آداب معاشرت، سوره الحجرات كي روشني ميں
سوره الحجرات
كے شروع ميں الله تعالي نے آداب نبوي بيان كيا هے اس كے بعد آداب معاشرت بيان كرتے
هوئے معاشرے ميں پائي جانے والي بعض خرابيوںكا ذكر كيا هے اورحكم دياهے كه ان خرابيوںسے
اجتناب برتيں تاكه معاشرےميں امن و سكون برقرار رهے، اور معاشره كسي بڑي خرابي اور
انتشاركا شكار نه هو۔
1. تحقیق
اور سچائی کا اصول:
سورۃ الحجرات کی آیت 6 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يا
ايها الذين امنوا ان جاءكم فاسق بنباء فتبينوا ان تصيبوا قوما بجهاله فتصبحوا على
ما فعلتم نادمين.
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو
تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو
اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔" (49:6)
اس آيت كريمه
ميں يه اصول ديا هے كه اگر كوئي غير معتبر شخص معاشرے ميں كوئي خبر لے كر آئے تو
پهلے اس كي تحقيق و تصديق كرو پھر اقدام اٹھاؤ ، اس سے بهت سے مصائب سے بچ سكتے
هيں ورنه غلط فهمي ميں كوئي ايسا قدم اٹھ سكتا هے جو بعدميں پيشماني كا سبب بنے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر بات کی تصدیق اور تحقیق ضروری ہے، خاص طور پر جب کوئی
غیر معتبر شخص کوئی خبر لے کر آئے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ
کسی بھی خبر کو فوراً قبول کرنے سے پہلے اس کی سچائی کو جانچیں۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمیشہ صحابہ کرام کو تحقیق اور سچائی پر زور دیا تاکہ بے بنیاد خبریں
یا افواہیں معاشرے میں فساد پیدا نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ بے بنیاد خبروں کو بلا تحقیق بنیاد بنا کر کوئی
ایسا قدم اٹھائیں جس سے بعد میں پچھتانا پڑے اس لیے ضروری ہے کہ جو بھی خبر ائے پہلے
اس کی تحقیق اور تصدیق کی جائے اس کے بعد اس تحقیق کی روشنی میں ہی اقدامات کیے جائیں
تاکہ انجانے میں بلا وجہ مصائب کا شکار نہ ہو اور بعد میں پشیمانی اٹھانی
پڑے ۔
اس اصول کو اپنانا ہمارے معاشرتی
تعلقات کو مضبوط اور بے یقینی کی صورتحال میں غلط قدم اٹھانے سے بچا سکتا ہے۔
خصوصاً آج کے میڈیا کے دور میں جہاں مختلف میڈیاز کے ذریعے افواہوں اور بے سر پا
باتوں کو پل بھر میں پوری دنیا میں پھیلا دیا جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کے
متعلق پہلے سے کنفرم کیا جائے کہ وہ کیا واقعی درست ہیں یا محض افواہ اور
پروپیگنڈا ہے ورنہ انسان اس ضمن میں مختلف
قسم کے نقصانات اٹھا سکتا ہے جو بعد میں پشیمانی کا باعث بنتے ہیں۔
2. تنازعات کی صورت میں صلح کی کوشش:
آداب معاشرت میں سے ایک اہم ادب
یہ ہے کہ مسلمان اگر آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے
درمیان صلح کرے، ان کو آپس میں لڑنے نہ دے تاکہ معاشرے میں انتشار پیدا نہ ہو ،
افراد معاشرہ امن و سکون کے ساتھ رہ سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وان طائفتان من المؤمنين
اقتتلوا فاصلحوا بينهما فان بغت احداهما
على الاخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء الى امر الله فان فات فاصلحوا بينهما
بالعدل واقسطوا ان الله يحب المقسطين.
