حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالاتِ زندگی

1

 

 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالاتِ زندگی

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کی تاریخ کے ان عظیم المرتبت اور مقدس شخصیات میں سے ہیں جن کی زندگی ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ کا شمار نبی کریم ﷺ کے قریبی ترین ساتھیوں میں ہوتا ہے اور اسلام کے اولین خلیفہ کے طور پر آپ کی خدمات تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے درج ہیں۔ یہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔

نام و نسب :

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو تھا۔ آپ کا سلسلۂ نسب قریش کے قبیلہ تیم سے جا ملتا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر تھا، جنہیں "ام الخیر" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

ولادت:

  آپ کی ولادت عام الفیل کے دو سال اور چھ ماہ بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عيسوى كلينڈر كے مطابق آپ كى ولادت كا سال 573ء هے۔(ابن ہشام، سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 211)

قبوليت اسلام  اور تبليغ:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبي كريم صلى الله عليه و سلم كے بچپن كے دوست تھے اور جب آپ صلى الله عليه وسلم نے نبوت كا دعوى كيا اور آپ كے سامنے اسلام كو پيش كيا تو آپ نے دعوتِ اسلام کو بلا جھجک قبول کیا۔ آپ نبی کریم ﷺ کے قریبی دوست تھے اور آپ کی سچائی، دیانت داری، اور کردار سے بخوبی واقف تھے۔ آپ کے ذریعے کئی جلیل القدر صحابہ اسلام لائے، جن میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، جلد 3، صفحہ 30)

نبی کریم ﷺ کے ساتھ قربت:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔ آپ نے ہر مشکل وقت میں نبی ﷺ کا ساتھ دیا، چاہے وہ شعب ابی طالب کا بائیکاٹ ہو، طائف کا واقعہ ہو، یا ہجرت کا معاملہ۔ هجرت كے لئے سواري اور سامان سفر كا بندو بست آپ هي نے كيا تھا، هجرت مدينه ميں آپ ﷺكے هم ركاب هوئے اور  غارِ ثور میں آپ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ تین دن گزارے اور دشمنوں سے حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کیا۔ تمام غزوات ميں آپ ﷺكے شانه بشانه دشمنوں كے ساتھ جنگيں لڑيں اور كسي بھي قرباني دينے سے آپ نے كبھي بھي گريز نهيں كيا خواه مسجد نبوي كے لئے زمين كي خريداري هو يا جنگوں كے لئے سامان رسد كي فراهمي اور چنده كي فراهمي وغيره هر كام ميں آپ نے قرباني دي اور اسلام كے لئے اپنے تن من دھن كو قرباني كرنے سے كبھي پيچھے نهيں هٹا بلكه هميشه پيش پيش رهے۔

ايك حديث ميں هے كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:

ان من امن الناس على في صحبته و ماله ابا بكر و لو كنت متخذا خليلا غيرربي لاتخذت ابابكر و لكن اخوة الاسلام و مودته ، لا يبقين في المسجد باب الا سد الا باب ابي بكر , (ديكھئے  ، صحیح بخاری،كتاب فضائل اصحاب النبي باب قول النبي سدوا الابواب  الا باب ابي بكر حدیث نمبر 3654 ، صحیح مسلم،   كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق حدیث نمبر 2381)

بے شك لوگوں ميں سے جس نے مجھ پر اپني صحبت اور مال كے ضمن ميں سب سے زياده احسان كيا وه ابو بكر هے۔ اگر ميں اپنے رب كے علاوه كسي كو خليل بنانے والا هوتا تو ميں ابو بكر كو اپنا خليل بناتا، ليكن اس كے ساتھ اسلامي اخوت بھائي چاره اور مودت هے، مسجد كے اندر كي طرف جس كا بھي گھر كا دروازه هے سب كو بند كر ديا جائے سوائے ابو بكر كے۔

ايك اور حديث ميں فرمايا:

لو كنت متخذا خليلا لاتخذت ابا بكر خليلا و لكنه اخي و صاحبي و قد اتخذ الله عز و جل صاحبكم خليلا.(صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي الله عنه حديث نمبر 2383)

