رسول کریم ﷺ کی مکی زندگی
بعثت نبوت کے بعد
خلوت نشینی:
بعثت سے سات
سال قبل آپ کو ایک نور سا نظر آنے لگا اور آپ کی طبیعت میں تبدیلیاں آنے لگیں۔ عمر
میں اضافے کے ساتھ ساتھ آپ کا دل دنیا سے ہٹتا جاتا تھا اور مزاج میں تنہائی پسندی
اور خلوت نشینی کا عنصر نمایاں ہونے لگا۔ چنانچہ آپ کھانے کے سامان لے کر مکہ کے ایک
پہاڑی سلسلے فاران میں واقع غار حرا میں چلے جاتے اور دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو
کر عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے ۔ جب ستو اور پانی ختم ہو جاتا تو آپ خود آکر لے
کر جاتے یا کبھی آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری کھانے کا سامان وہاں پہنچا دیتیں۔
نزول وحی كا آغاز:
آپ ﷺ کی عمر
جب چالیس برس ہوئی اور آپ حسب معمول غار حرا میں مصر وف عبادت تھے ’ جبرائیل علیہ
السلام پہلی وحی کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے۔اور سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات نازل
فرمائی۔ اقرأ باسم ربك الذي خلق. خلق الانسان من علق, اقرأ و ربك الاكرم,
الذي علم بالقلم, علم الانسان ما لم يعلم,
اس واقعہ کے
بعد آپ ﷺ گھر تشریف لے گئے آپ پر سخت گھبراہٹ طاری تھی۔
ورقہ بن نوفل کے پاس:
حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا نے جب آپ کی رودادسنی تو آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے
پاس لے کر گئیں کہ وہ تورات و انجیل کا عالم تھا ۔ ورقہ نے آپ کی بات سن کر کہا کہ
یہ وہی ناموس (فرشتہ ) ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیاکرتا تھا۔پھر اس نے
کا کاش میں جوان ہوتا تو میں اس وقت آپ کی مدد کرتا جب آپ کی قوم آپ کونکال دے گی۔
فترۃ الوحی (وحي كي بندش كا عرصه):
اس کے بعد
کچھ عرصہ کے لئے وحی کا سلسلہ رک گیا جسے ‘‘فترۃ الوحی’’کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں
یہ عرصہ دو یا اڑھائی سال پر مشتمل تھا جبکہ بعض کہتے ہیں کہ چھ ماہ پر مشتمل تھا
اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہفتہ یا دس دن پر مشتمل تھا۔
دوسری وحی:
سورۃ المدثر
کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں: يا ايها المدثر . قم فانذر. وربك فكبر.
وثيابك فطهر. و الرجز فاهجر.
دعوت وتبلیغ کا آغاز: پہلا مرحلہ
خفیہ تبلیغ
عرصہ تین سال
دوسری وحی کے
بعد آپ ص نے تبلیغ کا باقاعدہ آغاز کر دیا اور سب سے پہلے ان لوگوں کے سامنے اسلام
کی دعوت رکھی جو آپ کے سب سے قریب تھے اور جن سے آپ کو پوری امید تھی کہ وہ آپ کی
دعوت کو بلا چوں و چرا قبول کریں گے۔
٭ سب سے پہلے
مسلمان ہونے والے
چنانچہ سب سے
پہلے آپ کی دعوت پر حضرت خدیجہ’ حضرت ابو بکر’ حضرت علی اور حضرت زیدبن حارثہ رضی
اللہ عنہم اجمعین نے لبیک کہا اور آپ کے ساتھ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
اعلانیہ تبلیغ : دوسرا مرحلہ
٭ کھلے عام
دعوت اسلام كا آغاز:
کھلے عام
دعوتِ اسلام کا آغاز نبوت کے چوتھے سال ہوا۔ ابتدائی تین سالوں میں نبی اکرم ﷺ نے
اسلام کی دعوت کو خفیہ طور پر پھیلایا اور صرف قریبی افراد کو پیغام پہنچایا۔ جب
اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا:
"وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ"
(سورۃ الشعراء: 214) (ترجمہ:
اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈر سنائیں)
تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنی قریبی برادری، بنی ہاشم، کو جمع کیا
اور انہیں توحید اور اسلام کی دعوت دی۔ مگرسوائے حضرت علي رضي الله عنه كے كسي نے
بھي آپ كي حمايت كي حامي نهيں بھري
٭ کوہ صفا پر
اعلان توحید:
بعد ازاں، آپ ﷺ صفا کی پہاڑی پر چڑھے اور قریش کے تمام قبائل کو
پکار کر جمع کیا۔اور فرمايا كه اگر ميں يه كهوں كه اس پهاڑ كے پيچھے سے ايك لشكر
جرار تم پر حمله كرنے والا هے تو تم كيا مانوگے؟ سب نے كها هاں اس لئے كه هم نے آپ
سے كبھي جھوٹ نهيں سنا سب نے يك زبان هو كر كها " ماجربناك الا صدقا"كه
هم نے تجھے هميشه سے سچا پايا هے ، اپني
سچائي كا اقرار كرانے كے بعد آپ ﷺ نے ان
کے سامنے اللہ کی وحدانیت، اپنی رسالت، اور قیامت کی خبروں کی وضاحت کی۔ اس پر قریش
کے سرداروں نے مخالفت کی، خاص طور پر ابو لہب نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ تاہم، اس کے
باوجود آپ ﷺ نے دعوتِ حق کو جاری رکھا اور مکہ کے مختلف مقامات پر لوگوں کو اسلام
کی طرف بلانے لگے، جس سے کھلی دعوت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
مشرکین کی مخالفت کا آغاز:
رسول کریم ﷺ
نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا تو کفار نے آپ پر حملہ کر دیا ۔ ہر طرف
سے لوگ آپ پر ٹوٹ پڑے ۔ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے فرزند
حارث بن ابی ہالہ کو خبر ہوئی وہ دوڑتا ہوا آیا اور آپ ﷺ کو بچانا چا ہا ’ اس کوشش
میں وہ شہید ہوگئے ۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو اسلام کی راہ میں بہایا
گیا۔(مولانا شبلی نعمانی’ سیرۃ النبی ص:۲۱۱/۱)
قریش
کی مخالفت کے اسباب:
۔ قریش مکہ
کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آیا
۔ جھوٹے
خداؤں کا مسترد کرنا ان کے لئے گوارا نہ تھا
۔ عقائد
باطلہ کا رد
۔ جاہلانہ
رسوم کا رد
۔ اخلاقی بے
راہ روی کی مخالفت ان گوارا نہ تھی
۔ معاشی
مفادات ختم ہونے کا خطرہ
۔ بنو ہاشم
اور بنو امیہ کی پرانی رقابت و مخالفت
دعوت اسلام کو روکنے کے لئے کفار کی کوششیں:
قريش مكه
نے آپ ﷺكو دين حق كي دعوت سے روكنے كے لئےمختلف هتھكنڈے استعمال كئے مثلا:
۔ رسول کریم ﷺ
پر مختلف قسم کے الزامات لگائے
۔ لالچ ديكر روكنے كي كوشش كي
۔ نرمی، بعض
دفعه نرم رويه اختيار كر كے بھي آزمايا
۔ ابو طالب
سے شکایت , چچا ابو طالب كے پاس كئي وفود
بھيج كر دھمكا كر ھي ديكھا كه اپنے مشن سے باز آ جائے مگر آپ ﷺان كي دھمكيوں ميں
نهيں آئے
۔ ظلم و تشدد،
آپ پر اور آپ ﷺ كے اصحاب پر ظلم و ستم كے ذريعے بھي دعوت دين سے باز ركھنے كي كوشش
كي گئي مگر آپ نے ان كے ستم كا خنده پيشاني سے مقابله كيا مگر مشن نهيں چھوڑا
آپ
کی راہ میں کانٹے بچھائے’ نماز کی حالت میں پشت پر غلاظت ڈالا’ آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکا
جاتا’ بد زبانی کرتے’ گلے میں چادر ڈال کر کھینچا جاتا۔
آپ ﷺ کے اصحاب پر ظلم و ستم:
۔ سخت گرمی میں
سنگریزوں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دئیے جاتے
۔ لوہے کی
سلاخیں گرم کر کے جسموں کو دغا جاتا
۔ دہکتے ہوئے
انگاروں پر لٹائے جاتے ’ جسم پر چھالے پر جاتے ان سے پانی نکل کر آپ کو بجھا دیتا۔
مسلمان ستم رسیدہ افراد:
شروع كے وه
مسلمان جن كو مكه ميں سب سے زياده ستايا گيا ،مردوں میں حضرت بلال’ حضرت خباب بن
ارت’ حضرت عمار بن یاسر’ حضرت صہیب رومی اور عورتوں میں حضرت سمیہ ’ زنیرہ’ لبینہ’