اگر مومنوں میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان دونوں کے
درمیان صلح کرو پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم اس سے لڑو جو زیادتی کر رہا
ہے یہاں تک یہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ ائے پس اگر وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ
ائے تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرو اور انصاف کرو بے شک اللہ تعالی
انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں
کو حکم دیا ہے کہ وہ معاشرے میں اگر دو گروہوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو جائے تو
ان کے درمیان صلح کریں تاکہ مسلمان انتشار کا شکار نہ رہے یہ حکم ان مسلمانوں کے
لیے ہے جو ان دو گروہوں کے علاوہ ہيں وہ تماشائی بن کر صرف مسلمانوں کے آپس کی
لڑائی کو دیکھتے نہ رہیں بلکہ حتی الامکان
ان کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کريں اور اگر ان میں سے کوئی صلح کے لیے
آمادہ نہ ہو تو ان کو صلح کے لیے زبردستی کرے۔ اس کے لیے اس گروہ سے لڑنا پڑے تو
لڑ پڑيں تاكه وه صلح پر آماده هو جائے۔
اور اگرصلح پر آمادہ ہو جائے تو پھر ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرے یہ نہ ہو
کہ ایک کی طرفداری کرے، بلکہ دونوں گروہ کے ساتھ انصاف کا رویہ اختیار کرے اس لیے
کہ انصاف سے معاشرہ پرامن ہوتا ہے اور اسلام کا بھي یہي اصول ہے کہ وہ معاشرے میں انصاف کو
پھیلائے اور ظلم کا خاتمہ کریں۔
3.
مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کا فروغ:
سورۃ الحجرات کی آیت 10 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
انما
المؤمنون اخوة فاصلحوا بين اخويكم واتقوا الله لعلكم ترحمون.
"مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے
دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا
جائے۔" (49:10)
یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا عکاس ہے جن
میں آپ نے مسلمانوں کے درمیان اخوت، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے پر زور دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان
اختلافات کو دور کیا جائے اور آپس میں صلح و صفائی کی راہیں تلاش کی جائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے عمل سے ہمیشہ امت میں اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھا اور ہمیں بھی یہی حکم دیا
کہ ہم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کا ذریعہ بنیں اور اختلافات کو بڑھانے کے بجائے
انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔
4. تمسخر اڑانے کی ممانعت:
يا ايها الذين امنوا لا يسخر قوم من قوم عسى ان يكونوا خيرا
منهم ولا نساء من نساء عسى ان يكن خيرا منهن ولا تلمزوا انفسكم ولا تنابزوا بالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الايمان ومن لم
يتب فاولئك هم الظالمون.
اے ایمان والو مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے یہ ان
سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں اور
ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے القاب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے
اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔
اس آيت ميں
الله تعالي نے مؤمنوں كو خطاب كرتے هوئے كها هے كه كوئي كسي كا مذاق نه اڑائيں
خواه مرد هو يا عورت، ممكن هے جن كا مذاق يا تمسخر اڑايا جا رها هو وه مذاق اڑانے
والوں سے بهتر هوں اور الله كے هاں معزز ومكرم هوں۔
