حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ
تعارف:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،
اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد اور جلیل القدر صحابی ہیں جنہیں نبی اکرم ﷺ نے دنیا میں
جنت کی بشارت دی۔ آپ کو "ذوالنورین" یعنی "دو نوروں والا" کہا
جاتا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں۔ آپ
اپنی سخاوت، حیاداری، نرم دلی، اور دین اسلام کے لیے عظیم خدمات کی وجہ سے ممتاز
مقام رکھتے ہیں۔
نسب اور ابتدائی زندگی:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مکمل
نام *عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف* تھا۔ آپ کا تعلق
قریش کے بنو امیہ قبیلے سے تھا، جو مکہ کے معزز اور بااثر قبائل
میں شمار ہوتا تھا۔
والدین اور خاندان:
آپ کے والد "عفان بن ابی
العاص" تجارت پیشہ تھے اور اپنی دیانت داری کے باعث عزت کی نگاہ سے دیکھے
جاتے تھے۔ آپ کی
والدہ "ارویٰ بنت کریز" تھیں، جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی بیضاء ام حکیم بنت عبدالمطلب
کی بیٹی تھیں، يعني رسول الله صلى الله
عليه و آله وسلم كي پھوپھي زاد بهن تھيں، یوں آپ نبی کریم ﷺ کے قریبی رشتہ دار بھی
تھے۔
پیدائش اور پرورش:
آپ کی ولادت 576ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، یعنی عام الفیل کے
چھ سال بعد۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی نہایت ذہین، نرم دل، شرمیلے اور
نیک صفت انسان تھے۔ آپ کا شمار قریش کے بہترین تاجروں میں ہوتا تھا اور آپ رضى
الله عنه كو اپنی دیانت داری اور حسنِ سلوک کی وجہ سے معاشرے میں عزت و وقار کی نگاه
سے ديكھے جاتے تھے۔
قبولِ اسلام:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان ابتدائی خوش نصیبوں میں شامل تھے
جنہیں اسلام کی روشنی سب سے پہلے نصیب ہوئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعے آپ تک دعوتِ اسلام پہنچی، اور بغیر کسی
تردد کے آپ نے نبی کریم ﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا (ابن ہشام، السیرۃ
النبویہ، ج1، ص249)۔
آپ کے اسلام قبول کرنے پر آپ کے
قبیلے نے سخت ردعمل دیا، خاص طور پر آپ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپ پر ظلم و ستم کیے، مگر آپ کے ایمان میں
کوئی کمی نہ آئی۔
ذوالنورین کا لقب اور ازدواجی زندگی:
نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ بعد
میں جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اپنی دوسری
صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی آپ سے کر دیا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ
صلى الله عليه وسلم لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: «يَا
عُثْمَانُ، هَذَا جِبْرِيلُ أَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ قَدْ زَوَّجَكَ أُمَّ كُلْثُومٍ
بِمِثْلِ صَدَاقِ رُقَيَّةَ، عَلَى مِثْلِ صُحْبَتِهَا»(ابن
ماجه المقدمة باب في فضائل اصحاب رسول
الله صلى الله عليه وسلم، فضل عثمان رضى الله عنه حديث نمبر 110)
حضرت ابو هريرة سے روايت هے كه
نبي صلى الله عليه وسلم مسجد كے دروازے پر عثمان سے ملے تو فرمايا اے عثمان جبريل
نے مجھے خبر دي هے كه بے شك الله نے ام كلثوم كو رقيه كي حق مهر كے مثل پر اور اس
كے ساتھ ويسي حسن صحبت كي شرط پر آپ كے نكاح ميں ديا هے۔
اور جب ان كا(ام كلثوم) بھي انتقال هوا تو نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: لوگو
