تاریخ و تدوين
حدیث
تدوین حدیث کے ادوار
تدوین کے معنی و مفہوم:
تدوین کے
معنی ترتیب دینا’ جمع کرنا اور تالیف کرنا کے ہیں۔ حدیث کی تدوین کا کام عہد رسالت
سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم کے ارشادات’ احوال اور اعمال و افعال کو جمع کر کے کتابی صورت میں
اکٹھا کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا اسے ‘‘تدوین حدیث’’ کہا جاتا ہے۔
تدوین حدیث
کے کام کو درج ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
دور اول عہد رسالت (از بعثت نبوی تا وفات نبوی
11 ھ)
عہد رسالت
میں حفاظت حدیث کے لئے رسول کریم ﷺ نے درج ذیل مختلف ذرائع اختیار کئے ۔ حفظ
روایت’ کتاب حدیث اور تعامل حدیث۔
حفظ حدیث (حديث كو زباني ياد ركھنا):
رسول کریم ﷺ
کے زمانے میں لکھنے کا رواج زیادہ عام نہیں تھا اس لئے صحابہ کرام رسول کریم ﷺ کے
بتائے ہوئے فرمودات کو یاد رکھتے تھے اور آگے روایت کرتے تھے۔ کتابت عام نہ ہونے
کی وجہ سے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام لکھنے کے بجائے زبانی روایت اور حفظ ترجیح
دیتے تھے، ويسے بھي عربوں كا حافظه بهت تيز هوتاتھا اور وه چيزوں كو زباني ياد
ركھنے ميں مهارت ركھتے تھے۔
عربوں كي اسي
خصوصيت كي بنا پررسول کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شوق دلایا
کہ آپ کی باتوں اور فرموادت کو یاد رکھیں اور پھر اسی طرح دوسروں تک پہنچا دیں
اللہ تعالی اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ بلکہ آپ نے ایسے شخص کے لئے دعا فرمائی
جو حدیث نبوی کو زبانی یاد کرتا ہے اور پھر اس کو ویسے ہی آگے پہنچا دیتا ہے ۔
فرمایا:
نضر
اللہ امرأ سمع منا حدیثا فحفظہ حتی یبلغہ فرب حامل فقہ الی من هو افقہ منہ و رب
فقہ لیس بفقیہ۔(سنن ابی داود کتاب العلم باب فضل نشر العلم
حدیث نمبر 3660)
اللہ اس شخص
کو خوش وخرم رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی پھر اس کو یاد کیا یہاں تک کہ اس کو آگے
پہنچا دیا۔ پس بہت سے فقہ کے حامل ان تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ سمجھ دار
ہو اور بہت سے فقہ کے حامل ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھ دار نہیں ہوتے۔
دوسری روایت میں یوں آیا ہے۔
نضر
اللہ امرأ سمع مقالتی فوعاها و حفظها و بلغها فرب حامل فقہ الی من هو افقہ منہ۔(جامع
الترمذی ابواب العلم باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع حدیث نمبر2658)
اللہ اس شخص
کو خوش وخرم رکھے جس نے میری بات سنی پھر اس کو یاد رکھا اور اس کو حفظ کیا اور
پھر اس کو آگے پہنچایا۔ بعض دفعہ شاگرد استاد سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔
رسول کریم ﷺ
کے ارشادات کو حفظ کرنے اور ان کو یاد رکھنے کے لئے لوگوں میں بہت شوق پائے جاتے
تھے۔ چنانچہ صحابہ کرام میں بہت سے ایسے اصحاب رسول ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی
سینکڑوں احادیث زبانی یاد کیں اور اپنے روز مرہ زندگی میں آپ کے ارشادات سے
رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
کتابت حدیث:
شروع شروع
میں رسول کریم ـﷺ نے حدیث لکھنے سے منع
فرما دیا تھا پھر آپ نے اجازت دے دی۔ غالبا کتابت حدیث کی ممانعت عارضی تھی اور اس
کی مصلحت و حکمت یہ تھی کہ چونکہ قرآن مجید کی بھی کتابت ہوتی تھی اس لئے یہ دونو
ں خلط ملط نہ ہوجائیں۔لیکن جب صحابہ کرام کو قرآن اور حدیث میں امتیاز ہو گیا تو
آپ نے کتابت حدیث کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کی تلقین بھی کی ۔ اور بعض دفعہ آپ
نے خود لکھوا کر دوسروں کو دیا مثلا
٭ حضرت عبد اللہ بن عمرو آپ ﷺ کی ہر بات لکھ
دیا کرتے تھے’ قریش نے منع کیا بعد میں جب آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے لکھنے کے لئے
فرمایا۔سنن ابی داود میں ہے۔
عن
عبد اللہ بن عمرو کنت اکتب کل شیء اسمعہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارید
حفظہ فنهتنی قریش و قالوا ا تکتب کل شی ء تسمعہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
بشر یتکلم فی الغضب و الرضافامسکت عن الکتاب و ذکرت ذلك لرسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم فأؤما باصبعہ الی فیہ فقال: اکتب فوالذی نفسی بیدہ ما یخرج منہ الا حق۔ (سنن
ابی داود کتاب العلم باب فی کتاب العلم)
عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں
رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنتا سب لکھ لیا کرتاتھامیں ان کو یاد رکھنااور حفظ کرنا
چاہتا تھا’ قریش نے مجھ اس سے منع کر دیا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ
سنتے ہو سب لکھ لیا کرتے ہو جبکہ رسول اللہ ﷺ انسان ہیں ہو سکتا ہے کہ غصے میں یا
مسرت میں کوئی غلط بات بھی منہ نکل جاتی ہو۔ چنانچہ میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔اور پھر
میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تو لکھ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس
(منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
ترمذی کی
روایت میں یوں بیان ہوا ہے:
چنانچہ ان سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ
میں آپ ﷺکی جو بات سنوں لکھ لیا کروں خواہ آپ حالت غضب میں ہو یا عالم مسرت میں؟آپ
ﷺ نے فرمایا کہ ہاں کسی بھی حالت میں کوئی چیز بجز حق کے میری زبان سے نہیں
نکلتی۔(ترمذی’ مسند احمد)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے سوا کسی صحابی کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد نہ تھیں۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ آپ سے جو کچھ سنتے وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں نہ
لکھتا۔ (بخاری کتاب العلم باب فی کتاب العلم)
٭ رسول کریم ﷺ نے ایک خطبہ دیا ’ ایک یمنی
شخص ابو شاہ نے آپ سے درخواست کی یہ باتین آپ مجھ لکھ کر دیں۔ چنانچہ آپ نے یہ
خطبہ لکھ کر دینے کی ہدایت فرمائی۔
٭ رسول کریم ﷺ زکوٰۃ کے احکام و مسائل لکھوا