اگر ميں نے كسي كو خليل بنانا هوتا تو ميں ابو بكر كو خليل بناتا ، البته وه ميرا بھائي اور ساتھي هے، تمهارے ساتھي(آپ صلى الله عليه وسلم) كو الله عز و جل نے خليل بنايا هے۔

ايك اور روايت ميں هے كه ايك دفعه حضرت ابو بكر اور حضرت عمر كے درميان كسي بات پر تنازعه هوا ۔ پھر جب حضرت ابو بكر كو اس پر ندامت هوئي تو وه ان سے معافي مانگنے لگا مگر حضرت عمر نے معاف نهيں كيا  تو حضرت ابو بكر نبي كريم صلى الله عليه وسل كے پاس آ گئے اور ان سے اپنا ماجرا سنايا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كوئي بات نهيں الله تجھے معاف كردے گا۔پھر جب حضرت عمر كو بھي اس كا احساس هوا تو وه حضرت ابو بكر كے گھر گئے مگر ان كو وهاں نه پا كر رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس چلے آئے  تو  رسول الله صلى الله عليه وسلم كا چهره مبارك كا رنگ تبديل هوا اور آپ نے فرمايا:

ان الله بعثني اليكم فقلتم كذبت و قال ابو بكر صدق، و واساني بنفسه و ماله، فهل انتم تاركولي صاحبي؟ مرتين ..(صحيح بخاري كتاب فضائل اصحاب النبي حديث نمبر3661)

جب الله نے مجھے تمهاري طرف نبي بنا كر بھيجا تو تم نے كها كه تو جھوٹ بولتا هے جبكه ابو بكر نے كها يه سچا هے۔اور اس نے اپني جان اور مال كے ساتھ ميري مدد كي اور  مجھ پر ايثار كيا هے ، كيا تم لوگ ميرے ساتھي كو ميري خاطرچھوڑ دو گے؟ يه بات آپ نے دو مرتبه فرمائي۔

اخلاق و اوصاف:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت عاجزی، تقویٰ، سخاوت، اور دیانت داری کی اعلیٰ مثال تھی۔ آپ نے اسلام کی راہ میں اپنا سارا مال و متاع خرچ کر دیا۔ ايك موقع پر نبی کریم ﷺ نے پوچھا: "اے ابو بکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟" آپ نے جواب دیا: "میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے۔" حديث كے الفاظ يه هيں:

عمر بن الخطاب يقول: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نتصدق فوافق ذلك عندي مالا، فقلت: اليوم اسبق ابا بكر إن سبقته يوما، قال: فجئت بنصف مالي , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما ابقيت لاهلك؟ " , قلت: مثله، واتى ابو بكر بكل ما عنده، فقال: " يا ابا بكر ما ابقيت لاهلك؟ " , قال: ابقيت لهم الله ورسوله، قلت: والله لا اسبقه إلى شيء ابدا. ( جامع ترمذی،  ابواب المناقب باب مناقب ابي بكر و عمر رضى الله عنهما،حدیث نمبر 3675)

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میںکہا: اگر میں ابوبکر رضی الله عنہ سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر رضی الله عنہ وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا: ”ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟“ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے (اپنے جی میں)کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔

ابن عساکر نے ابو صالح سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر فاروق ایک نابینا بڑھيا کا جو مدینہ کے قریب و جوار میں رہتی تھی رات کو پانی بھر دیا کرتے تھے اور دوسرے تمام کام بھي کر دیا کرتے تھے اور اس کی پوری پوری خبر گیری کرتے تھے، ایک روز جب آپ اس کے یہاں تشریف لے گئے تو اس کے روز مرہ کے تمام کام نپٹے ہوئے پائے اور اور پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا کہ آپ کے پہنچنے سے پہلے اس کے تمام کام کوئی شخص کر جاتا تھا، اس بات سے آپ کو بہت حیرت ہوئی۔ آپ اس کے ٹوہ میں لگ گئے ایک دن دیکھ لیا کہ وہ ابو بکر صدیق ہیں اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آپ خلیفتہ الرسول تھے، آپ کو دیکھ کر عمر فاروق نے کہا اپنی جان کی قسم یہ آپ کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔( ابن عساكر،تاريخ دمشق 30/322)

