حجيت حدیث سے متعلق چند اعتراضات كے جوابات

0

 

حجيت حدیث سے متعلق چند اعتراضات كے جوابات

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کی بنیاد دواهم  بنیادی ماخذوں پر ہے: قرآن اور سنت۔ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، جبکہ سنت نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال، اور تقریرات پر مشتمل ہے، جنہیں ہم حدیث کے ذریعے جانتے ہیں۔ حدیث اسلام کی عملی تفصیلات اور قرآن کے احکامات کی توضیح فراہم کرتی ہے۔ تاہم، تاریخ میں مختلف مکاتب فکر نے حدیث پر اعتراضات کیے ہیں، جن کا تفصیلی جائزہ اور جواب ضروری ہے۔

حدیث کی حجیت کے دلائل

1. قرآن مجید سے:

قرآن مجید بارہا نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور ان کی پیروی کو لازم قرار دیتا ہے۔ چند اہم آیات درج ذیل ہیں:

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"  (سورۃ الحشر: 7) 

اور تمهيں رسول جو دے اسے لے لو اور جس سے روكے اس سے رك جاؤ۔

  اس آیت میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ رسول ﷺ دیں، اسے قبول کیا جائے، اور جس سے منع کریں، اس سے اجتناب کیا جائے۔

"مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"  (سورۃ النساء: 80) 

جس نے رسول (صلى الله عليه و آله وسلم) كي اطاعت كي اس نے الله كي اطاعت كي۔

  یہاں رسول ﷺ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس كا مطلب يه هے كه جو شخص الله كے رسو ل كي اطاعت كرے گا وه الله كي اطاعت كرے گا اس لئے كه الله كے رسول صلي الله عليه و آله وسلم كے پاس جو بھي حكم الهي نازل هوتا هے وه الله هي كي طرف سے هوتا هے رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم اپني طرف سے كچھ بھي نهيں كهتا ۔و ما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى.(النجم:3،4)

اسي طرح رسول كريم ﷺكي ذات مقدسه كو مسلمانوں كے لئے اسوه حسنه قرار ديا اور آپ ﷺكي زندگي كو نمونه حيات اور رول ماڈل قرار ديا تاكه مسلمان آپ ﷺزندگي كے مطابق اپني زندگي گزارے، فرمايا:

"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"  (سورۃ الاحزاب: 21) 

يقينا تمهارےلئے رسول الله ميں بهترين نمونه هے۔

  اس آیت میں نبی ﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ قرار دیا گیا، جو ہر مسلمان کے لیے عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ انسان كے لئے ضروري هے كه وه زندگي كے هر شعبه ميں الله كے رسول صلي الله عليه و آله وسلم كي زندگي كو اپنے لئے نمونه حيات اور رول ماڈل بنائے اور اس كي زندگي كے اصولوں كے مطابق اپني زندگي گزارے۔

2. حدیث کا قرآن کی توضیح کرنا:

 قرآن مجید کے کئی احکامات ایسے ہیں جن کی تفصیل اور وضاحت حدیث کے بغیر ممکن نہیں:مثلا

- نماز کی ادائیگی:

نماز اركان اسلام ميں سے ايك بهت هي اهم ركن هے ، اس كو كفر اوراسلام كا بنيادي امتيازي نشاني بھي قرار ديا گيا هے ۔  قرآن میں متعدد مقامات پر  نماز کا حکم موجود ہے، مگر نماز كا طريقه، ركعات كي تعداد، اوقات كار وغير كا ذكر نهيں كيا گيا ، جبكه اس کے اوقات، رکعات، اور طریقۂ کار  كي تفصيلات حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ يهي وجه هے كه آپ صلي الله عليه و آله و سلم كي مشهورحديث هے كه "صلوا كمارأيتموني اصلى" يعني تم اس طرح نماز پڑھوا جيسے مجھے نماز پڑھتا هوا ديكھا هے۔

- زکوٰۃ کے نصاب:

زكوة اسلام اركان ميں سے ايك ركن هے،  قرآن زکوٰۃ کی فرضیت کا ذکر کرتا ہے اور اس كي ادائيگي نه كرنے والوں كے لئے سخت وعيد سناتا هے، مگر کس مال پر زکوٰۃ ہے، اس كا نصاب كيا هے  اور اس کی مقدار يعني شرح زكوة کیا ہوگی، یہ تفصیلات حدیث سے حاصل ہوتی ہیں۔

- حج کے مناسک:

  قرآن حج کی فرضیت بیان کرتا ہے، لیکن اس كي ادائيگي كا طريقه كار بيان نهيں كرتا۔ اس کے مناسک، طواف اور دیگر تفصیلات نبی کریم ﷺ کی سنت سے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ اورآپ صلي الله عليه و آله و سلم كا يه حكم بھي حديث ميں هي هے كه "خذواعني مناسككم" يعني تم مجھ سے حج كرنے كے طريقے سيكھو۔ چنانچه اقسام حج كے ساتھ تمام مناسك حج هميں احاديث نبوي سے هي سيكھنے كو ملتے هيں۔

3.  حديث نبوي بھي وحي الهي:

            حديث نبوي بھي وحي الهي هوتي هے ، وحي كي دو قسم هے ايك وحي جلي يا وحي متلوجسے قرآن كها جاتا هے اوردوسري وحي خفي يا  وحي غير متلو جسے حديث كها جاتا هے ، رسول كريم ﷺ كے متعلق قرآن كريم خود يه گواهي ديتا هےكه آپ ﷺ اپني خواهش سے كچھ بھي نهيں كهتا جو كچھ بھي كهتا هے وه وحي الهي كي بنياد پر كهتا هے: ارشاد باري تعالى هے:

وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوَى . اِنْ هُوَ اِلاَّ وَحْيٌ يُّوحَى. (النجم:3-4)

اور وه (رسول) اپني خواهش سے كوئي بات نهيں كهتے، وه تو صرف وحي هوتي هے جو اتاري جاتي هے

مطلب يه هے كه نبي كريم ﷺنے جو بھي اسلام كي دعوت دي هے ، جو بھي تعليمات تمهارے لئے لے كر آئے هيں، اسي طرح توحيد، آخرت ، كائنات و انسانوں كے متعلق جو حقائق اور پاكيزه زندگي گزارنے كے اصول و ضوابط جو بھي وه بيان كر رها هے وه اپني طرف سے نهيں پيش كر رها بلكه يه سب الله كي طرف سے وحي شده هے،

            قرآن مجيد كے علاوه آپ ﷺ كي زبان مبارك سے ادا هونے والے الفاظ  اور وه باتيں جو تبليغ دين اور دعوت الى الله كے لئے كرتے هيں، يا قرآن كے مضامين اور اس تعليمات كي تشريح سے متعلق هوتي هيں اس ميں يه شبه كرنے كي گنجائش سرےسے نهيں هے كه يه باتيں معاذ الله آپ  اپني طرف سے گھڑ تے تھے، بلكه يه سب من جانب الله وحي هوتي هيں،  قرآن كريم لفظااور معنادونوں من جانب الله هوتے هيں جبكه حديث معنا الله كي طرف سے هوتي هيں جبكه الفاظ رسول الله ﷺ كے اپنے هوتے هيں،يه حديثيں اگرچه قرآن كي طرح لفظا لفظا آپ پر نازل نهيں كي جاتي تھيں مگر يه لازمي طور پر اسي علم پر مبني تھيں جو وحي كےذريعے آپ كو ديا گياتھا  اور آپ ﷺاپنے الفاظ ميں بيان كرتے تھے اسي لئے قرآن كو وحي جلي جبكه حديث كو وحي خفي كها جاتا هے،

4. صحابہ کرام کا طرز عمل:

رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم كے براه راست شاگرد آپ ﷺ  كے اصحاب هيں ،انهوں نے آپ ﷺ  كے ساتھ سفر ميں حضر ميں شب و روز گزارے اور آپ كے معمولات كا بالمشافه مشاهده كيا ، نه صرف يه كه آپ كے معمولات كا مشاهده كرتے تھي بلكه صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال کو محفوظ رکھتے تھے اور انہیں دین کا اہم جزو سمجھتے تھے۔ اور اگر كهيں قرآن كريم ميں كوئي حكم نه ملتا تو آپ ﷺ كي حيات مباركه اور آپ ﷺكے اقوال و افعال ميں ديكھتے اور ان سے حجت ليتے تھے، حضرت معاذ بن جبل كا يه قول مشهور هے كه جب ان كو يمن كا گورنر بنا پر بھيجا جا رها تھا تو ان سے آپ ﷺ نے پوچھا تھا كه اگر كوئي مسئله درپيش هو جائے تو تو كس طرح فيصله كروگے؟ اس نے كها  ميں كتاب الله كے مطابق فيصله كروں گا، آپ ﷺنے فرمايا اگر وه مسئله كتاب الله ميں نه ملے؟ معاذ نے كها پھر رسول الله  ﷺ كي سنت كے مطابق كروں گا، آپ ﷺ نے پوچھا اگر رسول الله ﷺكي سنت ميں بھي نه ملے؟ كها كه پھر ميں اپني رائي كے مطابق كوشش كروں گا اور اس ميں كوئي كمي كوتاهي نه كروں گا(سنن ابي داود كتاب الاقضيه باب اجتهاد الراي في القضاء حديث نمبر 3592)

 حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت عائشہؓ، اور دیگر صحابہ نے ہزاروں احادیث روایت کیں۔ خلفائے راشدین نے بھی نبی ﷺ کی سنت پر عمل کو لازم قرار دیا۔

حدیث پر چند اعتراضات اور ان کے جوابات

 اعتراض 1: حدیث انسانی کاوش ہے، اس لیے ناقابل اعتبار ہے

یہ اعتراض اس بنیاد پر ہے کہ احادیث کی جمع و تدوین انسانوں نے کی، لہٰذا ان میں غلطی یا تحریف کا امکان موجود ہے۔

جواب:

جمع حديث هي انساني كاوش نهيں هے بلكه قرآن كريم كو بھي كتابي شكل ميں لانا اور اصحاب رسول كے سينوں سے سے مصحف كي شكل ميں لانا بھي انساني كاوش هے، اس لئے معترضين كا  يه اعتراض قابل توجه نهيں هے۔ قرآن كريم كي حفاظت ذمه داري الله تعالى نے خود لي هے تو يه كيسے هو سكتا هےكه وه ايسا انتظام نه كرے كه قرآن كي تشريح و تفصيل كي حفاظت كا كوئي بندوبست نه كرے، چنانچه هم ديكھتےهيں كه الله تعالى نے ايسے لوگ پيدا كئے جنهوں نے حديث كي حفاظت اور اس ميں غير اقوال رسول كي آميزش كو اس سے جدا كرنے كے لئے بهت هي اهم جد و جهد كئے اور اصول و ضوابط وضع كئے جن كے ذريعے حديث نبوي كو محفوظ بناياگيا۔ حديث نبوي بذات خود وحي الهي هے جسے وحي خفي ياوحي غير متلوكها جاتا هے۔اور يه بات واضح هے كه وحي الهي انساني كاوش سے حاصل نهيں هوتي بلكه يه من جانب الله هوتي هے جسے علم وهبي ( يعني الله كا عطا كرده علم) كها جاتا هے۔

محدثین نے حدیث کی حفاظت کے لیے درج ذیل اصول وضع کیے:

1. اصطلاحات حديث وضع كئے گئے:

            محدثين نے حديث بيان كرنے كے اصول وقوانين وضع كئے، حديث مسترد كرنے كے ضوابط بيان كئے، اسي طرح حديث كي قبوليت اوراس كے رد كے لئے اصول و ضوابط كےساتھ اس كے درجات بھي متعين كرنے كے اصول بيان كئے جس سے يه بهتر انداز ميں معلوم هوتا هے كه كون سي حديث كيوں مردود هے اور كون سي كيوں قابل عمل هے نيز اس كا حديث ميں كيا درجه هے وغيره۔

2. سند و اسناد کا نظام و اهتمام:

   ہر حدیث کی سند (راویوں کی زنجیر) کی جانچ کی گئی۔ سند میں موجود ہر راوی کا کردار، حافظہ، اور صداقت جانچی گئی۔ اور كئي هزار راويوں كا بائيو ڈيٹاجمع كيا گيا اور ان كے كردار اور حافظے كے مطابق احاديث پر حكم لگايا گيا۔ اسناد كااس لئے اهتمام كياگيا تاكه حديث كي روايت ميں لوگ احتياط برتيں،اور اگركسي غيرمعتبرشخص كي طرف سے كوئي حديث بيان كي جائے تو ان اصول و قواعد كے مطابق اس كو رد كيا جا سكے ۔ صحيح مسلم ميں عبد الله بن مبارك سے منقول هے:

الاسناد من الدين ولولا الاسناد لقال من شاءما شاء. (صحيح مسلم المقدمة باب ان الاسناد من الدين)

سندبيان كرنا دين كا حصه هے اور اگرسند بيان كرنا نه هوتا تو هرشخص جو چاهتا وه بيان كرديتا۔