کر زکوٰۃ فراہم کرنے والے عمال کو بھیجتے تھے۔ یہ احکام حضرت ابو بکر اور دیگر
صحابہ کرام کے پاس تحریری شکل میں موجود تھے۔(دار قطنی کتاب الزکوٰۃ)
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس متعدد احادیث
لکھی ہوئی موجود تھیں جن کو آپ اپنی تلوار کے میان میں رکھتے تھے۔
٭ رسول کریم ﷺ نے صلح حدیبیہ کی شرائظ کو
سہیل بن عمرو کے ساتھ لکھ کر معاہدہ کیا تھا۔ چنانچہ یہ شرائط تحریر شکل میں موجود
تھی۔ طبقات ابن سعد کے مطابق ان شرائط کی ایک کاپی سہیل بن عمرو کو دی اور ایک
کاپی اپنے رکھی تھی۔(طبقات ابن سعد باب غزوۃ الحدیبیۃ)
٭ عمرو بن حزم کو جب آپ ﷺ نے یمن کا حاکم بنا
کر بھیجا تو صدقات ’ دیات اور فرائض سے متعلق احکام لکھ کر دیئے تھے۔ (دار قطنی )
چنانچہ جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے تو انہوں نے مدینہ کی طرف پیغام بھیجا کہ
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں صدقات سے متعلق لکھے ہوئے خط تلاش کیا جائے چنانچہ انہیں
صدقات سے متعلق رسول اللہ ﷺ کا لکھا ہوا ایک خط ال عمرو بن حزم کے ہاں سے ملا جس میں صدقات کے احکام
لکھے ہوئے تھے۔ (سنن دار قطنی کتاب الزکوٰۃ باب زکوٰۃ الابل و الغنم)
٭ رسول کریم ﷺ نے مختلف بادشاہوں کو اسلام
لانے کے لئے جو دعوتی خطوط لکھے وہ آج بھی احادیث کا حصہ ہیں اور تاریخ کی کتابوں
میں محفوظ ہیں۔
حفاظت حدیث بذریعہ تعامل:
جہاں لوگ
رسول کریم ﷺ کے ارشادات کو زبانی یاد رکھتے تھے وہیں کچھ صحابہ کرام ان کو زیر
تحریر بھی لاتے تھے اور آپ ﷺ نے باقاعدہ لوگوں کو آپ ﷺ کے فرمودات لکھنے کی تاکید
بھی فرمائی ’ وہیں ایک طریقہ تعامل کا بھی تھا کہ صحابہ کرام جس طرح آپ کے ارشادا
ت سے سیکھتے تھے اسی طرح آپ کے عمل سے بھی سیکھتے تھے۔رسول کریم ﷺ ان صحابہ کرام
کو آپ کے عمل سے سیکھنے کا حکم دیتے جیسے کہ بخاری شریف کی مشہور حدیث ہے کہ آپ نے
فرمایا:
صلوا
کما رأیتمونی اصلی (صحیح البخاری)
یعنی تم اس
طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو۔
اسی طرح آپ
نے حج ادا کئے اور فرمایا تم مجھ سے حج کے طریقے سیکھو۔ چنانچہ صحابہ کرام رسول
کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر من و عن عمل
کرتے تھے اور آپ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں لاگو کرتے تھے چنانچہ رسول کریم ﷺ
کی شریعت صحابہ کرام کی زندگیوں میں عملی طور پر رچ بس جانے کی وجہ سے محفوظ ہوتی
چلی گئی۔يهي وجه هے كه امام مالك اجماع اهل مدينه كو ترجيح ديتے تھے وه سمجھتے تھے كه صحابه كرام خصوصا اهل مدينه
نے رسول كريم صلي الله عليه وآله وسلم سے جو كچھ سيكھا هے اس پر عمل كرتے هوئے آ
رهے هيں لهذا ان كا يه عمل نه صرف قابل حجت بلكه قابل ترجيح بھي هے۔
الغرض خلاصہ
کلام یہ ہے کہ حفاظت حدیث کے سلسلے میں یہ کوششیں عہد رسالت میں ہی شروع ہو گئی
تھی جہاں رسول کریم ﷺ نے ایک طرف لوگوں کو حدیث یاد کرنے’ یاد رکھنے اور پھر اسی
طرح جس طرح انہوں نے آپ ﷺ سے سنی ویسے ہی آگے بیان کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ان کے
