حجیت و اہمیت حدیث: ایک تفصیلی مطالعہ
اسلامی شریعت کی بنیاد دو بنیادی
مصادر پر قائم ہے: قرآن مجید اور حدیث نبوی۔ جہاں قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری
کتاب ہے، وہیں حدیث رسول ﷺ قرآن کی تشریح، تفصیل، اور عملی اطلاق کے لیے ناگزیر
ہے۔ حدیث نہ صرف قرآن کی توضیح کرتی ہے بلکہ اسلامی قانون، عقائد، عبادات، اور
اخلاقیات کے قیام میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ذیل میں حدیث کی حجیت اور
اہمیت پر تفصیلی بحث پیش کی جا رہی ہے۔
حدیث کی تعریف:
حدیث عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوي معنی ہیں "بات چيت"
یا "کلام" اسي طرح نئي چيز پر بھي يه لفظ بولا جاتا هے۔
اصطلاحی طور پر حدیث سے مراد وہ اقوال، افعال، اور تقریریں
(یعنی کسی عمل پر نبی ﷺ کی خاموش منظوری) ہیں جو رسول اکرم ﷺ سے منسوب ہیں۔
حدیث کی تین اقسام ہیں:
- قولی حدیث: نبی ﷺ کے الفاظ یا اقوال۔
- فعلی حدیث: نبی ﷺ کے اعمال یا افعال۔
- تقریری حدیث: کسی عمل پر نبی ﷺ کی خاموش
منظوری هو خواه وه قولي هو يا فعلي ۔ يعني اگر آپ ﷺكسي كي بات سن كر اس پر خاموشي
اختيار كرے يعني اسكي منظوري دے تو يه قولي تقريري حديث هے اور اگر كسي كے عمل يا
فعل پر خاموشي اختيار كرے تو فعلي تقريري حديث كهلاتي هے، اس اعتبار سے حديث تقريري كي دو قسميں بنتي هيں
(1) قولي تقرير (2) فعلي تقريري
هر وه حديث
جو صحيح سند سے ثابت هو وه قابل حجت هے اور مسلمانوں كے لئے جس طرح قرآن پر عمل كرنا ضروري هے اسي طرح صحيح
اور ثابت شده حديث پر بھي عمل كرنا لازم هے۔
حدیث کی حجیت قرآن کی روشنی میں:
قرآن مجید میں متعدد آیات ایسی ہیں جو حدیث اور سنت کی حجیت کو
واضح کرتی ہیں:
(1) اطاعتِ رسول کا حکم:
رسول كريم ﷺ كي اطاعت كرنا حكم خدا وندي هے، الله تعالي نے قرآن
مجيد ميں مختلف مقامات پر اطاعت رسول كا حكم ديا هے ، فرمايا:
يا
ايها الذين امنوا اطيعوا الله و اطيعو ا الرسول
و لا تبطلوا اعمالكم.(محمد:33)
اے ايمان والو! الله كي اطاعت كرو اور رسول كي اطاعت كرو اور
اپنے اعمال باطل نه كرو
اسي طرح قرآن ميں يه
حكم بھي هے كه الله اور اس كے رسول كي اطاعت كرو اور اگر كبھي كسي مسئله كے متعلق
تنازع هو جائے تو اس كو الله اور اس كے رسول كي طرف رجوع كرو، فرمايا:
يا
ايها الذين امنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منكم فان تنازعتم في
شيئ فردوه الى الله و الرسول ان كنتم تؤمنون بالله و اليوم الآخر ذلك خير و احسن
تأويلا(النساء:59)
اےايمان
والو! الله كي اطاعت كرو اور رسول كي اطاعت كرو اور تم ميں سے اختيار والوں كي، پھر
اگر كسي چيزميں اختلاف كرو تو لوٹاؤ الله كي طرف اور رسول كي طرف اگر تمهيں الله
پر اور قيامت كے دن پر ايمان هے، يه بهت بهتر هے اور باعتبارانجام كے بهت اچھا هے
دوسري جگه اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی ﷺ کی اطاعت کو اپنی
اطاعت کے ساتھ لازم قرار دیا:
مَنْ
يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ.(سورۃ
النساء: 80)
ترجمہ: "جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت
کی۔"
اس آيت كريمه ميں رسول الله ﷺكي اطاعت كو الله كي اطاعت قرار دينے
كا مطلب يه هے كه اطاعت كے اعتبار سے دونوں واجب هے اور جب دونوں كي اطاعت كرنے كے
لئے كها گيا هے تو اس كا مطلب يه هے كه الله كي اطاعت كي طرح رسول كي اطاعت بھي
واجب هے، رسول كريم ﷺكي اطاعت آپ ﷺ كے فرامين اور معمولات كے مطابق زندگي گزارنے
ميں هے،
(2) رسول کی بات ماننے کی تاکید :
وَمَا
آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا.