اور ام عبیس ان ستم رسیدہ افراد میں شامل تھے۔
ان کے علاوہ
حضرت عثمان غنی’ سعید بن زید’ اور ان کی بیوی فاطمہ ’ حضرت زبیر اور حضرت عبد اللہ
بن مسعود بھی اپنے رشتہ داروں کے ظلم سے نہ بچ سکے۔
ہجرت حبشہ (اولی) سنه ۵
نبوت:
قریش جب
دلائل کا مقابلہ نہ کر سکے اور اسلام روز بروز بڑھتا رہا تو قریش مکہ ظلم و تشدد
پر اتر آیا ۔ انہوں نے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی۔ آپ ﷺ نے
کفار مکہ کے ظلم و ستم کا شکاراور ان کا تختہ مشق بنے ہوئے اپنے اصحاب کو حبشہ کی
طرف ہجرت کر نے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ایک قافلہ جو گیارہ مرد اور چار خواتین پر
مشتمل تھا ’ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔
ہجرت حبشہ (دوم)سنه ۷ نبوت:
دوسری ہجرت
حبشہ میں 83مرد اور 18 خواتین پر مشتمل ایک قافلہ حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔ بعض روایتوں
کے مطابق ان کی تعداد 82 مرد اور 12 خواتین تھی۔
قریش کا وفد نجاشی کے دربار میں:
قریش کے
نمائندے عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص کی قیادت میں تحفے تحائف لے کر نجاشی
کے دربار میں پہنچے۔اور عیسائی پادریوں اور بطریقوں کی مدد سے یہ لوگ نجاشی شاہ
حبشہ تک رسائی حاصل کرنے اور مسلمانوں کی شکایت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔نجاشی
چونکہ ایک انصاف پسند حکمران تھااس لئے اس نے یکطرفہ بیان سن کر فیصلہ کرنے کی
بجائے مسلمانوں کو بھی اپناموقف پیش کرنے کا موقع دیا اور مسلمانوں کی طر ف سے
حضرت جعفرطیار ؓ نے نمائندہ بن کر مسلمانوں ترجمانی کی۔
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی تقریر نجاشی کے دربار میں
ایک اہم اور مؤثر تقریر تھی، جو اس وقت کی گئی جب مکہ کے کفار کے مظالم سے تنگ آکر
کچھ صحابہ حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ قریش کے سرداروں نے انہیں
واپس لانے کے لیے نجاشی، حبشہ کے بادشاہ، کے دربار میں اپنے نمائندے بھیجے اور
جھوٹے الزامات لگائے۔ اس موقع پر حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے سامنے ایک
خوبصورت اور جامع تقریر کی، جس میں اسلام کی حقیقی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کی بعثت
کا مقصد بیان کیا۔ تقریر کا خلاصہ یوں ہے:
حضرت
جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی تقریر:
"اے بادشاہ! ہم جاہلیت میں مبتلا لوگ
تھے، بتوں کو پوجتے، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے، رشتے توڑتے، پڑوسیوں کے
ساتھ برا سلوک کرتے، اور ہمارا قوی کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ
اللہ نے ہم میں سے ایک رسول بھیجا، جس کی پاکیزگی، صداقت، امانت، اور راست بازی کو
ہم پہلے سے جانتے تھے۔ اس نے ہمیں اللہ کی توحید کی دعوت دی اور ہمیں سکھایا کہ ہم
پتھروں اور مورتیوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، جو اکیلا ہے اور
اس کا کوئی شریک نہیں۔
اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسیوں
سے حسن سلوک کرنے، اور خونریزی سے بچنے کا حکم دیا۔ اس نے ہمیں بے حیائی، جھوٹ، یتیموں
کا مال کھانے، اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے روکا۔ اس نے ہمیں نماز پڑھنے،
زکوٰۃ دینے، اور روزے رکھنے کا حکم دیا۔
ہم نے اس نبی کی بات مانی، اس پر ایمان لائے، اور اس کے لائے
