بیعت عقبہ اولی: اسلامی تاریخ کا اہم سنگ میل
بیعت عقبہ اولی اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور انقلاب آفریں
واقعہ ہے۔ یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ
ہجرت کے پیش خیمہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بیعت عقبہ اولی نے اسلام کے سیاسی،
سماجی، اور مذہبی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا اور اسلام کے فروغ کے لیے ایک نئے
دور کا آغاز کیا۔ یہ مضمون بیعت عقبہ اولی کے تاریخی پس منظر، وقوعہ، شرائط، اور
اس کے اثرات پر ایک تفصیلی نظر ڈالنے کی کوشش کرے گا۔
تاریخی پس منظر
:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اسلام مکہ مکرمہ میں
شدید مخالفت اور دشمنی کا سامنا کر رہی تھی۔ قریش کے سردار مسلمانوں کو جسمانی اور
ذہنی اذیتیں پہنچا رہے تھے پھر بھي نبي كريم صلى الله عليه و آله وسلم مكه ميں
انفرادي اور اجتماعي طور پر دعوت كا كام جاري ركھا هوا تھا جهاں ميلے ٹھيلے لگتے
آپ وهاں جا كر لوگوں كو اسلام كي دعوت ديتےاور كفار مكه كي مخالفت، دشمني اور
اذيتيں سه رهے تھے۔۔ اس سخت ماحول میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ
کے لیے نئے مواقع اور محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش شروع کی۔
ادھر یثرب (مدینہ) میں دو بڑے قبائل، اوس اور خزرج، ایک طویل
عرصے سے آپس میں دشمنی اور خانہ جنگی کا شکار تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ یہود سے ملنے
والے مذہبی تعلیمات سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ ایک نبی کے آنے کی پیش گوئی کی
گئی ہے۔ جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو سنا تو ان
کے دل میں اسلام قبول کرنے کی تحریک پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اس نبی کے پیغام میں
اپنی نجات دیکھتے تھے۔
نبوت كے گيارهويں سال موسم حج ميں يثرب كے چھ آدميوں نے اسلام
قبول كرليا اور رسول الله صلى الله عليه و سلم سے وعده كر ليا كه وه واپس جا كر
اپني قوم ميں اسلام كي تبليغ كريں گے۔
هوا يوں كه يثرب كے قبيله خزرج كے كچھ لوگ حج كے لئے مكه آئے
هوئے تھے حسب دستور رسول الله صلى الله عليه و سلم نے ان سے ملاقات كي اور كها كه
تم لوگ كون هيں؟ انهوں نے كها همارا تعلق
خزرج سے هے۔ كياتم يهوديوں كے دوست هو؟
انهوں نے كها هاں! آپ نے فرمايا كيا هم بيٹھ كر بات كر سكتے هيں؟ انهوں نے كها هاں
كيوں نهيں۔ آپ نے ان كو الله كي طرف بلايا اور اسلام كي دعوت دي ، قرآن سنايا۔
چونكه يه لوگ يهوديوں كے ساتھ رهتے تھے اور خود بت پرست تھے مگر يهود ان سے كها
كرتے تھے كه ايك آخري نبي آنے والا هے هم ان سے مل كر تم سے لڑيں گے اور الله هميں فتح نصيب كرے
گا۔جب رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم نے ان كو اسلام كي دعوت دي تو انهوں نے
كهايه وهي نبي هے جس كے بارے ميں هميں يهودي لوگ بتاتے رهتے هيں۔ايسانه هو كه
يهودتم سے سبقت لے جائيں چنانچه ان لوگوں نے اسلام قبول كرليا ۔ ان ميں قبيله خزرج
كے درج ذيل چھ لوگ تھے۔
(1)
اسعد بن