(سورۃ الحشر: 7)
ترجمہ: "رسول تمہیں جو کچھ دے، وہ لے لو اور جس سے منع
کرے، اس سے رک جاؤ۔"
اس آيت كريمه
ميں بھي يه تاكيد كي گئي هے كه رسول الله ﷺكي بات هي كو اپنے لئے مشعل راه بنانا
هے، آپ ﷺ جس چيزكا حكم دے اس پر عمل كرنا هے اور جن چيزوں سے اور جن امور سے منع كرے
ان سے بچ كر رهنا هے، يهي حكم خدا وندي هے،اگر كوئي نبي كريم ﷺسے محبت كا دعوى كرے
مگر آپ ﷺكي باتوں پر عمل نه كرے تو يه حكم الهي كي مخالفت هے،اسي لئے جس طرح اوامر
پر عمل كرنا ضروري هے اسي طرح نواهي يعني منهيات سے بچنا بھي ضروري هے۔
(3) قرآن کی تشریح کے لیے نبی ﷺ کا کردار:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَأَنْزَلْنَا
إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ.(سورۃ
النحل: 44)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ پر ذکر (قرآن) نازل کیا تاکہ آپ
لوگوں کے لیے وضاحت کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے۔"
اس آيت ميں رسول كريم ﷺ كي ايك ذمه داري كا ذكر كيا گيا هے اور آپ
كي طرف قرآن كريم كے نزول كا مقصد اور آپ
كا وظيفه يه بيان كيا گيا هے كه قرآن كريم ميں جن مسائل كا اجمالي بيان هے ان كي وضاحت كرنا اور لوگوں كے لئے بيان كرنا آپ
كي ذمه داري هے، اور يه تشريح و توضيح نه صرف زباني بلكه عملي طور پر بھي كرنا آپ ﷺ
كي ذمه داري ميں شامل هے۔
یہ آیات واضح طور پر ثابت کرتی ہیں کہ قرآن کے احکام کی وضاحت،
تفصیل، اور عملی نفاذ کے لیے حدیث ضروری ہے۔
حدیث کی حجیت احادیث کی روشنی میں:
نبی اکرم ﷺ نے خود بھی اپنی سنت اور حدیث کی اہمیت کو بیان
فرمایا:
(1) حدیث پر عمل کی تاکید :
قال
رسول الله ﷺ:
"ألا إني أوتيتُ القرآنَ ومثلَهُ معَهُ.".(سنن
ابی داؤد، کتاب السنة)
ترجمہ: " رسول الله صلي الله عليه و سلم نے فرمايا: خبردار!
مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی (یعنی حدیث) بھی دی گئی ہے۔"
اس حديث ميں رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم نے فرمايا هے
كه جس طرح مجھے قرآن مجيد ديا گيا هے اسي طرح اس كے ساتھ اس جيسي ايك اور چيز بھي
دي گئي هے،اور وه حديث مباركه هے اس لئے كه يه بھي وحي هي هوتي هے جس طرح الله
تعالى نے قرآن كريم ميں خود فرمايا: و
ما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى.(النجم:3،4) اور وه (رسول)
اپني خواهش سے كچھ نهيں بولتا وه تو صرف وحي هوتي هے جو اتاري جاتي هے۔ اسي لئے
محدثين حديث كووحي خفي كهتے هيں۔
(2) حدیث کو قرآن کے ساتھ لازم و ملزوم قرار
دینا:
قال
رسول الله ﷺ:"تركتُ فيكم أمرينِ لن تَضِلُّوا
ما تمسَّكتم بهما: كتابَ اللهِ وسنتي." (موطا
امام مالک)
ترجمہ: "رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمايا: میں
تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان کو تھامے رہو گے، گمراہ
نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔"
اس حديث ميں رسول كريم ﷺنے گمراهي سے بچنے كے لئے قرآن كريم كے
ساتھ حديث نبوي كو تمسك كرنے كو بھي لازمي قرار ديا هے ، يعني اگر كوئي مسلمان
ضلالت سے بچ كے رهنا چاهتا هے تو اس كو نه صرف قرآن كريم بلكه اس كے ساتھ حديث كو