دعا فرمائی تھی تو دوسری طرح آپ نے خود بھی لوگوں کو حدیثیں تحریر شکل میں لکھ کر
بھی دیئے اور لکھ کر ارسال بھی کر دیئے جس سے صحابہ کرام میں احادیث لکھنے کا
رجحان ہوا اور حدیثوں کا ایک بڑا ذخیرہ عہد رسالت میں ہی جمع ہو گیا۔
دور ثانی عہدوفات النبی 11 ھ سے پہلی صدی ہجری
کے خاتمہ تک
دور ثانی عہد صحابہ
صحابہ کرام
کی نظر میں رسول کریم ﷺ کا جو مقام و مرتبہ تھا اور ان کے دلوں میں آپ ﷺ کے لئے جو
عقیدت و محبت تھی’ اور شریعت اسلامی میں حدیث کی جو اہمیت و ضرورت تھی اس کا تقاضا
تھا کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلنے والے ہر لفظ کو محفوظ بنا لیں چنانچہ تاریخ
حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا اور
آپ ﷺ کے فرمودات کو نہ صرف یہ کہ اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیا بلکہ صحیفوں میں بھی
جمع کر لیا۔
حفظ حدیث:
اس دور میں
بھی پہلے دور کے تسلسل کے طور پر حفظ حدیث کا سلسلہ جاری رہا بلکہ صحابہ کرام سے
اس دور میں تابعین نے بکثرت احادیث حفظ کیں۔اس طرح زبانی زبانی تدوین حدیث میں خاص
ترقی ہوئی۔دور دراز سے لوگ صحابہ کرام کے پاس اخذ حدیث کے لئے آتے تھے اور ان سے
سیکھ کر جاتے تھے۔
کتابت حدیث:
اس دور میں
جہاں حفظ حدیث میں نمایاں اضافہ ہوا وہیں تحریری سرمایہ حدیث میں بھی گراں قدر
اضافہ ہوا۔اسلام کے اس عہد میمون میں احادیث نبوی پر مشتمل بہت سے مجموعے اور
صحیفے لکھے گئے جن میں سے چند نمایاں صحیفے درج ذیل ہیں۔
۱۔ صحیفہ عبد اللہ بن عمرو بن
العاص رضی اللہ عنہما جو ‘‘صحیفہ صادقہ’’ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں تقریبا ایک
ہزار احادیث نبوی جمع کی گئی تھیں۔
۲۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا
مجموعہ جو احادیث اور آپ کے فتوؤں پر مشتمل تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے اس کو
بچشم خود دیکھا تھا۔ (مقدمہ مسلم)
۳۔ حضرت سمرہ بن جند ب کی روایت
کردہ احادیث کا مجموعہ ان کے بیٹے سلیمان نے تیار کیا۔(تہذیب)
۴۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس
اپنا لکھا ہوا ایک مجموعہ احادیث تھا جس میں پانچ سو احادیث مرقوم تھیں۔ (تذکرۃ
الحفاظ للذہبی)
۵۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ کے پاس ایک خود نوشت ذخیرہ حدیث موجود تھا۔ دیکھئے جامع العلم)
۶۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو وراثت پر ایک طویل تحریر لکھی تھی جس میں وراثت سے
متعلق احادیث رسول جمع کی گئی تھی۔
۷۔ صحیفہ ہمام بن منبہ جسے حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
لکھوایا جو آج بھی اصل شکل میں موجود ہے۔
تعامل صحابہ:
اس عہد میں
بھی حدیث پر عمل پیرا ہونا اور اس پر عمل کر کے دوسروں کو بتانا صحابہ کرام کا
معمول تھا۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا لوگ جہاں حدیث کو دیکھتے وہیں اگر تعامل
