رسول كريم ﷺكى مكى زندگى سے اخذ شده چند اسباق

0

 

رسول كريم ﷺكي  مكي زندگي سے اخذ شده چند اسباق

رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی نہ صرف اسلام کی دعوت کا ابتدائی مرحلہ تھی بلکہ یہ ایمان، صبر، استقامت، اور حکمت کے عظیم اسباق سے بھرپور ہے۔ یہ زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکلات اور آزمائشوں میں کیسے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور دین کی تبلیغ کو مؤثر انداز میں آگے کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہاں مکی دور سے حاصل ہونے والے اسباق کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:

1.   توحید پر غیر متزلزل ایمان

مکی زندگی کا سب سے بنیادی اور اہم پیغام اللہ کی وحدانیت تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے مشرکانہ ماحول میں اللہ کی توحید کا پیغام دیا، جہاں بت پرستی عام تھی۔ آپ ﷺنے سب سے پهلے اهل مكه كو توحيد كا درس ديتے هوئے ان كے عقيدے كي اصلاح كرنے كي كوشش كي اس لئے كه جب تك كسي كا عقيده درست نهيں هوتا اس كے باقي سارے اعمال برباد هو جاتے هيں، توحيد پر غير متزلزل ايمان هي آخرت ميں كاميابي كي ضمانت هے۔

  • آپ ﷺ کا سب سے پہلا اعلان یہ تھا: "قولوا لا إله إلا الله تفلحوا" یعنی "لا الہ الا اللہ کہو اور کامیاب ہو جاؤ۔"
  • مثال: حضرت بلال حبشیؓ کو گرم ریت پر لٹایا گیا اور ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھا گیا، مگر وہ مسلسل "اَحَد، اَحَد" (اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے) کا ورد کرتے رہے۔
  • بهت سے صحابه كرام نے توحيد اوراعلاءكلمة الله كي خاطراپني جانيں قربان كرديں۔

سبق:
ہمیں اپنی زندگی میں اللہ کی وحدانیت پر کامل ایمان رکھنا چاہیے اور ہر حال میں اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔

  2 .   مصائب  و مشكلات پر صبر اور استقامت كا مظاهره

رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو مکی دور میں کفار مکہ کے شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ﷺ اور آپ كے اصحاب نے بهت سےمصائب  و مشكلات كا خنده پيشاني سےسامنا كيا اور پهنچنے والے مصائب پر صبر اور استقامت كي ايسي مثاليں پيش كي كه رهتي دنيا تك ياد ركھي جائيں گي ، آپ ﷺ اور آپ كے اصحاب كو پهنچنے والے درد انگيز واقعات سے تاريخ كي كتابيں بھري پڑي هيں۔

  • آپ ﷺ پر کوڑا کرکٹ اور اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی۔
  • حضرت سمیہؓ اور ان کے شوہر حضرت یاسرؓ کو ایمان کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔
  • صحابه كرام كو گھر بار چھوڑنے اور هجرت كرنے پر مجبور كرديا گيا۔
  • شعب ابی طالب میں تین سال کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، جس میں کھانے پینے کی اشیاء تک مہیا نہ کی گئیں۔

سبق:
صبر اور استقامت ایمان کی مضبوطی کا امتحان ہیں۔ مشکلات میں گھبرانے کے بجائے اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

 3 .  دعوت کا حکیمانہ انداز

رسول اللہ ﷺ نے ہر موقع پر حکمت اور بصیرت سے کام لیا اور دعوت الى الله كے لئے حكيمانه انداز اختيار كيا۔ آپ ﷺ نے ابتدا میں دعوت کو خاموشی سے پھیلایا  جسےخفيه تبليغ كها جاتا هے يه تقريبا عرصه تين سال پر مشتمل تھا اور جب اللہ کا حکم آیا كه "فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشركين" (الحجر:94) (يعني پس جس كاآپ كو حكم ديا گيا اس كا صاف اعلان كرديں اور مشركوں كي پروا نه كريں )تو علانیہ تبلیغ شروع کی۔

