اسلام میں تفرقہ بازی کی ممانعت
قرآن كريم ميں الله تعالى نے امت كو متحد و متفق رهنے اور حبل الله كو سب مل كر تھامنے اور گروه بندي سے اجتناب كرنے كي تاكيد فرمائي هے- آیات و احادیث اس بارے میں ہیں کہ مسلمانوں کو متحد و متفق رہنا چاہئے آپس میں انتشار و افتراق سے اجتناب کرنا چاہئے قرآن کریم نے تفرقہ بازی’ سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ڈرایا بھی ہے-ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿وَلاتَكونُوا
كَالَّذِيْنَ تَفَرّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ تْهُمُ الْبَيّنَاتِ اُولَئِكَ
لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ﴾
(آل عمران :۱۰۵)
‘‘ان لوگوں
کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے واضح دلائل آجانے کے بعد تفرقہ کیا اور اختلاف میں
پڑگئے ان کے لئے بڑا ہی عذاب ہے’’-
امام ابن کثیر اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
ينهى
الله تبارك و تعالى هذا الامة ان يكونوا كالامم السابقة في افتراقهم و اختلافهم
وتركهم الا مر بالمعروف و النهي عن المنكر مع قيام الحجة عليهم
(تفسير ابن كثير متعلقه آيت ص:۱/۳۹۰)
یعنی‘‘ اللہ
تعالیٰ اس امت کو گذشتہ امتوں کی طرح افتراق و اختلاف کرنے اور امربالمعروف د نہی
المنکر عن کو ترک کرنے سے منع کردیا ہے’’-
کیونکہ افتراق اور انتشار امت کی بربادی اور
ہلاکت کے لئے ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ امت کی ترقی اور تقدم کے لئے زہر
ہلاہل کی طرح ہے- اور جو چیز امت کے لئے نقصان دہ ہو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو اس
سے منع کرتا ہے کیونکہ وہ حکیم مطلق ہے اسے انسانوں کی فلاح و بہبود کی انسان سے
زیادہ اور مکمل ادراک ہے- امام ابن کثیر نے اس آیت کی توضیح میں جو فرمایا ہے اس
سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں کی ہلاکت و بربادی اور گمراہی کے
اسباب میں سے آپس میں اختلاف کرنا ’ افتراق اور گروہ بندی کا شکار ہونا ’ تفرقہ
بازی کرنا’ امربالمعروف کے فریضہ کو انجام نہ دینا نیز نہی عن المنکر سے بھی غفلت
برتنا ہے- اور اس امت کو اللہ تعالیٰ مخاطب کرکے فرما رہے ہیں کہ سابقہ امتوں کی
طرح اتمام حجت و براہین کے تم بھی ان کی روش اختیار نہ کرنا ورنہ تمہار ا انجام
بھی ان کی طرح ہوجائے گا-
مسلم قوم آج
کل جس طر ح متفرق و متشتت ہے اس سے غیروں کو فائدہ ہورہا ہے وہ مسلمانوں کے افتراق
و انتشار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- اگر یہ قوم متحد ہوکر غیرمسلم اقوام کا مقابلہ
کرے تو مسلمان آج کل جس ظلم و ستم کا تختہ مشق بنا ہوا ہے ایسا ہرگز نہ ہو- ہم تو
آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنائے بیٹھے ہیں- اور ہر فرقہ دوسرے فرقے پر لعن
طعن کرنے اور کفر و الحاد کا فتویٰ لگانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں جب کہ غیرمسلم
قوتیں ہماری اس تفرقہ بازی اور اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو مزید
گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور جہاں مذہبی فرقہ
واریت نہیں وہاں لسانی ’ علاقائی اور قومی تعصبات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں- علامہ
اقبال مرحوم نے بہت پہلے مسلم امت کی اس بیماری کا ادراک کرکے کہا تھا -
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اسلام وحدت
اور یکجہتی کا داعی ہے- افتراق و انتشار سے اسلام نے ہمیشہ منع کیا ہے- مسلمانان
عالم کے لئے ایک رہنما اصول یہ وضع کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر
کہیں کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرو- اور مسلمانوں
کو حتیٰ الوسع اختلاف و انتشار سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے- اور ذات ’ برادری’
قومیت’ علاقائیت’ لسانیت سب کو مٹا کر اسلام نے ان تعصبات کے سارے بتوں کو قدموں
تلے روند دیا- نبی آخرالزماں ہادی برحق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجۃالوداع
کے خطبہ میں جہاں انسانیت کے لئے اور بھی بہت سے رہنما اصول بتلائے وہاں یہ بھی
فرمایا-
"لا
فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا لاحمر على اسود ولا لاسود على احمر الا
بالتقوى." (مسند احمد حدیث نمبر23489)
یعنی‘‘ کسی عربی کو عجمی (غیرعربی) پر کوئی فوقیت نہیں اسی طرح
نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر فوقیت ہے اور نہ کسی گورے کو کالے پر نہ کسی کالے کو
گورے پر فوقیت حاصل ہے- ہاں فوقیت حاصل ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر’’-
اگر تقویٰ نہیں تو کو ئی فضیلت نہیں’ خواہ
چودھری کا بیٹا ہو یا وڈیرے کا’ خواہ کالا ہو یا گورا’ اسلام کا نظام ہی ایسا ہے
کہ اس میں ذات پات’ علاقائیت’ یا رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کو کوئی فوقیت حاصل
نہیں- اسی لئے علامہ اقبال فرماتے ہیں-
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
حدیث شریف میں تفرقہ بندی کی مذمت:-
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر
مسلمانوں کو متحد رہنے اور اختلافات و انتشار سے اجتناب کرنے کی تلقین کی ہے اور
قرآن کے شارح نبی کریم ﷺ نے بھی متعدد بار احادیث میں اپنی امت کو ایسے اصول اور
قواعد بتلائے ہیں جن کے ذریعے امت اپنے آپ کو انتشار و افتراق سے بچاسکتی ہے- ان
میں سے کچھ درج ذیل ہیں-
رسول کریم ﷺ نے فرمایا-
من
اتاكم و امركم جميع على رجل يريدان يشق عصاكم وان يفرق جماعتكم فاقتلوه.
(مسلم کتاب الامارۃ باب حکم من فرق امرالمسلمین و ھو مجتمع حديث نمبر 1852)
یعنی- ‘‘جو شخص تمہارے پاس آئے اور تم سب ایک شخص کے اوپر جمے
ہو اور وہ شخص تم میں پھوٹ ڈالنا اور جدائی ڈالنا چاہے تو اس کو مار ڈالو’’۔
دوسری روایت میں فرمایا:-
انه
ستكون هنات و هنات فمن اراد ان يفرق امرهذه الامة وهي جميع فاضربوه بالسيف كائنا
من كان. (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب حکم من فرق امر
المسلمین و ھو مجتمع حديث نمبر 1852)
یعنی- ‘‘ عنقریب فتنے اور فساد ہوں گے پس جو کوئی اس امت کے
اتفاق کو بگاڑنا چاہے اس کو تلوار سے مارا جائے جو کوئی بھی ہو’’-
مذکورہ بالا
دونوں حدیثوں میں نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو انتشار و افتراق سے ڈرایا ہے اور امت
میں انتشار پھیلانے والے کے لئے سخت ترین سزا ‘‘ قتل’’ تجویز فرمائی ہے تاکہ کوئی
شخص امت کے اندر انتشار پیدا نہ کرے - امت کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنا ایک
قومی جرم ہے بلکہ امت مسلمہ کے اندر انتشار و افتراق پیدا کرکے امت مسلمہ کی
اجتماعیت کو نقصان پہنچانے والا پوری امت مسلمہ کا مجرم ہے وہ اس حدیث کے بموجب
قابل گردن زدنی ہے-
حضرت موسیٰ
علیہ السلام جب کوہ طور پر چلے گئے تو آپ کے پیچھے آپ کی قوم سامری جادو گر کے
بہکاوے میں آکر گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئی- اور جب آپ واپس آئے تو حضرت موسیٰ
نے حضرت ہارون علیہ السلام سے اس بات پر سرزنش کی اور کہا کہ
﴿ قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَأَيْتَهُمْ
ضَلُّوا- اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِي قَالَ يَبْنَؤُمَّ لا تَاْخُذْ
بِلِحْيَتِي وَلا بِرَاْسِي اِنِّي خَشِيْتُ اَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي
اِسْرَائِيْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ﴾(
طہٰ :۹۲۔ ۹۴)
موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتا ہوا
دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا : کیا تو بھی میرے
فرمان (حکم) کا نافرمان بن بیٹھا؟ ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے
بھائی ! میری داڑھی نہ پکڑ’ اور سر کے بال نہ کھینچ ’ مجھے تو صرف یہ خیال دامن
گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور
میری بات کا انتظار نہ کیا-
حضرت ہارون علیہ السلام نے قوم کو ان کی
بداعمالیوں کی بناء پر چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملنے کے لئے حضرت موسیٰ
کے پیچھے نہ جانے کی وجہ قوم میں تفرقہ بازی کو روکنا بتایا ہے اسی سے بعض لوگوں
نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کی اتحاد و اتفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل
چیزوں کو بھی برداشت کرلینی چاہئے مگر یاد رہے کہ اگرچہ حضرت ہارون علیہ السلام نے
معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ کہیں بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا ہوجائے مگر اس سے یہ
ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ آپ علیہ السلام نے خاموشی کے ساتھ شرک کو برداشت کیا
بلکہ آپ نے اپنے طور پر حتی المقدور کوشش تو کی مگر اس میں ناکام رہے - چنانچہ
سورہ اعراف میں آپ کا قول یوں نقل کیا گیا ہے:-
﴿قَالَ يَا ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي
وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلا تُشْمِتْ بِيَ الاَعْدَاءَ وَلا تَجْعَلْنِي مَعَ
الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ﴾
(الاعراف :۱۵۰)-
ترجمہ - ہارون (علیہ اسلام) نے کہا اے میرے ماں جائے! قوم نے
مجھ کو کمزور خیال کیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر دشمنوں
کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو-
صاحب تفسیر
احسن البیان لکھتے ہیں:
"جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ
السلام نے اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھانے اور گوسالہ پرستی سے
روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ
خانہ جنگی شروع ہوجائے کیونکہ ہارون علیہ السلام کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں
اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں
میں بٹ جاتے …… اس لئے یہ استدلال صحیح نہیں( جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ
مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کرلینا
چاہئے- کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ
مطلب ہے"-
اتحاد امت کے
لئے ضروری ہے جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ اتحاد کا فارمولا ‘‘قرآن و حدیث’’ اور
نصوص شرعیہ ہو غیرشرعی اصولوں کے
مطابق اتحاد نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے-
ایک اور حدیث
میں آپ ﷺ نے جماعت سے الگ ہونے اور عصبیت کی دعوت دینے والے کو اپنی امت سے ہی
خارج قراردیا ہے- چنانچہ مسلم شریف میں ہے-
عن
ابي هريرة رضر الله عنه عن النبيﷺ قال من خرج من الطاعة و
فارق الجماعة فمات مات ميتة جاهلية ومن قاتل تحت راية عمية، يغضب لعصبة، اويدعو الى
عصبة، او ينصر عصبة، فقتل فقتلة جاهلية، ومن خرج على امتي يضرب برها وفاجرها ولايتحاشي
من مؤمنها ولايفي لذي عهد عهده فليس مني ولست منه. (مسلم
کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمةجماعة المسلمين عند ظهور الفتن حديث نمبر1848)
یعنی- جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا جو شخص حاکم کی اطاعت سے باہر ہوجائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے پھر وہ
مرے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی اور جو شخص اندھے جھنڈے کے تلے لڑے’ (جس لڑائی
کی درستی شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو)’ قوم کے لئے (ناحق) ناراض اور غصہ ہوجائے ’
عصبیت کی دعوت دیتا ہو’ عصبیت کی مدد کرتا ہو’ اور پھر وہ اس میں مارا جائے تو اس
کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہوگا اور جو شخص میری امت پر دست درازی کرے
اور اچھے اور بروں کوان میں سے قتل کرے اور مؤمن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہو
اس کا عہد پورا نہ کرے تو وہ مجھ سے علاقہ نہیں رکھتا اور میں اس سے کچھ تعلق نہیں
رکھتا’’ (یعنی وہ مسلما ن نہیں ہے)-
اس حدیث شریف
میں بھی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والے’ اسلامی وحدت کو نقصان پہنچانے
والے’ اخلاقی اور شرعی حکمران کی اطاعت سے نکل جانے والے اور تعصب کی وجہ سے قوم
پرستی کرنے والے’ تعصب کی طرف دعوت دینے والے اور تعصب کی بناء پر ا پنی قوم کے
ناجائز کاموں میں مدد کرنے والے کے لئے سخت وعید سنائی ہے کہ اس کا اللہ کے رسول ﷺ
سے کوئی تعلق اور ناطہ نہیں- کلمہ اسلام پڑھ لینے کے بعد اپنے آپ کو کسی خاص
علاقہ’ قوم’ زبان’ یا رنگ و نسل کے ساتھ خاص کرکے باقی ملت اسلامیہ سے ناطہ توڑ