صحابہ کو بھی دیکھتے تھے۔ رسول کریم ﷺ کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر صحابہ کرام نے
اپنے عمل سے حدیث کو محفوظ بنایا۔
دور ثالث عہد تابعین 100ھ سے 170ھ تک
دور ثالث کو
تابعین کا دور کہا جاتا ہے اس میں علم حدیث نے مزید ترقی کی اور تدوین حدیث کے
سلسلے میں درج ذیل امور سر انجام پائے۔
۱۔ حفظ حدیث:
اس دور میں
حفظ حدیث کا سلسلہ مزید ترقی کر گیا اور تابعین عظام مختلف امصار و ممالک سے صحابہ
کرام کی شاگردی حاصل کرنے کے لئے آنے لگے اور ان سے اخذ حدیث کرنے کے ساتھ ساتھ
احادیث کو زبانی یا د کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ہر طرف قال رسول اللہ کی آوازیں
آنے لگیں۔ ایک ایک تابعی نے کئی کئی صحابہ سے ذخیرہ حدیث کو یاد کر لیا۔
۲۔
سرکاری سطح پر تدوین حدیث کا کام:
اس عہد میں
سرکاری طور پر باقاعدہ احادیث مبارکہ جمع کرنے کا کام شروع کیا گیا۔ بخاری کتاب
العلم میں ہے کہ اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (99ھ ۔101ھ)نے جب دیکھا کہ اہل علم
تابعین یکے بعد دیگرے رخصت ہو رہے ہیں تو انہوں نے امیر مدینہ ابو بکر بن حزم کو
لکھا کہ اہل مدینہ سے جس قدر احادیث مل سکیں انہیں جمع کر لیا جائے۔(بخاری کتاب
العلم باب کیف یقبض العلم حديث نمبر99)
امام محمد بن
شہاب زہری (۵۰ھ۔۱۳۴ھ) نے ان کے حکم سے ایک حدیث کی
ایک مبسوط کتاب لکھی۔
۳۔
علم حدیث ایک فن کی صورت:
اس دور میں علم حدیث باقاعدہ ایک فن کے طور پر
ابھرا کیونکہ اس دور میں تعلیم خاصی عام ہو چکی تھی۔ حضرت سعید بن مسیب (م ۹۸ھ) حضرت حسن بصری (م ۱۱۰ھ) اور امام شعبی نے اس سلسلے میں
خاصا کام کیا ۔
۴۔
سیرت نویسی کا آغاز:
اس دور میں
موسی بن عقبہ (م ۱۴۱ھ) اور
محمدبن اسحاق (م ۱۵۰ھ) نے
سیرت نویسی کا آغاز کیا ۔ موسی بن عقبہ کی کتاب مفقود ہو چکی ہے ۔ محمد بن اسحاق
کی اصل کتاب معدوم ہے تاہم ابن ہشام نے اس کی کتاب کو اپنی کتاب سیرۃ ابن ہشام میں
سمو لیا ہے۔
۵۔
حلقات درس حدیث کا اہتمام:
اس دور میں
باقاعدہ حلقات درس حدیث کے انعقاد کا اہتمام ہونے لگا اور یہ حلقات حدیث عام طور
پر مساجد میں قائم کئے جاتے جہاں مختلف ممالک اور امصار سے آئے ہوئے علم حدیث کے
شوقین حدیث کی درس لیتے۔ایک محدث کے حلقہ درس میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے اور معلم
کو اپنی آواز سامعین تک پہنچانا مشکل ہو جاتا تو ایسے اشخاص کو مقرر کر دیا جاتا
جو معلم کے الفاظ کو سامعین تک پہنچاتے تھے۔ ان اشخاص کو ‘‘مستملی’’ یعنی املا
کرانے والا کہتے ہیں۔
۶۔
تحریری سرمایہ حدیث میں اضافہ:
اس دور میں
تحریری سرمایہ حدیث میں گراں قدر اضافہ ہوا جس کی وجہ سے تدوین حدیث عام ہوگئی اور
مختلف دیار و امصار میں محدثین نے کتابیں تالیف کرنا شرو ع کیا جن میں امام مالک
رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ‘‘موطا’’ سب سے زیادہ مستند و متداول ہے۔
امام مالک 93
ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 179 ھ میں وہیں وفات پائی۔ آپ حدیث اور فقہ
دونوں کے امام تھے۔ آپ نے اپنی مشہور کتاب موطا امام مالک 143 ھ میں تالیف کی اور
