علم اسباب نزول
قرآن کے فہم
و ادراک کے لئے جو علوم وضع کئے گئے ہیں ان میں سے ایک اہم علم ’ علم اسباب نزول
ہے۔
علم اسباب نزول كي تعریف:
اسباب نزول
سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ فلاں آیت کب اور کس واقعہ
کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ بقول امام سیوطی جعبری نے کہا ہے کہ قرآنی آیات کی دو قسمیں
ہیں۔
۱۔ وہ آیات جو ابتداء کسی واقعہ کے
رونما ہوئے بغیر نازل ہوئیں۔
۲۔ وہ آیات جو کسی واقعہ یاسوال کے
بعد نازل ہوئیں۔(الاتقان فی علوم القرآن ص:۶۹/۱)
لہٰذا حدوث
واقعہ کے بعد نازل ہونے والی آیات کا مفہوم اسی وقت / صورت میں سمجھا جا سکتا ہے
کہ پہلے اس واقعہ کا علم ہو۔
علم اسباب نزل کی غرض و غایت:
امام شاطبی
نے اس علم کی غرض و غایت یوں بیان کی ہے۔
‘‘سب نزول کے
معلوم ہو جانے کے قرآن فہمی میں ہر اشکال کا ازالہ ہو جاتا ہے اس لئے قرآن کے معانی
و مطالب سمجھنے کے لئے یہ علم بہت ضروری ہے۔ سبب نزول جاننے کا مطلب اس موقع و
مقام کے معلوم کرنا ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ سبب نزول کے نہ جاننے سے آدمی کو فہم
قرآن میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے اورایک ظاہر نص بھی مبہم و مجمل ہو کر رہ جاتی
ہے۔جس کا نتبجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے معنی و مفہوم میں نزاع و اختلاف پیدا ہو جاتا
ہے۔’’ (الموافقات للشاطبی ص: ۲۴۷/۳)
علم اسباب نزل کی اہمیت و ضرورت:
علم تفسیر میں
علم سبب نزول بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اس لئے ہر مفسرکے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علم
میں بھی مہارت حاصل کرے۔ واحدی کا کہنا ہے کہ کسی آیت کا سبب نزول معلوم کئے بغیر
اس کی تفسیر ممکن نہیں ہے۔ ابن دقیق العید کے نزدیک سبب نزول کا علم قرآن کے معانی
سے آگاہ ہونے کازبردست ذریعہ ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سبب نزول
کسی آیت کے فہم و ادراک میں بڑی حد تک مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ سبب نزول کا
علم حاصل ہونے سے مسبب کا پتہ چل جاتا ہے۔ بعض علماء سلف اسباب نزول کی عدم معرفت
کی وجہ سے بعض آیات کے معانی سمجھ نہ سکے جس کی وجہ سے وہ اشکال میں پڑ گئے اور جب
انہیں ان آیات کا سبب نزول معلوم ہوا تو اشکال جاتا رہا۔(السیوطی ’ لباب النقول فی
اسباب النزول ص:۳) مثلا
امام سیوطی لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون اور عمرو بن معدیکرب کی نسبت یہ بیان
کیا گیا ہے کہ یہ دونوں ابتدا میں شراب کو مباح کہا کرتے تھے اور دلیل یہ آیت کریمہ
پیش کرتے تھے
﴿لَیْسَ
عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوا ﴾(المائدۃ:۹۳)
ترجمہ: ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں نے جو کچھ کھالیا اس
میں کچھ مضائقہ نہیں۔
ان بزرگوں سے
اس قسم کے خیال کا انتساب واقعی کھٹکتا ہے لیکن جونہی انہیں اس آیت کا سبب نزول
معلوم ہوا انہوں نے اپنے خیالات سے رجوع کیا ۔ اس آیت کا سبب نزول یہ تھا کہ جب
شراب کو نجس قرار دے کر حرام کیا گیا تو لوگوں نے کہا کہ ان لوگوں کا کیا بنے گا
جنہوں نے اس کی حرمت سے پہلے کھا / پی لیا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ آیت
نازل فرمائی کہ حرمت سے پہلے کھانے پینے والوں کے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (دیکھئے
الزرکشی ’ البرہان فی علوم القرآن ص:۲۸/۱ ’ و
الاتقان للسیوطی ص:۲۹/۱)
معرفت سبب نزول کے فوائد:
علم اسباب
نزول کی معرفت کے فوائد درج ذیل ہیں۔
۱۔
کسی حکم کے مشروع ہونے کی حکمت کا بیان اور حوادث کے وقت مصالح عامہ کی رعایت کا
ادراک۔
۲۔
نازل شدہ حکم کا جس کے سبب سے نازل ہوا اس کے لئے خاص ہونا اگر صیغہ / لفظ عام ہو
۔ یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خصوصیت سبب کا اعتبار کیا جاتا ہے
