عقیدہ ختم نبوّت

0

عقیدہ ختم نبوّت

اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔ اس کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد پر قائم ہے۔ ان عقائد میں "ختم نبوت" کو مرکزی مقام حاصل ہے، کیونکہ یہ ایمان دین کی تکمیل اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے آخری ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ ختم نبوت کا مطلب ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ 

ختم نبوت کا مفہوم اور اس کی جامعیت:

ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا، نہ کوئی شریعت نازل ہوگی، اور نہ ہی کسی نئی وحی کا سلسلہ جاری ہوگا۔ آپ کی رسالت تمام دنیا اور تمام اقوام کے لیے ہے، اور قیامت تک کے لیے آپ کی تعلیمات ہی انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔

یہ عقیدہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں ایک ایسی روشنی ہے جو دین کے ہر گوشے کو منور کرتا ہے اور امت کو ہر طرح کی گمراہی سے بچاتا ہے۔

ختم نبوت کا قرآنی ثبوت:

قرآن مجید، جو اللہ کی آخری کتاب ہے، ختم نبوت کی وضاحت انتہائی جامع اور واضح انداز میں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 "مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔"  (سورۃ الأحزاب:33:40)

   ترجمہ: "محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتمے والے ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔"  

   یہ آیت عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد ہے اور اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تکمیل دین اور اتمام نعمت کی خوشخبری دیتے ہوئے دین کے مکمل ہونے اور اس میں کسی کمی بیشی کے نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اب اور کسی نبی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ فرمایا:

اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الاسلام دينا.(سورۃ المائدہ :3)

   "آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔"  

   یہ آیت اسلام کی تکمیل اور اس بات کا اعلان ہے کہ دین اب کسی اور وحی یا نبی کی ضرورت کے بغیر مکمل ہے۔ جب تك اسلام تكميل كے مراحل ميں رها الله تعالى نے نبوت كا سلسله جاري ركھا اور جب اس كي تكميل هو گئي تو نبوت كا سلسله بھي بند كر ديا اس لئے اب كسي نئي شريعت اور قانون كي ضرورت باقي نهيں رهي چنانچه اس  سلسلے كو بند كر ديا۔ اب نئي شريعت كي ضرورت نهيں البته جو نئے مسائل آتے هيں ان كي توضيح اور تشريح كرنا علماء امت كي ذمه داري هے اور اس كے لئے شريعت نے اجتهاد كا دروازه كھلا ركھا هے۔

حدیث کی روشنی میں ختم نبوت:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں مختلف مواقع پر اپنے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا۔ 

  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ ؟ ". قَالَ : " فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ ".(صحيح بخاری كتاب المناقب باب خاتم النبيين صلى الله عليه وسلم حديث نمبر   3535اور صحيح مسلم كتاب الفضائل باب ذكر كونه خاتم النبيين حديث نمبر2286)

" حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے روايت هے كه رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمايا میری اور مجھ سے پہلے آنے والے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک خوبصورت عمارت بنائی، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کو دیکھ کر اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کی جگہ خالی ہے۔ میں وہ آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔"

صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ ". قَالُوا : فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : " فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ ". (صحيح مسلم كتاب الامارة باب وجوب الوفاء ببيعة الخلفاء حديث نمبر 1842)

  نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا "بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کرتے تھے ، جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا ایک نبی اس کا جانشین بنتا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ بہت سے خلفاء یوں گے۔ صحابہ نے کہا پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: پہلے جن کی بیعت ہو اسی ترتیب سے ان کو پورا کرو اور ان کو ان کا حق دو،  اللہ نے ان پر جو ذمہ داری ڈالی ہے ان کے متعلق ان سے ضرور پوچھے گا۔"

جامع ترمذی میں ہے:

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ".هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. (ترمذی ابواب الفتن باب لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون حدیث نمبر 2219، سنن ابي داود اول كتاب الفتن و الملاحم باب ذكر الفتن و دلائلها حديث نمبر 4252)

 حضرت ثوبان نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے بہت سے قبائل مشرکین سے الحاق نہ کر لیں ، اور یہاں تک کہ وہ بتوں کی پوجا شروع نہ کریں ، اور میری امت میں میرے بعد 30 جھوٹے نبی پیدا ہوں گے ہر ایک دعویٰ کرے گا وہ نبی ہے، لیکن یاد رکھو، میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"