اب چونكه كسي بھي حديث كي معقوليت كے لئے ضروري هے كه اس كي سند ديكھي جائے اور اس كي سند ميں موجود راويوں كے احوال كے مطابق اس كو قبول يا ردكيا جا ئے ، اسي لئے بعد ميں آنے والوں نے حديثيں گھڑ بھي ليں تو ان كو آساني كے ساتھ صحيح احاديث سے الگ كر ديا گيا ، اور ان موضوع روايات كو بعض محدثين نے الگ كر كے مجموعات تيار كئے تاكه سب كو پته چلے كه يه احاديث رسول نهيں هيں بلكه موضوع روايات هيں ان پر اعتبار نهيں كيا جا سكتا

3. متن کی جانچ:

   حدیث کے متن کو قرآن اور دیگر مستند احادیث کے ساتھ پرکھا گیا۔ اگر متن میں کوئی تضاد یا غیر معقول بات ہوتی، تو اسے مسترد کر دیا جاتا۔ اس كي جانچ پرتال كے لئے بھي اصول وضع كئے گئے۔درايت اور روايت كے اصول اسي ضمن ميں ايجاد كئے گئے تاكه جهاں سند كي تحقيق كي جائے وهيں متن پر بھي تحقيق كي جائے،

4. علم رجال:

   علم رجال حدیث کے راویوں کی سوانح عمری اور ان کی ثقاہت پر مشتمل ایک وسیع علم ہے۔ اس علم کے ذریعے راویوں کی صداقت کو پرکھا گیا۔ان كي سيرت و كردار كو بيان كيا گيا تاكه ان كي امانت اور سچائي كي بنياد پر حديث كو قبول يارد كيا جا سكے۔

اعتراض 2: قرآن کافی ہے، حدیث کی ضرورت نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید ایک مکمل کتاب ہے، جس میں ہر چیز کا بیان ہے، اس لیے حدیث کی ضرورت نہیں۔

جواب:

یہ دعویٰ قرآن کی خود قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر رسول ﷺ کی اطاعت اور ان کی تعلیمات کی پیروی کو لازم قرار دیا۔ اگر صرف قرآن کافی ہوتا تو نبی ﷺ کی سنت کی پیروی کا حکم کیوں دیا جاتا؟ مزید یہ کہ قرآن میں کئی احکامات کی عملی تفصیل حدیث کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ مثلا نماز كي ادائيگي كا طريقه ، تعداد ركعات، اوقات نماز،نصاب زكوة، شرح زكوة، مناسك حج, اسي طرح حلت و حرمت كے اور نكاح و طلاق كے بهت سے مسائل جن كا استقصا يهاں مقصود نهيں هے

اعتراض 3: احادیث کو بعد میں گھڑا گیا

کچھ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ نبی ﷺ کے انتقال کے بعد لوگوں نے اپنی طرف سے احادیث گھڑ لیں۔

جواب:

یہ اعتراض تاریخی حقائق کے برعکس ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی احادیث کی حفاظت شروع ہو گئی تھی۔ مثال کے طور پر آپ ﷺ  نے بھي بعض احاديث لكھ كر ديں جيسے زكوة اور صدقات كے احكامات، دعوتي خطوط، قبائل كے لئے هدايات، معاهدات وغيره،اسي طرح يمن سے آئےهوئے ابوشاه كے لئے اپني باتيں (احاديث) لكھ كر دينے كا آپ نے باقاعده حكم ديا،  حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ پهلے حديثيں لكھا كرتے پھر لوگوں كے كهنے پر لكھنا چھوڑديا پھر انهوں نے  نبی ﷺ کے كهنے پر هي احادیث لکھنا شروع کیں، اسي طرح ديگر كئي صحابي آپ ﷺ  كے فرمودات لكھ ليا كرتے تھے مثلا حضرت علي رضي الله عنه،حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه ، حضرت عبد الله بن مسعود رض الله عنه اور حضرت ابو هريره رضي الله عنه وغيرهم كي آپ ﷺ سے روايت كر ده احاديث كے مجموعے ان كے اپنے وقتوں ميں تحريري شكل ميں موجود تھے اس لئے يه كهنا كه يه حديثيں بعد ميں لكھي گئي هيں يا گھڑي گئي هيں بالكل بے جا اعتراض هے اور تاريخ سے نا بلد هونے كي دليل هے۔ علاوه ازيں بعد ميں محدثین نے احادیث کو جمع کرتے وقت گھڑی ہوئی روایات کو مسترد کرنے کے لیے سخت اصول اپنائے اور اس كے تحت كھرے كو كھوٹے كو الگ كر ديا گيا هے۔

