کاروبار میں منافع کی حد اور اصول اسلامی نقطۂ نظر سے

0

 

کاروبار میں منافع کی حد اور اصول

اسلامی نقطۂ  نظر سے

اسلام ایک متوازن اور عملی دین ہے جو تجارت کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے بلکہ اسے ایک باعزت ذریعہ معاش بھی سمجھتا ہے۔ البتہ، اسلام میں کاروبار کے اصول دیانت، عدل، اور معاشرتی فلاح پر مبنی ہیں، اور منافع کمانے کے بھی کچھ مخصوص اصول متعین کیے گئے ہیں تاکہ کسی فرد یا گروہ کو نقصان نہ پہنچے۔ 

سوال. اسلامی شریعت میں منافع کی حد: کیا کوئی مخصوص مقدار متعین ہے؟

درج بالا سوال كا مناسب و موزون جواب تو يه هے كه اسلامی تعلیمات میں منافع کی کوئی خاص حد مقرر نہیں کی گئی، بلکہ اسے مارکیٹ کی ضروریات، عدل و انصاف، اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود کیا گیا ہے۔ البتہ، منافع کے تعین میں چند اہم اصول بیان کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں: 

قرآنی تعلیمات کی روشنی میں منافع كا حصول

تجارت کا حلال ہونا:

 كارو باريا تجارت كو الله تعالى نے حلال قرارديا هے جيسا كه  قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:  وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ‌ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ (البقرہ:275) 

"اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔"

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں تجارت کو حلال اور جائز ذریعہ معاش قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ یہ سود اور دھوکہ دہی سے پاک ہو۔اوربيع غرريا جس بھي بيع يا كارو بارميں دھوكه شامل هو گا اسلام نے اس قسم كي تجارت كو ممنوع قرا ر ديا هے۔

عدل اور انصاف کا اصول :

 جس طرح عام معاشرتي معاملات ميں عدل و انصاف كوو ملحوظ ركھنا ضروري هے اسي طرح كاروبا اور تجارت ميں بھي عدل و انصاف كو مد نظر ركھنا ضروري هے،  قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

فَأَوۡفُواْ ٱلۡكَيۡلَ وَٱلۡمِيزَانَ وَلَا تَبۡخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تُفۡسِدُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ بَعۡدَ إِصۡلَٰحِهَاۚ ذَٰلِكُمۡ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ.

"اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں اس كي اصلاح كے بعد فساد نہ پھیلاؤ، اگر تم مؤمن هيں تو يه تمهارے لئے بهتر هے۔" (الاعراف 7:85) 

   اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ کاروبار میں دیانت داری ضروری ہے اور کسی بھی قسم کی زیادتی یا ناجائز منافع خوری (Exploitative Pricing) ممنوع ہے۔ 

احادیث مبارکہ کی روشنی میں منافع کی جائز حدود

منصفانہ منافع کا اصول:

  عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى ".( صحيح البخاري كِتَابٌ : الْبُيُوعُ.  بَابُ السُّهُولَةِ وَالسَّمَاحَةِ فِي الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ. حديث نمبر 2076)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 

"اللہ اُس شخص پر رحم کرے جو بیچتے، خریدتے اور مطالبہ کرتے وقت نرمی اختیار کرے۔" (بخاری:) 

اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کو نرمی برتنا چاہیے اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہونا چاہیے کہ ایک فریق دوسرے سے نا جائز فائیدہ نہ اٹھائے ۔ اور سے مارکیٹ میں رائج قیمت سے زیادہ وصول نہ کرے۔ یہ کہہ کر کہ میری چیز ہے میری مرضی جتنے میں بیچوں زیادہ منافع لینا درست نہیں ہے ۔

   اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کاروبار میں سخت رویہ اختیار کرنا اور حد سے زیادہ منافع لینا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ 

1. گراں فروشی (Overpricing) کی ممانعت:

   ایک موقع پر صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ قیمتوں کو مقرر کر دیا جائے کیونکہ بعض تاجر بہت زیادہ منافع لے رہے تھے۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: 

"بیشک قیمتوں کا مقرر کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔" (ابوداؤد: 3451) 

   اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت یا کوئی فرد مصنوعی طریقے سے قیمتیں کنٹرول نہیں کر سکتا، لیکن اگر قیمتیں غیر فطری حد تک بڑھ رہی ہوں اور عوام پر ظلم ہو رہا ہو، تو اسلامی حکومت کو مداخلت کا حق حاصل ہے۔ 