            الله رسول  حضرت محمد صلى الله عليه و آله وسلم كے آخري نبي هونے اور آپ كے بعد دوسرا كسي نبي كے نه آنے كے متعلق قرآن  و حديث دونوں ميں صراحت موجود هے اس لئے اس كے متعلق تاويل كرنے يا شكوك وشبهات ميں پڑنے كي كوئي گنجائش  هي نهيں هے۔

اس عقیدے کے تین بنیادی پہلو ہیں:

1. نبوت کا اختتام:  

   نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔اب کوئی نبی نہیں آئے گا اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو "خاتم النبیین" قرار دے کر سلسلہ نبوت کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔  اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی  اپنے متعلق "میں وہ آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔" کہہ کر سلسلہ نبوت ہمیشہ کے لیے اختتام پذیر ہونے کی خبر دی۔

2.شریعت کی تکمیل:

   دین اسلام مکمل ہو چکا ہے، اور اب اس میں کسی اضافے یا تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ سورۃ المائدۃ میں واضح الفاظ میں اس کا اعلان کردیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اب قیامت تک کے لئے کسی نبی کی ضرورت باقي نہیں رهي۔

3. امت کی رہنمائی: 

   امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کے ذرائع قرآن و سنت ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا جب تک تم کتاب اللّٰہ اور سنت رسول کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوں گے:

 
" تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا مَسَكْتُمْ بِهِمَا : كِتَابَ اللَّهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ ".(موطا امام مالك كتاب الجامع باب النهي عن القول بالقدر حديث نمبر 2618)

میں تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے اللّٰہ کی کتاب (قران مجید) اور اس کے نبی کی سنت۔

 گویا اب قیامت تک اہل اسلام کے لیے رہنمائی کا ذریعہ کتاب وسنت ہے، اور علماء امت و مجتہدین انہی کی روشنی میں امت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کو انبیاء کے وارث قرار دیا گیا ہے ارشاد نبوی ہے:

ان العلماء ورثة الأنبياء و ان الانبياءلم يورثوا ديناراو لا درهما ورثوا العلم . (سنن ابي داود كتاب العلم باب الحث علي طلب العلم حديث نمبر 3641)

یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبياء نے وراثت ميں كوئي دينار يادرهم نهيں چھوڑے بلكه انهوں نے وراثت ميں علم چھوڑا هے۔ 

ختم نبوت کے انکار کے نتائج:

جو لوگ ختم نبوت کے عقیدے کا انکار کرتے ہیں یا اس میں شک و شبہ پیدا کرتے ہیں، وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے خارج ہو جاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے بہت سے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا،  اور علماء امت نے ان کو اسلام سے خارج قرار دے کر ان کے ساتھ جہاد کر کے ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی، حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه نے اپنے دور خلافت ميں اگرچه ان كي خلافت كے ابتدائي ايام تھے مگر كسي خطرے كو خاطر ميں لائے بغير اس فتنه كا قلع قمع كيا اور واضح كرديا كه ختم نبوت كا انكار كرنے والا  دائره اسلام سے خارج هے۔ يهاں چند مدعيان نبوت كو بطور مثال پيش كيا جاتا هے جیسے:

1۔اسود عنسی

 اس كا پورا نام عبهله بن كعب بن عوف عنسي تھا، چونكه اس كا رنگ كالا تھا اس لئے لوگ اس كو "اسود" يعني كالا كهه كر پكارتے تھے بعد اسي نام سے مشهورهوگيا۔اس کذاب کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ میں دعویٰ نبوت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ اسود عنسی شعبدہ بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا چونکہ اس زمانے میں یہ چیزیں کسی کے باکمال ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھیں لہٰذا اسی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اس کی معتقد بن گئی۔ اسود عنسی ذوالحمار کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سربسجود ہوجاتا، اسی طرح جب بیٹھنے کو کہتا بیٹھ جاتا اور اور کھڑے ہونے کو کہتا کھڑا ہوجاتا، نجران کے لوگوں کو اپنی شعبدے بازی دکھا کر متاثر کیا اور چکنی چپڑی باتوں سے اہل نجران کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنالیا اور آہستہ آہستہ اس نے اپنی طاقت بڑھانا شروع کردی۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر  پھر بتدریج پورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ جب حضور نبی کریم ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے یمن کے بعض سرداروں اور اہل نجران کو اسود کے خلاف جہاد کا حکم نامہ تحریر فرمایا اور یوں یہ لوگ باہم رابطہ کر کے اسود کے خلاف متحد ہوگئے۔
 جب آپ ﷺ کا حکم نامہ ملا تو یمن کے مسلمان اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے گھر میں گھس کر اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کی منصوبہ بنایا اور  فیروز اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوا اور کذاب اسود کے کمرے میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر مار ڈالا۔ یوں یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