اعتراض 4: تمام احادیث متفق علیہ نہیں ہیں 

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ مختلف احادیث کی کتابوں میں اختلافات موجود ہیں، جس سے ان کی صداقت پر سوال اٹھتا ہے۔

جواب:

یہ سچ ہے کہ مختلف محدثین نے مختلف روایات کو جمع کیا، لیکن ہر محدث نے اپنے معیارات کے مطابق احادیث کی جانچ کی۔  هر حديث كا متفق عليه هونا شرط نهيں هے، حديث كي قبوليت كے لئے اس كي صحت اور صداقت كو ديكھا جاتا هے يه ضروري نهيں هے كه ساري حديثيں متفق عليه هوں ، محدثين نے حديث كي صحت اور سقم كو جانچنے كے لئے جو معيارات اختيار كئے هيں وه ان كے اپنے معيار كے مطابق هيں جن ميں اختلاف پايا جاتا هے اور اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ تمام احادیث غلط ہیں؛ بلکہ ان اختلافات سے دین کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کے دروازے کھلے ہیں۔ معتبر مجموعے جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو بالخصوص مستند اور قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے اور ان دو حديث كي كتابوں كو صحيح كها جاتا هے اور دونوں كے لئے "صحيحين" كي اصطلاح استعمال هوتي هے، نيز جو  حديث ان دونوں كتابوںميں موجود هواس كو "متفق عليه" كها جاتا هے۔

حدیث کی اہمیت قرآن فهمي اور عملي تطبيق كے لئے:

1. قرآن کی تکمیل و عملي تطبيق:

   قرآن مجید بنیادی اصول فراہم کرتا ہے، لیکن ان اصولوں کی عملی تطبیق حدیث کے ذریعے ممکن ہے۔ اس لئے كه قرآن ميں اجمال بيان هوئے هيں ان كي تفصيل حديث ميں آئي هيں اور ان پر كس طرح عمل كيا جاتا هے يه قرآن خود نهيں بتاتا بلكه رسول الله ﷺ  كا عمل بتاتا هے كه ان  احكام پر كس طرح عمل كيا جانا چاهئے ۔

2. زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی:

   نبی کریم ﷺ کی سنت زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، چاہے وہ عبادات ہوں، اخلاقیات ہوں، یا معاملات يهي وجه هے كه الله تعالى نے مسلمانوں كو آپ ﷺ  كي زندگي كو عملي نمونه قرار دے كر اس سے رهنمائي حاصل كرنے كي تلقين فرمائي هے اور حكم ديا هے كه اپني زندگي كو رسول كريم ﷺ  كي زندگي كي طرح گزاريں اس لئے كه آپ كي حديث ميں انسان كي زندگي كے تمام پهلؤوں سے متعلق رهنمائي موجودهے۔

3. اجتہاد اور فقہ کا ماخذ:

   علماء نے  قرآن اورحدیث دونوں کی روشنی میں اجتہاد کے اصول وضع کیے اور اسلامی فقہ کی بنیاد رکھی۔اگر حديث كو منها كر ديا جائے تو دين كا يه پهلو ادھورا ره جائے گا، تكميل دين كے لئے ضروري هے  كه انسان قرآن اور حديث دونوں سے رهنمائي ليں، صرف قرآن سے رهنمائي لينے كا دعوى كرنے والے ويسے بھي دين پر پوري طرح عمل نهيں كر سكتے، اجتهاد اور فقهي مسائل كهاں سے اخذ كريں گے۔

 نتیجہ   بحث:

حدیث اسلام کا ایک لازمی جزو ہے اور شریعت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن اور حدیث ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ حدیث پر کیے جانے والے اعتراضات اکثر لاعلمی یا غلط فہمی پر مبنی ہوتے ہیں۔ حدیث کی حفاظت کے لیے محدثین نے جو اصول اپنائے، وہ دنیا کے کسی بھی تاریخی ریکارڈ کے مقابلے میں زیادہ مستند اور قابل اعتماد ہیں۔ لہٰذا، حدیث کو رد کرنا نہ صرف دین کی بنیادی تعلیمات سے انحراف ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی عملی زندگی کو بھی ناقابل یقین حد تک متاثر کر سکتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)