اس سے يه بھي ثابت هوتا هے كه كسي بھي تاجر يا كارو باري شخص كو يه كهه كر كه تمهاري چيز هے تمهاري مرضي اس كي جتني بھي قيمت مقرر كرے يا مشتري سے جتني چاهے اس كي قيمت وصول كرے، اس سے فروخت كنندگان اپني مرضي كريں گے اور خريدار كو نقصان هوگا اور اسلام كا اصول يه هے كه دونوں فريقوں ميں سے كسي كو بھي نقصان نه اٹھانا پڑے۔يهي وجه هے كه اسلامي اصول تجارت ميں احتكار يعني ذخيره اندوزي كو ممنوع قرار ديا گياهے اس لئے كه اس ميں بائع اپني مرضي سے اشياء كي قيمتيں مقرر كرتا هے۔ اسي طرح شهري كو ديهاتي كا وكيل بن كر اس كے سامان فروخت كرنا يا تاجروں كا سامان شهر يا منڈي تك پهنچنے سے پهلے خريد لينا بھي اسي لئے ممنوع قرار ديا هے تاكه مشتري كو كوئي نقصان نه هو۔

شيخ الاسلام امام ابن تيميه رحمة الله عليه لكھتے هيں:

فنهى الحاضر العالم بالسعر أن يتوكل للبادي الجالب للسلعة؛ لأنه إذا توكل له مع خبرته بحاجة الناس إليه أغلى الثمن على المشتري، فنهاه عن التوكل له -مع أن جنس الوكالة مباح- لما في ذلك من زيادة السعر على الناس. ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن تلقي الجلب، وهذا أيضًا ثابت في الصحيح من غير وجه، وجعل للبائع إذا هبط إلى السوق الخيار، ولهذا كان أكثر الفقهاء على أنه نهى عن ذلك لما فيه من ضرر البائع بدون ثمن المثل وغبنه، فأثبت النبي صلى الله عليه وسلم الخيار لهذا البائع،(ابن تيميه الحسبة في الإسلام ص 31)

نبی اکرم ﷺ نے شہری کو اس بات سے منع فرمایا کہ وہ دیہات سے آنے والے تاجر کا وکیل بنے، جو بازار میں سامان فروخت کرنے کے لیے آتا ہے، کیونکہ اگر وہ اس کے لیے وکالت کرے، جبکہ اسے معلوم ہو کہ لوگ اس سامان کے محتاج ہیں، تو وہ قیمت بڑھا کر خریدار پر بوجھ ڈال دے گا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے اس مخصوص وکالت سے روکا، حالانکہ وکالت بذاتِ خود جائز ہے، لیکن اس صورت میں اس سے قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ ہو جاتا ہے، جو عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔

اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شخص باہر سے آنے والے تاجروں کا بازار پہنچنے سے پہلے استقبال کرے (اور ان کا مال خرید لے)، جیسا کہ صحیح احادیث میں مختلف روایات سے ثابت ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ جب وہ تاجر بازار پہنچے تو اسے اپنی مرضی سے قیمت طے کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اسی لیے اکثر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اس ممانعت کی بنیاد تاجر کے نقصان اور اس کے مال کے سستے داموں فروخت ہونے کے خدشے پر ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے اس تاجر کو یہ حق دیا کہ جب وہ بازار میں پہنچے تو اپنے نفع و نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے خود فیصلہ کرے۔

اسي طرح گراں فروشي يا من ماني قيمت وصول كرنے كي قباحت كے سلسلے ميں امام ابن تيميه لكھتے هيں:

وجاء في الحديث: "غبن المسترسل ربا"، وهو بمنزلة تلقي السلع، فإن القادم جاهل بالسعر، ولذلك "نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يبيع حاضر لباد، وقال: "دعوا الناس يرزق الله بعضهم من بعض". وقيل لابن عباس ما قوله: "لا يبيع حاضر لباد"؟ قال: لا يكون له سمسار، وهذا نهي عنه لما فيه من ضرر المشترين، فإن المقيم إذا توكل للقادم في بيع سلعة يحتاج الناس إليها والقادم لا يعرف السعر ضر ذلك المشتري، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "دعوا الناس يرزق الله بعضهم من بعض".(الحسبه في الإسلام ص 21)

