رسول اللہ ﷺ کی مدنی زندگی كے چند اهم سبق آموز پہلو
تحرير: ابراهيم عبد
الله يوگوي
رسول اللہ ﷺ کی مدنی زندگی تاریخ انسانی کا ایک عظیم نمونہ ہے، جس میں
قیادت، سماجی انصاف، عبادات، اور بین الانسانی تعلقات کے بہترین اصول وضع کیے گئے۔
مدنی زندگی میں نہ صرف ایک ریاست کی بنیاد رکھی گئی بلکہ اس کے ذریعے ایسا معاشرہ
تشکیل دیا گیا جو قیامت تک کے لیے مثالی رہے گا۔ یہ مضمون رسول اللہ ﷺ کی مدنی
زندگی سے حاصل ہونے والے اسباق پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے اور انہیں عملی مثالوں
کے ساتھ واضح کرتا ہے۔
1.
قیادت اور عدل و
انصاف کا قیام
مدینہ پہنچنے کے بعد
رسول اللہ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی، جس کی بنیاد عدل، مساوات، اور سب
کے حقوق کے تحفظ پر تھی۔ آپ ﷺ نے ایک مثالی رہنما کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں کو
جیتا اور انہیں اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پرو دیا۔ اسي طرح آپ ﷺنے مدينه ميں نظام
عدل كو قائم كر كے تمام باشندگان مدينه كے لئے انصاف كے حصول كو نهايت آسان بنا
ديا چنانچه مسلم اور غير مسلم سب اپنے تنازعات ميں فيصله كرنے كے لئے اپنے مقدمات
آپ ﷺ كے پاس لاتے اور انهيں يه خوف اور ڈر نهيں هوتا تھا كه ان كے ساتھ نا انصافي
هوگي، اور آپ ﷺ نے يه ثابت بھي كر ديا تھا
كه انصافي كي فراهمي ميں آپ ﷺعقيده، نظريه، رنگ و نسل ، علاقائيت وغيره تعصبات سے
بالا هوكر انصاف فرماتے اور جس كا حق هوتا اسي كے حق ميں هي فيصله فرماتے جيسا كه
ارشاد باري تعالى هے:
و َاذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ
تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللهَ نِعْمَ يَعِظُكُمْ بِهِ.(النساء:58)
اورجب لوگوں كا فيصله
كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصله كرو ، يقينا وه بهتر چيز هے جس كي الله تمهيں
نصيحت كر رها هے۔
اسي طرح يه بھي حكم
ديا هے كه آپ كے سامنے آپ كا مخالف اور دشمن هي كيوں نه هو انصاف كا دامن هاتھ
نهيں چھوڑنا چاهئے جيسا كه ارشاد هے:
وَ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَأَنُ قَوْمٍ
عَلَى اَنْ لاتَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى.(المائدة:8)
كسي قوم كي عداوت
تمهيں خلاف عدل پر آماده نه كردے عدل كيا كرو جو پرهيزگاري كے زياده قريب هے۔
ميثاق مدينه كي رو سے
جب آپ صلى الله عليه وسلم كو مدينه كا سربراه بناياگيا تو غير مسلم بھي آپ كے پاس
فيصله وغيره كے لئے اپنے تنازعات لے كر
آتے تھے، تب آپ اختيار ديا گيا كه اگر آپ چاهيں تو ان كے درميان فيصله كريں اور نه
چاهيں تو فيصله نه كريں هاں البته فيصله كرنے كي صورت ميں بهر حال انصاف هي كرنا
هے ۔
فَاِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ
بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوكَ
شَيْئاً وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ
الْمُقْسِطِيْنَ.(المائدة:42)
اگر يه تمهارے پاس
آئيں تو تمهيں اختيار هے خواه ان كے آپس كا فيصله كرو خواه ان كو ٹال دو اگر تم ان
سے منه بھي پھيروگے تو بھي يه تم كو هرگز كوئي ضرر نهيں پهنچا سكتے اور اگر تم فيصله كرو تو ان
ميں عدل كے ساتھ فيصله كرو يقينا عدل والوں كے ساتھ الله محبت ركھتا هے۔
میثاقِ مدینہ:
رسول اللہ ﷺ نے میثاقِ مدینہ کے ذریعے تمام قبائل اور مذاہب کے افراد کو ایک
معاہدے میں شامل کیا، جس میں ان کے حقوق و فرائض کی وضاحت کی گئی۔ یہ معاہدہ بین
المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی عمدہ مثال ہے۔
سبق: ایک کامیاب رہنما وہ ہوتا ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے اور
کسی کے ساتھ تعصب یا ناانصافی نہ کرے۔
2.