2. مسیلمہ کذاب:  

   مسیلمہ كا پورا نام مسيلمه بن حبيب تھا ، اس  کا  تعلق بھی یمن سے تھا۔ یمن کے قبیلہ بنو حنیفہ سے اس کا تعلق تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، جسے خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ختم کیا۔ یمامہ کے مقام پر ایک سخت معرکہ ہوا مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربانا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے جن میں ثابت بن قیس، حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں۔مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا مگر لشکر اسلام نے قلعے کا دروازہ توڑ کر حملہ کردیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان ہوچکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گرکر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک انصاری صحابیؓ کھڑے تھے، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا اور یوں يه جھوٹا نبی بھی نشان عبرت بن گیا۔

3۔ طلیحہ اسدی

طلیحہ بن خويلد اسدي ، بنو اسد سے ان كا تعلق تھا ، اس نے بھي سنه 11 هجري ميں نبوت كا دعوى كيا تھا، اور رسول الله صلى الله عليه و سلم نے ايك صحابي حضرت ضرار بن الازور كو اس كے قتل كے لئے بھيجا مگر يه شخص اس كے وار سے بچ گيا ۔ بعد ميں حضرت ابو بكر كے دور ميں حضرت ابو بكر نے حضرت خالد بن وليد كو اس سے مقابلے كے لئے بھيجا ۔ اور ساتھ ہی طلیحہ اسدی کے قبیلے سے حضرت عدی بن حاتمؓ کو بھی روانہ کیاکہ ان کو سمجھاکر تباہی سے بچائیں۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو سمجھایا جس کے نتیجے میں قبیلہ طئے اور قبیلہ جدیلہ نے خلیفہ اسلام کی اطاعت قبول کرلی۔طلیحہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے مقابلے میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا جہاں کچھ عرصہ بعد دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ 

4. سجاح بنت حارث


سجاج بنت حارث كاتعلق قبيله بنو تميم سے تھا۔یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی۔  مذہباً عیسائی تھی، سجاح کو اپنی فطرت اور باکمال خوبیوں پر بہت ناز تھا۔ ایک دن اس نے سوچا مسیلمہ کذاب جیسا 100سالہ بوڑھا نبوت کا دعویٰ کرکے بااقتدار بن گیا ہے تو مجھے بھی اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جیسے ہی اس نے رسول كريم  ﷺ کے وفات کی خبر سنی تو دعویٰ نبوت کردیا چونکہ وہ بہت چرب زبان تھی  لہٰذا اس نے بہت جلد بنی تغلب اور بنی تمیم کے بڑے بڑے سرداروں کو اپنا ہم نوا بنالیا، مالک بن ہبیرہ، حنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے سردار بھی سجاح کی سحر بیانی سے مرعوب ہوکر مرتد ہوگئے۔
جب سجاح کی طاقت بڑھ گئی تو اس نے تمام معتقدین سرداروں کو بلاکر یمن پر حملے کی تیاری کا حکم دیا، جب سجاح کا لشکر یمن کی طرف روانہ ہوا جہاں مسیلمہ کذاب پہلے سے اپنی جھوٹی نبوت کی دکان کھولے بیٹھا تھا تو اسی دوران حضرت صدیق اکبرؓ نے ایک لشکر سجاح بنت حارث کی سرکوبی کے لیے بھی روانہ کردیا تھا۔ لشکر اسلام کچھ فاصلہ آگے بڑھا تھا کہ معلوم ہوا کہ نبوت کے دو جھوٹے دعویداروں کے درمیان تصادم ہونے جارہا ہے تولشکر اسلام وہیں رک گیا۔ ادھر مسیلمہ کذاب کو جب سجاح کے حملے کی خبر ملی تو وہ سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ سجاح بہت ہوشیار اور حوصلہ مند عورت ہے۔ اس لیے اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھانس لیا اور دونوں نے 3دن تک مسیلمہ کذاب کے خیمے میں اپنی اپنی نبوت پر بحث ومباحث کے دوران داد وعیش کے دن گزارنے کے بعد نکاح کرلیا۔ جب 3روز بعد سجاح نے اپنے معتقدین کو مسیلمہ کذاب کے نبی برحق ہونے اور نکاح کی خبر سنائی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہوکر الگ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی اور خاموشی سے قبیله بنی تغلب میں زندگی گزارنی شروع کردی، جب حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کرلیا، سجاح بن حارث بھی ان کے ساتھ یہاں آباد ہوگئی اور توبہ استغفار کرکے دوبارہ مسلمان ہوگئیں۔

