حيات محمد ﷺ بعثت سے پہلے

0

 

حيات محمد بعثت سے پہلے

خاندانی پس منظر:

            نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو شیر خواری کے عالم میں سر زمین عرب کی وادی حجاز میں بیت اللہ کے قریب بسایا اور وہیں اللہ تعالی نے ان کی زیست کے سامان باہم پہنچایا۔

            یہاں لوگ آکربسنے لگے۔ سب سے پہلے قبیلہ بنو جرہم یہاں آکر آباد ہوا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام دونوں نے مل کر خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بنو جرہم کے سردارکی بیٹی سے شادی کی ۔ اور خانہ کعبہ کی تولیت اور انتظام وغیرہ آل اسماعیل اور بنو جرہم کے ہاتھ میں رہا۔

            حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹے ہوئے ۔ ان کی اولاد میں ایک تاریخی شخص عدنان پیدا ہوا ۔ عدنان کی اولاد بہت پھلی پھولی ۔ ان کا پیشہ تجارت تھا دور و نزدیک عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آگے چل کر عدنان کی نسل سے فہر نامی ایک شخص پیدا ہوا حس کا لقب ‘‘قریش’’ تھا جس سے خاندان قریش کی بنیاد پڑی۔

            ۳۹۸ء کے قریب فہر کی پانچویں پشت میں قصی نامی شخص پیدا ہوا ۔قریش کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کا آغاز اس نامور شخص سے ہوا۔ قصی نے قریش کے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کر کے ان میں اتحاد پیدا کیا اور خود بیت اللہ کا دینی اور مذہبی سردار اور مکہ کا پہلا حاکم قرار پایا۔اس نے دار الندوہ کے نام سے ایک مجلس شوری بنائی جس کے مشورے سے امور مملکت چلائے جاتے تھے۔

ہاشم:

            قصی کے بعد ان کے پوتے ہاشم نے بڑی ناموری اور شہرت حاصل کی ۔ وہ حاجیوں کی خوب خدمت کرتے اور ان کو دل کھول کر کھانا کھلاتے اور چمڑے کے حوضوں میں ان کے لئے پانی بھرواتے۔ قریش کاپیشہ تجارت تھا لہذا ہاشم نے تجارت کوترقی دینے اور فروغ دینے کے لئے حبش کے بادشاہ نجاشی اور مصر و شام کے بادشاہ قیصر سے قریش کے تجارتی مال کو ٹیکس سے مستثنی کر لیا۔پھر عرب کے مختلف قبائل سے معاہدہ کر کے قریش کے تجارتی قافلوں کو لوٹنے سے بچایا۔

عبد المطلب:

            ہاشم نے مدینہ کی ایک خاتون سلمی سے شادی کی وہ قبیلہ بنو خزرج کی ایک شاخ بنونجار سے تعلق رکھتی تھی۔ سلمی کے بطن سے عبد المطلب پیدا ہوئے۔ ہاشم کے جانشین ان کے بھائی مطلب تھے۔ان کے بعد عبد الملطب بن ہاشم ۔ عبد الملطب کا پیدائشی نام شیبہ تھا۔          

ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطلب اور ان کے بعدہاشم کے بیٹے عبد المطلب نے کعبہ کا انتظام سنبھالا۔

عبد المطلب اور چاہ زم زم کا واقعہ:

            چاہ زم زم جو برسوں سے بند تھا خواب میں اس کی نشاندھی ہوئی اور عبد الملطب نے اس کی دوبارہ کھدائی اور صاف کرکے جاری کیا۔ کھدائی کے دوران قریش کے ساتھ تنازعہ ہوا تو عبد الملطب نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالی ان کو دس بیٹے دیں اور وہ سب ان کی زندگی میں جوان ہو جائیں تو وہ ان میں ٍٍٍٍسے ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کر دیں گے۔ اللہ تعالی نے ان کو دس بیٹوں سے نوازا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور اپنی منت سے آگاہ کیا تو سب راضی ہوگئے اور قرعہ ڈالا تو قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا مگر اس کے ننھیال اور مامو وغیرہ آڑے آگئے اورعبد اللہ کے بدلے سو اونٹ ذبح کئے گئے۔

عبد اللہ بن عبد المطلب :