. اخوت اور بھائی چارے
کا نظام
اسلامي تعليمات كے
مطابق تمام مسلمانوں كو ايك دوسرے كابھائي قرار ديا گيا هے ۔اور يه رشته اخوت قوم
و قبيله اور سرحدي حدودسے ما وراء هےر اسلام ميں هر كلمه گو مسلمان دوسرےمسلمان كا
بھائي هے خواه اس كا رنگ كيساهي هو، اس كا علاقه كوئي بھي هو اسي طرح وه كوئي بھي
زبان بولتا هو۔ رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم نے بهت تاكيد فرمائي هے كه هر
مسلمان اپنے مسلمان بھائي كا خيال ركھے، اس پر ظلم نه كرے، اس كي تحقير نه كرے، اس
كو دشمن كے حوالے نه كرے، اس كو بے يار و مددگارنه چھوڑے، اس كے ساتھ هر طرح كا
تعاون كرتا رهے۔
مواخات مدينه:
مہاجرین اور انصار کے
درمیان آپ ﷺ نے ایسی اخوت قائم کی جو انسانیت کے لیے اور رهتي دنيا تك كے لئے مثالی ہے تاريخ اس كو
"مواخات مدينه" كے نام سے ياد كيا جاتا هے۔ اس اخوت کے ذریعے نہ صرف
معاشي مسائل اور سماجی فاصلوں کو ختم کیا گیا بلکہ محبت اور قربانی کے جذبات کو
فروغ دیا گیا۔
مثال:
اس واقعه نے رهتي دنيا تك
كے لئے ايثار اور قرباني كي بهت سي مثاليں قائم كيں مثلا حضرت سعد بن ربیع رضی
اللہ عنہ نے اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنی آدھی جائیداد
پیش کی، یہاں تک کہ اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے کی پیشکش بھی کی تاکہ
وہ نکاح کر سکیں۔اسي طرح ديگر اصحاب رسول صلى الله عليه و آله و سلم نے بڑي بڑي
مثاليں قائم كيں۔
سبق: ایثار اور بھائی چارے سے ایک مضبوط اور متحد معاشرہ تشکیل
دیا جا سکتا ہے۔
مسلم امت كو هر وقت اپنے دوسرے مسلمان
بھائي كے لئے قرباني دينے كا نه صرف يه كه
جذبه ركھنا چاهئے بلكه اس كا مظاهره بھي
كرتے رهنا چاهئے۔
3 . عورتوں کے حقوق کا تحفظ
مدنی زندگی میں رسول
اللہ ﷺ نے خواتین کو عزت دی اور ان کے حقوق کو یقینی بنایا۔ آپ نے وراثت، نکاح،
طلاق، اور معاشرتی معاملات میں عورتوں کو ان کے شرعی حقوق دیے۔وفات كے وقت بھي
عورتوں كے حق ميں نصيحت فرماتے رهے۔ يعني آپ فرماتے : استوصوا بالنساء خيرا.اسي طرح آپ اپنے اهل
خانه اور اپني بيٹيوں كے ساتھ نهايت مشفقانه رويه ركھتے۔
مثال:
آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خصوصی محبت اور عزت
کا مظاہرہ کیا، اور فرمایا:
"فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔" اسي طرح آپ ﷺ عورتوں كے لئے وراثت ميں حصه مقرر فرمايااور ان كو
ادا كرنے كي تلقين فرمائي۔
سبق: خواتین کے ساتھ محبت اور احترام کا رویہ اپنانا لازمی ہے۔
انہیں ان کے حقوق دیے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