5. حارث کذاب دمشقی

 حارث کذاب  اس كا پورا نام حارث بن عبد الرحمن بت سعيد تھا۔ يه بھی اپنی ریاضت ومجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے افعال کرتا تھا جسے لوگ كرامت اور معجزه سمجھتے تھے حالانكه يه كوئي معجزه نهيں دكھاتا تھا بلكه سحر اور استدراج هوتا تھا، مثلاً یہ لوگوں کو کہتا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔ یہ لوگوں کو موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا۔ اس کے گمراہ کن افعال اور شعبدوں کی شہرت آس پاس پھیل گئی اور اس بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ 

خلق خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر  دمشق کے ایک رئیس قاسم بن بخیرہ نے خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کو سارا ماجرا سنادیا۔
عبدالمالک نے حارث کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا اور وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی جھوٹی نبوت کا آغاز کردیا۔ بصرہ کے ایک شخص نے اس سے ملاقات کی اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اس کا اعتماد حاصل کیا اور کچھ عرصے بعد خلیفہ کے دربار میں پہنچ کر سارا قصہ بیان کرنے کے بعد حارث کی گرفتاری کے لیے 20سپاہی لے کر پھر بیت المقدس پہنچ گئے اور موقع ملتے ہی حارث کو زنجیروں میں باندھ لیا۔ بیت المقدس سے بصرہ تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے 3سے زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر یہ شخص جس نے گرفتار کیا تھا وہ کسی طور مرعوب نہیں ہوئے اور جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کردیا۔ خلیفہ کے دربار میں بھی حارث نبی ہونے کا دعویدار رہا جس پر خلیفہ نے محافظ کو نیزہ مارنے کا اشارہ کیا لیکن اس کے استدراج کی وجہ سے پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر کوئی اثر نہیں کیا جس پر اس کے حواری خوش ہوگئے ۔ پھر خلیفہ عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے پار ہوگیا اور یوں یہ جھوٹا نبی بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
6۔ مرزا غلام احمد قادیانی: 

 یہ کذاب بھارتی صوبہ پنجاب ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے موضع قادیان میں 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوا۔ 7,6سال کی عمر میں اس نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ چند فارسی کتب بھی پڑھیں مگر تفسیر، فقہ اور دوسرے دینی علوم سے قطعاً محروم رہا۔ والد نے طب کی تعلیم بھی دلانے کی کوشش کی مگر یہ اس میں بھی آگے نہ بڑھ سکا اور نتیجتاً ’’نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان‘‘ بن گیا۔ سیالکوٹ میں ملازمت کی۔ مختار کے امتحان میں بیٹھا مگر ناکام رہا۔ پھر قادیان کا رخ کیا۔ قانون کے چند نکات سے واقفیت تھی، والد کے اثرورسوخ پر وکیل بن گیا اور کچہریوں کی خاک چاٹتا رہا اور اپنے خاندانی مقدمات بھی ہارتا رہا۔
1890ء میں اس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، 1892ء میں مرزا نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1901ء میں پہلے ظلی بروزی غیر تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا پھر اصلی نبی ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد بہت سے مسلمان علماء کے ساتھ مناظرے کئے بالآخر مولانا ثنااللہ امرتسری سے مناظرے اور مباہلہ کے نتیجے میں 29مئی 1908ء کو اچانک قہر خدا کا شکار ہوا اور ہیضہ میں مبتلا ہوکر لاہور میں پاخانے کے اندر موت واقع ہوئی۔