عمومیت لفظ کا نہیں۔
۳۔
کبھـی لفظ تو عام ہوتا ہے مگر دلیل
(عقلی یا نقلی) اس کی تخصیص پر قائم ہو جاتی ہے تو سبب نزول کی معرفت سے اس کی
وضاحت ہوجاتی ہے۔ مثلا قرآن کریم
آیت
﴿
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہِ ……﴾ (البقرۃ:۱۱۵)
یعنی تم جس
طرف رخ کرو اس طرف اللہ کی ذات ہے۔
اگر ہم اس
لفظ کے مدلول کو چھوڑ دیں تو اس کا مقتضی یہ ہو گا کہ نماز پڑھنے والے پر سفر و
حضر کسی حالت میں بھی قبلہ کی طرح رخ کرنا واجب نہیں ہے اور یہ بات خلاف اجماع ہے۔
پھر جب اس کا سبب نزول معلوم ہوا تو یہ واضح ہوا کہ یہ حکم باختلاف روایات سفر کی
نفل نمازوں کے بارے میں ہے یا اس شخص کے بارے میں سمت قبلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ
سے اپنی رائے سے کام لے کر نماز پڑھ لی اور بعد میں اسے اپنی غلطی کا انکشاف ہوا۔
اسی طرح آیت ﴿
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ
اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَن یَّطَّوَّفَ بِہِمَا﴾(البقرۃ:۱۵۸)
بے شک صفا
اور مروۃ اللہ کے شعائر میں سے ہے پس جو حج یا عمرہ کرے اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ
ان دونوں کا چکر(سعی) لگائے۔
اس آیت کریمہ
کے ظاہر سے سعی یعنی صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے فرض ہونا مفہوم نہیں ہوتا حالانکہ
سعی حج اور عمرہ کے ارکان میں سے ایک ہے اور فرض ہے۔چنانچہ بعض علماء کو اس کے
بارے میں اشکال ہوا اور وہ اس کی عدم فرضیت کے قائل ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا نے اس کی تردید کرتے ہوئے اس کا سبب نزول بیان فرمایا کہ صحابہ کرام نے صفا و
مروہ کے درمیان دوڑنے کو زمانہ جاہلیت کا فعل سمجھ کر یہ تصور کر لیا کہ ہم اس کے
مرتکب ہوئے تو گنہگار ہوں گے۔کیونکہ زمانہ جاہلیت میں صفا ومروہ پر نصف بتوں اساف
اور نائلہ کی زیارت کے لئے وہاں جاتے تھے اور وہاں جا کر ان کو چھوتے تھے اس پر یہ
آیت نازل ہوئی کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا گناہ نہیں ہے۔
۴۔
سبب نزول کی معرفت سے آیات کے معانی واضح ہوجاتے ہیں ’ سمجھنے میں الجھن نہیں ہوتی
اور اشکال باقی نہیں رہتا۔ مثلامروان بن حکم کو آیت کریمہ
﴿لاَ
تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُونَ بِمَا اَتَوا وَ یُحِبُّونَ اَنْ یُحْمَدُوا
بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ
لَہْمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(آل عمران:۱۸۸)
(ترجمہ: وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں
اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں ’ آپ انہیں
عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لئے تو درد ناک عذاب ہے۔)
کے معنی
سمجھنے میں دقت پیش آئی او انہوں نے سوچا کہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اگر کوئی
شخص اس چیز پر خوش ہو جو اس کو عطا ہوئی اور اس نے یہ پسند کیا کہ جو کا م سزا کے
قابل اس نے نہیں کیا اس پر بھی اس کی تعریف ہو تو ایسے تمام لوگوں کو ہم عذاب دیں
گے۔چنانچہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے رافع ابن عباس کے پاس جا کے پوچھو کہ اگر
ہم میں سے ہر ایک اپنے کئے پر خوش ہو جائے اور اپنے نا کردہ کارناموں پر اس کی تعریف
کی جائے تو ہم سب کو عذاب ہوگا؟ ابن عباس نے کہا کہ یہ تمہارے بارے میں نہیں یہ تو
اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے پھر یہ آیت کریمہ تلاوت کی جو اس آیت سے پہلے
ہے اور یہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ مضمون پہلے سے چل رہا ہے۔
﴿وَ
اِذْ اَخَذَ اللَّہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتَابَ ....﴾
(آل عمران:۱۸۷)
اور جب اللہ
تعالی نے اہل کتاب سے پختہ عہد لیا ............