اس كو بهت سے اساتذه و شيوخ كے سامنے پيش كيا انهوں نے اس كو سراها اور تحسين كي۔
۷۔
علم اصول حدیث کی ایجاد:
اس دور میں
فتنہ وضع حدیث کھڑا ہوگیا بہت سے لوگ اپنی طرف حدیث گھڑ کر رسول کریم ﷺ کی طرف
منسوب کر کے بیان کرنے لگے جس سے عوام الناس میں من گھڑت حدیثوں کے پھیلنے کا
اندیشہ بڑھ گیا اور صحیح و غیر صحیح کی پہچان کرنا مشکل ہونے لگا چنانچہ محدثین نے
حدیث بیان کرنے اور حدیث پرکھنے کے اصول وضع کئے تاکہ احادیث صحیحہ کو غیر صحیحہ
سے الگ کیا جا سکے۔
۸۔
علم اسماء الرجال :
اس دور میں
چونکہ احادیث کی روایات زیادہ ہونے لگی تو علم الرجال وجود میں آیا یعنی احادیث
بیان کرنے والے افراد کے حالات’ کردار’ حافظه ، ثقاهت اور صلاحیتوں کے بارے میں
معلومات جمع ہونی شروع ہوئیں تاکہ کسی حدیث کے بیان کرنے والے کے ثقاهت ، عدالت
اور سيرت و كردار کی روشنی میں اس کے بیان
کر دہ حدیث کے مرتبے کا تعین کیا جا سکے اور اس پر صحت یا ضعف کے لحاظ سے حکم لگایا
جا سکے۔
دور چہارم 171ھ تا 450ھ
تدوین و
ترویج حدیث یہ عہد تبع تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا ہے۔ اس دور میں تبع
تابعین و ما بعد کے لوگوں نے جمع حدیث و تالیف حدیث میں بہت کام کئے اس عہد میں
علم حدیث کو عروج حاصل ہوا اور مندرجہ ذیل کام ہوئے۔
۱۔
حفظ حدیث:
اس دور میں
حفظ حدیث کا سلسلہ جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری رہا ۔ بہت سے تابعین سے ایک ایک
تبع تابعی نے احادیث سن کر یاد کر لیں۔ اخذ حدیث کے لئے رحلات بھی بہت ہوئے ۔ علم
حدیث کے شوقین طلبہ دیار و امصار میں اخذ حدیث کے سلسلے میں سفر کرتے رہے یوں بہت
سے صحابہ و تابعین کا ذخیرہ حدیث سمٹ کر ایک جگہ مرتکز ہو گیا۔
۲۔
علم حدیث کا فنی عروج:
اس دور میں
علم حدیث کے فن نے عروج پایا’ اور اصول حدیث کی بہت سی شاخین وجود میں آئیں۔اس کی
وجہ یہ تھی کہ بہت سے مفاد پرست عناصر جو اپنی ذاتی مفاد یا شہرت کی خاطر حدیثیں
گھڑ کر بیان کرنے شروع کر دیں تو محدثین نے ایسے اصول و ضوابط وضع اور بیان کئے
تحریف حدیث کی یہ کوششیں بری طرح ناکام ہو گئیں۔اور علماء کرام نے ان تمام شاخوں
سے متعلق ہر فن حدیث میں کتابیں تحریر فرمائیں۔
۳۔
حلقات احادیث میں توسیع:
اس دور میں
باقاعدہ حدیث کے حلقے بہت زیادہ مضبوط اور وسیع ہو گئے۔ علماء حدیث مساجد میں دروس
حدیث کے نہ صرف حلقات قائم کرتے بلکہ ان میں بڑے زور و شور سے علم حدیث کو یاد
کرنے والے بن گے ۔اس دور میں مسلمانوں کا سب سے فخریہ کام حفظ و اشاعت حدیث تھا۔
۴۔
صحاح ستہ کی تالیف:
اس دور میں حدیث
کی مشہور و معتبر کتابیں صحاح ستہ مرتب ہوئیں اور حلقات میں ان کادرس و تدریس شروع
ہوا۔ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
(۱) صحیح البخاری/ الجامع الصحیح:
اس
کتاب کا اصل نام ہے ‘‘الجامع المسند ا لصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم و سننہ و ایامہ’’بعد میں یہ صحیح البخاری یا الجامع الصحیح کے نام سے