ہوئے پیغامِ الٰہی کی پیروی کی۔ اس پر ہماری قوم ہم سے دشمنی کرنے لگی، ہمیں اذیتیں
دینے لگی، اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کی کوشش کی۔ جب ان کے مظالم حد سے بڑھ
گئے، تو ہم نے آپ کے ملک کا رخ کیا، آپ کی پناہ میں آئے، اور امید کی کہ یہاں ہمیں
انصاف ملے گا۔"
نجاشی کا ردعمل:
نجاشی نے اس تقریر کو سننے کے بعد قریش کے نمائندوں سے مزید
سوالات کیے اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے قرآن کی کچھ آیات سنانے کو کہا۔ حضرت
جعفر نے سورۃ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت کیں، جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور
حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر تھا۔ ان آیات کو سن کر نجاشی کی آنکھوں میں آنسو آ
گئے، اور انہوں نے کہا کہ یہ کلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام ایک ہی
سرچشمے سے ہیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی درخواست رد کر دی اور مسلمانوں کو
حبشہ میں امن و سکون کے ساتھ رہنے کی اجازت دی۔
یہ تقریر سچائی، اخلاص، اور ایمان کی عظیم مثال ہے، جس نے نجاشی
کے دل کو نرم کر دیا اور مسلمانوں کو پناہ دلانے کا سبب بنی۔
وفد قریش کی ناکامی:
قریش کے وفد نے جب ناکام ہوتے دیکھا تو مذہبی کارڈ
استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نجاشی کو ورغلانے کی کوشش کی کہ مسلمان حضرت عیسی
علیہ السلام کے متعلق اچھے خیالات نہیں رکھتے مگر جب اس نے حضرت جعفر طیار سے اس
بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے سورہ مریم کی چند آیات پڑھ کر سنائی تونجاشی نے
زمین سے ایک تنکا اٹھایااور کہاواللہ جو کچھ تو نے کہا حضرت عیسی علیہ السلام اس
سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں۔ اس طرح قریش کا یہ دورکنی وفد بیسیار
کوشش کے باوجود نامراد و ناکام ہو کرواپس آگیا۔
شعب ابی طالب میں محصوری/ قریش کا مقاطعہ:
مسلمانوں کی
دوسری ہجرت حبشہ کے بعد قریش بہت زیادہ تلملائے اور مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم
ڈھانے لگ گئے۔ جب ستم کے سارے ہتھکنڈے آزما چکے اور دعوت دین کی آواز بند نہ کر
سکے تو انہوں نے ایک اور منصوبہ بنایا کہ خاندان بنو ہاشم کو حمایت سے محروم کرنے
کے لئے ان کا مقاطعہ کرایا جائے۔ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ ﷺ اور آپ کے خاندان کو
شہر بدر اور محصور کر کے مزید اذیت سے دو چار کیا جائے۔ چنانچہ ایک معاہدہ طے پایا
جسے عکرمہ بن ابی جہل نے لکھا اور خانہ کعبہ کے دروازے پر لٹکادیاگیا۔ اس معاہدے میں
خاندان بنو ہاشم میں سے صرف ابو لہب عبد العزی بن عبد المطلب شریک ہوا تھا۔ اس
معاہدے کی اہم شقیں یہ تھیں۔
۱۔
اگر بنو ہاشم( حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کے لئے ہمارے حوالے
نہ کریں تو ان کا مکمل معاشرتی مقاطعہ کیا جائے۔
۲۔
ان کے ساتھ رشتے ناطے اور شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کر لئے جائیں۔
۳۔
ان سے خرید و فروخت اور لین دین ہر گز نہ کیا جائے۔
۴۔
انہیں کھانے پینے کی اشیاء مہیا نہ ہونے دی جائیں۔
۵۔
ان سے کسی قسم کا رابطہ اور میل جول نہ رکھے جائیں
۶۔
انہیں گلی محلوں اور بازاروں میں گھومنے پھرنے نہ دیا جائے۔
رسول کریم ﷺ
کے ساتھ آپ کا پورا خاندان سوائے ابو لہب کے ایک بہت ہی کٹھن اور صبر آزما زندگی میں