4. معاشرتی فلاح و بہبود
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ
میں زکوٰۃ اور صدقات کے نظام کو مضبوط کیا ، مال غنيمت اور مال فے كي تقسيم كار كو
بھي بهتر بنايا علاوه ازيں محروم المعيشت لوگوں كے ساتھ تعاون كرنے اور ان كي
ضروريات پوري كرنے كي تاكيد فرمائي تاکہ غریبوں اور محروموں کی مدد کی جا سکے۔ یہ
ایک مکمل فلاحی ریاست کی مثال ہے۔ نيز صحت مند لوگوں كو بھيك مانگنے كي بجائے محنت
كرنے كي ترغيب دي اور ان كے لئے تجارت اور صنعت كے راستے كھولے۔
مثال:
ایک شخص نے آپ ﷺ سے مدد کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اس کی ضرورت پوری کی
بلکہ اسے روزگار کے ذرائع فراہم کرنے کے لیے مشورہ دیا۔اس كے گھر سے چيزيں منگوا
كر ان كو بيچ كر درهم كا بندوبست كيا اور اس كو جنگل كا راسته دكھايا كه لكڑياں
كاٹ كر بازار لے جا كر ان كو فروخت كر كے اپنے لئے معيشت كا بندوبست كرے۔ يه خود
كفالت كا ايك اقدام تھا۔
سبق: صرف مالی امداد کافی نہیں، بلکہ معاشی خود کفالت کا
بندوبست کرنا بھی اہم ہے۔
5 . بین المذاہب تعلقات
مدینہ میں یہودی اور
دیگر غیر مسلموں کے ساتھ آپ ﷺ نے بہترین تعلقات قائم کیے۔ آپ نے ان کے مذہبی اور
سماجی حقوق کی حفاظت کی اور کسی پر زبردستی دین اسلام قبول کرنے کا دباؤ نہیں
ڈالا۔ اسي طرح نجران سے آئے هوئےعيسائيوں كو آپ صلى الله عليه و آله و سلم نے نه
صرف يه كه مسجد نبوي ميں ٹھهرايا بلكه ان كو اپنے مذهب كے مطابق عبادت كرنے كي
اجازت بھي دے دي۔
مثال:
میثاق مدینہ میں یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی اور ان کے ساتھ وعدہ
کیا گیا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہو تو مسلمان اور يهود دونوںمل كر مدينه کی حفاظت
کریں گے۔جوفريق كسي كے ساتھ معاهده كرے گا وه دوسرے كا بھي معاهد سمجھا جائے گا۔
سبق: مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے کے
لیے برداشت اور احترام ضروری ہے۔
6.امن اور جنگ کے اصول
اسلام ايك پر امن دين
هے اس لئے تمام انسانوں كو پر امن بقائے باهمي كے لئے صلح اور امن و آشتي كے ساتھ
رهنے كي تلقين كرتا هے۔ هاں البته اگر كوئي مسلمانوں پر ظلم كرتا هے تو اس كے روك
تھام كے لئے اقدامات كرنے كا حكم بھي ديتا هے۔ اسي اصول معاشرت كے تحت آپ ﷺ نے نہ
صرف مدینہ میں امن قائم کیا بلکہ جنگ کے دوران بھی اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو اپنایا۔
اسي طرح جنگ كي صورت ميں جو جنگي قيدي بن كر آئے ان كے ساتھ بھي نهايت هي اچھے سلوك كا مظاهره