مشہور ہوئی ۔
یہ
امام المحدثین ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری (194۔ 256ھ) کی تالیف ہے ۔ اس
کتاب کی تالیف سولہ سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔ اور یہ چھ لاکھ احادیث میں سے چھان
کر صحیح ترین احادیث کو جمع کر کے تالیف کی گئی ہے۔ تمام کتب حدیث میں یہ سب سے
زیادہ صحیح ہے اسی لئے اس کو کہا جاتا ہے" اصح الکتب بعد کتاب ا للہ" ۔
یعنی کتاب اللہ( قرآن مجید) کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب۔ ابن حجر کے مطابق اس میں
کل احادیث کی تعداد 7397ہے۔اگر مکررات کو شمار نہ کیا جائے تو اس میں موجود موصول
احادیث کی تعداد 2602بنتی ہے۔ اس کی بہت سی شروحات ہیں ان میں سے علامہ ابن حجر
العسقلانی (متوفي852ھ)کی شرح فتح الباری سب سے زیادہ مشہور و مقبول ہے۔علاوه ازيں الكواكب الدراري في شرح البخاري ازعلامه
كرماني (متوفي 796ھ) ، عمدة القاري في شرح صحيح البخاري از بدر الدين عيني اور
ارشاد الساري وغيره مشهور هيں۔
(۲) صحیح مسلم
یہ
كتاب ابوالحسين مسلم بن حجاج القشیری
النیشابوی (204ھ۔261ھ) کی تالیف ہے۔ صحاح ستہ میں اس کتاب کوصحیح بخاری کے بعد
دوسرا درجہ حاصل ہے۔اس كتاب ميں امام مسلم نے ان صحيح احاديث كوجمع كيا هے جن كي
صحت پر علماء محدثين كا اتفاق هے۔امام مسلم نے اپني اس كتاب ميں صرف مرفوع روايات
كو نقل كيا هے ، معلق ،موقوف اور اقوال علماء و فقهي اراء وغيره كو شامل نهيں كيا۔
تعداد روايات كي لحاظ سے اس میں مکررات سمیت کل احادیث کی تعداد ہیں 7275۔ اگر
مکررات کو منہا کر دیا جائے تو اس کی تعداد بنتی ہے چار ہزار احادیث صحیحہ۔صحیح
مسلم کی بھی بہت سے شروحات ہیں ان میں سے امام نووی کی شرح کو خاص شہرت حاصل ہے۔
صحیح بخاری
اور صحیح مسلم دونوں کتابوں کو ملا کر ‘‘صحیحین’’ کہتے ہیں اور جو حدیث ان دونوں
کتابوں میں موجود ہو اسے اصطلاح میں ‘‘متفق علیہ’’ کہتے ہیں۔
(۳) سنن ابی داود
یہ
امام ابو داود سلیمان بن اشعث السجستانی (202ھ۔۔275ھ) کی تالیف ہے۔ اس میں احادیث
کی کل تعداد 4800ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی کی تحقیق کے مطابق اس میں 85فیصد
احادیث صحیح ہیں۔اس کی شروع میں عون المعبود اور معالم السنن معروف ہیں۔
(۴) جامع ترمذی
یہ
امام ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی (209ھ ۔ 279ھ) کی تالیف ہے۔علم و فن حدیث میں
کے فوائد کے اعتبار سے اس کتاب کو خصوصی امتیاز حاصل ہے۔اس کی ایک اہم خصوصیت یہ
ہے کہ امام صاحب احادیث پر صحیح’ حسن ’ غریب اور ضعیف وغیرہ کی نشاندھی بں کر دیتے
ہیں۔اس کی بھی متعدد شروح لکھی گئی ہیں ان میں سب سے مشہور شرح علامہ عبد الرحمن
مبارک پوری کی شرح تحفۃ الاحوذی ہے۔
(۵) سنن النسائی
یہ امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب
النسائی (215ھ۔303 ھ) کی تالیف ہے۔ امام نسائی نے پہلے‘‘ السنن الکبری’’ کے نام سے
حدیث کی ایک مبسوط کتاب لکھی پھر اس کا اختصار کر کے ‘‘السنن الصغری’’ لکھی اور اس
