عباد الرحمٰن كے اوصاف سورةالفرقان كى روشنى ميں

0

 

عباد الرحمن كے اوصاف  سورةالفرقان كي روشني ميں

سورۃ الفرقان کی آخری آیات میں "عباد الرحمن" یعنی اللہ کے پسندیدہ اور خاص بندوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ یہ بندے اپنے کردار، اخلاق اور عبادات میں دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفات کو نہایت تفصیل اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے تاکہ ہر شخص ان کی پیروی کرے۔ ذیل میں ان اوصاف کو مزید تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے:

 1. رفتار اور گفتار میں عاجزی اور انکساری:

   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ یہ لوگ غرور اور تکبر سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال سے عاجزی اور فروتنی جھلکتی ہے۔ ان کی بات چیت میں نرمی ہوتی ہے اور جب ان سے کوئی جاہل یا بدتمیز انسان بحث یا جھگڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ سکون اور امن کے ساتھ جواب دیتے ہیں:

وَعِبَادُ الرَّحْمنِ الذين يمشون على الارض هونا واذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما. (الفرقان: 63)

   "اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو سلامتی کی بات کہتے ہیں۔"

اس ایت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے دو اوصاف بیان کیا ہیں ایک تو وہ زمین پر عاجزی و انکساری کے ساتھ چلتے ہیں فخر اور تکبر کے ساتھ نہیں چلتے بلکہ ایک با چال چلتے ہیں جبکہ دوسرا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ لوگ بات کرنے میں بھی نرم رویہ اختیار کرتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں اور الجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر وہ ان سے اعراض کرتے ہیں، ان سے نہیں الجھنے کے بجائے صاحب سلامت کہہ کر نکل جاتے ہیں ، گویا رفتار اور گفتار دونوں میں یہ لوگ باوقار ہوتے ہیں۔

   یہ بندے دوسروں کی بیجا مخالفت یا سخت کلامی سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ امن اور عافیت کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 2. رات کو اللہ کی عبادت کرنا:

   "عباد الرحمن" اپنی راتیں اللہ کی عبادت میں گزارتے ہیں، وہ رات کے اندھیروں میں جب دنیا سو رہی ہوتی ہے، تو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور قیام کرتے ہیں۔ اس سے ان کا اللہ کے ساتھ گہرا تعلق ظاہر ہوتا ہے:

والذين يبيتون لربهم سجدا وقياما. (الفرقان: 64)

    "اور جو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔"

رحمن كے   یہ بندے  شب بيدار هوتے هيں ،راتوں کو نفل نماز، تہجد اور ذکر و اذکار میں مصروف رہتے ہیں، جس سے ان کے دلوں میں اللہ کا خوف اور محبت دونوں بڑھتی ہیں۔ ايسے لوگ نه صرف راتوں كي راحت و سكون كو الله كے لئے چھوڑ ديتے هيں بلكه نرم گرم بستروں كو بھي خير باد كهه كر الله كے حضور حاضري دينے ميں مشغول  رهتے هيں۔

 3. جہنم کے عذاب سے ڈرنا:

   عباد الرحمن   كا ايك وصف يه هے كه وه اللہ سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں، وہ اللہ کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں اور ہمیشہ دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اس ہولناک عذاب سے محفوظ رکھے:

والذين يقولون ربنا اصرف عنا عذاب جهنم ان عذابها كان غراما. انها ساءت مستقرا ومقاما. (الفرقان: 65)

    "اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے، بے شک اس کا عذاب دائمی تباہی ہے۔"

   یہ دعائیں اس بات کی علامات ہیں کہ وہ اللہ کے عذاب کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر کرتے ہیں۔  اور وه لوگ اپنے عمل پر نازاں نهيں رهتے بلكه الله تعالي سے ڈرتے رهتے هيں اس لئے عبادت كرنے اور راتوں كو اٹھ اٹھ كر الله كے حضور حاضري دينے كے ساتھ ساتھ وه الله تعالي كے عذاب سے بھي ڈرتے هيں اور اس سے الله ك پناه چاهتے هيں۔

 4. خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا:

   عباد الرحمن  كا ايك اهم وصف يه بھي هے كه وه اپنے مال کو خرچ کرنے میں نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل دکھاتے ہیں، بلکہ وہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے خرچ میں توازن ہو:

والذين اذا انفقوا لم يسرفوا ولم يقتروا وكان بين ذلك قواما. (الفرقان: 67)

    "اور جب وه خرچ کرتے ہیں، نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔"