كيا ، آج كل كے مهذب دنيا كے حقوق انساني كے دعويدار لوگوں كے جنگي قيديوں كے ساتھ
كئے جانے والے سلوك كے برعكس آپ نے جنگي
قيديوں كے ساتھ جو سلوك روا ركھا اس سے متاثر هو كر يهي جنگي قيدي بعد ميں مسلمان
هوگئے۔ آپ نے غزوه بدر كے جنگي قيديوں پر كوئي تشددكئے بغير تاوان لے كر چھوڑديا۔
مثال:
غزوہ بدر اور غزوہ احد کے دوران آپ ﷺ نے تاکید کی کہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں،
اور عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اسي طرح جو جنگي قيدي هاتھ آ گئے ان پر
كوئي تشدد نهيں كيا گيا بلكه ان كے ساتھ حسن اخلاق سے پيش آيا۔
سبق: جنگ کے دوران بھی انسانی حقوق کا احترام کرنا لازمی ہے۔
7. مشاورت اور اجتماعیت کا فروغ
رسول اللہ ﷺ کی قیادت
کی ایک اہم خصوصیت مشاورت تھی۔ آپ ﷺ اجتماعي كاموں ميں
اپنے اصحاب سےمشوره ليا كرتے تھے،الله تعالى نے قرآن كريم ميں اهم امور ميں صحابه
كرام كے ساتھ باهم مشاورت كرنے كا حكم ديتے هوئے فرمايا:
وَ شَاوِرْهُمْ فِي
الاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ.(آل عمران:159)
اور كام كا مشوره ان
سے كياكريں پھر جب آپ كا پخته اراده هو جائے تو الله پر بھروسه كريں۔
الله تعالى كے اس حكم
كے تحت رسول اللہ ﷺ ہر اہم فیصلے سے پہلے صحابہ کرام سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے
کا احترام کرتے۔
مثال:
غزوہ خندق کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تجویز پر خندق کھودی
گئی، جس سے جنگ جیتی گئی۔
سبق: مشاورت اور اجتماعیت سے فیصلے کرنے سے کامیابی یقینی ہوتی
ہے۔
8 .روحانیت اور عبادات کی
تعلیم
مدنی زندگی میں
عبادات کو فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح کا ذریعہ بنایا گیا۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ،
اور حج جیسے عبادات نے انسان کے تعلق کو اللہ کے ساتھ مضبوط کیا۔ عبادات اور احكام
الهي زياده تر مدني زندگي ميں نازل هوئے اور مسلمانوں ان كي پابندي كي تاكيد كي
گئي۔
مثال:
نماز باجماعت کی تاکید کے ذریعے نہ صرف روحانی پاکیزگی کا درس دیا گیا بلکہ
سماجی اتحاد کو بھی فروغ دیا گیا۔ زكو ة كي ادائيگي كے ذريعے تزكيه نفس كا اهتمام
كيا گيا اور لالچ اور مال كي محبت كو دل سے نكالنے كا اهتمام كيا گيا، روزه كي
فرضيت كے ذريعه انسان كے اندر صبرو تحمل اور تقوي پيدا كرنے كي كوشش كي گئي، حج كے
ذريعه اجتماعيت اور الله كي راه ميں قرباني دينے كا جذبه پيدا كرنے كا اهتمام كيا
گيا۔
سبق: عبادات فرد کی تربیت و تزكيه اور معاشرے کی بہتری کے لیے اہم ہیں۔
9.