بھي لازم پكڑنا پڑے گا، اگر كوئي شخص ان دونوں ميں سے كسي ايك كو بھي چھوڑ دے گا
وه گمراهي كا شكار هو جائے گا۔
حدیث کی اہمیت و ضرورت:
حجيت حديث كے
لئے يه بھي ديكھنا ضروري هے كه اس كے بغير
هم قرآن ميں جو احكامات بيان هوئے هيں ان كو سمجھ نهيں سكتے جب تك حديث كي روشني
ميں ان كو نه سمجھا جائے۔
(1) قرآن کی وضاحت اور تشریح
قرآن مجید کے کئی احکام ایسے ہیں جن کی تفصیلات اور اطلاق حدیث
کے بغیر ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر:
- نماز کا طریقہ:
نماز
اسلام كا دوسرا ركن هے ، اور اس كي اهميت يه هے كه ا س كے ترك كرنے كو كفر سے
تعبير كيا گيا هے،يهي وجه هے كه قرآن میں نماز کا حکم بهت هي تاكيد كے ساتھ دیا
گیا ہے، لیکن اس کی تعداد، رکعات، اور ادا كرنے كا طریقہ وضاحت کے ساتھ بيان نہیں كيا
گيا اس كے طريقه كار كے بيان كي ذمه داري نبي كريم ﷺ پر ڈالي گئي چنانچه یہ سب حدیث ميں بيان هوا هے اور اسي سے معلوم ہوتا ہے۔ اور
رسول كريم ﷺ نے اس كا حكم بھي ديا هے كه "صلوا كما
رأيتموني اصلى"(صحيح بخاري)
تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے هوتے ديكھتے هو۔
- زکوٰۃ کے نصاب وغيره كي تفصيلات:
زکوٰۃ کا حکم قرآن میں ہے، لیکن اس کا نصاب اور تفصیلات حدیث میں بیان ہوئی
ہیں۔ زكوة اسلام كا تيسرا ركن هے مگر اس كي تفصيلات يعني نصاب زكوة، شرح زكوة اسي
طرح كن اموال ميں زكوة هے اور كن ميں نهيں وغيره تفصيلات قرآن ميں بيان نهيں كيا
گيا ، ان كي تفصيلات كي وضاحت كي ذمه داري نبي كريم صلى الله عليه و آله وسلم پر چھوڑ دي گئي, اور آپ
صلى الله عليه و آله و سلم نے حديث ميں ان كي تفصيلات بيان فرمائي اور اگر آپ ان
كي وضاحت نه فرماتے تو ان پر عمل كرنا ناممكن هوتا۔
۔ حج كے مناسك كي ادائيگي كا طريقه:
اسي طرح مناسك حج كے طريقے بھي وضاحت كے ساتھ قرآن كريم ميں بيان
نهيں كيا گيا بلكه اسي كي ادائيگي كا طريقه كار بھي الله تعالى نے نبي كريم صلى
الله عليه و آله و سلم كے ذمه بيان كرنے كے لئے چھوڑ ديا گيا ، اور آپ ﷺنے جب حج
ادا كيا تو لوگوں كو مخاطب كر كے فرمايا: خذوا عني مناسككم" يعني تم مجھ سے
حج كے طريقے سيكھو۔
(2) نئے مسائل کا حل :
زندگی میں پیش آنے والے کئی نئے مسائل کا حل قرآن میں براہِ
راست موجود نہیں ہوتااسي طرح حلت و حرمت كے بهت سے اصول و ضوابط مثلا كون سے جانور
حلال هيں يا حرام اس ميں حلت و حرمت كے كيا اصول و ضوابط هيں۔ حدیث ان مسائل میں
رہنمائی فراہم کرتی ہے، جیسے تجارت، معاملات، اور دیگر فقہی امور ۔ اسي طرح بهت سے
اخلاقي معاملات وغيره۔
(3) اخلاقی تعلیمات اور تربیت :
حدیث نبی ﷺ کی شخصیت، اخلاقیات، اور عادات کی بہترین عکاسی کرتی
ہے۔ نبی ﷺ کا اسوہ حسنہ قرآن کی عملی تصویر ہے، اور آپ
صلى الله عليه وسلم كے اسوه حسنه كي پيروي كرنے كا الله تعالى كا حكم بھي
هے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.(سورۃ
الأحزاب: 21)
ترجمہ: "یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین
نمونہ ہے۔"
حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے اور عمل كرنے ميں مشکلات :
حدیث کے بغیر قرآن مجید کو مکمل طور پر سمجھنا اور اس پر عمل
