي آپ ﷺكو ضرورت پڑي آپ كا ساتھ ديا
۔
مدینہ ہجرت اور نبی کریمﷺ سے قربت:
جب نبی کریمﷺ نے مکہ سے مدینہ
ہجرت کا فیصلہ کیا تو قریش کے سرداروں نے آپﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ اللہ کے حکم
سے نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو بلايا اور كفار مكه نے جو امانتيں آپ ﷺ كے پاس ركھي
هوئي تھيں ان كے حوالے كيا كه جس كي كي امانت هے اس كو پهنچا دے اور پھر هدايت كر
دي كه امانتيں واپس كرنے كے بعد تو بھي مدينه هجرت كر كے آجانا، نيز ان كو اپنے
بستر پر سلایا تاکہ کفار یہ سمجھیں کہ آپ ابھی مکہ میں ہی موجود ہیں۔ چنانچه
اس رات حضرت علي رضى الله عنه آپ ﷺ كے بستر پر سو گئے اور نبي كريم ﷺ حضرت ابو بكر
رضى الله عنه كے ساتھ مكه سے هجرت كرنے كے لئے كوچ كر گئے ۔
اس رات کو "لیلۃ
المبیت" کہا جاتا ہے اور اس موقع پر حضرت علیؓ نے بے مثال بہادری اور وفاداری
کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں، جب نبی کریمﷺ مدینہ پہنچ گئے، تو حضرت علیؓ نے بھی ہجرت
کی اور وہاں نبی کریمﷺ کے ساتھ اسلام کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔
مدني زندگی اور غزوات میں شرکت:
مدینہ میں حضرت علیؓ نبی کریمﷺ کے
سب سے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے اور تمام بڑے معرکوں میں شرکت کی سوائے غزوه
تبوك كے ، اس ميں آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علي ؓ كو مدينه ميں پيچھے چھوڑ
ديا تاكه وه آپ كي عدم موجودگي ميں آپ كي نيابت كرے۔ ديگر تمام غزوات ميں آپ نے
نه صرف يه كه شرك كي بلكه هر معركه ميں آپ ؓ نے داد شجاعت بھي ديا۔
مثلا غزوہ بدر (2 ہجری)جو كه اسلام کی پہلی بڑی جنگ تھی، جس میں حضرت علیؓ نے
نہایت بہادری کا مظاہرہ کیا اورعام معركه آرائي سے قبل دو بدو كي لڑائي ميں کئی قریشی سرداروں کو جهنم واصل كيا ۔ اسي
طرح غزوہ احد (3 ہجری)ميں جب کچھ صحابہ کرامؓ نے میدان چھوڑ دیا، تو حضرت علیؓ نے
نبی کریمﷺ کے ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ۔ غزوہ خندق (5 ہجری ) میں
جب مشہور قریشی جنگجو عمرو بن عبدود خندق پار کر کے مبارزت طلبی کرنے لگا تو حضرت
علیؓ نے اس کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ اسي طرح غزوہ خیبر (7 ہجری)میں
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
لأعْطِيَنَّ
الرَّايَةَ - أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ - غَدًا رَجُلا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ،
أَوْ قَالَ: يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ . فَإِذَا نَحْنُ
بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا: هَذَا عَلِيٌّ، فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ
صلى الله عليه وسلم الرَّايَةَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ.
(صحیح بخاری، كتاب فضائل اصحاب النبيﷺ باب مناقب على بن ابي طالبؓ ،حدیث نمبر 3702)
"کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو
اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے
ہیں، الله اس كے هاتھوں فتح دے گا، پھر آپ نے على كو بلايا هميں اس كي اميد نهيں
تھي( اس لئے كه آپؓ كي آنكھيں دكھ رهي تھيں) لوگوں نے كه يه علي آگئے هيں پس آپ نے
جھنڈا ان كو ديا اور الله نے ان كے هاتھوں فتح دلائي۔"
حضرت علیؓ کی خلافت:
نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد حضرت
علیؓ نے خلفائے راشدین کی بھرپور حمایت کی۔ 35 ہجری میں جب حضرت عثمانؓ کی شہادت
ہوئی تو لوگوں نے حضرت علیؓ کو خلافت کی پیشکش کی، جسے آپ نے ابتدائی طور پر قبول
کرنے سے انکار کر دیا، مگر بعد میں امت کے اصرار پر آپؓ نے بیعت لے لی۔
چیلنجز اور فتنوں کا دور:
آپؓ کا دورِ خلافت انتہائی مشکل
تھا کیونکہ امت انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔ جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے فتنے پیدا
ہوئے، جن میں آپؓ کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسي طرح آپ رضي الله عنه
كي جماعت سے خروج كرنے والے خارجي فتنه نے بھي سر اٹھايا اور آپ كے مد مقابل آئے بالآخر
آپ نے ان كو جنگ نهروان ميں شكست دے دي۔ اس
جنگ ميں شكست كے بعد انهوں نے در پرده سازش كر كے رات كے اندھيرے ميں حمله كر كے آپ كو
شهيد كر ديا۔
عدالت اور حکمت:
حضرت علیؓ کی خلافت کا بنیادی
اصول عدل و انصاف پر مبنی تھا۔ آپؓ فرماتے تھے: "حکومت کفر کے ساتھ چل
سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔" (نہج البلاغہ)
شہادت:
17 رمضان بعض روايتوں كے مطابق 19 رمضان 40 ہجری کو جب حضرت علیؓ مسجد کوفہ میں نمازِ فجر کے لیے جا رہے تھے تو خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے زهر آلود تلوار سے آپ پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ زخموں کی شدت کے باعث 21 رمضان کو آپؓ شہید ہو گئے ۔ علی کے جسدِ خاکی کو ان کے بیٹوں حضرت حسنؓ ، حضرت حسين ؓ ، حضرت محمد بن حنيفه ؓ اور ان كے ايك بھتيجے حضرت عبد الله بن جعفر ؓنے غسل دیا۔اور نجف (عراق) میں آپؓ کو دفن کیا گیا۔