عثمان كا نكاح كريں اگر ميري تيسري بيٹي بھي هوتي تو ميں اس كو بھي عثمان كے نكاح
ميں ديتا، صاحب معارف الحديث نے ابن عساكر كے حوالے سے يه روايت نقل كي هے:
عَنْ عِصْمَةَ بْنِ
مَالِكٍ الْخِطْمِىِّ قَالَ: لَمَّا مَاتَتْ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ عُثْمَانَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: «زَوِّجُوا عُثْمَانَ لَو كَانَ لِي ثَالِثَةً لَزَوَّجْتُهُ، وَمَا
زَوَّجْتُهُ إِلَّا بِالْوَحْيِ مِنَ اللهِ» (رواه ابن عساكر رقم 7773)(معارف
الحديث كتاب المناقب و الفضائل حديث نمبر 2052)
حضرت عصمۃ بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی ان
صاحبزادی کا انتقال ہو گیا جو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں تھیں (یعنی ام کلثومؓ) تو
آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ ..... آپ لوگ عثمانؓ کا نکاح کر دیں، اگر میری کوئی
تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی عثمان ہی سے کر دیتا اور میں نے اپنی
بیٹیوں کا نکاح عثمان سے وحی کے ذریعہ ملے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے کیا تھا۔
معارف الحديث ميں اس سے متصل ايك اور روايت كو طبراني اور دارقطني وغيره كے حوالے سے نقل كي هے
كه
عَنْ
عُثْمَانَ قَال : قَالَ لِيْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
بَعْدَ مَوْت ابْنَتَه الْأَخِيرَة يَا عُثْمَان ! لَوْ أَنَّ عِنْدِي عَشْرًا
لَزَوَّجْتُكَهُنَّ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ فَإِنّي عَنْك لرَاضٍ . (رواه
الطبرانى فى الاوسط والدار قطنى في الافراد وابن عساكر رقم 7764)(معارف الحديث كتاب المناقب و الفضائل
حديث نمبر2053)
حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی دوسری صاحبزادی
(ام کلثوم) کا انتقال ہو گیا ..... تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے عثمان! اگر میری
دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان میں سے ایک کے بعد ایک کا (سب کا) تم سے نکاح کر دیتا،
کیوں کہ میں تم سے بہت راضی اور خوش ہوں۔
درج بالا روايتوں كي صحت كے بارے ميں كلام هے ، مگر ان كي
تفصيلات كا يه مقام نهيں هے۔
چونکہ آپ
کو نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیوں سے شادی کا شرف حاصل ہوا، اسی وجہ سے آپ کو "ذوالنورین"
(دو نوروں والا) کہا جاتا ہے۔
ہجرتیں اور دین کی خدمت:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلام كي وجه سے بهت سے مصائب جھيلے
، مشكلات كا سامنا كيا ، اوراسلام کی راہ میں بے شمار قربانیاں دیں۔
ہجرتِ حبشہ:
جب کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ
گئے تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ كي طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی تو ان اولين
مهاجرين ميں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ
حبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
,,,,, وتزوجها عثمان بن عفان وهاجرت معه
إلى أرض الحبشة الهجرتين جميعا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنهما لأول من
هاجر إلى الله تعالى بعد لوط. (ابن عساکر، تاریخ دمشق3/151،
رقم 593)
"عثمان
اور اس كي بيوي دونوں پہلے شخص ہیں جو حضرت لوط علیہ السلام کے بعد الله كي طرف ہجرت کرنے والے ہیں۔"
پھر جب
حبشه ميں يه افواه اڑي كه مكه كي حالت درست
هو گئي هے اور وه مسلمان هو گئے هيں تو كچھ مسلمان واپس مكه چلے آئے ان ميں
