دکھاوا: اعمال کی بربادی کا سبب

1

 

دکھاوا: اعمال کی بربادی کا سبب

اسلامی تعلیمات میں انسان کے اعمال كي قبوليت کی بنیاد نیت اور اخلاص پر رکھی گئی ہے۔ اخلاص وہ حالت ہے جب انسان ہر عمل محض اللہ کی رضا کے لیے کرے، بغیر کسی دنیاوی منفعت یا شہرت کی خواہش کے۔ دکھاوا یا ریاکاری ایک ایسا مہلک عمل ہے جو نہ صرف اخلاص کو ختم کرتا ہے بلکہ انسان کے نیک اعمال کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔ 

دکھاوے کی تعریف: 

دکھاوا، جسے عربی میں "ریا" کہا جاتا ہے، کا مطلب ہے دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اپنے اعمال کو ظاہر کرنا۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان اپنی عبادات، صدقہ، یا دیگر نیک اعمال کو اس نیت سے انجام دیتا ہے کہ لوگ اسے تعریف یا سراہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فويل للمصلين .الذين هم في صلاتهم ساهون. الذين هم يراءون. ويمنعون الماعون.  (سورۃ الماعون: 4-7)

"پس ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنی نماز میں غفلت برتتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اوربرتنےكي چيزوں سے منع كرتے هيں". 

دکھاوے کی اقسام

1. عبادات میں دکھاوا:

 ديكھاوے كي ايك قسم يه هے كه انسان جو بھي عبادت كرتا هے اس ميں ريا كاري كرتا هے, نماز، روزہ، زکوٰۃ یا حج جیسے اعمال کو محض لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے انجام دینا۔ 

2. علم کا دکھاوا:

 دینی یا دنیاوی علم کو صرف اس لیے ظاہر کرنا کہ لوگ عالم سمجھیں، لوگ عزت كريں، ناموري هو، بڑے بڑے اشتهارات ميں بڑے بڑے حروف ميں ان كے نام لكھے جائيں، معاشرے ميں اس كي علميت كا چرچا هو، لوگ اس كو علامه فهامه، ڈاكٹر، مناظر عالم بے بدل جيسے القاب سے ياد كريں۔ 

3. اخلاقی اعمال میں دکھاوا:

 صدقہ، مہربانی، یا سماجی خدمات کو نمود و نمائش کے لیے انجام دینا۔  مثلا جو بھي خيراتي كام كرے اس كي تشهير كي جائے، اخبارات اور سوشل ميڈيا پر اس كي تصاوير لگائي جائيں، اور اپنے نام اور شهرت كے لئے تو بے دريغ خرچ كيا جائے مگر جهاں ناموري يا شهرت كي اميد نه هو تو وهاں ايك دھله بھي نه ديا جائے۔

اسي طرح بعض لوگ جب دوسروں سے ملتے هيں تو بهت هي با اخلاق نظر آنے كي كوشش كرتے هيں جبكه ان كے دل ميں بغض، كينه اور نفاق سے بھرا هوا هو۔

ریاکاری کے نقصانات 

 1. اعمال کی قبولیت کا خاتمہ: 

ریاکاری اللہ کے ہاں اعمال کو قابل قبول نہیں رہنے دیتی، ايك لمبي حديث ميں الله كے نبي كريم صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمايا كه تين قسم كے بڑے اعمال كرنے والوں كو ان كے عدم اخلاص اور ريا كاري اور نمود و نمائش كي وجه سے سارے اعمال برباد هو جائيں گے اور ان كو منه كے بل گھسيٹ كر جهنم ميں ڈالا جائے گا۔  اعمال كي قبوليت كا دار و مدار اخلاص نيت پر هے ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

انما الاعمال بالنيات وانما لكل امرئ ما نوى.  (صحیح بخاری باب كيف كان بدو الوحي حديث نمبر1)

"بے شک، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو". 

