آداب نبوی ﷺ ، سورۃ الحجرات کی روشنی میں

0

 آدابِ نبوی ﷺ ،سورۃ الحجرات کی روشنی میں

سورۃ الحجرات قرآن مجید کی 49ویں سورۃ ہے اس کا زمانہ نزول فتح مکہ کے بعد کا ہے۔ اس سورہ کو معاشرتی اور اخلاقی آداب کی سورۃ کہا جاتا ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے آداب نبوی کے ساتھ اسلامی معاشرتی زندگی کے اصول اور اخلاقی اقدار کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور ان کی عظمت و حرمت کے آداب کے بیان کے ساتھ بعض معاشرتی خرابیوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے جن سے بچنا ہر مسلمان کے لئے نہایت ضروری ہے۔ سورۃ الحجرات کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے اور ان کی ذاتِ مبارکہ کے حوالے سے کن آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

اس مضمون میں سورۃ الحجرات کی روشنی میں آدابِ نبوی ﷺ کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔

1. اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی اور تعظیم:

سورۃ الحجرات کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يا ايها الذين امنوا لا تقدموا بين يدي الله و رسوله و اتقوا الله إن الله سميع عليم.

   اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔" (49:1)

یہ آیت مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ  کے احکامات کے آگے اپنی رائے یا خواہشات کو مقدم نہ رکھیں۔ کسی بھی معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ہدایات کو ہمیشہ اولین حیثیت دی جانی چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کبھی اپنی رائے کو نبی کریم کی رائے پر فوقیت نہیں دی۔ اس کے ساتھ ہی یہ آیت ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کی مکمل اطاعت کریں اور ان کے مقابلے میں اپنی مرضی اور خواہشات کو روک لیں۔

یہ ادب کا ایک لازمی جزو ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بنیاد بنائے اور ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے۔

 

 2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلند آواز میں بات کرنے سے پرہیز:

سورۃ الحجرات کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يا ايها الذين امنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض ان تحبط اعمالكم وانتم لا تشعرون.

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز میں بات کرو، جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔" (49:2)

اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں انتہائی ادب اور عاجزی سے بات کرتے تھے اور کبھی اپنی آواز کو آپ کی آواز سے بلند نہ ہونے دیتے تھے۔ اس آیت کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی عظمت کو بیان کرنا اور ان کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دینا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ادب یہ ہے کہ آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے ایسے الفاظ اختیار کئے جائیں جن میں ادب کے پہلو زیادہ ہو، عام  آدمی کی طرح اپ سے مخاطب نہ کیا جائے جیسے لوگ نام لے کر پکارتے ہیں بلکہ آپ ﷺ  سے مخاطب ہوتے ہوئے یا رسول اللہ، یا نبی اللہ  غیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے جانے چاہیے یا ابا القاسم یا محمد وغیرہ الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے اس لیے کہ وہ ایک عام آدمی سے مخاطب نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو رہا ہوتا ہے ایک عام آدمی سے گفتگو کرنے اور آپ سے مخاطب ہونے میں واضح فرق ہونا چاہیے۔

3.  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب ملحوظ نہ رکھنے کی سزا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلند آواز میں بات کرنا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عام آدمی کی طرح مخاطب کرنا جس میں ادب کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے نہ صرف بے ادبی ہے بلکہ اس کا نتیجہ انسان کے اعمال کے ضائع ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں واضح کیا گیا ہے۔

اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی اواز میں بات کرنے سے گریزاں رہتے تھے کہیں ان کا اعمال برباد نہ ہو جائیں مثلا حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تو اپنے گھر میں ہی بیٹھ گئے تھے اس لیے کہ ان کی آواز قدرتی طور پر اونچی تھی وہ اس خوف سے کہ کہیں اس کا اعمال برباد نہ ہو آپ کے سامنے آنے سے گریزاں تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کی آواز فطری طور پر اونچی ہو وہ اس گناہ میں شامل ہوں گے بلکہ اس سے مراد یہ ہے جو لوگ بے ادبی کرتے ہوئے آپ کے سامنے اونچی آواز ميں بات کرتے ہیں ان کے لیے یہ وعید ہے۔ ان تعلیمات کے پیشِ نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے سامنے اس طرح بیٹھتے تھے کہ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور دھیمی آواز سے گفتگو کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔

حکم الٰہی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے اور آپ کے سامنے اونچی اواز میں بات کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے آداب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنے  پر اللہ تعالی خوش ہوا اور ان کے لیے اجر عظیم کی بشارت دیتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی:

ان الذين يغضون اصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى لهم مغفرة واجر عظيم.

بے شک وہ لوگ  جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں وہی ہیں کہ جن کے دلوں کو اللّٰہ نے پرہیز گاری کے لئے امتحان لیا ہے ، ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر هے۔

4. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل نہ ڈالا جائے:

سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 4 اور 5 میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ان الذين ينادونك من وراء الحجرات اكثرهم لا يعقلون . ولو انهم صبروا حتى تخرج اليهم لكان خيرا لهم والله غفور رحيم.

بے شک جو لوگ آپ کو حجرات کے پیچھے سے آوازیں دیتے ہیں ان میں سے اکثر کم عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ اپ خود ان کی طرف نکلتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

درج بالا آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حجرات (ازواج مطهرات كے كمروں) کے پیچھے سے آوازیں دینا شروع کر دی اور کہا "يا محمد اخرج الينا" یعنی اے محمد ہماری طرف آؤ نکلو گھر سے تب اللہ تعالی نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائی۔ ان كو تنبيه كي گئي كه اس طرح بے كرنے سے باز رهے اور آپ كے آرام ميں خلل نه ڈالے۔

عرب کے جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت میں رہ چکے تھے وہ تو اسلامی ادب و آداب سے بخوبی واقف تھے اس لیے وہ آپ کے ان اوقات کا بہت زیادہ خیال کرتے تھے جس میں آپ آرام فرماتے تھے یا گھریلو معاملات میں متوجہ ہوتے تھے ،ان لوگوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لیے اس وقت آتے جب آپ اپنے حجرے سے باہر تشریف رکھتے ہوں اور آپ کسی وجہ سے وہاں موجود نہ ہوتے تو وہ لوگ آپ کی باہر آمد کا انتظار کرتے مگر ایسے لوگ جن کو آپ کی صحبت حاصل نہ تھی وہ غیر مہذب لوگ ہوتے تھے ان کو آداب نبوی کا کوئی پاس نہ ہوتا وہ لوگ  آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں کے باہر سے انتہائی زوردار آواز میں آپ کو پکارتے اور آپ کو باہر آنے کے لیے کہتے، ایسے لوگوں کو اللہ نے کم عقل کہہ کر مخاطب کیا اور آئندہ ایسا کرنے سے روکتے ہوئے اللہ تعالی نے ان کو منع کر دیا کہ صبر کرنا زیادہ بہتر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر آنے کا انتظار کریں، آپ کو خوامخواہ ڈسٹرب نہ کرے۔ لوگوں کی اس غیر شائستہ حرکت سے آپ کو تکلیف ضرور ہوتی تھی لیکن آپ ﷺ کبھی اس کا اظہار نہ فرماتے مگر اللہ تعالی کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ آپ ﷺ  کو اس غیر شائستہ حرکت کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑے اسی لیے حکم نازل فرمایا کہ اگر ملنے آئیں تو وہ اگر آپ کو موجود نہ پائے تو چیخ و پکار کر کے آپ کو باہر بلانے کے بجائے اس وقت تک کا انتظار کریں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود باہر تشریف نہ لے ائے اور اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)