حضرت عثمان رضي الله عنه بھي شامل تھے۔ مگر جب يه لوگ مكه پهنچے تو پته چلا كه يه
ايك محض افواه تھي اهل مكه مسلمانوں كے ويسے هي دشمن تھے جيسے پهلے تھے۔
ہجرتِ مدینہ:
جب رسول
الله صلى الله عليه وسلم نے اپنے اصحاب كو مدينه منوره كي طرف هجرت كرنے كا حكم
ديا تو مكه ميں جو مسلمان كفار كے مظالم
كا شكار تھے وه آهسته آهسته مكه سے مدينه كي طرف هجرت كرنے لگے۔ ان لوگوں كے ساتھ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر
هجرت كے لئے رخت سفر باندھا اور مدینہ
منورہ کی طرف ہجرت کر گئے اور وہاں اسلامی ریاست کے قیام میں بھرپور کردار ادا
کیا۔
عہدِ نبوی میں اسلام اور مسلمانوں كے لئے آپ كي خدمات :
حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ نے کئی مواقع پر دین اسلام کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں، جن
میں سے چند درج ذیل ہیں:
بئر رومہ کی خریداری اور مسلمانوں كے لئے وقف كرنا:
مدینہ
منورہ میں پانی کا ایک کنواں"بئر رومہ" ایک یہودی کی ملکیت میں تھا، جو
مہنگے داموں پانی بیچتا تھا۔ اس كےعلاوه ميٹھے پاني كا اور كوئي كنواں نهيں تھا۔
مسلمان مهنگے داموں پاني خريدنے پر مجبور تھے چنانچه نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ يَبْتَاعُ بِئْرَ رُومَةَ
غَفَرَ اللَّهُ لَهُ»(تاريخ المدينة المنورة لأبي زيد عمرابن شبة النميري ص:153)
"جو
بئر رومه خريدے گا الله تعالى اس كو بخش دے گا۔"
ايك اور
حديث ميں هے:
"جو
شخص بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے، اس کے لیے جنت ہے۔" حديث
كے الفاظ هيں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ
صلى الله عليه وسلم قَدِمَ المَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ
بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «مَنْ
يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلَ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ المُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ
لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ»؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي، فَأَنْتُمُ
اليَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ
الْبَحْرِ.(الترمذي ابواب المناقب باب في مناقب عثمان رضي
الله عنه حديث نمبر3703)
رسول
الله صلى الله عليه و سلم جب مدينه تشريف لائے تو وهاں بئر رومه كے علاوه كوئي
ميٹھا پاني نه تھا، چنانچه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا جو شخص بئررومه
كو خريد كر اس كے ڈول كو (يعني پاني كو) مسلمانوں كے لئے وقف كرے اس كے لئے اس سے
بھي بهتر شے ملے كي جنت ميں، چنانچه ميں نے اس كو اپنے ذاتي مال ميں سے خريدا اور
لوگوں كے لئے وقف كر ديا اور آج تم مجھے اس سے پاني پينے سے روك رهے هو حتي كه مجھے
سمندر كا پاني پينے پر مجبور كر رهے هو۔
حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں *35 ہزار درہم* میں خرید کر عام مسلمانوں کے لیے
وقف کر دیا (تحفة الاحوذي شرح جامع الترمذي لعبدالرحمن المباركفوري متعلقه حديث
مذكور بالا ص:10/135دار الكتب العلمية بيروت)۔
يوں مدينه ميں نئےآنے والے مسلمانوں كے لئے جو پينے كے پاني كے
حوالے سے مشكلات كا سامنا هو رها تھا وه حل هو گيااور اس كے لئے حضرت عثمان رضي
الله عنه هے ايك خطير رقم خرچ كركے مسلمانوں كے لئے آساني بهم پهنچائي مگر صد
افسوس كه جب آپ كو شهيد كرنے كے لئے بلوائيوں نے مدينه پر چڑھائي كي تو آپ رضي