مبتلا ہوگیا۔بنو ہاشم شہر چھوڑنے اور پہاڑ کی گھاٹی ‘‘شعب ابی طالب’’ میں سکونت پذیر
ہونے پر مجبور ہو گئے۔مقاطعہ کا یہ عرصہ تین سال تک جاری رہا۔
تین سالہ
معاشرتی مقاطعہ کے دوران رسول کریم اور آپ کے خاندان اور دیگر مسلمانوں نے بہت سے
مصائب و مشکلات کا سامنا کیا۔ چونکہ اس عرصے آپ ﷺ حدود مکہ کے اندر داخل نہیں
ہوسکتے تھے اس لئے آپ اطراف و جوانب کی بستیوں میں نکل جاتے اور وہاں صحرا نشینوں
اور خانہ بدوشو ں کو دعوت اسلام دیتے ۔
عام الحزن/ غم کا سال سنه ۱۰ نبوی (۳
قبل ہجرت /۶۱۹ء)
نبوت کے دسویں
سال جب آپ کو تین سالہ معاشرتی مقاطعہ کی اذیتوں سے رہائی ملی اور آپ پھر سے اہل
مکہ میں اور وہاں زیارت کے لئے آنے والوں میں دعوت دین کا کام شروع کیا۔مگر اسی
عرصہ میں پہلے آپ کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا ۔ ان کی پشت بانی آپ کے لئے بہت ہی
آسرا تھا۔ انہوں نے مقاطعہ کے دوران آپ کا بھر پور ساتھ دیا۔ ابو طالب بہت ہی شفقت
و محبت کرنے والے تھے اور یہ ایک طرح سے آپ کا پشت بان بھی تھا۔ان کے انتقال سے آپ
ﷺ کو بہت ہی دکھ پہنچا۔
چچا کے
انتقال کے بعد آپ کی غمگسار اور وفا شعار شریک حیات ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری
بھی ماہ رمضان ۳ قبل
ہجرت مطابق ۶۱۹ء میں
داغ مفارقت دے گئیں۔ اس لئے مؤرخین نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا
ہے۔
سفر طائف: شوال سنه ۱۰
نبوی / فروری’ مارچ ۶۱۹ء
ابو طالب کی
وفات کے بعد آ پ کا اور اسلام کا ازلی دشمن ابو لہب بنو ہاشم کا سردار بنا تو اس
نے آپ ﷺ کو قبیلہ بدر کرنے کا اعلان کر دیا۔اس طرح عرب دستور کے مطابق آپ اپنے قبیلے
کی حمایت سے محروم ہو گئے۔
عرب کے قبائلی
نظام میں بے حمایت ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انسان ملکی’ شہری’ قبائلی اور انسانی
حقوق سے محروم ہو جانا۔ایسے شخص کی عزت و آبرو اور آزادی اورجان و مال کا چونکہ
قصاص نہ ہوتا تھا اس لئے جو شخص چاہتا اسے غلام بنا سکتا’ اس کی عزت و دولت لوٹ
سکتا ’ حتی کہ اسے قتل بھی کر سکتا تھا’ اور کوئی قانون ’ دستور ’ رواج اس کی باز
پرس نہیں کر سکتا تھا۔
قریش تو پہلے
ہی آپ کے خون کے پیاسے تھے اس لئے آپ نے مکے سے دور طائف کو اپنی تحریک کا مستقر
بنانے کا ارادہ کیا اور طائف چلے گئے۔
طائف کا سفر اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور دلخراش واقعہ ہے، جو
حضور نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی کے دورِ ابتلا کا ایک حصہ ہے۔ اس کا پس منظر یوں ہے
کہ جب مکہ مکرمہ کے کفار نے آپ ﷺ کی دعوتِ اسلام کو مسلسل ٹھکرایا اور مخالفت و
ظلم و ستم بڑھ گیا، تو آپ ﷺ نے ارد گرد کے قبائل اور علاقوں میں جا کر اسلام کی
دعوت پیش کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے طائف کا سفر کیا، جو مکہ
سے تقریباً 60 میل دور ایک سرسبز اور خوشحال شہر تھا، اور وہاں کا قبیلہ ثقیف بہت
معروف اور بااثر تھا۔
یہ سفر سن 10 نبوی (یعنی نبوت کے
دسویں سال) کا واقعہ ہے، جب حضور ﷺ اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی
اللہ عنہ کے ہمراہ طائف پہنچے۔ آپ ﷺ نے وہاں دس دن قیام کیا اور اس دوران شہر کے
مختلف سرداروں اور معززین سے ملاقاتیں کیں، انہیں اسلام کی دعوت دی، اور اللہ کی
توحید اور رسول کی رسالت کو تسلیم کرنے کی تلقین کی۔
بدقسمتی سے طائف کے سرداروں نے آپ
ﷺ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ انتہائی ہتک آمیز رویہ اپنایا۔ ان میں سے کسی نے