 

   ان کی زندگی میں میانہ روی نمایاں ہوتی ہے، چاہے وہ مال و دولت ہو یا عام معاملات۔ معلوم هوا مال خرچ كرنے ميں بھي راه اعتدال اختيار كرنا قابل تعريف صفت هے۔ الله تعالى نے خرچ كرنے ميں اسراف اور بخيلي دونوں كي مذمت كي هے ،  چنانچه نيك لوگوں كا وطيره يه هوتا هے كه وه   نه اسراف كرتے هيں اور نه هي كنجوسي كرتے هيں بلكه وه راه اعتدال اختيار كرتے هيں۔

 5. شرک سے بچنا:

              الله كے  ان  نيك بندوں كا نماياں وصف يه بھي هے كه وه  اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، یعنی وہ توحید پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور ہر قسم کے شرک سے بچتے ہیں، نه ان كي عبادت كرتے هيں اور نه ان كو پكارتے هيں۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا سب سے بڑا گناہ ہے:

والذين لا يدعون مع الله الها اخر. (الفرقان: 68)

    "اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے۔"

   توحید ان کی زندگی کا محور ہے اور وہ اللہ کو ہر کام کا واحد مالک اور مختار جانتے ہیں۔ چونكه پكارنا اور دعا كرنا بھي "عبادت" هي شمار هوتا هے اس لئے كه رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم كا فرمان هے " الدعاء هو العبادة" يعني دعا هي عبادت هے، دوسري جگه فرمايا "الدعاء مخ العبادة" يعني دعا عبادت كا مغز هے۔

 6. قتل سے اجتناب:

   یہ لوگ ناحق کسی کو قتل نہیں کرتے۔ ان کا ہر عمل انصاف پر مبنی ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی زندگی کا احترام کرتے ہیں:

و لا يقتلون النفس التي حرم الله الا بالحق. (الفرقان: 68)

    "اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے۔"

   اس سے ان کی اعلیٰ انسانی اقدار اور اخلاقی کردار ظاہر ہوتا ہے۔ بلا وجه كسي كا نا حق خون نهيں بهاتے۔ شريعت اسلامي كے اصولوں كي پابندي كرتے هيں اور احترام انسانيت كا پاس ركھتے هيں۔

 7. زنا سے بچنا:

   عباد الرحمن زنا جیسے کبیرہ گناہوں سے مکمل طور پر بچتے ہیں۔ وہ اپنی عصمت اور پاکدامنی کا خیال رکھتے ہیں اور اللہ کی حدود سے تجاوز نہیں کرتے:

ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلقى اثاما. يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهانا. (الفرقان: 68-69)

    "اور نہ زنا کرتے ہیں، اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اس کے لیے دگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا"

  اللہ تعالی کے یہ نیک بندے ہر قسم کی فحاشی اور بے حیائی سے دور رہتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھتے ہیں۔

اس ایت کریمہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ان محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ذلت امیز عذاب سے دوچار ہوں گے اور ان کے لیے جو سزا ہے وہ ہمیشہ کی سزا ہوگي خصوصا شرك كرنے والے كے لئے اگر وه شرك كي حالت پر مر جائے تو اس كے لئے معافي نهيں هے بلكه وه مخلد في النار هے، جيسا كه الله كا فرمان هے" ان الله لا يغفر ان يشرك به و يغفر ما دون ذلك لمن يشاء"۔ يعني بے شك الله تعال شرك كو معاف نهيں كرتا اس كے علاوه جس كو چاهتا هے معاف كر ديتا هے۔ البته اگر كوئي توبه كرے اور الله كي طرف رجوع كرتے هوئے اپنے گناهوں كي معافي كا طلب گار هو جائے تو الله تعالى اس كو معاف كر ديتا هے۔

 8. توبہ کرنا اور نیک عمل اختیار کرنا:

   اگر عباد الرحمن سے کوئی خطا سرزد ہو جائے، تو وہ فوراً توبہ کرتے ہیں اور نیک عمل کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ توبہ کرتے ہیں اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں، اللہ ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے:

الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا فاولئك يبدل الله سيئاتهم حسنات و كان الله غفور رحيما. (الفرقان: 70)

  "سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

 

   یہ بندے اپنی خطاؤں پر پچھتاتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اللہ کی مغفرت پر یقین ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان گنہگاروں کے لیے امید دلائي گئي ہے کہ وہ لوگ گناہ کے بعد اگر پچھتائے پيشمان  ہو جائے  اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کریں تو اللہ تعالی ان کی نہ صرف توبہ قبول کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان دل سے اللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنی خطاؤں پر ندامت کے انسو بہائے اور اللہ سے معافی کے طلبگار ہوں۔