الله عنه كو اسي كنويں سے پاني لينے سے بھي روكا اور سمندر كا كھارا پاني پينے پر مجبور كيا۔
تا ريخ المدينه ميں ابن شبه نے بئررومه كي قيمت
جو حضرت عثمان رضى الله عنه نے اداكي وه چاليس هزاردرهم بتايا هے۔(كتاب تاريخ
المدينه المنوره از ابن شبة ص:153)
غزوہ تبوک میں مالی معاونت:
غزوه تبوك جسے غزوه ذات العسرة بھي كها جاتا هے جو كه تاريخ ميں
مشكل ترين حالات ميں پيش آئے اور ان مشكلات كے پيش نظر رسول الله صلى الله عليه و
سلم نے اپنے اصحاب سے چنده كي اپيل كي جس پراصحاب رسول نےحسب توفيق دل كھول كر
چنده ديا۔ يهي موقع تھا كه جب حضرت ابو بكر رضي الله عنه نے اپنے گھر كے تمام
اثاثے لا كر رسول الله صلى الله عليه وسلم كے قدموں ميں ڈال ديا اور حضرت عمر رضي
الله عنه نے اپنے گھر كے تمام اثاثوں كا نصف لا كر رسول الله صلى الله عليه وسلم
كو پيش كر دياتھا۔ جب كه حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ نے مواهب لدنيه كي ايك روايت كے مطابق 1000 اونٹ، 70 گھوڑے، اور 10 ہزار دینار پیش کر دیے۔ الرحيق المختوم ميں علامه صفي
الرحمن مبارك پوري لكھتے هيں: حضرت عثمان نے پھر صدقه كيا اور صدقه كيا يهاں تك كه
ان كے صدقے كي مقدار نقدي كےعلاوه نو سو اونٹ اور ايك سو گھوڑے تك جا پهنچي۔(ديكھئے
الرحيق المختوم اردو ص:684-685) ترمذي كي روايت ميں هے كه جب حضرت عثمان ايك هزار
دينار لے آئے اور انهيں نبي صلى الله عليه و سلم ك آغوش ميں بكھير ديا تو آپ صلى
الله عليه وسلم انهيں الٹتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے :
«مَا
ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ اليَوْمِ مَرَّتَيْنِ»(ترمذی، ابواب
المناقب باب حدیث نمبر 3701)
آج
کے بعد عثمان جو بھی کرے، اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔يه آپ نے دو مرتبه فرمايا"
حرم كعبه كي توسيع ميں كردار:
اسلامي فتوحات كے ساتھ ساتھ مسلمانوں كي تعداد ميں بھي اضافه
هوتا رها جس كي وجه سے حج وغيره كے موقع پر حرم كعبه ميں تنگ دامني كا احساس هوا
چنانچه حضرت عثمان نے اپنے عهد خلافت ميں حرم كعبه كي توسيع كا پروگرام بنايا اور
سنه 26ھ ميں اپنے ذاتي مال سے مسجد حرام كے قريبي مكانات كو خريد كر مسجد حرم شامل
كيا(تاريخ الخلفاء لسيوطي ص:159, زاويه پبلشرز)
مسجدنبوي كي توسيع ميں حصه:
حضرت عثمان نے مسجد نبوي كي توسيع ميں بھي اپنا حصه ڈالا اور اس كا
اظهار آپ نے بلوائيوں كےمحاصرے كے دوران صحابه كرام كو گواه بنا بناتے هوئے كيا
اور وهاں موجود لوگوں نے اس كي تائيد بھي كي، فرمايا:
أَنْشُدُكُمْ
بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ
صلى الله عليه وسلم قَالَ: «مَنْ يَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِي فُلَانٍ غَفَرَ
اللَّهُ لَهُ» . قَالَ: فَابْتَعْتُهُ بِعِشْرِينَ، أَوْ بِخَمْسَةٍ
وَعِشْرِينَ أَلْفًا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ، فَقُلْتُ لَهُ:
إِنِّي قَدِ ابْتَعْتُ مِرْبَدَ بَنِي فُلَانٍ. قَالَ: «اجْعَلْهُ فِي الْمَسْجِدِ
وَأَجْرُهُ لَكَ» ؟ قَالُوا: نَعَمْ.(تاريخ المدينه المنورة
لابن شبة ص:1113)
"میں
تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو فلاں قبیلے کے مربد (كھجوریں خشک کرنے کی جگہ) کو خریدے گا، اللہ
اسے بخش دے گا؟
تو میں نے اسے
بیس ہزار یا پچیس ہزار (درہم یا دینار) میں خرید لیا، پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس
آیا اور عرض کیا: میں نے فلاں قبیلے کا مربد خرید لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے لیے وقف کر دو،
اور اس کا اجر تمہیں ملے گا۔ لوگوں نے کہا: جی ہاں (ہم اس بات کی گواہی
دیتے ہیں) ۔
علاوه ازيں آپ كے جود و سخا كے بهت سے واقعات تاريخ كي كتابوں
ميں محفوط هيں، يهاں ان سب كا تذكره مقصود نهيں هے۔
خلافت:
يكم محرم سنه 24ھ
بمطابق 644ء میں
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد
حضرت عمر كي تشكيل كرده كميٹي كے اركان ميں سے صلاح و مشورے كے بعد نيز
مدينه كے اهل علم حضرات سےرائے لينے كے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ كو منصب خلافت پر
فائز كيا گيا۔ آپ کی خلافت تقريبا12 سال پر محیط رہی۔
اسلامی فتوحات اور سلطنت
ميں توسيع:
آپ کے دور میں اسلامی سلطنت وسیع
ہو گئی، اور کئی اہم فتوحات ہوئیں:
- ایران اور روم
(بازنطینی سلطنت) کے بڑے علاقے فتح ہوئے۔
- مصر، شمالی افریقہ، اور آرمینیا میں اسلام کی روشنی پھیلی۔
- بحری فوج کی بنیاد رکھی گئی، جس سے مسلمانوں کو سمندری
جنگوں میں کامیابیاں ملیں (الطبری، تاریخ الامم و الملوک)۔
قرآنِ کریم کی جمع و تدوین:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ كے اهم كارناموں ميں سے ايك اهم كام يه هے كه
نئے مسلمان هونے والے لوگوں ميں قرآن مجيد كي قراءت كے اختلاف يعني عرب كے سات مختلف لهجوں ميں پڑھنے كي
اجازت هونےكي وجه سے تنازعات پيدا هونے لگے
اس لئے كه سات مختلف لهجوں ميں پڑھے كي اجازت كے سبب قرآن مجيد كو جس لهجے
ميں جس كے لئے آساني هوتي وه پڑھ ليتے اور وه نئے مسلمان هونے والے غير عربي كو
بھي اسي لهجے ميں پڑھا ديتے جس سے نئے مسلمان هونے والے افراد جب آپس ميں قرآن ايك
دوسرے كو سناتے تو اختلاف كر جاتے جس سے ان كے درميان تنازعات جنم ليتے، حضرت
حذيفه بن يمان رضي الله عنه نے مسلمانوں كے اس اختلاف كو آرمينيا كے محاذ پر محسوس
كيا تو آپ نے حضرت عثمان رضي الله عنه سے جا كر اس كے تدارك كے لئے اقدامات كرنے
كا مشوره ديا چنانچه حضرت عثمان غني رضي الله عنه نے مسلمانوں کے درمیان قرآن مجید
كي قراءت کے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے قرآن مجيد كي باقي قراءتوں كو ختم كر كے
قريش كے لهجے ميں ايك مستند قرآن "مصحفِ عثمانی" کی صورت میں جمع کروا دیا۔ آج دنیا بھر میں پڑھے
جانے والے قرآن اسی ترتیب پر مشتمل ہیں (بخاری، حدیث: 4987)۔
حضرت عثمان كےخلاف سازش اور پروپيگنڈا:
حضرت عمر رضي
الله عنه كي شهادت كےبعد اسلامي سلطنت ميں اسلام اور مسلمانوں كےخلاف سازشوں نے
زور پكڑا اور بهت سےلوگ ان سازشين كے دام فريب ميں آگئے اور اس كا حصه بننے لگے۔
حضرت عثمان بن عفان
رضی اللہ عنہ اپنے زہد، سخاوت اور نرم خوئی کے باعث امت میں نہایت محبوب تھے۔ لیکن
بدقسمتی سے، داخلی انتشار اور خارجی عناصر کی سازشوں نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ
کرنے کی کوشش کی، جس کا سب سے بڑا نشانہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنے۔
سازش کی بنیاد اور
اسباب:
حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ کے خلاف پروپیگنڈا بعض داخلی اور خارجی عناصر کی سازش کا نتیجہ تھا۔ ان میں سب
سے نمایاں کردار عبداللہ بن سبا اور اس کے پیروکاروں کا تھا، جو مسلمانوں میں
بغاوت اور بداعتمادی پھیلانے کے درپے تھے۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر
اقربا پروری، بیت المال میں بے جا تصرف اور گورنروں کی نامزدگی جیسے الزامات عائد
کیے، حالانکہ ان کے فیصلے مکمل طور پر عدل و انصاف پر مبنی تھے۔
اس پروپیگنڈے کو ہوا