کا نام انہوں نے ‘‘المجتبی’’ رکھا۔ اس کی حدیثوں کی تعداد 5761ہے۔ شیخ ناصر الدین
البانی کے مطابق سنن نسائی کی 91% احادیت صحیح ہیں۔امام نسائی کو امام بخاری کے
بعد رجال الحدیث کا سب سے بڑا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔
(۶) سنن ابن ماجہ
یہ
امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید بن ماجہ (209ھ۔273ھ) کی تالیف ہے۔ابن ماجہ اپنی
والدہ کی نسبت سے زیادہ مشہور ہوئے۔ سنن ابن ماجہ میں چار ہزار احادیث ہیں۔
۵۔
دیگر کتب احادیث کی ترتیب:
اس دور میں
صحاح ستہ کے علاوہ حدیث کی دیگر بہترین ذخیرہ کتب تیار ہوئیں مثلا مسند احمد ’ جس
میں 36 ہزار احادیث ہیں’ علاوہ ازیں مسند طیالسی ’ مسند حمیدی’اور اسی طرح اور بھی
بہت سی /بے شمار کتب حدیث تیار ہوئیں۔
اسی طرح اس
دور میں محمد بن سعد (م ۳۳۰ھ)
نے طبقات ابن سعد’ امام یحیی بن معین (م۲۳۳ھ)
نے تاریخ رجال ’ علی ابن المدینی (م ۲۳۱ھ)
نے نحل الحدیث اور امام احمد بن حنبل نے الناسخ و المنسوخ جیسی مایہ ناز کتب تحریر
کیں جو آج بھی فن حدیث و تاریخ حدیث کا بنیادی سرمایہ ہیں۔
دور پنجم 451ھ و ما بعد
یہ دور علم
حدیث کی تکمیل کا دور ہے۔اس دور میں مجموعہ ہائے احادیث کے بجائے ان کی تنقیح و
تشریح کا کام زیادہ ہوا ان میں سے چند کا بیان درج ذیل ہے۔
۱۔
کتب حدیث کی شروحات:
اس دور میں
کتب حدیث کی شروحات اور قوانین بکثرت لکھے گئے۔جس سے فہم و تنقیح کا کام زیادہ
آسان ہو گیا۔مثلا صحیح بخاری کی شرح فتح الباری اور مسلم شریف کی شرح ‘‘شرح
النووی’’ وغیرہ۔
۲۔
ہر فن حدیث میں بکثر کتب تحریر ہوئیں:
حدیث کے ہر
فن پر بکثرت کتابیں لکھی گئیں ۔ اسماء الرجال کے فن نے اس دور میں بڑی ترقی کی
مثلا امام المزی کی کتاب تہذیب الکمال’ ابن حجر کی تقريب التهذيباور
الاصابہ۔ اصول حدیث پر ‘‘المحدث الفاضل’’ معرفۃ علوم الحدیث’ الکفایہ ’ مقدمۃ ابن
الصلاح’ شرح نخبۃ الفکر’قواعد التحدیث وغیرہ جیسی اس فن کی بنیادی کتابیں تحریر
ہوئیں۔
۳۔
صحت کے اعتبار سے احادیث اور کتب احادیث کی درجہ بندی کی گئی تاکہ عمل کرنے میں
آسانی ہو۔
۴۔
احادیث پر صحیح’ حسن’ ضغیف کا حکم لگایا گیا تاکہ حدیث کی صحت کا اندازہ لگایا جا
سکے ۔اس موضوع پر بیسویں صدی عیسوی میں علامہ محدث شیخ ناصر الدین البانی نے بہت
کام کیا۔
۵۔
ایک مخصوص موضوعات پر کتب احادیث تیار ہوئیں جیسے ریاض الصالحین ’ دعاؤں ’
اخلاقیات اور عبادات پر مشتمل ہے۔
۶۔ڈيجيٹل ٹيكنالوجي كااستعمال، عصر
حاضر ميں سائنس اور ٹيكنالوجي كي ترقي نےحديث كے ذخائر كي حفاظت اور ان تك رسائي
كو بهت هي آسان بنا ديا هے، چنانچه نه صرف يه كه احاديث كو ڈيجيٹل انداز ميں محفوظ
كيا گيا هے بلكه انٹر نيٹ اور مختلف سافٹ ويئرز كے ذريعے بآساني ان تك رسائي ممكن
هو چكي هے ، اسي طرح ايك هي كلك پر بهت سي احاديث آپ كے سامنے آ جاتي هيں مثلا مكتبه
شامله اور اس كي طرح ديگر بهت سے ايپس اور پروگرام دستياب هيں۔
ما شاء الله بهت شاندار علمي و تحقيقي مقاله جات هيں الله زور قلم اور زياده كرے آمين
جواب دیںحذف کریں