حدیث میں آیا ہے: "غبن المسترسل ربا" یعنی "سادہ لوح خریدار کو دھوکا دینا سود کے مترادف ہے۔" یہ اسی طرح ہے جیسے بازار میں آنے والے سامان کا استقبال کرنا (اور قیمت بڑھانا)، کیونکہ باہر سے آنے والا تاجر قیمت سے بے خبر ہوتا ہے۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شہری دیہاتی کے لیے سامان فروخت کرے، اور فرمایا: "لوگوں کو چھوڑ دو، اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے۔"

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ "لا يبيع حاضر لباد" (شہری دیہاتی کے لیے سامان نہ بیچے) کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: "اس کا مطلب یہ ہے کہ دیہاتی کے لیے شہری کسی قسم کا دلال(ايجنٹ) نہ بنے۔" اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں خریداروں کا نقصان ہے، کیونکہ اگر شہری باہر سے آنے والے تاجر کے لیے دلال بن جائے، جبکہ وہ تاجر قیمت سے ناواقف ہو اور لوگ اس سامان کے ضرورت مند بھی ہوں، تو اس سے خریداروں پر بوجھ پڑے گا۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "لوگوں کو چھوڑ دو، اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے۔"

اسي طرح جو لوگ يه كهتے هيں انسان جب كسي چيز كا مالك بن جائے اور وه چيز اس كے قبضے ميں آجائے تو پھر اس كي مرضي هے كه وه خريداركو جتني قيمت ميں چاهے فروخت كرے۔اسلامي اصول تجارت كو مد نظر ركھا جائے تو يه بات اسلام كے نظريه فلاح انسانيت كےخلاف هے، اس لئے كه اس طرح كهنے سے بعض لوگ اپني اشياء قيمتيں بهت زياده بڑھا چڑھا كر حد سے زياده منافع كمانے كي كوشش كرتا هے جو كه مشتري كے لئے بالكل هي نقصان ده هوتاهے۔  اس طرح كا كردار اسلامي مزاج كے خلاف هےاس لئے كه اسلام فريقين ميں سے كسي كے ساتھ بھي دھوكه يا نقصان نهيں چاهتا يهي وجه هے كه اسلام نے بيع غرر كو ممنوع قرار ديا هے ۔

اگر يه كها جائے كه فريقين كي اپني مرضي سے سودا طے پا جائے تو اس ميں زياده قيمت لينے ميں كيا حرج هے؟ يه نظريه بھي اسلامي مزاج كے خلاف هےاس لئے ماركيٹ ميں رائج قيمتوں سے زياده وصول كرنا يا كسي انجان كو چونا لگانا اسي طرح حرام هے جس طرح بيع غرر يا بيع مصرات هے۔ شيخ عثيمين رحمة الله عليه كے مطابق اگر شے كي اصل قيمت سے انجان شخص سے كوئي شخص ماركيٹ ريٹ سے زياده قيمت وصول كرتا هے اور اس كو بعد ميں پته چلتا هے تو اس شخص كے لئے اختيار هے كه وه بيع كو برقرار ركھے يا لوٹا دے۔وه المغني كي شرح كي شرح الشرح الممتع ميں مسترسل كي وضاحت كرتے هوئے لكھتے هيں۔

قوله: «والمسترسل» وهو المنقاد مع غيره المطمئن إلى قوله، هذا في اللغة. وفي الاصطلاح: من جهل القيمة ولم يحسن ‌المماكسة.

والمماكسة هي المحاطة في الثمن، وهي التي تعرف عندنا بالمكاسرة، فإذا أتى إلى صاحب الدكان، وقال: بكم هذه الحاجة؟ قال: بعشرة ريالات، وهو رجل يجهل القيمة ولا يحسن أن يماكس فأخذها بعشرة، فلما عرضها على الناس، قالوا: هذه بخمسة ريالات، قال: ما علمت، فنسمي هذا مسترسلاً له الخيار؛ لأنه إذا كانت قيمة الشيء بخمسة، واشتراها بعشرة فهذا غبن يخرج عن العادة فله الخيار، والدليل أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من غش فليس منا»، وهو من الخيانة للمسلمين و كل من غش.(الشرح الممتع على زاد المستنقع ص:8/300)

اس کا قول "والمسترسل" یعنی وہ شخص جو دوسروں کے تابع ہو اور ان کی بات پر مطمئن رہے، یہ لغوی معنی ہے۔