اسي طرح آپ مجبور اور لاچار لوگوں كي هر وقت مدد كيا كرتے تھے، بهت كفار كے ظلم و ستم ميں پسنے والے صحابه كرام كو جو ان ظالموں كے هاتھ ميں غلامي كي زندگي گزار رهے تھے اور اس پر اسلام لانے كي وجه سے مزيد ظلم و ستم كا نشانه بنے هوئے تھے آپ رضي الله عنه نے ان كو ان ظالموں سے خريد كر آزاد كر ديا تھا مثلا حضرت بلال اور حضرت عامر بن فهيره وغيره۔

دورِ خلافت

انتخابِ خلافت:

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابه كرام ميں خلافت كےمعاملے پر اختلافات پيدا هوئے،  اور سب لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع هو گئے اور مهاجرين و انصار ميں پيدا هونے والے معاملے كا حضرت ابو بكر كو پته چلا تو آپ ان كے درميان اختلافات ختم كرنے كي غرض سے سقيفه بني ساعده ميں گئے اور لوگوں سے بات كي اور كها كه امير تو قريش ميں سے هي هونا چاهئے اس لئے كه عرب كے لوگ سوائےكسي قريشي كے كسي اور كي امارت كو قبول نه كريں گے،  لهذا تم عمر يا ابو عبيده جو آپ كے ساتھ گئے تھے ميں سے كسي ايك كي بيعت كرو، تو عمر رضي الله عنه نے كها كه هم ميں سب سے افضل اور نبي كريم كے سب سے زياده قريبي ساتھي آپ هيں لهذا هم آپ هي كو اپنا امير بناتے هيں ، اس پر وهاں موجود تمام لوگوں نے اتفاق كيا يوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو متفقہ طور پر مسلمانوں کا پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی خلافت کا عرصہ 2 سال، 3 ماہ، اور 11 دن پر محیط رہا۔

آپ كے عهد ميں اٹھنے والے فتنے اور  مشكلات اور ان كا تدارك:

حضرت ابوبكر رضى الله عنه نے جب مسند خلافت سنبھالا تو آپ كو بهت سي مشكلات كا سامنا كرنا پڑا جن آپ نے بهترين انداز ميں نبٹ ليا اور ان ابتدائي ايام ميں اسلام كے خلاف اٹھنے والے فتنوں كا قلع قمع كر ليا۔

ارتداد کی تحریکوں کا خاتمہ:

آپ نے مرتدین ، منكرين زكواة  اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں، جن میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگِ یمامہ قابلِ ذکر ہے۔

مدعيان نبوت كا ظهور اور ا ن كا خاتمه:

حضرت ابوبكر صديق رضى الله عنه كےعهد خلافت كےايام ميں بهت سے فتنوں نے سر اٹھايا ان ميں سے ايك فتنه جھوٹے مدعيان نبوت كا فتنه تھا۔ان ميں سے چند ايك كے احوال اختصار كے ساتھ بيان كيا جاتا هے۔

1. مسیلمہ کذاب:  

   مسیلمہ كا پورا نام مسيلمه بن حبيب تھا ، اس  کا  تعلق بھی یمن سے تھا۔ یمن کے قبیلہ بنو حنیفہ سے اس کا تعلق تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، جسے خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ختم کیا۔ یمامہ کے مقام پر ایک سخت معرکہ ہوا مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربانا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں مسیلمہ كو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان ہوچکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مار كر زخمي كر ديا  جسے ایک انصاری صحابیؓ نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا اور یوں يه جھوٹا نبی بھی نشان عبرت بن گیا۔