            اس واقعہ کے بعد عبد المطب نے عبد اللہ کی شادی قریش کے قبیلہ بنو زہرہ کے سردار وہب بن عبد مناف کی بیٹی آمنہ سے کر دی۔ شادی کے کئی ماہ بعد عبد اللہ ایک تجارتی سفر سے واپس آ رہے تھے کہ یثرب (مدینہ) میں ان کا انتقال ہو گیا’ اس وقت ان کی عمر پچیس برس تھی۔

ولادت با سعادت:

            آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تاریخ ولادت میں مؤرخین و سیرت نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی ولادت ۹/ ربیع الاول عام الفیل بروز پیر ہوئی جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ آپ ۱۲ ربیع الاول کے دن پیدا ہوئے جبکہ کچھ اور لوگوں کے نزدیک آپ کی ولادت کی تاریخ ۱۷ ربیع الاول ہے۔شمسی کلینڈر کے حساب سے آپ ﷺ کی تاریخ ولادت علامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے مطابق ۲۰/ اپریل ۵۷۱عیسوی ہے۔ جبکہ قاصی سید سلیمان منصور پوری ؒ نے رحمۃ للعالمین میں ۲۲ اپریل ۵۷۱عیسوی بیان کیا ہے۔

تسمیہ /عقیقہ:

            آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے ساتویں دن آپ کے دادا عبد المطلب نے آپ کا عقیقہ کیا اور آپ کا نام ‘‘محمد’’ رکھا جبکہ آپ کی والدہ نے آپ کا نام ‘‘احمد’’ رکھا۔

رضاعت/پرورش:

            آپ کی ولادت کے بعد سب سے پہلے آپ کو آپ کے چچا ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایا۔ ثویبہ اس سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب کو بھی دودھ پلا چکی تھی اس لئے آپ اور آپ کے چچا حمزہ کے درمیان چچا بھتیجا کے رشتہ کے علاوہ رضاعی بھائی ہونے کا رشتہ بھی تھا۔

            ولادت کے چھ ماہ بعد عرب کے دستور کے مطابق آپ کو رضاعت اور پرورش کے لئے قبیلہ بنو سعد کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہ کے سپر د کیا گیا۔آپ تقریبا چار سال تک قبیلہ بنو سعد میں دائی حلیمہ کے ہاں رہے۔

والدہ آمنہ کا انتقال:

            چار سال کے دوران کچھ واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ خوف زدہ ہو گئیں اور آپ کو آپ کی والدہ کے پاس واپس بھیج دیا ۔ جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چھ برس ہوئی تو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ آپ کو اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کی غرض سے مدینہ اپنے ساتھ لے کر گئیں۔ مدینہ سے واپس آتے ہوئے ابوا کے مقام پر آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ اس وقت ام ایمن جو کہ آپ کی خادمہ تھی آپ لوگوں کے ساتھ تھی۔آپ کی والدہ کو اسی مقام پر دفن کر دیا گیا اور ام ایمن آپ ﷺ کو ساتھ لے کر مکہ آگئیں۔آپ کی والدہ کی وفات کے بعد آپ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے دادا عبدالمطلب نے بخوبی نبھائی۔

داد عبد الملطب کی وفات اور چچا کی کفالت:

            جب آپ ﷺ کی عمر مبارک آٹھ سال ہوئی اس وقت آپ کے شفیق دادا عبد الملطب کا انتقال ہوگیا اور آپ کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری آپ کے چچا ابو طالب نے لے لی ۔ ابو طالب بہت ہی مشفق اور شفیق چچا تھے جس نے آپ کی پرورش کا حق ادا کر دیا ۔ وہ اپنے بچوں سے زیادہ آپ کا خیال رکھتے تھے۔

سفر شام بعمر ۱۲ سال اور بحیرہ راہب سے ملاقات:

            آپ کے چچا تجارت پیشہ تھے چنانچہ وہ تجارت کے سلسلے میں شام وغیرہ کی طرف جاتے رہتے تھے۔ جب آپ کی عمر ۱۲ سال ہوئی تو آپ اپنے چچا کے ہمراہ شام کی سفر پر گئے۔ جب یہ قافلہ شام کے علاقہ بصری کے مقام پر پہنچے تو وہاں کے بحیرہ نامی ایک راہب سے ملاقات ہو گئی جس نے آپ کے اندر نبوت کی نشانات دیکھ کر آپ کے چچا کو آپ کو آگے لے جانے سے یہ کہتے ہوئے منع کیا کہ ان کو یہودیوں سے خطرہ ہے لہٰذا ان کو یہیں سے واپس بھیج دیں چنانچہ آپ ﷺ کو بصری کے مقام سے واپس بھیج دیا گیا۔