  • مثال:  جب حكم هوا كه"وانذر عشيرتك الاقربين" (الشعراء:214) يعني آپ قرابت داروں كو الله كے عذاب سے ڈرائيں تو آپ نے ايك دعوت كا اهتمام كر كے سارےقرابت داروں كو جمع كيا اور ان كے سامنے اسلام كي دعوت پيش كي۔
  • پھر  آپ ﷺ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش  ايك ايك خاندان كا نام لے كر پكارا اور ان کو اللہ کی وحدانیت کا پیغام دیا تو ان کے دلوں میں پہلی بار یہ پیغام پہنچا۔
  • دعوت كا پيغام پهنچانے سے پهلے آپ ﷺ نے ان سے اقرار لياكه آپ ﷺ نے كبھي جھوٹ نهيں بولا لهذااب بھي جھوٹ نهيں بوليں گے  اس لئےوه آپ ﷺ كي بات تسليم كريں گے۔
  • حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکرؓ، اور حضرت علیؓ جیسے قریبی لوگوں کو پہلے ہی دنوں میں دعوت دی گئی تاکہ مضبوط بنیاد رکھی جا سکے۔

سبق:
دعوت دین میں حالات کے مطابق حکمت، نرمی اور تدریجی انداز اپنانا ضروری ہے۔

  4 .   ا خلاق کی عظمت اور کردار کی مضبوطي

رسول اللہ ﷺ نے اپنی مکی زندگی میں اخلاق کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر استعمال کیا۔ آپ ﷺ کی دیانت، امانت داری اور خوش اخلاقی نے لوگوں کے دلوں کو نرم کیا۔ قريش مكه آپ ﷺ كي صداقت و امانت داري كے معترف تھے، اسي لئے مخالفت اور نظريات ميں اختلافات كے باوجود اپني امانتيں آپ ﷺ كےپاس ركھواتے تھے۔

  • مثال: جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کے دوران حجر اسود رکھنے پر اختلاف کیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو "امین" ہونے کی وجہ سے فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کیا۔
  • آپ ﷺ نے مکہ میں کبھی کسی سے بدسلوکی نہیں کی، حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف اور رحم کا مظاہرہ کیا۔
  • آپ ﷺ هجرت كر كے مدينه جا رهے تھے تب بھي اهل مكه كي امانتيں آپ ﷺ كے پاس ركھي هوئي تھيں۔

سبق:
لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے عمل اور کردار کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔

5 .  کمزور اور مظلوموں کی مدد

مکی دور میں اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر کمزور اور مظلوم لوگ تھے، کیونکہ اسلام نے انہیں انصاف اور عزت کا پیغام دیا۔ آپ ﷺ ان كے ساتھ اخلاق سے پيش آتے، معاشرے كا سب سے كمزور طبقه هونے كے باوجود ان كے ساتھ  اٹھتےبيٹھتے اور ان كي همت بندھاتے، ان كو صبر كي تلقين كرتے اور جنت كي بشارت ديتے، اور آپ ﷺسے جو بھي بن پڑتا ان كي مدد كے لئے فرماتے۔

  • مثال: حضرت بلالؓ، حضرت خباب بن ارتؓ، اور حضرت سمیہؓ جیسے غلام طبقے کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
  • رسول اللہ ﷺ نے ان کی ہمت بڑھائی اور ان کے ساتھ خصوصی محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔

سبق:
معاشرے کے مظلوم طبقے کی مدد اور ان کے حقوق کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔

6  .  اللہ کی مدد پر کامل یقین

مکی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مسلمان انتہائی مشکل حالات میں تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی مدد پر پورا یقین تھا اس لئے آپ ﷺكبھي مايوس نهيں هوا اور هميشه الله تعالى كي مدد پر يقين ركھا ۔