زراره (قبيله بنو النجار)
(2)
عوف بن
حارث بن رفاعه ابن عفراء (بنو النجار)
(3)
رافع بن
مالك بن عجلان (قبيله بنو زريق)
(4)
قطبه بن
عامر بن حديده (بنو سلمه)
(5)
عقبه بن
عامر بن نابي (بنو حرام بن كعب)
(6)
جابر بن
عبد الله بن رئاب بن نعمان (بنو عبيد بن غنم)
يه لوگ مسلمان هونے كے
بعدواپس گئے اور انهوں نے حسب وعده يثرب ميں اسلام كي دعوت كا آغاز كيا اور اس كے
نتيجے ميں يثرب كے كچھ لوگ حلقه اسلام ميں داخل هوگئے۔
بیعت عقبہ اولی کا
وقوعہ :
12 نبوی (621 عیسوی ماه جولائي) میں حج کے
موقع پر یثرب کے دو قبائل، اوس اور خزرج، کے 12 افراد مکہ مکرمہ آئے، ان ميں سے
پانچ وهي لوگ تھے جو پچھلے سال بھي آچكے تھے سوائے جابر بن عبد الله بن رئاب كے، ان
كے علاوه سات سات آدمي نئے تھے۔ جن كے نام يه هيں:
(1)
معاذ بن
الحارث ابن عفراء (قبيله بنو النجار) (
خزرج)
(2)
ذكوان بن
عبد القيس از قبيله بنو زريق (خزرج)
(3)
عبادة بن
صامت از بنو غنم (خزرج)
(4)
يزيد بن
ثعلبه از بنو غنم حليف (خزرج)
(5)
عباس بن
عباده بن نضله از بنو سالم (خزرج)
(6)
ابو
الهيثم بن التيهان از بني عبد الاشهل (اوس)
(7)
عويم بن
ساعده از بني عمرو بن عوف (اوس )
ان لوگوں کی نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات عقبہ کے مقام پر ہوئی، جو منیٰ کے قریب ایک جگہ
تھی۔ یہ ملاقات خفیہ تھی تاکہ قریش کو اس کی خبر نہ ہو۔
یہاں ان افراد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر
بیعت کی۔ یہ بیعت اسلامی تاریخ میں "بیعت عقبہ اولی" کے نام سے مشہور
ہوئی۔ بیعت کرنے والے 12 افراد میں سے 5 افراد وہ تھے جو پچھلے سال اسلام قبول کر
چکے تھے، جبکہ 7 افراد نئےتھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ میں كل 12 صحابہ کرام شریک ہوئے
تھے۔ (ابن هشام السيرة النبوية ص:2/428-434)
مقام عقبه كي وضاحت:
عقبه مكه ميں منى كے قريب ايك گھاٹي هے۔مباركپوري اس جگه كي
وضاحت كرتے هوئے لكھتے هيں: عقبہ (ع، ق، ب تینوں کو زبر) پہاڑ کی گھاٹی، یعنی تنگ
پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک
تنگ پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہی گزرگاہ عَقَبَہ کے نام سے مشہور ہے۔ ذی
الحجہ کی دسویں تاریخ کو جس ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اسی گزرگاہ کے سرے
پر واقع ہے اس لیے اِسے جمرہ عقبہ کہتے ہیں۔ اس جمرہ کا دوسرا نام جمرہ کبریٰ بھی
ہے۔ باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔ چونکہ منیٰ کا پورا میدان،
جہاں حجاج قیام کرتے ہیں۔ ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے۔ اس لیے ساری چہل پہل
ادھر ہی رہتی ہے اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ ختم
ہو جاتا تھا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی
مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی
ہیں۔( حاشيه نمبر 1: الرحيق المختوم، صفى الرحمن مبارك پوري ، ص:227)
بیعت کے نکات اور شرائط
:
بيعت عقبه كے نكات جو ابن هشام نے حضرت عباده بن صامت كے حوالے
سے لكھے هيں وه يه هيں:
...