لینا اس کی کج فہمی اور ناعاقبت اندیشی ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ مسلم قوم کافرد
بن گیا - اب دوسری قومیتیں علاقے’ زبان’ رنگ سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں- یہ صرف اس
کے تعارف کے لئے ہے ورنہ وہ ملت اسلامیہ کا فرد بن گیا ہے اب اس کے لے لازمی ہے کہ
وہ باقی تعصبات و قوميتوں کی طرف دعوت دینے کے بجائے ‘‘ مسلم قومیت’’ کے لئے کام
کرے-
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ ان درج بالا آیات
کریمہ اور احادیث نبوی ﷺ کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم قوم میں اختلاف و افتراق پیدا
کرنے کی سازشوں کو ناکام بنادیں اور آپس میں اتفاق اور اتحاد کے ساتھ رہیں اور
قومیت’ لسانیت’ علاقائیت’ کے تعصبات میں پڑنے کے بجائے وحدت اسلامی کے لئے کام
کریں-
شیخ الاسلام
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وهذا
الاصل العظيم وهوالا عتصام بحبل الله جميعا وعدم التفرق هو من اعظم اصول الاسلام
ومما عظمت وصية الله تعالى به في كتابه ومماعظم ذمه لمن تركه من اهل الكتاب وغيرهم
ومما عظمه النبيﷺفي مواطن عامة و خاصة"۔
اسلام کا یہ
سب سے بڑا اصول ہے کہ تمام مسلمان مل کر ‘‘حبل اللہ’’ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی
کے ساتھ تھامے رہیں اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کریں- اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں
اس کو اپنانے کے متعلق عظیم حکم دیا ہے اور اس (اجتماعیت) کے تارک کی بڑی مذمت کی
ہے خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا کوئی اور اور نبی کریم ﷺ نے بھی عام اور خاص ہر موقع
پر اس کی عظمت اور بڑائی بیان فرمائی ہے-
یعنی
اجتماعیت اور عدم تفرقہ بازی اسلام کے بڑے اصولوں میں سے ہے جس کا قرآن و حدیث
دونوں میں بڑی تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اگر ہم قرآن و حدیث کے اس ایک اصولو
‘‘عدم تفرقہ’’ کو اپنائیں تو مسلم دنیا کی بہت سی مشکلیں آسان ہوجائیں اور عالم
اسلام پر اغیار کا جو غلبہ اور اثرات ہیں وہ ختم ہوجائیں مسلم امہ کو جن معاشی و
معاشرتی مصائب و آلام کے باوجود مسلمان ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے یا نہیں کرپاتے
اس کی اصل وجہ ‘‘عدم اتفاق’’ ہے مسلمانوں کے وسائل پر غیرقابض ہیں اور مسلم امہ
کسمپرسی کے عالم میں اغیار کے سامنے ہاتھ پھیلائے کشکول لئے نظر آتے ہیں- اگر ہم
آپس میں اتفاق و اتحاد کرلیں حقیقی طور پر مسلمان بن جائیں اور ایک دوسرے کے دکھ
درد میں شریک ہوجائیں رسول اکرم ﷺ کے اس قول کے مطابق کہ مؤمن مؤمن كے لئے عمارت
كي طرح هے جو ايك دوسرے كو مضبوطي كے ساتھ تھامےهوتا هےحديث ميں هے :
عن
ابي موسي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد
بعضه بعضا.ثم شبك بين اصابعه.(صحیح
بخاری کتاب الادب باب تعاون المؤمنین بعضھم بعضاً حديث نمبر6026)
حضرت ابو
موسى سے روايت هے كه نبى صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے
لئے اس طرح ہے جیسے عمارت کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تھامے رہتا ہے- (گرنے نہیں
دیتا) اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کی مثال بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو قینچی کرلیا
اور انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر پیوست کرکے بتایا اس طرح-
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے
اور یہ تعلق صرف اسلام پیدا کرتا ہے - اسلام نے ہی اپنے تمام ماننے والوں کو آپس
میں بھائی بھائی قرار دیا ہے- لہذا امر ضروری یہ ہے کہ بھائیوں کے درمیان اختلاف و
انتشار پیدا نہ ہو اور اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اس کو دور کرنے کے لئے اصل کسوٹی
‘‘ قرآن و حدیث’’ کی طرف رجوع کرلیا جائے- اس لئے کہ تمام مسلمانوں اور مؤمنین کے
لئے دنیا و آخرت دنوں کی بھلائی ہے-
منفعت ایک ہے اس قوم کی’ نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی’ دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی’ اللہ بھی’ قرآن بھی ایک