  • مثال: جب کفار نے دعوت کو روکنے کے لیے مختلف سازشیں کیں كبھي دھمكي دے كر اور كبھي رياست اور مال و دولت اور عورت كي لالچ دے كر مگر آپ ان كي نه ان كي دھمكي ميں آئے اورنه  هي لالچ ميں بلكه الله تعالى كے بھروسے پر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر يه لوگ ميرے ايك هاتھ پر سورج اور دوسرے هاتھ پر چاند لاكر ركھ ديں اور مجھ سے كهيں كه  ميں اس كام (يعني دعوت الى الله ) كو چھوڑ دوں تو ميں ايسا هرگز نهيں كروں گا"(سيرت ابن هشام ج2/101)
  • هجرت مدينه كے موقع پر جب هر طرف كفار مكه آپ ﷺ اور آپ كے ساتھي حضرت ابو بكر كي تلاش ميں تھي تب بھي آپ كو الله تعالى كي مددو نصرت پر يقين تھا، غارثور ميں قيام كے دوران جب كفار اس كے دھانے پر پهنچ گئے تو حضرت ابو بكر كو گرفتاري كا خوف لاحق هوا اور اس كا اظهار كيا تو آپ نے فرمايا: لا تحزن ان الله معنا.(التوبة:40)يعني غم نه كر بے شك الله همارے ساتھ هے۔
  • رسول كريم نے جب طائف كا سفر كيا اور وهاں كے لوگوں نے آپ كي بات ماننے كي بجائے آپ پر پتھراؤ كر كے زخمي كر ديا اور آپ زخموں سے چور هو كر اپنے رفيق سفر حضرت زيد بن حارثه كے ساتھ وهاں واپس آئے اور ايك باغ ميں پناه لي ، پھر جب جبرائيل عليه السلام اور پهاڑوں پر مامور فرشته نے آ كر آپ سے كها كه اگر آپ كهيں توان پهاڑوں كو گرا كر ان كو نيست و نابود كر ديں گے مگر آپ نے فرمايا نهيں هرگز نهيں ميں ان كي تباهي كے لئے دعا نهيں كروں گا اگر يه لوگ ايمان نهيں لائے تو اميد هے ان كي آئنده نسليں ضرور الله پر ايمان لے آئيں گي۔ پھر آپ نے ان خلاف بد دعا كرنے كي بجائے ان كے حق ميں دعا فرمائي  كه "اللهم اهد قومي فانهم لا يعلمون" (يعني اے الله ميري اس قوم كو هدايت دے كه يه لوگ مجھے اور ميرے مرتبے سے ناواقف هيں) علاوه ازيں الله تعالي سے اپني بے سروساماني اور ضعف قوت كو سامنے ركھتے هوئے دعا مانگي۔

سبق:
مشکل حالات میں اللہ کی مدد پر بھروسہ اور اس سے دعا کرنا سب سے بڑی طاقت ہے۔

7 .  اجتماعیت کی اہمیت

مکی دور میں مسلمانوں نے اجتماعی قربانیوں کی مثال قائم کی۔مصائب ومشكلات كا سب نے مل سامنا كيا۔  قريش مكه مظالم برداشت كئے۔

  • مثال: شعب ابی طالب  ميں محصوري کے دوران مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر مشکل برداشت کی اور متحد رہے۔
  • حضرت ابوبکرؓ نے اپنی دولت اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔
  • هجرت حبشه هو يا هجرت مدينه سب نے مل كر ايك دوسرے كا ساتھ ديا۔

سبق:
اجتماعی قربانی اور اتحاد کسی بھی قوم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

8  .  دعا اور عبادت ميں مشغوليت

مکی دور میں رسول اللہ ﷺ نے دعا اور عبادت کی اہمیت پر زور دیا۔ جو بھي مسائل درپيش هوتے الله كے حضور حاضري ديتے اور اپني گزارشات پيش كرتے۔ آپ ﷺ راتوں  کو اٹھ کر  نمازيں پڑھتے ،لمبی دعائیں کرتے اور اللہ سے مدد مانگتے۔

  • مثال: معراج کے موقع پر اللہ نے نماز کا تحفہ دیا، جو ایمان کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔
  • سفرطائف ميں كفار كي طرف سے پهنچنے والي تكاليف پر تكليف دينے والوں كے لئے بد دعا كرنے كي بجائے الله كے حضور اپني كمزوري اور بے بسي كا اظهار كرتے هوئے مدد كے طلب گار هوئے۔