اصطلاح میں: وہ شخص جو قیمت سے ناواقف ہو اور بھاؤ تاؤ (بارگیننگ) کرنا نہ جانتا ہو۔

المماكسة (بھاؤ تاؤ) کا مطلب قیمت پر بحث و تکرار کرنا ہے، جسے ہمارے ہاں "مكاسرة" کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص دکان پر جائے اور پوچھے: "یہ چیز کتنے کی ہے؟"
دکاندار کہے: "یہ دس ریال کی ہے۔"
وہ شخص جو قیمت سے ناواقف ہو اور بھاؤ تاؤ کرنا نہ جانتا ہو، وہ فوراً دس ریال میں خرید لے۔ بعد میں جب وہ لوگوں کو دکھائے تو وہ کہیں: "یہ تو پانچ ریال کی چیز ہے!" تب وہ کہے: "مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔"

ایسے شخص کو "مسترسل" کہا جاتا ہے اور اسے اختیار (فسخِ بیع کا حق) حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر کسی چیز کی اصل قیمت پانچ ریال ہو اور اس نے اسے دس ریال میں خرید لیا ہو، تو یہ ایک غیر معمولی دھوکہ ہے، اس لیے اسے اختیار دیا جاتا ہے۔

اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔"
یہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص جو دھوکہ دے، اس پر یہ حدیث لاگو ہوتی ہے۔

اس موضوع پر آگے چل كر الروض المربع ميں جو بيان كيا گيا هے كه اگر  كوئي اچھي طرح بھاؤتاؤ كر سكتا هے مگر قيمت سے انجان هونے كے باؤجود بھاؤ تاؤ نه كرنے والے كے لئے فسخ بيع كا اختيار نه هونے كے بيان كا رد كرتے هوئے لكھتے هيں:

و لكن الصحيح أن له الخيار لجهله بالقيمة ولتغرير البائع به، فلا ينبغي إلا أن نعامل البائع بنقيض قصده لما غره، ونقول: له الخيار.(كتاب مذكور ص:8/302)

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خریدار کو فسخِ بیع (سودا ختم کرنے) کا اختیار حاصل ہوگا، کیونکہ وہ قیمت سے ناواقف تھا اور بیچنے والے نے اسے دھوکہ دیا تھا۔ لہٰذا ہمیں بیچنے والے کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس نے خریدار کو دھوکہ دیا، اس لیے ہم کہیں گے کہ خریدار کو اختیار حاصل ہے۔

آگے چل كر لكھتے هيں:

ومن المناجشة وهي نوع من الاسترسال أن يقول البائع للمشتري: أعطيت في السلعة كذا وهو يكذب، والمشتري سوف يقول: إذا كانت سيمت بمائتين فسأشتريها بمائتين وعشرة، وفعلاً اشتراها بمائتين وعشرة، وتبين أن قيمتها مائة وخمسون فإن له الخيار؛ لأنه غبن على وجه يشبه النجش. ومن ذلك ـ أيضاً ـ إذا قال: اشتريتها بمائة وهو كاذب اشتراها بخمسين فأخذها المشتري بمائة وخمسة؛ ليربح ذاك خمسة ريالات، وتبين أنه اشتراها بخمسين فإنه له الخيار؛ لأن هذا من النجش؛ لأنه استثار المشتري حتى اشتراها بأكثر من ثمنها.

فإن قيل: ما حكم النجش، وما حكم أن يفعل ما يسترسل معه المشتري؟.

فالجواب: كله حرام؛ لأنه خلاف ما يجب أن يكون عليه المؤمن لأخيه، فقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه».(مصدر نفسه ص:8/302)

"مناجشة" بھی "استرسال" (سادہ لوحی کے باعث دھوکہ کھانے) کی ایک قسم ہے، جیسے کہ بیچنے والا خریدار سے کہے: "مجھے اس چیز کے اتنے پیسے کی پیشکش کی گئی ہے" جبکہ وہ جھوٹ بول رہا ہو۔ خریدار سوچے: "اگر اس چیز کی قیمت 200 ریال لگ چکی ہے، تو میں 210 میں خرید لیتا ہوں۔"چنانچہ وہ اسے 210 میں خرید لے، لیکن بعد میں معلوم ہو کہ اس کی اصل قیمت 150 ریال تھی، تو ایسی صورت میں خریدار کو فسخ کا اختیار ہوگا، کیونکہ یہ "غبن فاحش" (بڑا دھوکہ) ہے جو "نجش" (مصنوعی بولی بڑھانے) سے مشابہت رکھتا ہے۔

اسی طرح اگر بیچنے والا کہے: "میں نے اسے 100 ریال میں خریدا ہے" جبکہ وہ جھوٹ بول رہا ہو، اور حقیقت میں اس نے اسے 50 ریال میں خریدا ہو۔
پھر خریدار اس سے 105 ریال میں یہ سوچ کر خرید لے کہ بیچنے والے کو 5 ریال کا فائدہ ہو جائے، لیکن بعد میں معلوم ہو کہ وہ اصل میں 50 میں خریدی گئی تھی، تو ایسی صورت میں بھی خریدار کو فسخ کا اختیار ہوگا، کیونکہ یہ بھی "نجش" کی ایک صورت ہے، جس میں خریدار کو غلط طریقے سے قیمت بڑھا کر خریدنے پر آمادہ کیا گیا۔

اگر سوال کیا جائے کہ: "نجش کا کیا حکم ہے؟ اور کیا خریدار کی سادگی سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؟"
تو جواب یہ ہے کہ: یہ سب کچھ حرام ہے، کیونکہ یہ اس رویے کے خلاف ہے جو ایک مومن کو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"

معلوم هوا كه ميري چيز ميري مرضي كے مطابق حد سے زياده منافع لينا يا جتني مرضي قيمت پر فروخت كرنا اسلام كي نظر ميں كوئي مستحسن عمل نهيں هے بلكه مقبوح اور مردود فعل هے۔ اسي طرح ماركيٹ ريٹ سے انجان يابھاؤ تاؤ نه كر سكنے والے ساده لوح لوگوں كو اپني چيز كي زياده قيمت بتا كر وصول كرنا بھي ممنوعه تجارت ميں شامل هے۔ بلكهدوكاندار كو  ماركيٹ ميں رائج قيمت هي وصول كرنا چاهئے اس سے زياده نهيں ، اور ماركيٹ ميں قيمتوں كا تعين طلب اور رسد كے مطابق اوپر نيچے هوتي رهتي هے جو كه ايك قدرتي اور فطري عمل هے يهي وجه هے كه رسول كريم صلى الله عليه وسلم نے مصنوعي طور پر چيزوں كي قيمتيں متعين كرنے سے انكار فرمايا۔

احتكار (ذخيره اندوزي) كي ممانعت هو يا تلقي الركبان، يا تلقي الجلب يا شهري كا ديهاتي كے لئےايجنٹ بن كے سامان فروخت كرنے كي ممانعت سب كا بنيادي مقصد "گراں فروشي" كو روكنا  اور چيزوں كي من ماني قيمت وصول كرنے سے باز ركھنا هے تاكه خريداراں اور فروخت كنندگان دونوں كو نقصان نه هو۔

اسلامي اصول تجارت ميں حصول منافع كا اصول

1.    حرام چیزوں کی تجارت ممنوع:

   اسلامی فقہ کے مطابق منافع جائز ہونا چاہیے، لیکن وہ حرام چیزوں جیسے شراب، سور کا گوشت، جوا، اور سودی کاروبار سے حاصل نہ ہو۔  يهي وجه هے كه اسلام نے حرام اشياء كي تجارت كو ممنوع قرار ديا هے۔ رسول اللہﷺ نے حرام چیزوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ. (سنن ابی داؤد كتاب الاجارة باب في ثمن الخمر  الميتة حديث نمبر 3488، مسند احمد: 2678)

"جب اللہ کسی چیز کو کسی قوم پر حرام قرار دیتا ہے تو اس کی قیمت (خرید و فروخت) کو بھی حرام کر دیتا ہے۔"
یہ حدیث اس اصول کی تصدیق کرتی ہے کہ حرام اشیاء کی تجارت بھی ممنوع ہے۔

اسي طرح صحيح بخاري ميں هے:

عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه  أن رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ.(صحيح البخاري كتاب البيوع باب ثمن الكلب حديث نمبر 2122)