کرنا مشکل ہے۔ حديث كے بغيرنه قرآن كو سمجھ سكتا هے اور نه هي اس پر عمل كيا جا
سكتا هے۔چند مثلا:(1) نماز :قرآن میں مختلف
جگہوں پر نماز قائم کرنے کا حکم ہے، لیکن نماز کی تعداد، اوقات، اور طریقہ حدیث کے
بغیر معلوم نہیں ہو سکتا۔ (2) زکوٰۃ:قرآن میں زکوٰۃ کا حکم موجود ہے، لیکن کون سی
چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی شرح کیا ہے، یہ تمام تفصیلات حدیث سے معلوم ہوتی
ہیں۔ قرآن ميں ان كي تفصيلات نهيں دي گئيں اس لئے اگر كوئي مسلمان اس حكم الهي پر
عمل كرنا چاهے تو اس كو لا محاله حديث پر عمل كرنا پڑے گا۔ (3) حج اور عمرہ :قرآن میں حج اور عمرہ کا ذکر ہے، لیکن ان کے
مناسک، تفصیلات اور ترتیب حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔
حدیث پر عمل نہ کرنے کے نتائج:
حدیث کو نظر انداز کرنے یا اس کی حجیت سے انکار کے کئی منفی
نتائج ہو سکتے ہیں:
- قرآن کی غلط تشریح:
حدیث
کے بغیر قرآن کی آیات کو ان کے صحیح سیاق و سباق میں سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ قرآن
مجید میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کی تشریح حدیث کے تناظر میں ہی صحیح طرح سمجھ
میں آتی ہے اگر حدیث کو سامنے نہ رکھا جائے تو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
صرف قرآن کو قابل حجت اور حدیث کو حجت نہ سمجھنے والے بہت سارے
لوگ اس گمراہی کا شکار ہو گئے ہیں اور انہوں نے قران کی من مانی تشریح کر کے لوگوں
کو بھی گمراہ کر دیا۔ اس کے علاوہ بہت سارے دینی احکامات کا انکار کر بیٹھے ہیں۔
- دین پر عمل ميں كوتاهي و نقص:
حدیث کو ترک کرنے سے دین کے عملی پہلو ناقص رہ جاتے ہیں، کیونکہ شریعت کا
بڑا حصہ حدیث پر مبنی ہے۔ حلت اور حرمت کے بہت سارے مسائل اسی طرح حقوق العباد اور
حقوق الناس کے معاملات اور اخلاقیات کے بہت سارے احکامات ہمیں قرآن کے بجائے حدیث
میں ملتے ہیں اگر حدیث کو حجت تسلیم نہ
کریں تو آدمی کا دین ناقص رہ جاتا ہے ، بهت سے احكام پر عمل نهيں هوتا۔
- گمراہی كا شكار:
حديث پر عمل نه كرنے سے انسان گمراهي كا شكار هو جاتا هے جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"لن تضلوا ما تمسكتم
بهما" (تم گمراہ نہیں ہو گے جب تک قرآن اور سنت کو تھامے
رکھو گے)۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان دونوں کو چھوڑ دو گے ان پر عمل نہیں کرو گے تو پھر
تم گمراہ ہو جاؤ گے۔
خلاصہ کلام :
حدیث اسلام کی بنیاد ہے اور قرآن کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ یہ
قرآن کی تشریح، وضاحت، اور عملی اطلاق کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر شریعت کے کئی
اہم پہلو غیر واضح رہ جائیں گے۔ حدیث نہ صرف عقائد اور عبادات کو مضبوط کرتی ہے
بلکہ یہ اخلاقیات اور معاملات میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اسلامی تاریخ میں حدیث کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کو ہمیشہ اہمیت دی گئی
ہے۔
حدیث قرآن کے بعد دین کا دوسرا اہم ترین ماخذ ہے۔ یہ قرآن کے
احکام کی عملی شکل اور وضاحت پیش کرتی ہے اور دین اسلام کی مکمل تفہیم کے لیے اس کا
جاننا اور ماننا ضروری ہے۔