حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ

0

 

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے اُن عظیم سپاہیوں اور داعیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کردار، قربانی اور اخلاص سے دینِ اسلام کی تاریخ میں سنہری نقوش ثبت کیے۔ ان کی زندگی ایمان، وفاداری، اور ایثار کا بے مثال نمونہ ہے۔ 

ابتدائی زندگی، مکہ کا چمکتا ستارہ:

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے ایک انتہائی معزز اور مالدار خاندان میں پیدا ہوئے۔ حضرت مصعب بن عمير كا تعلق قريش كے خاندان عبد الدار سے تھا۔عبد الدار پر پهنچ كر نبي كريم صلى الله عليه و سلم سے ان كا شجره ملتا هے۔ ان كا خاندان نهايت امير كبير تھا ان كي والده خناس بنت مالك نهايت امير خاتون تھي ۔ان کے والدین نے انہیں ہر آسائش فراہم کی، اور وہ قریش کے حسین و جمیل، خوش پوش، اور شاندار اخلاق کے حامل نوجوانوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی خوشبو اور لباس مکہ کے لوگوں میں مشہور تھے، اور وہ اپنے خاندان کے نازوں میں پلے تھے۔ 

كها جاتا هے كه حضرت مصعب نهايت ذهين و فطين تھے ان كي باتوں سے ان كي محفليں گرم رهتي تھيں۔

اسلام قبول کرنے کا عظیم فیصلہ:

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا دل حق کی تلاش میں بے تاب تھا۔ جب مکہ میں نبی کریم ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو وہ خاموشی سے دارِ ارقم پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کی باتوں سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ ان کا اسلام لانا مکہ کے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھا کیونکہ وہ ایک ایسے نوجوان تھے جن كو دنیا كي هر  نعمت ميسر تھي ان كا گھرانه خوشحال تھا، ان كے لئے كسي چيز كي كمي نه تھي۔ 

جب ان کی والدہ، جو اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرتی تھیں، کو ان کے اسلام لانے کی خبر ملی تو وہ سخت غضبناک ہوئیں۔ انہوں نے مصعب کو رسيوں ميں باندھا، قید کر دیا اور تمام آسائشوں سے محروم کر دیا۔ مگر مصعب رضی اللہ عنہ کا ایمان پہاڑ کی طرح مضبوط تھا۔  ان كي ماں نے خوب مارا پيٹا اور اسلام سے باز ركھنے كے لئے سارے طريقے آزمائے مگر ان كے ارادے كو بدل نه سكي۔

مدینہ ميں اسلام کے پہلے سفیر:

بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد، نبی کریم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں اور انہیں دینِ حق کی طرف مائل کریں۔ یہ ذمہ داری بڑی حکمت، صبر، اور فہم و فراست کا تقاضا کرتی تھی، اور حضرت مصعب ان تمام صفات سے مالا مال تھے۔ 

مدینہ میں انہوں نے نہایت دانائی سے اسلام كي دعوت پھيلائي، انهوں نے حضرت اسعد بن زراره سے مل كر اسلام كي تبلغ نهايت حكيمانه انداز ميں شروع كر دي جس كے نتيجے ميں بهت سے لوگ مسلمان هوگئے حتیٰ کہ قبیلہ اوس اور خزرج کے بڑے سردار، حضرت اسيد بن حضير اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما، ان کی محنت کے نتیجے میں اسلام لے آئے۔ مدینہ کے گلی کوچے کلمہ توحید کی گونج سے بھر گئے اور یہ شہر اسلام کا مرکز بننے لگا۔ 

اسلام كے لئے عيش و عشرت كي قرباني:

حضرت مصعب بن عمير زمانه قديم ميں بهت هي پر تعيش زندگي گزارتے تھے ان كے لئے هر طرح كي اسائشيں اور سهوليات ميسر تھيں، ليكن جب اسلام لايا تو ان كے گھر والوں نے ان سے سب كچھ چھين ليا اور جب ان كو تعليم اسلام كے لئے مدينه بھيجا گيا تو ان كے پاس پهننے كے لئے اچھے كپڑے بھي نهيں تھے ، پيوند لگے هوئے كپڑے پهنتے تھے۔

عن على بن ابي طالب يقول: انا لجلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد اذ طلع مصعب بن عمير ما عليه الا بردة له مرقوعة بفرو، فلما راه رسول الله صلى الله عليه و سلم بكى للذي كان فيه من النعمة و الذي هو اليوم فيه.(جامع ترمذي، ابواب صفة القيامة و الرقائق و الورع  حديث نمبر 2476)

حضرت على بن ابي طالب سے روايت هے كه انهوں نے كها كه ايك دن هم رسول الله صلى الله عليه و سلم كے ساتھ مسجد ميں ميں بيٹھے هوئے تھے كه مصعب بن عمير نمودار هوئے ، اس كے اوپرايك چادر تھي اس  پر بھي چمڑے كے پيوند لگے هوئے تھے۔جب رسول الله صلى الله عليه و سلم نے ان كوديكھا تو اس كي اس حالت كو ديكھ كر رو پڑے كه وه اس زمانے ميں كس نعمت ميں هوتا تھا اور آج وه كس حال ميں هے۔

غزوات میں شرکت اور بہادری:

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں بھرپور شرکت کی اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ غزوہ احد میں انہیں اسلامی لشکر کا علمبردار بنایا گیا۔ وہ جنگ کے دوران نہایت جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ 

جب جنگ کے دوران دشمن نے نبی کریم ﷺ کی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی تو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے اپنی جان پیش کر دی۔ دشمن کو یہ دھوکہ ہوا کہ وہ نبی کریم ﷺ کو شہید کر چکے ہیں، حالانکہ وہ حضرت مصعب تھے جو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے۔ 

شہادت: قربانی کی معراج:

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت غزوہ احد کا سب سے دلگیر منظر تھا۔ جب جنگ کے بعد ان کے جسم کو کفن میں لپیٹنے کا وقت آیا تو ان کے پاس صرف ایک چادر تھی، جو سر ڈھانکتے تو پاؤں کھل جاتے، اور پاؤں ڈھانکتے تو سر ننگا ہو جاتا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا: 

 "مکہ کا وہ نوجوان جو نرم و نازک زندگی کا عادی تھا، آج دینِ اسلام کے لیے سب کچھ قربان کر گیا۔"

"مؤمنوں ميں كچھ ايسے لوگ هيں جنهوں نے اپنے رب كے ساتھ كئے هوئے وعدے كو سچا كر دكھايا ، مصعب ميں نے تمهيں مكه ميں ديكھا تھا تم سے زياده نفيس لباس اور تم سے زياده خوبصورت بال كسي كے نهيں تھے۔ اب ايك وقت يه هے كه ميں تمهيں ديكھ رها هوں تم بكھرے هوئے بالوں كے ساتھ ايك معمولي چادر ميں لپٹے هوئے هو۔"

پھر آپ نے صحابه كوحكم ديا كه مصعب كے سر كو چادر سے ڈھانپ دو اور قدموں كو اذخر گھاس سے ڈھانپ دو۔

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور پیغام:

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شخصیت ایمان کی قوت، وفاداری، اور ایثار کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ انہوں نے اپنی دنیاوی آسائشوں اور مال و دولت کو دین کی خاطر ترک کر دیا۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ ایمان کے لیے قربانی دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ 

آپ کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ دین کی راہ میں مشکلات آئیں تو صبر، ثابت قدمی، اور اللہ پر بھروسے کو اپنا شعار بنائیں۔ آپ کی شہادت قیامت تک ایمان والوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)