  دکھاوا (ریا کاری) شرک اصغر ہے اس سے انسان کی نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: 

"اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ، ان کے پاس اجر تلاش کرو جن کے لیے تم نے دنیا میں دکھاوا کیا تھا"۔  حدیث کے الفاظ ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ ". قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ ؟ قَالَ : " الرِّيَاءُ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ تُجَازَى الْعِبَادُ بِأَعْمَالِهِمُ : اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ بِأَعْمَالِكُمْ فِي الدُّنْيَا، فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً ؟ ".(مسند احمد حدیث نمبر 23636)

میں تمہارے لیے جس جیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ شرک اصغر کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری ۔ بندوں کو ان کے اعمال کی جزا دینے کے دن (قیامت کے دن) اللّٰہ تعالیٰ ان سے کہے گا دنیا میں جن لوگوں کو تم اپنے اعمال دکھاتے تھے ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کیا تم کو ان سے کوئی جزا ملتی ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے۔

" إِذَا جَمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ، نَادَى مُنَادٍ : مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ أَحَدًا، فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ ".(جامع ترمذی کتاب الزہد باب الریا و السمعۃحدیث نمبر 4203) 

 2. روحانی نقصان: 

ریاکاری انسان کے دل سے اللہ کی محبت اور قربت کو ختم کر دیتی ہے، انسان اللّٰہ تعالیٰ کے بجائے انسانوں کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ 

 3. معاشرتی نقصان  :

ریا کار شخص کا کردار معاشرتی اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لوگ اس پر بھروسہ نہیں کرتے اور معاشرے میں اخلاص اور محبت کا فقدان ہو جاتا ہے۔ 

 4. اخلاقی پستی  :

دکھاوا انسان کو منافقت کی طرف لے جاتا ہے، جس طرح منافق كے دو رخ هوتے هيں اسي طرح دكھاوا كرنے والا رياكار كے بھي دو رخ هوتے هيں اخلاقي طور پر ايسا شخص نفاق كا شكار هوتا هے ۔ يه شخص جب الله تعالى كے ساتھ مخلص نهيں هوتا تو لوگوں كے ساتھ كيسے مخلص هوگا، اور  ايسے منافقین کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے: 

ان المنافقين في الدرك الاسفل من النار.(سورۃ النساء: 145)

"بے شک منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے". 

دکھاوے سے بچنے کے طریقے 

 1. اخلاص کی تربیت: 

ہر عمل سے پہلے نیت کو درست کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ ہر دل کی حالت کو جانتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:

قل ان صلاتي و نسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين. (سورۃ الانعام: 162)

"کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے". 

 2. اعمال کو خفیہ رکھنا: 

نیک اعمال کو خفیہ رکھنے کی عادت ڈالیں تاکہ ریاکاری کا امکان کم ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 

"سب سے بہتر صدقہ وہ ہے جو دائیں ہاتھ سے دیا جائے اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو".

قیامت کے دن عرش کا سایہ پانے والے خوش نصیبوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ لوگ صدقہ اس طرح کرتے ہیں کہ ان کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ ان کے دائیں ہاتھ میں کیا خرچ کیا ہے۔

وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ،(صحیح بخاری: كتاب الزكاة باب الصدقة باليمين حدیث نمبر 1423) 

3. اللہ سے مدد طلب کرنا: 

ریاکاری شرک اصغر اور مخفی شرک ہے اس سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کریں، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے سکھایا: 

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ لما لا أعلم.(الادب المفرد للبخاري حديث نمبر 716.، صحیح الترغیب و الترہیب ص: ۱/ ۹ , صحيح الجامع الصغير حدیث نمبر 3731)

میں تیری پناہ چاہتا ہوں جانتے بوجھتے تیرے ساتھ شرک کرنے سے اور میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں وہ شرک سے جو میں نے انجانے میں کیا ہو.

اس دعا ميں "لما لا اعلم"  كےالفاظ سے مراد شرک خفی یعنی ریاکاری ہے۔

 4. آخرت کی یاد: 

ہمیشہ آخرت کی جوابدہی کو یاد رکھیں اور یہ سوچیں کہ دنیاوی تعریف اور شہرت عارضی ہے، جب کہ اللہ کا اجر دائمی ہے۔  اگر انسان اخروى زندگي كے حالات كو ياد ركھے اور يه خيال رهے كه انسان دنيا ميں جو بھي عمل كرتا هے اس كا جزا وه يوم آخرت ميں ضرور پاتا هے ، اس لئے اگر اپنے اعمال كو برباد هونے سے بچانا هے تو اس كے لئے ضروري هے كه "يوم الحساب " كو ياد ركھے اور اپنے اعمال كو برباد هونے سے بچائے۔

خلاصہ:

دکھاوا انسان کے نیک اعمال کو برباد کر دیتا ہے اور اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے۔ اخلاص اور عاجزی کے ساتھ زندگی گزارنے سے ہی ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے کریں اور دنیاوی شہرت یا تعریف کی خواہش سے گریز کریں۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں ریاکاری سے بچنے اور اخلاص کے ساتھ عبادات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں