حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ كي سوانح حیات
نام، نسب اور خاندان:
حضرت عمر بن الخطاب
رضی اللہ عنہ کا مکمل نام عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ تھا۔ آپ کا تعلق
قریش کے قبیلے بنی عدی سے تھا، جو عرب میں ایک معزز قبیلہ سمجھا جاتا تھا۔ آپ کے
والد خطاب بن نفیل قریش کے سرداروں میں شامل تھے اور والدہ حنتمہ بنت ہاشم تھیں،
جو بنو مخزوم قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔
ولادت اور ابتدائی زندگی:
آپ 584 عیسوی میں مکہ
مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن سخت محنت اور مشقت میں گزرا۔ آپ کو گھڑ سواری،
پہلوانی، اور جنگی فنون میں مہارت حاصل تھی۔ آپ نے عرب کے روایتی علوم جیسے شعر و
خطابت اور نسب شناسی میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔اسي طرح آپ مكه كے ان گنے
چنے لوگوں ميں شامل تھے جن كو لكھنا پڑھنا آتا تھا۔
قبول اسلام:
حضرت عمرؓ ابتدائی
طور پر اسلام کے سخت مخالف تھے اور نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے،
مگر جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کی بہن حضرت فاطمہؓ اور ان کے شوہر سعید بن زیدؓ
اسلام قبول کر چکے ہیں، تو آپ سخت غضبناک ہو کر ان کے گھر پہنچے۔ وہاں آپ نے ان کے
ہاتھ میں قرآن کے اوراق دیکھے اور جب سورۃ طہ کی آیات سنیں تو آپ کا دل بدل گیا۔
آپ فوراً نبی کریم ﷺ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ آپ کے اسلام لانے پر مسلمانوں کو
زبردست حوصلہ ملا اور نبی کریم ﷺ نے آپ کو الفاروق (حق اور باطل میں فرق کرنے
والا) کا لقب عطا فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ: 102، مسند احمد: 157)
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ ذرا تفصيل كے ساتھ:
حضرت عمر بن
الخطاب رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام تاریخِ اسلام کا ایک نہایت اہم اور ایمان
افروز واقعہ ہے۔ آپ کا شمار قریش کے طاقتور، بہادر اور جری افراد میں ہوتا تھا۔
ابتدا میں آپ نبی کریم ﷺ اور اسلام کے سخت مخالف تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے
دل کو نورِ ایمان سے منور کیا اور آپ اسلام کی عظیم شخصیتوں میں شامل ہوگئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام دشمنی:
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ اور اسلام کے شدید مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ
مسلمانوں کو تکلیف دینے اور اسلام کو ختم کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت
میں غصہ اور سختی تھی، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اس نئے دین کا خاتمہ کردیا
جائے۔
قبولِ اسلام کا پس منظر:
ایک دن حضرت
عمر رضی اللہ عنہ غصے میں بھرے ہوئے اپنی تلوار لے کر نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کے
ارادے سے نکلے۔ راستے میں بنی زہرا کے ایک شخص، حضرت نعیم بن عبد اللہ رضی اللہ
عنہ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت نعیم نے ان سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت عمر نے
جواب دیا کہ محمد (ﷺ) کا کام تمام کرنے جا رہا ہوں تاکہ قریش کا یہ فتنہ ختم ہو۔
حضرت نعیم رضی
اللہ عنہ نے کہا: "عمر! پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن فاطمہ اور
بہنوئی سعید بن زید (جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں) بھی اسلام قبول کرچکے ہیں!"
یہ سن کر حضرت
عمر غصے میں اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ اس وقت وہاں حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ
بھی موجود تھے، جو ان کو قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی حضرت خباب
چھپ گئے اور حضرت فاطمہ نے قرآن کے اوراق چھپا دیے۔
دل کی تبدیلی کا آغاز:
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے اپنی بہن اور بہنوئی سے پوچھا کہ کیا وہ اسلام قبول کرچکے ہیں؟ ان کے
انکار نہ کرنے پر حضرت عمر نے غصے میں بهنوي كو مارنے كے لئے پكڑ ليا تو حضرت عمر
كي بهن فاطمه اپنے شوهر كو بچانے كے لئے ان كے سامنے آيا تو حضرت عمر نے اپنی بہن
کو مارا، جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ جب ان کی بہن نے زخمی حالت میں کہا:
"عمر! تم جو
چاہو کر لو، لیکن ہم اسلام کو نہیں چھوڑیں گے!"
یہ الفاظ حضرت
عمر کے دل میں اتر گئے، اور بهن كے چهرے پر خون ديكھ كر ان كو ندامت هوئي اور بهن
سے كها كه ابھي جو تم پڑھ رهے تھے وه مجھے دكھاؤتو ان كي بهن نے كها كه تو كافر هے
اور كافر نجس هوتا هے۔ حضرت عمر اٹھا اور غسل كر كے آيا تو ان كي بہن نے وه اوراق
دئيے اس ميں سورۃ طہ کے چند آیات لكھے
هوئے تھے۔ جب حضرت عمر نے ان آیات کو پڑھا:
"إِنَّنِي
أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ
لِذِكْرِي" (طہٰ:
14)
سوره طه كے
ابتدائي حصے پڑھنے كے بعد حضرت عمر نے كها كه كيا خوب كلام هے ۔ حضرت عمر كي يه بات سن كر حضرت خباب بن ارت باهر نكلے اور كها كه اے عمر مجھے اميد هے كه
الله تعالى نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كي دعا تمهارے حق ميں قبول كي هے۔ ميں
نے آپ صلى الله عليه وسلم كو يه دعا كرتے هوئے سنا هے: "اللَّهُمَّ أَيِّدْ الِإسلام
بِأَبِي الْحَكَمِ بْنِ هِشَامٍ، أَوْ بِعُمَرِ بْنِ الْخَطَّابِ" يعني الله ابو
الحكم بن هشام (ابو جهل) يا عمر بن خطاب ميں سے كسي ايك كے ذريعے اسلام كو تقويت پهنچادے۔
حضرت عمر نے كها مجھے بتاؤ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم كهاں پر هے تاكه ميں جا
كر اسلام قبول كروں۔ پھر وہ دونوں فوراً صفا كے دامن ميں موجود دار ارقم ميں نبی کریم ﷺ
کے پاس جانے کے لیے نکلے۔
دارِ ارقم میں قبولِ اسلام:
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ سیدھے دارِ ارقم پہنچے، جہاں نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ موجود تھے۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" اگر عمر
نیک ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک، ورنہ ہم اسے قتل کر دیں گے!"
لیکن جیسے ہی حضرت
عمر نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے، انہوں نے فرمایا:
"یا رسول اللہ!
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں!"
یہ سن کر تمام
صحابہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور پورا مکہ اس آواز سے گونج
اٹھا۔(سيرة ابن هشام بتحقيق طه عبد الرؤف
سعد، الرحيق المختوم مولانا صفي الرحمن مبارك پوري)
قبولِ اسلام کے بعد پہلا عمل:
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اعلانِ عام کیا۔ وہ
سیدھے ابو جہل اور دیگر سردارانِ قریش کے پاس گئے اور کہا: "میں مسلمان ہو چکا ہوں، اب جو چاہے کر لے!"
پھر وہ خانہ
کعبہ گئے اور سب کے سامنے نماز پڑھی۔ اسی وجہ سے انہیں "فاروق" کا لقب ملا،
کیونکہ انہوں نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق پیدا کر دیا۔
حضرت عمر كا اسلام اور مسلمانوں كو تقويت:
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت حوصلہ ملا اور اسلام کو ایک بڑی
تقویت ملی۔ ان کے بعد مسلمانوں نے کھل کر عبادت کرنا شروع کردی اور کفارِ مکہ پر
ان کی دھاک بیٹھ گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں رسول اللہ ﷺ کے عظیم ترین
صحابہ میں شامل ہوئے اور خلیفہ دوم بن کر اسلام کی شاندار خدمات انجام دیں۔
ہجرت مدینہ:
جب ہجرت کا وقت آیا
تو حضرت عمرؓ نے کھلم کھلا اعلان کیا کہ وہ مدینہ جا رہے ہیں اور کسی کو روکنا ہے
تو وہ آ کر روک لے۔ یہ بے مثال جرات صرف حضرت عمرؓ کے حصے میں آئی۔ (سیرت ابن
ہشام: جلد 2)
غزوات ميں شركت:
حضرت عمر رضي الله عنه
نے نبي كريم صلى الله عليه و آله وسلم كے ساتھ تقريبا تمام غزوات ميں شركت فرمائي
خواه بدر هو احد هو خندق هو ، صلح حديبيه كا موقع هو فتح خيبر كا موقع هو فتح مكه
كا موقع هو حنين هو يا هوازن سب ميں حضرت عمر نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے
شانه بشانه كفار كا مقابله كيا۔ غزوه تبوك جو كه نبی کریم ﷺ کی آخری بڑی مہم تھی،
جو 9 ہجری میں رومیوں کے خلاف ترتیب دی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس غزوہ میں
بھرپور شرکت کی اور مالی تعاون بھی کیا۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی
آدھی دولت اللہ کے راستے میں پیش کی، جس پر نبی کریم ﷺ نے ان کی سخاوت کو سراہا۔
رسول كريم ص كي وفات
كي خبر آپ حضرت عمر كا رد عمل:
حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی وفات کا وقت ایک نہایت ہی غمگین اور جذباتی لمحہ تھا، اور حضرت عمر
بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ردعمل بھی بےحد شدید تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی وفات کی خبر مدینہ میں پھیلی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خبر کو قبول
کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ شدتِ غم میں اس قدر مغلوب ہوگئے کہ تلوار نکال کر
کہنے لگے:
"جو یہ کہے گا کہ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے، میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ بلکہ وہ تو
اللہ کے پاس گئے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام گئے تھے، اور وہ ضرور واپس آئیں گے۔"
حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کا یہ ردعمل دراصل ان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور
عقیدت کا عکاس تھا۔ وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت تحمل اور حکمت سے معاملہ سنبھالا۔ انہوں
نے مسجد نبوی میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ مبارک کو دیکھا،
پیشانی چومی اور فرمایا:
"اے اللہ کے نبی! آپ
پر میری جان قربان، اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا۔ آپ دنیا سے جا
چکے ہیں۔"
پھر انہوں نے باہر آ
کر قرآن کی وہ آیت تلاوت فرمائی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے
میں واضح اعلان تھی:
"وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ
أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ"
(سورہ آل عمران: 144)
ترجمہ:
"اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی کئی رسول
گزر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو تم اپنے دین سے
پھر جاؤ گے؟"
یہ آیت سنتے ہی حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی ٹانگیں لرزنے لگیں، اور وہ زمین پر گر پڑے۔ انہیں احساس ہو
گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی دنیا سے كوچ كر چکے ہیں۔
یہ ایک انتہائی رقت
انگیز اور ایمان افروز منظر تھا جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ صحابہ کرام کو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت تھی اور ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی جدائی کا کتنا صدمہ تھا۔
دور خلافت:
حضرت عمرؓ 13
ہجری میں خلیفہ منتخب ہوئے اور 23 ہجری تک تقریباً 10 سال 6 ماہ خلافت کے
منصب پر فائز رہے۔ آپ کا دور اسلامی تاریخ کا سنہری دور کہلاتا ہے۔
انتظامی اصلاحات:
1.