مذاق اڑانے
سے مراد محض زبان سے كسي كا مذاق اڑانا نهيں هے بلكه كسي كي نقل اتارنا، اس كي طرف
اشاره كرنا، اس كي بات پر يا اس كے كام پر يا اس كي صورت پر يا اس كے لباس پر
هنسنا يا اس كے كسي نقص يا عيب كي طرف لوگوںكو اس طرح توجه دلاناكه دوسرے اس پر
هنسيں ، يه سب تمخسراڑانے ميں داخل هيں۔الله تعالي نے كسي بھي مسلمان كي تضحيك
كرنے سے منع كيا هے كيونكه اس كے پيچھے اپني بڑائي اور دوسرے كي تذليل كا جذبه كار
فرما هوتا هے جو اخلاقا سخت معيوب هونے كے ساتھ دوسرے شخص كي دل آزاري بھي هوتي هے
جس سے معاشرے ميں انتشار اور فساد رو نما هوتا هے۔
عیب جوئی کی ممانعت:
درج بالاآيت
ميں ايك حكم يه هے كه مسلمان آپس ميں طعن و تشنيع نه كرے اور نه هي ايك دوسرے كے
عيوب كے پيچھے لگے رهے كه ان كو لوگوں كے سامنے لا كر ان پر طعن كے تير برسا كر ان
كي تذليل كرے۔ يه فعل بھي نهايت شنيع هے۔ مولانا مودودي كهتے هيں: آيت ميں لفظ
"لمز" استعمال هواهے جس كے اندر طعن و تشنيع كے علاوه متعدد دوسرے
مفهومات بھي شامل هيں، مثلا چوٹيں كرنا، پھبتياں كسنا، الزام دھرنا، اعتراض دھرنا،
عيب چيني كرنا، اور كھلم كھلا يا زير لب يااشاروں سے كسي كو نشانه ملامت بنانا۔يه
سب افعال بھي چونكه آپس كے تعلقات ك بگاڑتے
اور معاشرے ميں فساد برپاكرتے هيں اس لئے ان كو حرام كر ديا گيا هے۔(تفهيم
القرآن متعلقه آيت)
بد القابی کی ممانعت:
آيت بالا ميں
ايك اور معاشرتي خرابي كي طرف متوجه كرتے هوئے اس سے بچنے كي تاكيد كي گئي هے، وه
هے كسي شخص كو برے القاب دينا يا برے ناموں سے پكارنا۔ اس حكم كا مطلب يه هے كه كسي شخص كو ايسے ناموں
كےساتھ نه پكارا جائے يا ايسا لقب نه ديا جائے جو اس كو ناگوار هو اور جس سے اس كي
تحقير و تنقيص هوتي هو مثلا كسي كو فاسق يا منافق كهنا ، يا اس كے كسي جسماني
كمزوري كو بنياد بنا كر اس كو ايسا لقب دينا جس سے اس كي جسماني كمزوري نماياں
هوتي هو مثلا لنگڑا، اندھا، يا كانا كهنا، كسي كو اس كے اپنے يا اس كي ماں باپ يا
خاندان كے كسي عيب يا نقص كےساتھ ملقب كرنا، كسي كو مسلمان هونے كے بعد اس كے سابق
مذهب كي بنا پر يهودي، كافر، يا نصراني وغيره كهنا، يا كسي شخص ياخاندان كا ايسا
نام دينا جو اس كي مذمت يا تذليل كا پهلو ركھتا هو۔سب اس ميں شامل هيں۔البته اس
حكم سے وه القاب مستثني هيں جو ملقب به كو ناگوار نه هو، اور اس سے كسي تذليل مقصو
د نه هوبلكه تخصيص هو اور يه القاب ان كي پهچان كا ذريعه هوں مثلا كسي لمبے شخص كو
لمبو كهنا ، وغيره۔
5.
بدگمانی سے احتراز کرنے کا حکم:
اللہ تعالیٰ
سورۃ الحجرات کی آیت 12 میں فرماتے ہیں:
يا
ايها الذين اجتنبوا كثيرا من الظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا يغتب بعضكم بعضا
ايحب احدكم ان ياكل لحم اخيه ميتا
فكرهتموه واتقوا الله ان الله تواب رحيم.
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو،
بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور نہ کسی کی جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی
کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت
کھائے؟ سو تم اس سے نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے
والا، رحم کرنے والا ہے۔" (49:12)
اس
آيت كريمه ميں مزيد چند معاشرتي خرابيوں كا ذكر كركے ان سے بچنے كا حكم ديا هے جن
ميں سے ايك "بدگماني" هے۔
یہ آیت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیمات کی یاد دلاتی ہے، جن میں آپ نے مسلمانوں کو غیبت، بدگمانی اور جاسوسی سے
بچنے کی تلقین کی ہے۔
آيت