سبق:
ہر مشکل وقت میں اللہ سے رجوع کرنا اور دعا کے ذریعے اپنی روحانی طاقت کو مضبوط کرنا چاہیے۔

9  .  تعلیم اور تربیت کا اهتمام

مکی زندگی میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی تربیت پر خاص توجہ دی۔ آپ ﷺ اپنے اصحاب كي نه صرف يه كه تعليم تربيت پر توجه ديتے تھے بلكه ان كو مستقبل ميں پيش آنے والے حالات كے لئے بھي تيار كرتے تھے۔

  • مثال: دار ارقم بن ابی ارقم کو مسلمانوں کے لیے ایک مرکز بنایا، جہاں انہیں قرآن اور دین کی تعلیم دی جاتی تھی۔
  • آپ ﷺ نے ہر صحابی کی انفرادی تربیت کی تاکہ وہ دین کی خدمت کے لیے تیار ہوں۔
  • اسلام كي راه ميں پهنچنے والي تكاليف پر صبر  استقامت كا مظاهره كرسكيں۔
  • كسي لالچ يا دھمكي ميں آئے بنا شاهراه اسلام پر گامزن ره سكيں۔

سبق:
تعلیم اور تربیت کے بغیر دین کو آگے بڑھانا ممکن نہیں۔ علم کو بنیاد بنا کر کام کرنا ضروری ہے۔

10 .  انسانیت کے احترام کا پیغام

رسول كريم ﷺ  كي مکی زندگی نے یہ پیغام دیا کہ اسلام ہر قسم کے تعصب کو ختم کرتا ہے اور انسانیت کی عزت کو بلند کرتا ہے۔ احترام انسانيت كو مقدم ركھا گيا  اور معاشرے كے پسے هوئے لوگوں كو بھي احترام ديا جن كو اس وقت كا عرب معاشره كوئي اهميت نهيں ديتا تھا  بلكه ان كي نظروںميں كوئي وقعت نه تھي مگر رسول كريم ﷺ نه صرف يه كه ان كے ساتھ اچھا برتاؤ كرتے بلكه ان كے ساتھ اٹھتے بيٹھے ، يه لوگ آپ ﷺ كي مجلس ميں بلا جھجك چلے جاتے  اورقريش كے ديگرمعززين كے ساتھ بيٹھتے ان كو كوئي بھي نهيں روكتا، اسي طرح يه لوگ  آپ ﷺ سے بلا روك ٹوك ملاقات كرتے۔ان كو بھي وهي احترام اور عزت حاصل تھي جو كسي بھي اعلى خاندان كے افراد كو حاصل هوتي ان ميں كوئي فرق نه هوتا۔

  • مثال: حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت صہیب رومیؓ، اور حضرت بلال حبشیؓ جیسے غیر عرب مسلمانوں کو برابر عزت دی گئی۔نسل يا خاندان كو باعث فخر نهيں سمجھا گيا۔
  • عرب كے لوگ  غلاموں كي كوئي عزت نهيں كرتے تھے ، ان كے ساتھ بهت برا سلوك كيا جاتا تھا مگر رسول كريم ﷺ نے ان كے ساتھ بهت هي همدردانه سلوك روا  ركھا ان كو قريش كے ديگر سرداروں كے ساتھ مجلس ميں جگه دي۔

سبق:
اسلام رنگ، نسل، اور قبیلے کے فرق کو مٹاتا ہے اور تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے۔

خلاصه كلام:

رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی ہمیں صبر، استقامت، حکمت، اخلاق، اور اللہ پر کامل بھروسے کا درس دیتی ہے۔ یہ زندگی اسلام کی اصل روح کو سمجھنے اور اسے اپنانے کا بہترین نمونہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مکی زندگی کے ان اسباق کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور دنیا کے سامنے اسلام کی اصل تصویر پیش کریں۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)