حرب الفجار میں شرکت بعمر ۱۵ سال:

            قریش کنانہ اور بنو قیس کے قبائل کے درمیان سنه ۱۵ عام الفیل میں ایک جنگ ہوگئی تھی جسے تاریخ میں حرب الفجار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حرب الفجار نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ چونکہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ماہ محرم میں لڑی گئی تھی اس لئے اس کو حرب الفجار نام دیا گیا۔ اس جنگ میں آپ ﷺ نے بھی شرکت کی تھی کہ آپ اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۵ برس تھی۔

حلف الفضول میں شرکت:

            حلف الفضول ایک معاہدے کا نام ہے جو عہد جاہلیت میں مظلوموں کی حمایت و نصرت کے لئے قریش کے بعد قبائل کے درمیان مکہ میں منعقد ہوا تھا۔

            اس معاہدے کاسبب یہ تھا کہ قبیلہ قریش کے بعض افراد کبھی اجنبی افراد کے ساتھ ظلم روا رکھتے تھے جن کا مکہ میں قبیلہ ’ خاندان یا حمایتی نہیں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ یمن کے علاقے زبید کا ایک شخص سامان تجارت لے کر مکہ آیا ۔ مکہ کے ایک رئیس عاص بن وائل سہمی (حضرت عمروبن عاص کے والد)نے اس کا سامان خرید لیا لیکن قیمت اداکرنے میں تاخیر کر کے اس کو تکلیف میں مبتلا کر دیا۔ یمنی شخص نے قریش والوں سے مدد مانگی مگر کسی نے اس کی مدد نہیں چنانچہ وہ مسجد حرام کے قریب جبل ابو قبیس یا بقول بعض دیگر ے حجر اسماعیل کے قریب کھڑے ہو کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے متعلق اونچی آواز میں اشعار پڑھے اور قریش سے انصاف کا طالب ہوا۔

            اس کی فریاد سن کر رسول کریم ﷺ کے چچا زبیر بن عبد المطلب جو قریش کے اکابرین میں سے تھے نے لوگوں کو انصاف دلانے اور ان کی مدد کر نے کے لئے ایک معاہدہ حلف الفضول کی تجویز پیش کی ۔ اس کے بعد قریش کے بعد قبائل کے اہل حل و عقد دار الندوہ میں جمع ہو گئے اور مظلوموں کی حمایت کا اعلان کیا ۔پھر بعد ازاں زبیر بن الملطب کی کوششوں سے قریش کے ایک سر کردہ شخص عبد اللہ بن جدعان تیمی کے گھر میں جمع ہونے اور انہوں نے آپ زم زم میں ہاتھ ڈبو کر باہم طور پر عہد کیا کہ مکہ میں آنے والے کسی بھی شخص پر ظلم کیا جائے تو وہ سب مل کر اس کی مدد کریں گے تاکہ وہ ظلم سے اپنا حق وصول کرے۔ ظالم کو ظلم سے بازرکھیں گے اۃور برائی سے روکیں گے اورتہی دست و تنگ دست افراد کی مالی اور معاشی امداد کریں گے۔

وجہ تسمیہ:

            حلف الفضول کی وجہ تسمیہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ اس دن عرب میں منعقد ہونے والے تمام معاہدوں پر فضیلت و فوقیت رکھتا تھا اور یہ کہ اس کو ایسے افراد نے منعقد کیا جو صاحب فضیلت تھے۔

            اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے بعض دوسرے اقوال بھی بیان کئے جاتے ہیں جو مقبول نہیں ہیں۔

            اس معاہدے میں رسو ل کریم ﷺ نے بھی شرکت کی تھی ’ اس وقت آپ ﷺ کی عمر ۲۰ سال تھی۔

حضرت خدیجہ کی تجارت میں شرکت:

            حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک مالدار خاتون تھیں ’ وہ اپنے مال تجارت کو کمیشن پر دوسرے لوگوں کو دیتی تھیں تاکہ وہ تجارت کریں اور منافع میں سے مناسب کمیشن دیتی تھیں۔ سیرۃابن ہشام کے مطابق آپ ‘ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کے مشورے سے حضرت خدیجہ سے بات کی اور انہوں نے آپ ﷺ کو اپنا تجارت کا مال دے کریمن اور شام کی طرف گئے اور اس تجارتی سفر میں بہت فائدہ ہوا ۔ حضرت خدیجہ نے اپنا غلام میسرہ کو آپ سے ساتھ بھیجا تھا اس نے آپ کے اخلاق و محاسن دیکھے وہ حضرت خدیجہ کو بتایا تو وہ بھی آپ ﷺ سے متاثر ہوئیں اور اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعہ شادی کا پیغام بھیجا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی:

            رسول کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ کی طرف سے ملنے والے پیغام نکاح سے متعلق اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کے بعد قبول کیا اور ابو طالب دوسرے اہل خاندان کو لے کر حضرت خدیجہ کے مکان پر گئے اور آپ کا نکاح حضرت خدیجہ سے کر دیا۔ اس وقت آپﷺ کی عمر 25سال اور حضرت خدیجہ کی عمر 40سال تھی۔

تجدید تعمیر کعبہ میں شرکت اور ثالثی:

            خانہ کعبہ کی عمارت نشیب میں تھی جب کبھی بارش ہوتی تو خانہ کعبہ میں پانی بھر جاتا۔ قریش کے سب خاندانوں نے مل کر اس کی از سر نو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا اور چندہ کر کے اس کے لئے سامان مہیا کیا اور پھر اس کو گرا کر دوبارہ تعمیر کا کام شروع کیا لیکن جب حجر اسود کی تنصیب کا موقع آیا تو ان کے درمیان جھگڑا پیدا ہوا اس لئے کہ ہر خاندان کی خواہش تھی کہ یہ سعادت اس کے حصہ میں آئے۔جب جھگڑا زیادہ طویل ہو گیا اور تلواریں نکل آئیں تو قریش کے ایک بوڑھے شخص نے مشورہ دیا کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوگا وہ اس کا فیصلہ کرے گا۔ سب نے اس کی تجویز مان لی اور اگلے دن محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسی دروازے سے داخل ہو گئے تو سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو  اپنا حکم تسلیم کر لیا  اوراپنا كل كي روداد سنائي كس طرح تنازع كھڑا هوا اور حرم پاك ميں تلواريں نكل آئيں اور كس كے كهنے  اور تجويز پر تلواريں نيام ميں كر لي گئيں ، لوگوں كي باتيں سننے كے بعد  آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم نے ایک چادر منگوائی اور اس کو بچھایا اور اپنے دست مبارك سے حجر اسود کو اس میں رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک فرد سے کہا کہ وہ اس چادر کا ایک ایک کونا پکڑ کر اس جگہ لے جانے کے لئے کہا جہاں اس کو نصب کیا جانا تھا۔چنانچہ ہر قبیلہ میں سے ایک ایک فرد نے چادر کا ایک ایک کونا پکڑا اور نصب کئے جانے والی جگہ پر پہنچایا پھر آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اپنی جگہ پر نصب فرمايا ۔يوں آپ ص كي فراست كي وجه سے خانه كعبه ميں ايك خون ريز فساد برپا هونے سے بچ گيا ۔اور اس طرح ہر قبیلہ کویہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ حجر اسود کے تنصیب میں شامل ہو۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 35سال تھی۔

خلوت نشيني اور نبوت كا آغاز:

            رسول كريم ﷺ عبادات اور غور و فكر كے لئے اثر غار حرا تشريف لے جاتے تھے، جهاں آپ تنهائي ميں الله تعالي كي عبادت كرتے، جب آپ ﷺ كي عمر مبارك 40 سال هوئي اور آپ ماه رمضان ميں غار حرا ميں مصروف عبادت تھے كه جبرائيل امين تشريف لائے اور بتايا كه آپ الله تعالي كے نبي اور رسول هيں اور الله نے آپ كو انسانيت كي هدايت اور رهنمائي كے لئے نبي بنا كر مبعوث كيا هےپھر سوره "العلق" كي پهلي پانچ آيات نازل فرمائيں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)