مذكوره ميں مطلقا گمان كرنے سے نهيں روكا گيا هے بلكه زياده گمان كرنےسے روكا گيا هے
اس كي وجه يه بتائي گئي هے كه بعض گمان گناه هوتے هيں۔ ظن(گمان) كي دو قسم هيں ايك حسن ظن جو ممنوع
نهيں هے يعني اگر كوئي كسي كے بارے ميں اچھا گمان ركھتا هے اور اس كے متعلق اس كے
خيالات اچھےهيں تو شريعت كي نظر ميں يه فعل قبيح نهيں هے۔جبكه دوسري قسم سوء ظن
يعني بد گماني هے جس ميں انسان بلا تحقيق كسي كے متعلق برے خيالات ركھتا هے بد
گماني كرے،اس سے معاشرے ميں بهت سي خرابيان پيدا هوتي هيں۔
یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہمیں اپنے دلوں کو پاک رکھنا
چاہیے اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی اور غیر ضروری تفتیش سے بچنا چاہیے۔ مسلمانوں
کے باہمی تعلقات کو مضبوط اور خوشگوار رکھنے کے لیے یہ تعلیمات انتہائی اہم ہیں۔
6. جاسوسی کرنے کی ممانعت:
آيت مذكوره
ميں ايك اور حكم يه هے كه لوگوں كے راز نه ٹٹولو، ايك دوسرے كے عيب تلاش نه كرو،
دوسروں كے حالات اور معاملات كي ٹوه نه لگاتے پھرو۔ يه حركت خواه بدگماني كي بنا
پر كي جائے يا بد نيتي كي بنا پر، كسي كو نقصان پهنچانے كے لئے كي جائے يا كسي
استعجاب كو دور كرنےكے لئے كي جائے هر حال ميں شرعا ممنوع هے۔كسي مؤمن كے لئے يه
لائق نهيں هے كه وه دوسروں كے جن حالات پر الله نے پرده ڈالا هوا هے اس كي كھوج
اور كريد ميں لگ جائيں اور ان كے مستور احوال كو معلوم كرنے كي كوشش كريں اور يه
ديكھيں كه كس ميں كيا عيب هے اور كس كي كون سے كمزورياں چھبي هوئي هيں۔
7. غیبت سے بچنے کی تلقین:
آيت مذكوره ميں
الله تعالي نے ايك اور اهم معاشرتي بيماري "غيبت " كا ذكر كرتے هوئے اس
سے منع كيا هے۔ غيبت كي تعريف يه هے كه
آدمي كسي شخص كے پيٹھ پيچھے اس كے بارے ميں ايسي بات كهے جو اس كو معلوم هو تو اس
كوناگوار گزرے۔ رسول كريم صلي الله عليه و آله وسلم نے خود اس كي يهي تعريف كي هے۔
عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله
صلي الله عليه وسلم قال: اتدرون ما الغيبة؟ قالوا: الله و رسوله اعلم. قال: ذكرك اخاك بما يكره. قيل: افرأيت ان كان في اخي
ما اقول؟ قال: ان كان فيه ما تقول فقد
اغتبته و ان لم يكن فيه ما تقول فقد بهته.(صحيح مسلم كتاب البر و الصلة باب تحريم
الغيبة
حديث نمبر 2589)
ابو هريره سے روايت هےكه
رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كيا تم جانتے هو كه غيبت كيا هے؟ صحابه نے
كها الله اور اس كا رسول بهتر جانتا هے۔ آپ نے فرمايا: تو اپنے بھائي ذكر اس طرح
كرے جو اسے ناگوار هو، عرض كيا گيا كه اگر ميرے بھائي ميں وه بات پائي جاتي هو جو ميں
كهه رها هوں تو اس صورت ميں آپ كا كيا خيال هے؟ فرمايااگر اس ميں وه بات پائي جاتي
هو تو تو نے اس كي غيبت كي هے اور اگر اس ميں وه موجود نه هو تو تونے اس پر بهتان
لگاياهے۔
ايك دوسري روايت ميں جو
امام مالك نے اپني كتاب موطا ميں حضرت مطلب بن عبد الله سے نقل كي هے اس ميں هے:
ان رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه و
سلم ما الغيبة؟ فقال ان تذكر من المرء مايكره ان يسمع. قال: يا رسول الله و ان كان
حقا؟قال: اذا قلت باطلا فذالك البهتان. (موطا مالك كتاب الجامع باب ما جاء في
الغيبة
. حديث نمبر 2823)
ايك شخص نے رسول الله صلي
الله عليه وسلم سے پوچھا غيبت كيا هے؟ آپ نے فرمايا: يه كه تو كسي شخص كا ذكر ا س
طرح كرے كه وه سنے تو اسے ناگوار هو، اس
نے كها يا رسول الله اگرچه ميں ميري بات سچي هو؟آپ نے فرمايا اگر تيري بات باطل هو
تو يهي چيز پھر بهتان هے۔
معلوم هوا كه اگر كسي شخص
