حدیث قدسی اور قرآن مجید میں فرق

0

 

حدیث قدسی اور قرآن مجید میں فرق

اسلامی تعلیمات میں قرآن مجید اور حدیث قدسی دونوں اہمیت کے حامل ہیں، مگر ان دونوں میں کئی پہلوؤں سے واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ذیل میں ان دونوں کا تفصیلی موازنہ پیش کیا جا رہا ہے:

 

قرآن  مجيد

حديث قدسي

1. تعریف

قرآن مجید: قرآن مجید وہ الہامی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر حضرت جبرائيل امين كے ذريعے وحی كر کےنازل فرمائی اور هم تك تواتر كے ساتھ منقول هو كر پهنچي ۔ یہ اللہ کا کلام ہے جو الفاظ اور معانی دونوں میں اللہ کی جانب سے ہے۔

حدیث قدسی:حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے الفاظ نبی اکرم ﷺ کے ذریعے بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہے، لیکن اس کے الفاظ نبی کریم ﷺ کے ہوتے ہیں، نہ هي يه وحی حضرت جبرائيل كے توسط سے نازل هونا مشروط هے  بلكه وحي کی كسي بھي صورت ميں نازل هو سكتي هے ۔

2. الفاظ اور معانی

 

- الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کے ہیں۔

- قرآن کے ہر لفظ کی ترتیب اور تلفظ بھی اللہ کی جانب سے مقرر ہے۔ 

- معانی اللہ تعالیٰ کے ہیں، مگر الفاظ نبی ﷺ کے ہوتے ہیں۔

- نبی اکرم ﷺ اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام بیان کرتے ہیں۔

3. وحی کی نوعیت 

 

- قرآن براہِ راست "وحی متلو" کے ذریعے نازل ہوا، یعنی جبریل علیہ السلام نے اللہ کے الفاظ نبی ﷺ تک پہنچائے۔ 

- قرآن کی وحی کا طریقہ خاص تھا اور اس کا ہر حصہ محفوظ ہے۔

- حدیث قدسی "وحی غیر متلو" کے ذریعے نبی ﷺ پر القاء کی گئی، یعنی جبریل علیہ السلام کے ذریعے یا بعض اوقات دل میں القاء کی صورت میں نبی ﷺ کو اللہ کا پیغام ملا۔ 

 

4. تلاوت کی حیثیت

 

- قرآن کی "تلاوت عبادت" ہے اور ہر حرف پر اجر ملتا ہے۔ 

- نماز میں قرآن کی تلاوت فرض ہے۔ 

- حدیث قدسی کی "تلاوت عبادت" نہیں، بلکہ یہ نبی ﷺ کی بیان کردہ احادیث میں شامل ہے۔ 

- نماز میں حدیث قدسی کی تلاوت نہیں کی جا سکتی۔

5. اعجاز (معجزہ ہونا)

 

- قرآن مجید "اعجاز" رکھتا ہے، یعنی اس کا فصاحت و بلاغت، اسلوب، اور پیشگوئیاں دیگر کسی بھی کلام سے منفرد اور معجزانہ ہیں۔ 

- قرآن کی مثل لانے کا چیلنج قیامت تک کے لیے ہے۔ 

- حدیث قدسی میں يه "اعجاز" نہیں پایا جاتا۔ یہ اپنے انداز میں ایک عام حدیث کی طرح ہوتی ہے، اور اس کا مقصد روحانی اور اخلاقی تعلیم دینا ہے۔

- حديث قدسي ميں اس كے مثل بنا كر پيش كرنے كے لئے چيلنج نهيں كيا گيا۔

6. تدوین اور حفاظت

 

- قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:    إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.(سورۃ الحجر: 9) 

  یعنی: "ہم نے ہی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔" 

- قرآن کے ہر لفظ کو امت نے متفقہ طور پر محفوظ کیا۔

- حدیث قدسی کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہیں لیا، اور اس کی تدوین انسانی کوششوں سے ہوئی۔ 

- حدیث قدسی کی سند اور متن کی صحت کو پرکھنے کے لیے اصولِ حدیث استعمال کیے جاتے ہیں۔

 

7. تشریعی حیثیت

- قرآن مجید "شریعت کا بنیادی ماخذ" ہے۔   اسي لئے اس كو ماخذ اول كها جاتا هے۔

- اس میں عقائد، عبادات، معاملات، حدود، اور اخلاقیات سے متعلق احکام بیان کیے گئے ہیں۔ 

- حدیث قدسی میں عمومی طور پر اللہ کی صفات، رحمت، مغفرت، اور بندوں کے ساتھ تعلق پر زور دیا گیا ہے۔ 

- یہ زیادہ تر اخلاقیات اور روحانی تربیت کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور ان کا تشریعی پہلو محدود ہوتا ہے۔ يه شريعت كا ماخذ ثاني/دوم هے۔

8. نماز میں قراءت

- نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرض ہے۔ 

- سورۃ الفاتحہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت نماز کا حصہ ہے۔

- حدیث قدسی کی تلاوت نماز میں نہیں کی جا سکتی قرآن مجيد كي طرح۔ 

- جس طرح  نماز ميں سورة الفاتحه كي قراءت فرض هے،اس طرح حديث قدسي كي قراءت نهيں كي جا سكتي۔

9. مثالیں 

 

مثلا:  قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ.(سورۃ الإخلاص: 1-4)

ترجمہ:  "کہو: وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔"

 

مثلا:  عن ابي ذر عن النبي فيما روى عن الله تبارك و تعالى  أنه قال:"يا عبادي، كلكم ضال إلا من هديته فاستهدوني أهدكم." (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة حديث نمبر2577) 

ترجمہ:  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ  الله عالیٰ فرماتا ہے:  "اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں۔ پس مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔"

 

یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث قدسی دونوں اللہ تعالیٰ کے کلام کی اقسام ہیں، مگر ان کی حیثیت، مقام، اور مقاصد مختلف ہیں۔

 

                               

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)