2. طلیحہ اسدی

طلیحہ بن خويلد اسدي ، بنو اسد سے ان كا تعلق تھا ، اس نے بھي سنه 11 هجري ميں نبوت كا دعوى كيا تھا،   حضرت ابو بكر كے دور ميں حضرت ابو بكر نے حضرت خالد بن وليد كو اس سے مقابلے كے لئے بھيجا ۔ طلیحہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے مقابلے میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا جہاں کچھ عرصہ بعد دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ 

3. سجاح بنت حارث

سجاج بنت حارث كاتعلق قبيله بنو تميم سے تھا۔یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی۔  مذہباً عیسائی تھی ۔ جیسے ہی اس نے رسول كريم  ﷺ کے وفات کی خبر سنی تو دعویٰ نبوت کردیا چونکہ وہ بہت چرب زبان تھی  لہٰذا اس نے بہت جلد بنی تغلب اور بنی تمیم کے بڑے بڑے سرداروں کو اپنا ہم نوا بنالیا، مالک بن ہبیرہ، حنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے سردار بھی سجاح کی سحر بیانی سے مرعوب ہوکر مرتد ہوگئے۔

  سجاح كي مكاري اور دعوى نبوت كي خبر سن كر حضرت صدیق اکبرؓ نے ایک لشکر سجاح بنت حارث کی سرکوبی کے لیے بھی روانہ کردیا تھا۔مگر جب يه سنا كه اس نے اپنے تمام معتقدین سرداروں کو بلاکر یمن پر حملے کی تیاری کا حکم دیا ۔  تو مسلم لشكر رك گيا ۔ادھر مسیلمہ کذاب کو جب سجاح کے حملے کی خبر ملی تو وہ سخت پریشان ہوا  اور  اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھانس لیا اور دونوں نے 3دن تک مسیلمہ کذاب کے خیمے میں اپنی اپنی نبوت پر بحث ومباحث کے دوران داد وعیش کے دن گزارنے کے بعد نکاح کرلیا۔ جب 3روز بعد سجاح نے اپنے معتقدین کو مسیلمہ کذاب کے نبی برحق ہونے اور نکاح کی خبر سنائی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہوکر الگ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی اور خاموشی سے قبیله بنی تغلب میں زندگی گزارنی شروع کردی، جب حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کرلیا، سجاح بن حارث بھی ان کے ساتھ یہاں آباد ہوگئی اور توبہ استغفار کرکے دوبارہ مسلمان ہوگئیں۔

مانعين زكواة كے خلاف كاروائي:

حضرت ابو بكر كے زمانے ميں اٹھنے والے فتنوں ميں سے ايك فتنه انكار زكواة كا بھي تھا۔ سرحدي علاقوں ميں بسے والے بعض قبائل كے لوگ زكواة كو ٹيكس قرار دے كر اس كي ادائيگي سے انكار كرنے لگے۔ اس كے پيچھے منافقين اور ديگر غير مسلم اقوام كي سازشيں كار فرما تھيں ، وه لوگ مسلمانوں كے اندر انتشار پيدا كرنے اور مسلمانوں كو كمزور كرنے كے لئے مسلمانوں كے شكوك و شبهات پيدا كرنے كے ساتھ بعض اسلامي تعليمات پر بھي اعتراضات كرتے تاكه ساده لوح مسلمان اسلامي اصولوں سے انحراف كريں ۔ جب دشمن كي ان سازشوں كا حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه كو علم هوا تو انهوں نے ايسے لوگوں كے ساتھ سختي كے ساتھ نمٹ لينے كا فيصله كيا اور ان كے خلاف جهاد كا اعلان كيا۔ بعض صحابه نے اس پر اپنے تحفظات كا اظهار بھي كيا كه وه لوگ كلمه پڑھتے هيں، ايك كلمه گو مسلمان كو كيوں كر قتل كيا جا سكتا هے مگر آپ نے يه دليل دي كه جو اسلام كے اركان ميں سے نماز اور زكواة كي فرضيت ميں فرق كرے گا ميں اس كو اسلام كے دائره سے خارج سمجھتا هوں۔ پھر انهوں نے يه بتايا كه جهاں كلمه گو مسلمان كے حقوق كا ذكر هے وهيں يه بھي هے كه "اسلام كا كوئي حق پا ئمال هو رها هو تو اس كے ساتھ قتال كرنا اسلام كا حكم هے۔"  حديث كے الفاظ هيں:

امرت ان اقاتل الناس حتي يشهدوا ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله و يقيموا الصلاة و يؤتوا الزكوة  فاذا فعلوا ذلك عصموا  مني دمائهم و اموالهم الا بحق الاسلام و حسابهم على الله.(صحيح البخاري ، كتاب الايمان باب فان تابوا و اقاموا الصلاة حديث نمبر25 ، صحيح مسلم كتاب الايمان باب الامر بقتال الناس حتى يقولوا الشهادتين حديث نمبر 22)

مجھے لوگوں كے ساتھ اس وقت تك قتال كرنے كا حكم هے جب تك وه يه شهادت نه ديں كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور محمد الله كے رسول هيں، اور نماز قائم كريں اور زكواة ادا كريں ، جب لوگ يه كام كر نے لگ جائيں تو انهوں نے مجھ سے اپنا خون اور مال بچا ليا مگر اسلام كے كسي حق كي وجه سے، اور ان كا حساب الله پر هے۔

اور حضرت ابو بكر نے كها كه زكواة بھي اسلام كا حق هے،اس لئے ان سے قتال كروں گا۔(ابن حجر عسقلاني ،فتح الباري شرح البخاري متعلقه حديث)

صحيح بخاري ميں هے:

ان ابا هريرة رضى الله عنه قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم و كا ابو بكر رضى الله عنه  و كفر من كفر من العرب، فقال  عمر رضى الله عنه كيف تقاتل الناس و قد قال رسول الله صلي الله عليه و سلم و قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا لا اله الا الله فمن قالها فقد عصم منى ماله و نفسه الا بحقه و حسابه على الله. فقال:  والله لاقاتلن من فرق بين الصلاة و الزكوة فان الزكوة حق المال و الله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها الى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها. قال عمر رضى الله عنه: فوالله ما هوالا ان قد شرح الله صدر ابي بكر رضى الله عنه فعرفت انه الحق.(صحيح البخاري كتاب الزكوة باب وجوب الزكوة حديث نمبر 1399-1400)

ابو هريره رضى الله عنه كهتے هيں كه جب رسول الله صلى الله عليه وسلم وفات پا گئے اور ابو بكر خليفه بن گئے تو عرب ميں سے كچھ لوگوں نے كفر كيا (مرتد هوگئے تو حضرت ابو بكرنے ان سے قتال كرنے كا فيصله كياتو ) عمر نے كها آپ لوگوں سے كيسے قتال كريں گے جب  كه رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمايا هے كه مجھے اس وقت تك لوگوں سے قتال كرنے كا حكم ديا گيا هے جب تك وه لوگ لا اله الا الله نه كهيں، پھر جس نے يه كها اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپني جان كو بچا ليا الا اسلام كے كسي حق كي بنا پر، اور اس كا حساب الله پر هے۔آپ نے كها ميں اس سے ضرور قتا ل كروں گا جو نماز اور زكوة كے درميان فرق كرتا هے، بے شك زكوة مال كا حق هے ، الله كي قسم اگر يه لوگ  مجھ سے ايك بكري كا بچه بھي روك لے جو وه رسول الله كے زمانے ميں ادا كرتے تھے تو ميں ان سے اس كے روكنے پر قتال كروں گا۔عمر رضى الله عنه كهتے هيں كه الله كي قسم الله تعالى نے ابو بكر كے سينے كو كھول ديا تھا پس ميں نے يه جان ليا كه يهي برحق هے۔

حضرت ابو بكر نے ان كے خلاف كاروائي كر كے اسلام كے ايك اهم فريضه اور ركن اسلام كو ختم اور معطل هونے سے بچايا۔ اگر اس وقت آپ رضي الله عنه سستي دكھاتے اور ان كے خلاف تاديتي كاروائي نه كرتے تو شايد آج زكواة دينے والا كوئي نه هوتا۔