دینے کے لیے باغیوں نے مختلف علاقوں، خاص طور پر بصرہ، کوفہ اور مصر میں سازشی
گروہ منظم کیے۔ ان عناصر نے مدینہ منورہ میں آ کر خلیفہ کے خلاف بغاوت کا آغاز
کیا، اور بعض نادان اور سادہ لوح افراد کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
محاصرہ اور سانحہ
شہادت:
باغیوں نے مدینہ میں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور کئی دنوں تک آپ کو پانی اور
خوراک تک رسائی سے محروم رکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت چھوڑنے سے
انکار کر دیا کیونکہ وہ امت میں خانہ جنگی اور انتشار نہیں چاہتے تھے۔ اوران
كےلئےرسول الله صلى الله عليه وسلم كي هدايت تھي كه خلافت كي قميص كو نه اتارا
جائے، جيسا كه حديث ميں حضرت عائشه رضي الله عنها سے منقول هے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عثمان إن ولاك الله هذا الامر يوما، فارادك
المنافقون ان تخلع قميصك الذي قمصك الله، فلا تخلعه"، يقول: ذلك ثلاث مرات،(ترمذي
ابواب الماقب باب فضل عثمان بن عفان حديث نمبر3705، ابن ماجه كتاب الفضائل باب فضل
عثمان بن عفان رضي الله عنه حديث نمبر 112).
ام
المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ”اے عثمان! اگر
اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے، اور منافقین تمہاری وہ
قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو اسے مت اتارنا“، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی۔
جامع ترمذى كے الفاظ هيں:
الله يقمصك قميصا فإن أرادوك على خلعه فلا تخلعه لهم.
يعني الله تعالى تمهيں
ايك قميص پهنائےگا اگر لوگ اس كو اتارنا چاهے تو ان كے لئے تم اس كو مت اتارنا۔
مطلب یہ ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو
کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیوں کہ اس وقت تم حق پر
قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے، چنانچه ان
منافقين اور بلوائيوں كے مطالبے پر كه آپ خلافت سے دست بردار هو جائيں آپ نے كها:
لا أنزع سربالا
سربلنيه الله. (طبقات ابن سعدص: 3 / 49)
"میں اس قمیص کو نہیں
اتاروں گا جو مجھے میرے رب نے پہنائی ہے۔"
چنانچه 18
ذوالحجہ 35 ہجری کو، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روزے کی حالت میں قرآن پاک
کی تلاوت فرما رہے تھے، باغیوں نے آپ کے گھر پر حملہ کر دیا۔ ان ظالموں نے نہ صرف
آپ کو بے دردی سے شہید کیا بلکہ آپ کی اہلیہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا پر بھی حملہ
کیا اور ان كي انگلياں كاٹ ديں ، جو آپ کی حفاظت کی کوشش کر رہی تھیں۔
تدفين:
حضرت عثمان رضي الله عنه كي تدفين كے وقت حالات نهايت پرتشدد
تھے ، بلوائيوں اور باغيوں كا مدينه پر قبضه تھا چنانچه كچھ اصحاب رسول نے آپ كے
جنازے كي نماز پڑھي، حضرت جبير بن مطعم رضي الله عنه نے آپ كا جنازه پڑھايا اور آپ کو رات كي
تاريكي ميں جنت البقیع میں دفن کیا گیا
تاكه باغيوں سے بچايا جا سكے۔
شهادت عثمان رضى الله عنه كے نتائج اور اثرات:
حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ کی شہادت اسلامی تاریخ میں ایک اندوہناک سانحہ تھی، جس نے امت کے اتحاد کو
ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ان کی شہادت کے بعد امت میں افتراق و انتشار کا ایک
ایسا سلسلہ شروع ہوا، جس نے جنگ جمل، جنگ صفین اور بالآخر سانحۂ کربلا جیسے المناک
واقعات کو جنم دیا۔ خلافتِ راشدہ کا نظام کمزور ہوا اور امت مسلمہ میں داخلی
خلفشار پیدا ہو گیا، جس کا اثر صدیوں تک محسوس کیا گیا۔