ميں موجود عيوب كو ا س كي غير موجودگي ميں بيان كرناغيبت هے ، يه فعل خوا صريح الفاظ ميں كيا جائے يا اشاره
كنايه ميں بهر صورت حرام هے، اسي طرح يه فعل آدمي كي زندگي ميں كيا جائے يا مرنے
كے بعد دونوں صورتوںميں اس كي حرمت يكساں هے۔
غيبت كا يه فعل اتنا برا
اور شنيع هے كه الله تعالي نے غیبت کو
مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا، جو انتہائی نفرت انگیز عمل ہے۔ جس
طرح كوئي اپنے مرده بھائي كا گوشت كھانا نهيں چاهتا اسي طرح اس كو چاهئے كه وه
اپنے بھائيوں كي غيبت بھي نه كرے۔
غيبت كي اس حرمت سے مستثني
صرف وه صورتيں هيں جن ميں كسي شخص كے پيٹھ پيچھے يا اس كے مرنے كے بعد اس كي كوئي
برائي بيان كرنے كي ايسي ضرورت لاحق هو جو شريعت كي نگاه ميں ايك صحيح ضرورت هو
اوروه غيبت كے بغير پوري نه هو سكتي هو، اس كے لئے اگر غيبت نه كي جائے تو اس كي
نسبت زياده بڑي برائي لازم آتي هو يا كسي كي زندگي داؤ پر لگتي هو يا كسي كو مالي
يا نفساني نقصان پهنچ سكتا هو يا معاشرے ميں زياده فساد پھيل سكتا هو۔ اس كي بهت
سي مثاليں دي جاسكتي هيں۔
8. نسلی
اور طبقاتی امتیاز کا خاتمہ:
اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت 13 میں فرماتے ہیں:
يا
ايها الناس انا خلقناكم من ذكر و انثى و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم
عند الله اتقاكم ان الله عليم خبير.
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک
عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کو
پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ
پرہیزگار ہے، يقينا الله جاننے والا باخبر هے۔" (49:13)
یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کا عکاس ہے جس
میں آپ نے نسلی، قومی اور طبقاتی تفریق کو ختم کرنے کی تعلیم دی۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح فرمایا کہ "کسی عربی کو عجمی پر اور کسی
عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔"
آيات سابقه
ميں الله تعالي نے اهل ايمان كو مخاطب كر كے وه هدايات دي هے جو مسلم معاشرےكو
خرابيوںسے محفوظركھنے كے لئے ضروري تھيں اور اب اس آيت ميں پوري نوع انساني كو
خطاب كركے اس بڑي اور عالمگير گمراهي كي اصلاح كي گئي هے جو دنيا ميں هميشه
عالمگير فساد كاسبب بنا رها هے اور اسي گمراهي كے سبب آج بھي نوع انسانيت فتنه و
فساد كي زد ميں هے،يعني مختلف قسم كےتعصبات، كهيں نسل كا تعصب هے تو كهيں رنگ كا،
كهيں زبان كا تعصب كار فرما هے تو كهيں وطن اور علاقائيت كا تعصب اپنا رنگ دكھا
رها هے اوركهيں مذهب اور عقيدے كا تعصب انسانيت كو تقسيم كر رها هے۔ اسلام ان تمام
اقسام تعصبات كي نفي كرتے هوئے وحدت نوع انساني اور وحدت فكر انساني كي دعوت ديتا
هے اور ان تعصبات سے هٹ كر صرف الله تعالي كي فرمان برداري كرنے اور اسي كے حكم كے
مطابق زندگي گزارنے كا حكم ديتا هے۔
كسي قوم،نسل
يا خاندان ميں پيدا هونا اس كي فضيلت كا معيارنهيں هے يه تو محض تعارف اور جان
پهچان كے لئے هے۔
9. فضيلت كا معيار:
اللہ کے نزدیک انسانوں کی عزت کا معیار ان کی قوم، نسل یا رنگ
نہیں، بلکہ ان کا تقویٰ اور نیک اعمال ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ
اس بات کو واضح کیا کہ اسلام میں انسان کی عظمت اس کی نیکی اور پرہیزگاری میں ہے،
نہ کہ اس کے حسب و نسب میں۔
خلاصه كلام:
یہ آداب نہ صرف دنیاوی کامیابی کا ذریعہ ہیں بلکہ آخرت کی فلاح
کا بھی ضامن ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آداب کی پیروی سے ہم
ایک بہتر مسلمان اور ایک بہترین انسان بن سکتے ہیں۔