قرآن کریم کی تدوین:

جنگِ یمامہ کے دوران کئی حفاظِ قرآن شہید ہوئے، جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں قرآن کریم کو جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ اس سے قبل قرآن كريم اگرچه مكتوب(تحريري)  شكل ميں موجود تھا مگر صفحه وار كتابي شكل ميں مرتب نهيں هوا تھا، اس كو كتابي شكل ميں لانا الله كا منشا تھا اسي لئے يه كام باقاعده طور پر سركاري سطح پر انجام ديا گيا اور صحابه كرام ميں سے بهت سوں نے اس كام ميں حصه ليا اور ايك سال كے عرصے ميں قرآن مجيد كو ترتيب توقيفي كے مطابق مرتب كر كے كتابي شكل دي گئي۔

فوجی مہمات اور اسلامي مملكت ميں توسيع:

آپ کے دور میں اسلامي فتوحات كا دائره وسيع هوتا گيا اور فوجي مهمات ميں الله تعالى نے مسلمانوں كو كاميابياں عطا فرمائي يوں عراق اور شام کے محاذ پر اسلامی افواج نے فتوحات حاصل کیں ۔ مثلا سنه 12 هجري ماه محرم ميں جنگ يمامه سے فارغ هونے كے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  كو ايله عراق كي طرف بھيجا وهاں كے لوگوں كے ساتھ مصالحت هوگئي اور انهوں نے جزيه دينے پر اتفاق كيا اسي طرح اس كے بعد اهل حيره كے عمائدين نے بھي جزيه دينا قبول كيا  اور نوے هزار درهم سالانه جزيه دينے كي شرط پر صلح كر لي۔ اس كے بعد جنگ سلاسل هوئي جس ميں حضرت خالد بن وليد نے ايران كي سپه سالار هرمز كو قتل كر ديا اور اس كے باقي فوجي بھاگ كھڑے هوئے، اس جنگ كو سلاسل اس لئے كها جاتا هے كه ايراني فوج زنجيروں ميں جكڑے هوئے تھے تاكه ميدان سے نه بھاگ سكيں۔ اسي طرح ان كي قيادت ميں بهت سے معركے هوئے ان سب ميں الله نے مسلمانوں كو فتح سے همكنار كيا يوں انکی قیادت میں عراق، ايران اور شام كے کئی علاقوں کو اسلامی سلطنت کا حصہ بنایا گیا۔ ) ديكھئے طبری، تاریخ الامم والملوک، جلد 2، صفحہ 50، بلاذری، فتوح البلدان، صفحہ 200)

وفات:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پا گئے۔ آپ کی عمر 63 سال تھی۔ آپ کو نبی کریم ﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کی وصیت تھی کہ میرے کفن کے لیے وہی کپڑا استعمال کیا جائے جو میرے جسم پر ہے۔)ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، جلد 2، صفحہ 300(

خدمات کا خلاصہ:

1.    اسلام کی تبلیغ: ابتدائی دور میں اسلام کے لیے جان و مال کی قربانی دی۔

2.    نبی کریم ﷺ کا ساتھ: ہر مشکل وقت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھڑے رہے۔

3.    ارتداد کا خاتمہ: جھوٹے مدعیانِ نبوت، منكرين زكواة  اور مرتدین کو شکست دی۔

4.    قرآن کی تدوین: قرآن کریم کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنے کی ابتدا کی۔

5.    فوجی فتوحات: اسلامی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دی۔

خلاصه:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلام کے لیے بے لوث قربانیوں، اعلیٰ کردار، اور شاندار خدمات کی ایک درخشاں مثال ہے۔ آپ کی سیرت مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے اور آپ کا کردار ہمیں اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

1تبصرے
  1. حضرت ابو بكر صديق رضى الله عنه كي ذات گرامي هم تمام مسلمانوں كے لئے قابل تقليد هے، رضى الله عنه و ارضاه.

    جواب دیںحذف کریں
ایک تبصرہ شائع کریں