عدالتی نظام:
آپ نے قاضیوں کی تقرری کی اور عدل و انصاف کا بہترین نظام قائم کیا۔
2.
انتظامی تقسیم:
ریاست کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر صوبے میں گورنر مقرر کیے۔
3.
بیت المال کا قیام:
عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مستقل خزانہ قائم کیا۔
4.
فوجی نظام:
فوجیوں کے وظائف مقرر کیے اور منظم فوجی چھاؤنیاں بنوائیں۔
5.
ہجری کیلنڈر کا آغاز:
اسلامی تاریخ کو باضابطہ طور پر ہجری کیلنڈر کے تحت ترتیب دیا۔
6.
پولیس نظام:
آپ نے امن و امان کے قیام کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا۔
اوليات فاروقي رضى الله عنه:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت (13-23 ہجری)
اسلامی تاریخ میں ایک سنہری دور مانا جاتا ہے۔ انہوں نے انتظامی اور عسکری سطح پر
ایسی اصلاحات متعارف کروائیں، جو آج بھی جدید حکومتی و عسکری نظاموں میں نظر آتی
ہیں۔ ان کی چند نمایاں "اولیات" درج ذیل ہیں:
انتظامی
اصلاحات:
1. بیت المال (خزانہ) کا قیام
حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے اسلامی ریاست میں "بیت
المال" کا باقاعدہ نظام قائم کیا، جہاں زکوة، جزیہ، خراج، اور دیگر محاصل جمع
کیے جاتے اور ریاستی اخراجات و عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جاتے۔
2. مردم
شماری اور رجسٹریشن کا آغاز
انہوں نے پہلی بار اسلامی ریاست میں مردم شماری (Census)
اور فوجی و شہری رجسٹریشن کا نظام متعارف کرایا، تاکہ لوگوں کی
ضروریات اور وسائل کو منظم طریقے سے تقسیم کیا جا سکے۔
پھر انهي مردم شماري كے مطابق رياست كے باشندگان كو وظائف ديئے
جاتے تھے۔
3. پولیس فورس اور محکمہ احتساب کا قیام
انہوں نے ریاست میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے پہلی بار
باقاعدہ پولیس فورس شرطه اور (محکمہ حسبہ)
اور احتساب کا نظام متعارف کروایا، تاکہ بدعنوانی اور ناانصافی کا خاتمہ کیا جا
سکے۔ ان كے اس اقدام سے رياست ميں امن و
امان برقرار ركھنے ميں بهت مدد ملي۔
4. عدالتی نظام اور قاضیوں کی تقرری
حضرت عمرؓ نے پہلی مرتبہ عدالتوں کو انتظامیہ سے الگ کر کے ایک
علیحدہ عدالتی نظام تشکیل دیا اور قاضیوں (ججوں) کی تقرری کی، جو مکمل خودمختار
ہوتے تھے۔ اور قاضيوں كے لئے باقاعده
مشاهرے مقرر كئے گئے۔
5. ڈاک اور مواصلاتی نظام
انہوں نے اسلامی ریاست كے طول و عرض میں پہلا باقاعدہ ڈاک کا نظام قائم کیا، جہاں
قاصدوں (پیغام رساں) کو باقاعدہ گھوڑے اور اونٹ دیے گئے تاکہ ریاست کے مختلف
علاقوں میں اطلاعات بروقت پہنچ سکیں۔ اس زمانے كے لحاظ سے انهوں نے بهت هي تيز ترين ڈاك
كا نظام متعارف كرايا۔
6. جیلوں کا قیام
حضرت عمرؓ نے پہلی بار اسلامی ریاست میں قید خانوں (جیل) کا
تصور متعارف کرایا اور مجرموں کو سزا دینے کا منظم نظام قائم کیا۔
7. تنخواہ دار فوجی نظام
انہوں نے فوجی نظام کو منظم کرتے ہوئے پہلی بار فوجیوں کے لیے
مستقل تنخواہ مقرر کی اور ان کے لیے تربیت گاہیں بنائیں۔ اس سے
پهلے جو عسكري نظام تھا اس ميں فوجي يا سپاهي سب رضا كارانه طور پر خدمات انجام
ديتے تھے اور ان كو مال غنيمت ميں سے هي ادائيگي كي جاتي تھي باقاعده طور پر تنخواهيں
نهيں دي جاتي تھي۔
فوج ميں جو هر چار ماه بعد بيس دن كي چھٹي دي جاتي هے وه بھي
حضرت عمر رضي الله عنه كا جاري كرده نظام كا حصه هے۔
8. زراعت اور نہری نظام کی ترقی
انہوں نے کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے زمینوں کی پیمائش
کروائی، نئے زرعی قوانین بنائے اور نہری نظام (Irrigation
System) کو ترقی دی، جس سے معیشت کو استحکام ملا۔ تاريخ ميں پهلي بار زمين كي بندوبستي كا نظام
قائم كيا۔
اسي طرح زمين كو آباد كرنے كے لئے سركاري زميں كاشت كرنےوالوں كو
استعمال كے لئے ليز پر دينے كا نظام متعارف كرايا۔
9. اسلامی تقویم (ہجری کیلنڈر) کا اجراحضرت
عمرؓ نے سب سے پہلے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا، جو ہجرتِ نبوی کے سال سے شروع کیا
گیا اور آج بھی مسلم دنیا میں رائج ہے۔
عسکری اصلاحات:
10. باقاعدہ فوجی چھاؤنیاں (Garrisons)
کا قیام
انہوں نے فوج کو منظم کرنے کے لیے اسلامی ریاست میں مختلف
مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، جن میں کوفہ، بصرہ، دمشق، اور فسطاط (مصر) شامل
ہیں۔
11. فوجی لباس اور شناختی نظام
حضرت عمرؓ نے پہلی بار فوجیوں کے لیے خاص لباس اور شناختی
علامتیں متعارف کروائیں، تاکہ میدانِ جنگ میں دوست اور دشمن کی پہچان ہو سکے۔
12. سرحدوں پر فوج کی مستقل تعیناتی
انہوں نے ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پہلی بار فوجی دستے
مستقل طور پر تعینات کیے، تاکہ دشمن کے ممکنہ حملوں کو روکا جا سکے۔
13. بحری فوج (Navy) کی
بنیاد
بحري بيڑه اگرچه آپ رضي نے جاري نهيں كيا مگر اسلامی تاریخ میں
پہلی مرتبہ بحری فوج کی تیاری کا آغاز حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا، جسے بعد میں حضرت
عثمانؓ نے مزید ترقی دی۔ اور حضرت معاويه
نے اس كو باقاعده لاؤنچ كيا۔
14. جنگی حکمت عملی اور جاسوسی نظام
حضرت عمرؓ نے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے باقاعدہ
جاسوسی کا نظام قائم کیا اور فوج کو جنگی حکمت عملی اور صف بندی میں مہارت
دی۔
15. جزیہ اور خراج کا نظام
انہوں نے مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلموں پر جزیہ اور خراج نافذ
کیا، جو بعد میں اسلامی ریاست کی معیشت کا اہم ستون بن گیا۔ اسي
طرح غير مسلم تاجروں پر كسٹم كي مد ميں دس فيصد ٹيكس لاگو كيا جسے "عشور"
كها جاتا تھا۔
دیگر نمایاں اقدامات:
16. عام شہریوں کے لیے وظائف کا نظام
انہوں نے بیواؤں، یتیموں، معذوروں، اور بے سہارا افراد کے لیے
پہلی بار ریاستی سطح پر وظائف مقرر کیے، جو آج کے سوشل ویلفیئر سسٹم (Social
Welfare System) کی بنیاد سمجھے جا سکتے ہیں۔
يه وظائف اسلامي رياست كے مسلم شهريوں كے ساتھ غير مسلم شهريوں
