فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

0

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی             

            علامہ اقبالؒ ایک فلسفی شاعر تھے جن کا دل مسلمانوں کے لئے دھڑکتاتھا ۔ یہی وجہ ہے جب انہوں نے مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھاکہ انتشار و افتراق نے کس طرح ان کو عزت و شوکت کی بلندیوں سے قعر مذلت میں گرا دیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلمانوں کوپھر سے بیدار کرنے اور ذلت و رسوائی كي اس گهري كھائي سے نکالنے کی کوشش کی، ان كے خيال ميں مسلمانوں كي شوكت اتحاد و اتفاق ميں مضمر تھي چنانچه انهوں نے مسلمانوں كو اپني عظمت رفته كو باز يافت كرنے كے لئے ملت کے ساتھ جڑے رہنے پر بڑا زور دیا ۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

            علامہ مرحوم نے اس شعر میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اقوام و ملل افراد و اشخاص کے مجموعے کا نام ہے۔ جب کئی ہم خیال و ہم ضرورت افراد ملتے ہیں تو ملت وجود میں آتی ہے۔ کوئی فرد ملت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قوم و ملت ہی افراد و اشخاص ملت کے وجود کی ضمانت ہے۔ اگر افراد کے اندر اتحاد و یکجہتی نہ ہو تو ملت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

اقبالؒ کا یہ پیغام ہمیں باہمی اتفاق و اتحاد اور قومی و ملی یکجہتی کی دعوت دیتاہے۔ جب تک ملت کے افراد متحد رہیں ملت کا اقبال بلند رہتاہے اور جب افرادِ ملت نفاق و افتراق کا شکار ہو جاتا ہے تو ملت کا شیرازہ بھی بکھر جاتا ہے اور دیکھے اور ان دیکھے دشمن ہر طرف سے اس پر یلغار کرتے ہیں اس لئے کہ باہمی چپقلش اور نفاق و افتراق کی وجہ سے مل کر ملت کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور ایسے میں دشمن کے لئے نوالہ تر ثابت ہوجاتے ہیں۔

            تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان انتشار و افتراق کا شکار ہوگئے ’ طوائف الملوکی نے جنم لیا اور مال و زر کی ہوس نے اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو قابل ترجیح گردانا تب مسلمانوں کی ملت پارہ پارہ ہو گئی ’ ان کی شان و شوکت جاتی رہی اور ثریا کی بلندیوں سے قعر مذلت میں گرتے چلے گئے اور اب تک گرتے جارہے ہیں۔

آبرو تیری ملت کی جمعیت سے تھی

جب جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا

علامہ اقبال ؒنے مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے وقت کی نزاکت کو محسوس کیا تو انہوں نے اپنے اشعار اور نظموں کے ذریعہ ان کو بیدار کرنے اور ان کے اندر اتحاق و اتفاق اور جذبہ ایثار و یکجہتی پیدا کرنے اور ملت کی دوبارہ شیرازہ بندی کی کوشش کی۔ اور مسلمانوں کو باور کرایاکہ فرد تنہا کچھ نہیں ہے جب تک ملت کے ساتھ اس کا ربط نہ ہو افراد کا وجود ملت کے وجود سے وابستہ ہے۔ قوم و ملت کا وجود حقیقی ہے جبکہ افراد و اشخاص کا وجود مجازی ہے۔ لہٰذا افراد کو ملت کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اس پر قربان ہونے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ اگر افراد ملت کے لئے قربانی نہیں دیں گے تو ملت کے ساتھ افراد کا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔

وجود افراد کا مجازی ہے ہستی قوم ہے حقیقی

فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم ہو جا

            اسلام نے ملت کا جو نظریہ دیا ہے وہ آفاقی ہے۔ یہ نظریہ رنگ’ نسل’ زبان اور علاقائیت سے ماوراء ہے۔ اسلام کے اصول معاشرت کے مطابق ایک قابل قدر معاشرہ اسی وقت وجود میں آ سکتاہے جب اسے رنگ’ نسل’ زبان اور علاقائیت سے ہٹ کر ایسے جامع اصول و ضوابط کے مطابق تشکیل دیا جائے جس کواپنانے سے لوگوں کے درمیان باہمی محبت’ اتحاد و اتفاق’ یکجہتی و یگانگت اور ایثارو قربانی کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ اقبال ؒاسلام کے نظریہ ملت کا پرجوش حامی و مبلغ تھا ۔ اسی لئے وہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

دامن دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں

اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

            اقبالؒ نے اپنے پیغام میں مسلمانوں کو تمام قسم کی تعصبات خواہ نسلی ہو یا لسانی’ علاقائی ہو یا الوانی ’ مذہبی ہو یا خاندانی سب کو ختم کر کے یکجان و یک رنگ ہونے کی تاکید کی ہے اور یہی اسلام کا حکم بھی ہے اور فطرت کا مقصود بھی۔

یہی مقصود فطرت ہے ہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری                      محبت کی           فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

 

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)