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی اجرت اور کاہن کی دی ہوئی کمائی (یعنی جھوٹی پیشگوئیوں کے بدلے حاصل کیا گیا معاوضہ) سے منع فرمایا۔
اسي طرح دوسري روايت ميں هے:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ، وَهُوَ بِمَكَّةَ:  إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصْنَامِ . فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ، فَإِنَّهَا يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟ فَقَالَ:  لا، هُوَ حَرَامٌ . ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ ذَلِكَ:  قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ، فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ(صحيح البخاري كتاب  البيوع باب بيع الميتة و الاصنام حديث نمبر 2121)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال (يعني فتح مكه كے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا:بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی خرید و فروخت کو قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر کسی نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اگر مردار کی چربی کا استعمال کیا جائے، جیسے کہ کشتیوں کو چکنا کرنے، چمڑے کو نرم کرنے اور لوگ اسے بطور ایندھن چراغ جلانے کے لیے استعمال کریں، تو کیا یہ جائز ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:  نہیں، یہ بھی حرام ہے۔"

پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ یہودیوں پر لعنت کرے! جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام قرار دیا، تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کر دیا اور اس کی قیمت کھانے لگے۔"

2.    ذخیرہ اندوزی (Hoarding) کی ممانعت:

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ذخيره اندوزي كرنے سے منع كرتے هوئے اس كے مرتكب كو گناه گار قرار ديا هے.

عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ : ‌لا ‌يَحْتَكِرُ إِلا خَاطِئٌ. (صحيح مسلم:حديث نمبر 1605) 

   حضرت معمرؓ بن عبد الله  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  "جو شخص ذخیرہ اندوزی کرے، وہ گناہگار ہے۔"

   اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناجائز طریقے سے قیمتوں کو بڑھانے کے لیے مصنوعی قلت پیدا کرنا اسلام میں حرام ہے۔ 

3.           منافع میں اعتدال :

   فقہاء کے مطابق، اگر منافع بہت زیادہ ہو اور عوام پر بوجھ بن جائے تو یہ ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پراشياء پر آنے والي لاگت اوراشياء كي بيكري كي مناسبت سے   10% سے 30% منافع کو مناسب اور جائز سمجھا جاتا ہے،  يعني اگر اشياء پر لاگت كم آتي هو يا  اس كي كھپت زياده هوتي هو تو اس پر 10% اور ايسي پروڈكٹ  جس پر لاگت زياده آتي هو يا جس كي كھپت كم هوتي هو تواس پر 30% منافع ليا جا سكتا هے، لیکن اگر کوئی تاجر غیر معمولی خدمات یا کوالٹی فراہم کر رہا ہو، تو اس کے لیے زیادہ منافع لینا جائز ہو سکتا ہے۔  مگر اس پر قياس كر كے هر شے كو ميري چيز ميري مرضي كي قيمت كے عنوان كے تحت ماركيٹ ميں رائج الوقت قيمت سے زياده پر فروخت كرنا اسلامي اصول تجارت كے خلاف هے۔

کیا اسلامی حکومت منافع کی حد مقرر کر سکتی ہے؟  

اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مفادات کی حفاظت کرے۔ اگر کوئی تاجر غیر معقول حد تک منافع لے رہا ہو اور عوام کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہوں، تو حکومت مداخلت کر سکتی ہے۔ 

امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: 

 "اگر تاجر عوام کا استحصال کر رہے ہوں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ قیمتوں کو منصفانہ سطح پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔"  

كان لولي الأمر أن يكره الناس على بيع ما عندهم بقيمة المثل عند ضرورة الناس إليه، مثل من عنده طعام لا يحتاج إليه والناس في مخمصة، فإنه يجبر على بيعه للناس بقيمة المثل.(الحسبة في الاسلام ص:21)

حاکم کے لیے یہ ضروري ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ اپنی چیزیں مثل قیمت(ماركيٹ ريٹ)  پر بیچیں، جب لوگوں کو اس کی   ضرورت ہو، جیسے کسی کے پاس کھانے کا سامان ہو جس کی اسے خود ضرورت نہ ہو، اور لوگ بھوک و تنگی میں مبتلا ہوں، تو اسے لوگوں کو وہ سامان مثل قیمت(ماركيٹ ريٹ)  پر فروخت کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

امام مالك كے مطابق اگر كوئي شخص ماركيٹ ميں رائج قيمت سے بڑھ كر چيزوں كو بيچنے كي كوشش كرے تو اس كو  اس سے روكا  جانا چاهئے۔جيسا كه امام ابن تيميه الحسبه ميں لكھتے هيں:

إذا كان للناس سعر غال فأراد بعضهم أن يبيع بأغلى من ذلك فإنه يمنع منه في السوق في مذهب مالك.(الحسبة في الاسلام ص32)