كو بھي دئيے جاتے تھے اگر وه بيمار يا معذور هوں۔
17. راتوں کو گشت کا نظام
حضرت عمرؓ راتوں کو خود گشت کرتے تاکہ عوام کے حالات کا جائزہ
لے سکیں اور حکام کی غفلت کو بے نقاب کر سکیں۔
18. مساجد اور تعلیمی ادارے
انہوں نے مختلف شہروں میں مساجد اور تعلیمی مراکز قائم کیے،
جہاں دین کے ساتھ ساتھ انتظامی اور عسکری تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
19. رعایا کے ساتھ مشاورت کا نظام
انہوں نے شوریٰ (کونسل) کا باقاعدہ نظام قائم کیا، جہاں ریاست
کے بڑے فیصلے صحابہ کرام کی مشاورت سے کیے جاتے تھے۔
20. انصاف پسندی اور مساوات
حضرت عمرؓ کی سب سے بڑی خوبی ان کا عدل و انصاف تھا۔ ان کے
دربار میں امیر اور غریب سب کے لیے یکساں قانون تھا، اور وہ خود کو بھی اس قانون
کے تابع سمجھتے تھے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے یہ اقدامات نہ صرف اسلامی
تاریخ میں انقلاب لے کر آئے، بلکہ آج بھی دنیا کے جدید حکومتی، عسکری، اور عدالتی
نظاموں میں ان کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا دورِ خلافت عدل، نظم و نسق، اور
بہترین حکمرانی کی ایک بے مثال مثال ہے۔(تفصيلات كے لئے الفاروق وغيره كا مطالعه
كريں)
عسکری فتوحات:
حضرت عمرؓ کے دور میں
اسلام کو بے پناہ فتوحات نصیب ہوئیں:
1.
روم اور فارس کی
فتوحات: یرموک کی جنگ (636ء) میں رومی سلطنت کو شکست دی گئی۔
2.
قادسیہ اور نہاوند کی
جنگیں: ان جنگوں میں ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور فارس (ایران)
اسلامی خلافت کے زیر سایہ آ گیا۔
3.
بیت المقدس کی فتح:
حضرت عمرؓ خود بیت المقدس گئے اور پرامن طریقے سے شہر کی چابیاں وصول کیں۔
4.
مصر کی فتح:
حضرت عمرو بن العاصؓ کی قیادت میں مصر فتح ہوا۔
(تفصيلات
كے لئے ديكھئے تاریخ طبری: جلد 3، البدایہ والنہایہ: جلد 7)
حضرت عمرؓ کی سادگی اور عدل:
حضرت عمرؓ انتہائی
سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ عام لوگوں کی طرح لباس پہنتے، راتوں کو گشت کرتے اور
رعایا کی ضرورتوں کا خیال رکھتے۔ آپ کے عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں،
جن میں ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت نے کہا: "عمر! خدا سے ڈرو"
تو آپ رو پڑے اور فرمایا: "اگر عمر کو اس کی رعایا نے نہ ٹوکا تو
وہ ہلاک ہو جائے گا۔" (کنز العمال: 35327)
شہادت:
23 ہجری میں ایک فارسی
غلام ابو لؤلؤ فیروز نے فجر کی نماز کے دوران خنجر سے حملہ کر دیا۔ تین دن بعد یکم
محرم 24 ہجری کو آپ کی شهادت ہوئی۔ آپ کی تدفین حضرت عائشه رضي الله عنها سےاجازت
لينے كے بعد حجره عائشه ميں نبی کریم ﷺ
اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں کی گئی۔
خلاصه:
حضرت عمر بن الخطابؓ
کی زندگی قیادت، عدل، فتوحات اور اسلامی نظام کے بہترین عملی نمونے کی حیثیت رکھتی
ہے۔ آپ کی خلافت کے اصول آج بھی ایک مثالی حکمرانی کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