 9. جھوٹ سے پرہیز اور لغویات سے اجتناب :

   عباد الرحمن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے، جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور کسی بھی طرح کی فریب دہی سے پرہیز کرتے ہیں:

والذين لا يشهدون الزور واذا مروا باللغو مروا كراما. (الفرقان: 72)

    "اور وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب لغو باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو عزت کے ساتھ گزرتے ہیں۔"

اس آيت كريمه ميں يه بتايا گيا هے كه عباد الرحمن جھوٹ اور جھوٹ سے مزين كسي بھي كام اور عمل سے دور رهتے هيں ، لفظ "زور" كا وسيع مفهوم هے كه اس سے مراد هر وه عمل هے جس ميں جھوٹ كا شائبه بھي شامل هو،چنانچه عباد الرحمن  سچائی کے علمبردار ہوتے ہیں جھوٹ سے دور رهتے هيں  اور اسي طرح وه  ہر قسم کی لغویات سے بھي دور رہتے ہیں۔يعني كوئي ايسا كام نهيں كرتے جو فضول اور لا يعني هو اور اگر ان كا گزر ايسے كاموں پر سے هو جائے تو شريفانه انداز ميں گزر جاتے هيں ان ميں مشغول نهيں هوتے۔

 10. نصیحت کو قبول کرنا:

   جب عباد الرحمن کو اللہ کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ اس نصیحت کو دھیان سے سنتے ہیں اور اس سے سبق لیتے ہیں:

والذين اذا ذكروا بآيات ربهم لم يخروا عليها صما وعميانا. (الفرقان: 73)

    "اور جب ان کے رب کی آیات کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے۔"

 

   یہ لوگ قرآن کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں اور اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ رب کی آیات کو سن کر اندھے اور بہرے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ان کے بارے میں غور وفکر کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔

 11. اہل و عیال کے لیے دعائیں:

   عباد الرحمن اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں نیک اور صالح بنائے اور ان کی زندگی کو ان کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ بنائے:

والذين يقولون ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين واجعلنا للمتقين اماما. (الفرقان: 74)

    "اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنا دے۔"

              الله تعالى كے يه بندے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے فکر مند رہتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان کے گھر والے اور بچے ایمان اور عمل کی راہ پہ چلتے رہیں اور تقوی کی زندگی گزاریں اور ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بن جائیں اور اس کے لیے نہ صرف دعا کرتے ہیں بلکہ دعا کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی ان کو اچھی تربیت دیتے ہیں تاکہ یہ ان کے لیے باعث رحمت بن جائیں بھائی سے شرم اور بھائی سے زحمت نہ ہو اللہ تعالی سے وہ ہمیشہ اپنی بھلائی اور اپنے گھر والوں کی بھلائی کے لیے دعا گو رہتے ہیں اور خود ایسے عمل کرتے ہیں کہ وہ متقین کے لیے پیشوا بن جائیں۔

 12. آخرت میں جنت کا انعام:

   اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ ان صفات کو اپناتے ہیں، انہیں آخرت میں جنت کے اعلیٰ مقامات عطا کیے جائیں گے:

اولئك يجزون الغرفة بما صبروا ويلقون فيها تحية وسلاما. (الفرقان: 75)

    "یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بدولت جنت کے بلند مقام دیے جائیں گے۔ اور دعا  و سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔"

   یہ لوگ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں اور ان کا بدلہ جنت کے اعلیٰ درجات ہیں، اور ان کا جنت میں دعا اور سلام کے ساتھ استقبال کیا جائے گا یہ ایسے خوش نصیب ہیں جنہیں اللہ تعالی ان کے نیک اعمال کے بدلے میں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے گا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔

یہ مذكوره بالا صفات نہایت جامع اور مکمل ہیں، جو "عباد الرحمن" کو ایک اعلیٰ اور مکمل شخصیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی اللہ کی اطاعت، انسانیت کی خدمت، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔لهذا تمام مؤمنين و مؤمنات كو چاهئے كه وه اپنے اندر يه اوصاف پيدا كريں تاكه دنيا و آخرت دونوں ميں كاميابي سےهمكنار هوں اور ابدي زندگي ميں الله تعالى كے انعام كا مستحق ٹھهريں اور جنت الفردوس ميں الله تعالى مقام و مستقر عطا فرمائے۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)