جب لوگوں كے لئے پهلے سے هي قيمتيں مهنگي هوئي هوں اس پر كچھ لوگ اس سے بھي زياده مهنگي كر كے بيچنا چاهيں تو  امام مالك كے مذهب كے مطابق ماركيٹ ميں ان كو ايسا كرنے سے روكا جائے گا۔

جهاں تك منافع كي حد مقرر كرتے هوئے تسعير يعني پرائس كنٹرول كرنے كي بات هے اس ميں جب تك ماركيٹ فطري طور پرطلب و رسد كے اصولوں كے مطابق چلتي رهے اور عوام الناس كو ضرر نه هو تو اس كي كوئي ضرورت نهيں هے مگرجب لوگ من ماني كرنے لگ جائيں اور من ماني كرتے هوئے قيمتوں كو بڑھا ديں جس سے عوام كو تكليف هوتو بلا شبه سركار كو مداخلت كرتے هوئے قيمتوں كي حد مقرر كر كي چاهئے۔ امام ابن تيميه لكھتے هيں:

وإذا كانت حاجة الناس تندفع إذا عملوا ما يكفي الناس بحيث يشتري إذ ذاك بالثمن المعروف لم يحتج إلى ‌تسعير، وأما إذا كانت حاجة الناس لا تندفع إلا بالتسعير العادل سعر عليهم ‌تسعير عدل، لا وكس، ولا شطط.(الحسبه ص:43)

اگر لوگوں کی ضروریات اس طرح پوری ہو رہی ہوں کہ وہ معروف قیمت پر خرید و فروخت کر سکیں، تو پھر قیمت مقرر کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر ان کی ضرورت صرف منصفانہ نرخ مقرر کرنے سے پوری ہو سکتی ہو، تو ایسی قیمت مقرر کی جائے جو انصاف پر مبنی ہو، نہ بہت کم ہو اور نہ ہی حد سے زیادہ۔

احناف كے نزديك تسعير كا مسئله يه هے كه جب لوگ غذا كي قيمتيں حدسے زياده بڑھائيں اور قاضي تسعير كے بغير مسلمانوں كے حقوق كا تحفظ نه كر سكے تو اس وقت اهل بصير ت سے مشوره كر كے چيزوں كي قيمتيں مقرر كر سكتے هيں۔

فإن كان أرباب الطعام يتعدون ويتجاوزون القيمة تعديًّا فاحشًا وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير، سعر حينئذ بمشورة أهل الرأي والبصيرة.(الحسبة ص:40)

اگر اناج کے تاجر قیمت میں بے جا اضافہ کریں اور حد سے تجاوز کر جائیں، اور قاضی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت صرف قیمت مقرر کرکے ہی کر سکے، تو پھر اہلِ دانش و بصیرت سے مشورہ لے کر منصفانہ قیمت مقرر کی جائے۔

جدید دور میں اسلامی تجارت کے اصول :

1.     منصفانہ مسابقت (: (  Fair Competition  

-         اجارہ داری (Monopoly) اور ناجائز مارکیٹ کنٹرول کی اجازت نہیں۔  اگر جديد دور ميں اسلام كے اصول تجارت كو ديكھا جائے تو يه بات واضح هو جاتي هے كه اسلام بائع اور مشتري دونوں كے مفادات كا خيال ركھتا هے، ان ميں سے كسي ايك كے ساتھ بھي كوئي ناانصافي والا معامله هو تو اسلام اس سے منع كرتا هے۔  يهي وجه هے كه اسلام نے احتكار سے منع كيا هے جو كه اجاره داري كي بنياد هے۔  اجاره داري كي وجه سے ماركيٹ صرف چند اشخاص يا چند فرمز كے كنٹرول ميں چلا جاتا هے اور پھر وه خريداروں سے من ماني قيمتيں وصول كرتا هے جو كه اسلام كے فلاحي تصور كے خلاف هے۔

-         تمام تاجروں کو برابر مواقع ملنے چاہئیں۔  اگر اخلاقي طور پر ديكھا جائے تو بھي يه بات واضح هے كه ماركيٹ ميں موجود تمام تاجروں كو يكساں مواقع ملنا چاهئے، اس سے نه صرف منصانه مسابقت كو فروغ ملتا هے بلكه اشياء كے معيار بھي بهتر هوتا هے اور صارفين كے لئے چيزيں مناسب قيمت پر دستياب هوتي هيں۔