قبولیت کا کوئی نشان نہیں دکھایا، بلکہ آپ کا مذاق اڑایا اور شہر کے بدکردار لوگوں
کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ ان اوباشوں نے آپ ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے راستوں میں آپ
پر پتھر برسائے، جس سے آپ کے جسمِ اطہر کو زخم پہنچے، حتیٰ کہ آپ ﷺ کے مبارک قدم
خون سے لت پت ہو گئے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم سے آپ کو بچانے
کی ہر ممکن کوشش کی، مگر دونوں شدید زخمی ہو گئے۔
طائف سے نکلنے کے بعد آپ ﷺ نے ایک
باغ میں پناہ لی، جو عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ نامی سرداروں کی ملکیت تھا۔ وہاں آپ ﷺ
نے دعا فرمائی، جس میں اپنی بے بسی اور کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے
مدد اور نصرت کی فریاد کی۔ یہ دعا اسلامی تاریخ کی مشہور ترین اور انتہائی دلگداز
دعاؤں میں شمار ہوتی ہے، جس میں آپ ﷺ نے اللہ کی رضا پر مکمل بھروسہ ظاہر کیا۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی
دلجوئی کے لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا، جو پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے
اور عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ چاہیں تو ان بدبخت لوگوں کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دیا
جائے۔ لیکن رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا، "نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان
کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ
کسی کو شریک نہیں کریں گے۔"
طائف سے واپسی پر رسول اللہ ﷺ مطعم بن عدی کی پناہ میں مکہ میں
داخل ہوئے۔ مطعم بن عدی، جو قریش کا ایک بااثر سردار تھا، نے آپ ﷺ کو اپنی حمایت
فراہم کی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو ہتھیاروں سے لیس ہو کر آپ ﷺ کے گرد حفاظت کے لیے
کھڑا کیا اور اس طرح آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں پناہ دیتے ہوئے خانہ کعبہ تک پہنچایا۔
واقعہ معراج اور فرضیت نماز: سنه ۱۱ نبوی / ۲ سال قبل ہجرت /۶۲۰ء
واقعہ معراج رسول اللہ ﷺ کے زندگی
کے اہم ترین معجزات میں سے ایک ہے، جو ہجرت سے قبل پیش آیا۔ اس رات، اللہ تعالیٰ
نے اپنے حبیب محمد ﷺ کو مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک براق پر سفر کرایا،
جسے اسراء کہا جاتا ہے۔ وہاں آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ پھر معراج کا
سفر شروع ہوا، جہاں آپ ﷺ کو سات آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور مختلف انبیاء سے
ملاقاتیں ہوئیں، جنت و جہنم کے مناظر دکھائے گئے، اور آخر کار آپ ﷺ کو سدرة
المنتهي تك لے جایا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس ملاقات میں آپ ﷺ کو مختلف احکامات، خاص طور
پر نماز کی فرضیت، عطا فرمائی۔ ابتدا میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، مگر نبی اکرم ﷺ
کی درخواست پر تخفیف کر کے انہیں پانچ کر دیا گیا، لیکن ان کا اجر پچاس نمازوں کے
برابر رکھا گیا۔ اس پورے سفر کے بعد آپ ﷺ اسی رات مکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے۔ یہ
سفر جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے ایک عظیم معجزہ تھا، جس کی تصدیق قرآن مجید
میں سورہ بنی اسرائیل اور احادیث میں تفصیل سے موجود ہے۔