على ان لا نشرك با الله شيئا ، و لا نسرق، و لا نزني، و لا نقتل اولادنا ،و لا
نأتي ببهتان نفترينه من بين ايدينا و ارجلنا و لا نعصيه في معروف .(السيرة النبوية
لابن هشام ص:2/433)
بیعت عقبہ اولی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان 12
افراد سے کچھ بنیادی شرائط پر وعدہ لیا، جو درج ذیل ہیں:
1. اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے:
تمام بیعت کنندگان نے اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہیں
ٹھہرائیں گے۔
2. چوری سے اجتناب: چوري نهيں كريں گے،
3. زنا سے بچیں گے: اسلام کے اخلاقی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی
گزارنے کا عہد کیا۔ چوري اور زنا جيسےكبائرسےاجتناب كرنے كا عهد كيا۔
4. اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے: جاہلیت کے
دور میں بچوں کو قتل کرنے کا رواج تھا، جس سے مکمل اجتناب کا وعدہ کیا گیا۔
5. جھوٹ اور بہتان سے گریز کریں گے: كسي پر
تهمت لگانے اور الزام لگانے سے باز رهنے كا عهد كيا نيز زبان کی حفاظت کا عہد کیا
تاکہ معاشرے میں امن و امان قائم ہو۔
6. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
اطاعت کریں گے: ہر حالت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی پر عمل
پیرا ہونے کا وعدہ کیا۔
يثرت ميں دعوت اسلام كا آغاز:
بیعت عقبہ اولی کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اسلام کی تبلیغ اور تعلیم کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم
اور داعي بنا كر یثرب بھیجا۔حضرت مصعب بن عمیر رضي الله عنه نے مدینہ میں قیام کے
دوران گھر گھر جا كر اسلام کی دعوت کو عام کیا اور کئی اہم افراد کو اسلام کی طرف
مائل کیا، جن میں مدینہ کے دو معروف سردار، سعد بن معاذ اور اسید
بن حضیر، بھی شامل تھے۔
بیعت
عقبہ اولی کی اہمیت :
بیعت عقبہ اولی کی اسلامی تاریخ میں نہایت گہری اہمیت ہے، جو
درج ذیل نکات میں واضح ہوتی ہے:
1. مدینہ میں اسلام كي بنیاد:
یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے فروغ
کی بنیاد بنی۔ اس کے نتیجے میں اسلام کو ایک محفوظ پناہ گاہ ملی، جہاں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔
2. مدينه كي طرف ہجرت کی راہ ہموار ہوئی:
اس بیعت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کا راستہ کھولا۔ ورنه اس سے قبل دو دفعه حبشه كي طرف مسلمان
هجرت كر چكے تھے جو كه ايك اچھاتجربه تھا۔
3. نیا مرکز دعوت:
مکہ جو كه اولين مهبط وحي تھا جهاں سے اسلام
شروع هوا مگر اس كي جڑيں اتني مضبوط نهيں
هوئي كه وهاں كے لوگ مسلمان هو جاتے اور سب آپ كے تابع فرمان بن جاتے اور آپ صلى
الله عليه و سلم كو كس نئے مركز كي ضرورت نه پڑتي بلكه مكه ميں اسلام اور مسلمان
بهت سے نا مساعد حالات سے دو چار رها چنانچه مكه کے سخت ماحول سے نکل کر اسلام نے
مدینہ میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔
4. سیاسی حمایت کا آغاز:
مكه والے آپ صلى الله عليه و آله وسلم كي كسي
طور پر حمايت كرنے كے لئے تيار نه تھے،
بلكه آپ كو قتل كرنےكے درپے تھے اورآپ اور كي دعوت كو ختم كرنے كي سازشيں كرتے
رهتے تھے، بیعت عقبہ اولی کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کے
قبائل کی سیاسی اور عسکری حمایت حاصل ہوئی، جو بعد میں اسلامی ریاست كے قيام اور
اس کی مضبوطی کا باعث بنی۔
بیعت
عقبہ اولی کے اثرات :
بیعت عقبہ اولی کے اثرات نہایت وسیع تھے۔ یہ واقعہ اسلامی ریاست
کے قیام کا پہلا قدم تھا اور اس نے مسلمانوں کو ایک منظم اور متحد قوت میں تبدیل
کر دیا۔ مسلمانوں كو مكه كے گٹھن ماحول سے
نجات ملي۔ مسلمان آزادي كے ساتھ اپنے عقائداور نظريات كے
مطابق زندگي گزارنے لگے۔ مسلمانوں كے لئے هجرت كے لئے ايك مناسب مقام اور
علاقه ميسر آيا جهاں كے لوگ بھي نهايت وفاشعار اور ايثار و قرباني كے جذبے سےسرشار
تھے ۔ مدینہ میں اسلامی معاشرہ قائم ہوا، جہاں قرآن اور سنت کی روشنی میں نظام
زندگی چلایا گیا۔
بیعت عقبہ اولی اسلامی تاریخ کا وہ اہم موڑ ہے جس نے اسلام کے
عالمی پیغام کی بنیاد رکھی۔ یہ واقعہ اس بات کا مظہر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی دعوت نہ صرف روحانی بلکہ سیاسی، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی
مشتمل تھی۔ اس بیعت نے اسلام کو مکہ کے محدود دائرے سے نکال کر مدینہ میں ایک
عالمی مذہب کے طور پر پیش کیا اور اسلامی ریاست کی تشکیل کا آغاز کیا۔
بیعت عقبہ اولی ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ اللہ کی راہ میں
صبر، استقامت، اور اتحاد کامیابی کی کنجی ہیں، جو ہر دور کے مسلمانوں کے لیے مشعل
راہ ہیں۔