2.   صارفین کے حقوق کا احترام:

-         اسلامي اصول تجارت كے مطابق اپني اشياء كو بيچنے كے لئے غلط بیانی  False Advertising) ) سے كام لينا اور دھوکہ دہی  Fraud))سے كام لينا حرام ہیں۔  دور جديد ميں لوگ اپني  تجارت كو فروغ دينے كے لئے غلط بياني سے كام ليتے هيں اور اس كے لئے مختلف ذرائع كا سهارا ليا جاتا هے ۔مثلا بڑے بڑے هورڈنگز ، اشتهارات ، ايڈورٹائزنگ وغيره كے ذريعے صارفين كي توجه حاصل كرنے كے لئے غلط بياني سے كام ليا جاتا هے  جو كه سراسر نا جائز اورحرام هے۔

-         جو اشياء ماركيٹ ميں لائے جاتے هيں ان ميں بهت سي اشياء جعلي يا نقلي هوتي هيں ، دو نمبر چيزوں كو ايك نمبر بتا كر ان كي قيمت وصول كي جاتي هے۔ اسي طرح بهت سي چيزوں ميں جومختلف عناصر سے مل كر بنائے جاتے هيں ان ميں مطلوبه مقدارهي نهيں هوتي ۔ بهت سے لوگ جان بچانےوالي دواؤں ميں بھي جعل سازي كرتے هيں۔ اس طرح كے امور سراسر حرام هيں۔

-         بهت سے تاجر حضرات ناپ تول ميں كمي كرتے هيں اور ملاوٹ كا ارتكاب كرتے هيں جس سے انساني صحت اور جان كو بھي خطره هوتا هے ، ايسے لوگ اسلامي تعليمات سے دور هوتے هيں اور نا خالص اشياءكي تجارت كركے صارفين كے حقوق كا خون كرتے هيں۔

3.     مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق قیمتیں:

-         اگر مارکیٹ میں مسابقت موجود ہو اور قیمتیں قدرتی طور پر متعین ہو رہی ہوں، تو منافع کی کوئی مخصوص حد نہیں۔  جيسا كه رسول الله صلى الله عليه و سلم نے قيمتيں مقرر كرنے كے مطالبے پر فرمايا تھا كه  :

«إنَّ الله هو ‌المُسَعِّرُ، القابضُ، الباسط، الرازق، وإني لأرجو أن ألقى اللهَ وليس أحدٌ منكم يُطَالبني بِمَظْلَمَةٍ في دَمٍ ولا مَالٍ» ( الترمذي  كتاب البيوع باب ما جاء في التسعير حديث نمبر 1314، وأبو داود كتاب الاجارة باب في التسعير حديث نمبر 3451)

بے شك الله هي قيمتوں تعين كرنے والاهے وهي قيمتيں اوپر نيچے كرنے والا  رزق دينے والا هے، ميں يه اميد كرتا هوں كه جب ميں الله سے ملوں تو تم ميں سے كوئي مجھ سے خون يا مال كے سلسلے ميں كسي ظلم كا مطالبه كرنے والا نه هو۔

-         اگر قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھائی جا رہی ہوں، تو اسلامی حکومت کو دخل اندازی کا اختیار حاصل ہے۔  جيسا كه اوپر بيان كيا جا چكا هے۔

   اسلامی اصولوں کے مطابق منافع کمانے کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟  

o       حلال تجارت:   کاروبار سود، دھوکہ، ذخیرہ اندوزی اور حرام اشیاء سے پاک ہونا چاہیے۔ 

o      اعتدال اور انصاف: منافع اعتدال میں ہونا چاہیے تاکہ صارفین پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ 

o      ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کی ممانعت:  قیمتوں میں غیر فطری اضافہ ناجائز ہے۔ 

o      مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق قیمتوں کا تعین:  حکومت کو ضرورت کے مطابق قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ 

 خلاصه:

  اسلام میں منافع کی کوئی مخصوص حد مقرر نہیں، لیکن منافع کا حصول عدل و انصاف، دیانت داری، اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تاجر غیر معمولی سروس فراہم کر رہا ہے، تو وہ زیادہ منافع لے سکتا ہے، لیکن عوام کے استحصال کی اجازت نہیں۔همارے هاں بعض لوگ يه كهه كر كه هماري چيزهے هماري مرضي جتني بھي قيمت وصول كريں ، يه اسلامي اصول تجارت كي روح كے خلاف هے

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)