  19ویں صدی میں ہندوستان میں استعماری قوتوں کے کہنے پر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، جسے تمام مسلم مکاتب فکر نے متفقہ طور پر رد کیا اور 1974 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔

ختم نبوت کی حفاظت ایک دینی فریضہ:

ختم نبوت کے عقیدے کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، ہر ایک کو اپنے بساط کے مطابق اس کی حفاظت کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ کوئی چور نبوت کی عمارت میں رخنہ نہ ڈالنے پائے۔ اس مقصد کے لیے:

1. تعلیم و تربیت:

    بچوں اور نوجوانوں کو اس فتنه كے متعلق آگاه كرنا چاهئے اور قرآن و حدیث کے ذریعے اس عقیدے کی اہمیت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ تاكه ان فتنه پرور لوگوں كے جال ميں نه آئيں اور وه اپنے ايمان كي حفاظت كر سكيں۔

2. علماء کا کردار: 

   علماء كو چاهئے كه وه دور حاضر ميں نوجوانوں  كے دلوں ميں پيدا هونے والے شكوك و شبهات كو ختم كرنے  كي كوشش كريں اس سلسلے ميں ختم نبوت کے عقیدے کی وضاحت اور اس پر ہونے والے حملوں کا مدلل جواب دیتے رہیں، اس لئے كه دور حاضر ميں بهت سے فتنه گر ختم نبوت كے عقيدے كے بارے ميں مسلم نوجوانوں كے ذهنوں ميں شكوك و شبهات پيدا كرنے كي كوشش كر رهے هيں۔

3. قانونی تحفظ: 

   اسلامی ممالک میں اس عقیدے کو آئینی حیثیت دینا اور جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف سخت اقدامات کرنا ضروری ہے۔ اس لئے اگر اس كو قانوني تحفظ نه ديا جائے تو بهت سے مدعيان نبوت پيدا هوں گے اور دين اسلام ميں رخنه ڈال كر اس كا حليه بگاڑنے كي كوشش كريں گے جس طرح ماضي ميں هوتا رها هے۔

ختم نبوت کی روحانی اور معاشرتی اہمیت:

1. امت کا اتحاد:

    ختم نبوت کا عقیدہ  پوري امت مسلمہ كا متفقه مسئله هے ، يه عقيده پوري امت مسلمه  کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اس لئےجو اس عقيدے سے هٹ كر عقيده ركھتا هے وه امت مسلمه كا حصه نهيں هوتا اور وه حلقه اسلام سے خارج هو جاتا هے۔

2. ایمان کی تکمیل:

     یہ عقیدہ مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کی سنت کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، اور تكميل ايمان كے لئے ضروري هے كه الله تعالى كي اطاعت كے ساتھ نبي آخر الزمان خاتم المرسلين كي اطاعت كي جائے۔  اگر كوئي محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كو آخري نبي تسليم نهيں كرتا بلكه ان كے بعد كسي اور نبي كے آنے كا دعوى كرتا هے تو آپ صلى الله عليه وسلم كے بجائے دوسرے كو نبي سمجھ كر اس كي اطاعت كرے گا اور يه اس كو دائره اسلام اور دائره ايمان سے خارج كرتا هے۔

3. گمراہی سے حفاظت: 

   یہ عقیدہ مسلمانوں کو جھوٹے مدعیان نبوت اور فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لئے كه جھوٹے مدعيان نبوت لوگوں كو گمراهي كي طرف لے جاتے هيں اور انهيں صراط مستقيم سے هٹا ديتے هيں۔

نتیجہ:

ختم نبوت اسلام کے عظیم عقائد میں سے ایک ہے جس پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے۔ یہ عقیدہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی سنتوں پر عمل کرنے کا درس دیتا ہے۔ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عقیدے کی حفاظت کرے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے، کیونکہ یہی عقیدہ دین اسلام کی بنیاد ہے اور امت مسلمہ کے اتحاد کا راز بھی۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)