اخلاقیات اور حسنِ
سلوک
آپ ﷺ نے مدینہ میں
دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور اخلاق کا مظاہرہ کیا۔آپ نے غصه كو پينے اور معافي كو اختيار كرنے كي
تعليم ديتےهوئے معاشرےميں اخلاقيات كو فروغ دينے كا حكم ديتے هوئے فرمايا كه "البر حسن
الخلق" نيكي اچھے اخلاق كا نام هے۔ اسي
طرح فرمايا"بعثت
لاتمم مكارم الاخلاق" كه مجھے مكارم اخلاق كي تكميل كے لئے
بھيجا گيا هے۔
مثال:
فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ان دشمنوں کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ پر ظلم و
ستم کے پہاڑ توڑے تھے۔
سبق: معافی اور درگزر سے معاشرتی امن قائم ہوتا ہے۔
10.تمام شهريوں كے
لئے يكساں قانون اور اس كي عمل داري:
رسول كريم ﷺنے مدينه
ميں قوانين و شريعت كے نفاذ اور ان پر عمل داري كو يقيني بنايا اور اس سلسلے ميں
كسي بھي رو رعايت كے قائل نه تھے، جو معاشره قوانين كے نفاذ ميں معاشرتي طبقات كا
ميں فرق كرتا هے اور اشرافيه كو چھوٹ ديتا هے اور نچلے طبقے كے لوگوں كو لاگو كرتا
هے وه معاشره تباهي كا شكار هو جاتا هے ،چنانچه آپ ﷺ نے مدينه كے تمام شهريوں كے لئے يكساں قوانين وضع
كئے اور نافذ بھي كيا كسي كو خاندان يا قبيلے كي وجه سے چھوٹ نهيں دي۔
مثال:
مدينه كي ايك معزز
خاندان كي خاتون نے چوري كي تو آپ نے اس كے هاتھ كاٹنے كا حكم ديا ، خاتون كے
خاندان والوں نے اپني بے عزتي كے ڈر سے حضرت اسامه بن زيد كو سفارش كے لئے بھيجا
كه جتنا تاوان چاهے لے ليں مگر خاتون كا هاتھ نه كاٹاجائے، آپ ﷺ ان كے اس مطالبے
پر بهت ناراض هوئے اور فرمايا "اگر ميري بيٹي فاطمه بھي چوري كرتي ميں اس كا
بھي هاتھ كاٹ ديتا"۔
سبق: قانون كے نفاذ اور
عمل داري ميں تمام شهريوں كے ساتھ يكساں سلوك كرنا چاهئے۔
11. تجارت اور ديگر
معاملات ميں بدعنواني سے اجتناب كي تلقين
رسول الله ص نے مدينه
ميں جو معاشره قائم كيا تھا اس ميں نه صرف معاشرتي اصولوں كو بهتر بنايا بلكه تجارت
اور ديگرلين دين كے معاملات ميں بھي فريب
كاري سے منع كيااور عوام الناس كو دھوكه دهي،فراڈ، غش ناپ تول ميں كمي وغيره سے
بچنے كي تلقين فرمائي اور يه حكم ديا كه لوگوں كےساتھ تمام معاملات ميں خوش خلقي
كو ملحوظ ركھے كوئي كسي كے ساتھ فراڈ وغيره نه كرے۔
مثال:
رسول الله ص نے ايك
دفعه بازار سے گڑررهے تھے آپ نے غله كا ايك ڈھير ديكھا تو اس كےاندرهاتھ ڈال كر
ديكھا (اس كو چيك كيا) تو اندركا غله گيلا تھا آپ نے اس شخص سے پوچھا يه كيا هے؟
اس نے كها رات بارش هو گئي تھي ، آپ نے فرمايا تو تو نے بھيگے هوئے غلے كو اوپر
كيوں نهيں ركھا تاكه لوگ اسے ديكھ ليتے، جس
نے دھوكه كيا وه هم ميں سے نهيں هے۔(صحيح مسلم وغيره)
سبق: انسان كو كسي
بھي قسم كا دھوكه نهيں دينا چاهئے خواه مالى طور پر هو يا كسي اور قسم كا۔
خلاصه كلام:
رسول اللہ ﷺ کی مدنی
زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے عدل، مساوات،
عبادات، اخوت، اور امن جیسے اصولوں کو اپنانا ضروری ہے، اسي طرح اخلاقيات اور ديگر
معا ملات ميں خواه اجتماعي هو يا انفرادي، معاشرتي هو يا معاشي، سياسي هو يا قانوني
دھوكه اور فريب دهي سے اجتناب كرنا بھي لازمي هے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو
رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اگر ہم ان اصولوں پر عمل کریں تو دنیا اور آخرت میں کامیاب
ہو سکتے ہیں۔