پھر ابن عباس
نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے کچھ پوچھا تو انہوں نے اصل
مسئلہ چھپا لیا اور غلط بات بتائی پھر جب وہ باہر نکلے تو انہوں نے یہ باور کرایا
کہ آپ نے جو کچھ پوچھا وہ بتا دیا اور اپنے کئے پر وہ خوش ہو گئے کہ انہوں نے آپ
نے جو پوچھا وہ چھپا لیا اور غلط بات بتا دی۔(بخاری و مسلم)
۵۔
سبب نزول کے علم سے حصر کا توہم دور ہو جاتا ہے۔مثلا آیت
﴿قُلْ
لاَ اَجِدُ فِیْمَا اُوحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہُ اِلاَّ
اَنْ یَّکُونَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَسْفُوحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ اَوْ
فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللَّہِ بِہِ﴾(الانعام:۱۴۵)
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے
ان مین تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے ’ مگر یہ
کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو’ کیونکہ وہ بالکل ناپاک
ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو۔
اس آیت سے یہ
وہم ہوتا ہے کہ اس آیت میں مذکورہ چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہیں
حالانکہ ایسا نہیں ہے۔امام شافعی اس بارے میں کہتے کہ جس وقت کفار نے اللہ تعالی کی
حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دیا تو یہ آیت
نازل ہوئی ۔کیونکہ کفار محض ضد کی وجہ سے ایسا کرتے تھے ۔ اس آیت سے مقصد ان کی
منافقت کو بیان کرنا ہے اور ان کی ضد کے مقابلے میں ضد کا اظہار ہے حقیقت میں نفی
و اثبات مطلوب نہیں ہے۔یہ مقصود یہ ہے کہ جن چیزوں کو یعنی مردار’ خون’ سور کے
گوشت ’ اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور جنہیں تم نے حلال قرار دیا ہے یہی
تو حرام ہیں۔ اس موقع پر ان چیزوں کے علاوہ دوسری چیزوں کا حلال ہونا مراد نہیں ہے
اس لئے کہ یہاں صرف حرمت ثابت کرنا ہے حلت سے بحث نہیں ہے۔(الاتقان فی علوم القرآن
ص:۷۱/۱)
تفسیر احسن
البیان میں اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ ‘‘ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر کے
ساتھ کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام
جانور حلال ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں
حرام ہیں۔ پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ہے؟ بات در اصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے
جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آ رہا ہے ۔ ان ہی میں بعض جانور کا بھی
ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے ’ اس سیاق اور ضمن میں یہ
کہا جا رہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو اس سے مقصود مشرکین کے حرام
کردہ جانوروں کی حلت ہے یعنی وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا
ہے ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر حرام ہوتے تو اللہ تعالی ان کا بھی ذکر
ضرور کرتا۔’’(تفسیر احسن البیان ذیل آیت متعلقہ)
۶۔
سبب نزول کے ذریعے ہی اس شخص کا نا م معلوم ہوتا ہے جس کے بارے میں کوئی آیت نازل
ہوئی ہو۔ آیت کے مبہم حصے کے بھی اس کے ذریعہ تعیین ہو سکتی ہے۔ مثلا مروان بن حکم
نے آیت کریمہ
﴿
وَالَّذِی قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لَّکُمَا ... ﴾
(الاحقاف:۱۷) یعنی اور
جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ میں تم سے تنگ آ گیا ہوں...
کے بارے میں کہا کہ یہ عبد الرحمن بن ابی بکر کے بارے میں نازل
ہوئی ہے۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تردید فرمائی اور اس کا شان نزول بیان
فرمایا کہ یہ ہمارے اور ہمارے خاندان میں سے کسی کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ۔
نص قرآن میں کسی کا اعتبار کیا جائے’ عموم لفظ کا خاص سبب کا؟
علماء کا
اختلاف ہے کہ نص میں کسی امر کا اعتبار کیا جائے ۔ لفظ کے عموم کا یا سبب کے خاص
ہونے کا؟ امام سیوطی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک پہلی بات یعنی عموم لفظ کا اعتبار
کرنا زیادہ صحیح ہے۔مثلا آیت ظہار خولہ بنت مالک بن ثعلبہ کے شوہر اوس بن صامت کے
بارے میں نازل ہوئی ’ اسی طرح حد قذف کا شان نزول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر
تہمت لگانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی مگر بعد میں یہ احکام اوروں کی طرف بھی
متعدی ہوگئے۔ یہ ان الفاظ کے بارے میں ہے جن میں کسی طرح کا عموم پایا جاتا ہے
البتہ وہ آیت جس کا نزول کسی خاص شخص کے بارے میں ہو اور اس لفظ میں کوئی عموم نہیں
ہے تو اس کا انحصار صرف اسی شخص کے حق میں ہوگا جیسے آیت کریمہ
﴿وَ
سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی. الَّذِی یُؤْتِی مَالَہُ یَتَزَکَّی. وَ مَا لِاَحَدٍ
عِنْدَہُ مِنْ نِعْمَۃٍ تُجْزَی. اِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْہِ رِبِّہِ الْاَعْلَی. وَ
لَسَوْفَ یَرْضَی……﴾(سورۃ اللیل:۱۷۔۲۱)
اور اس (جہنم
کی آگ) سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیز گار ہوگا’ جو پاکی حاصل کرنے کے
لئے اپنا مال دیتا ہے’ کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہاہو’
بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و برتر کی رضا چاہنے کے لئے’ یقینا وہ (اللہ بھی)
رضامند ہو جائے گا۔
اس آیت کی
بابت سب کا اجماع ہے کہ یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی
ہے۔(الاتقان :۷۳)
واحدی کہتے ہیں
کہ اس آیت میں ‘‘الاتقی’’ سے مراد حضرت ابو بکر صدیق ہے اور اس پر تمام مفسرین کا
اجماع ہے۔ابن ابی حاتم میں یہ روایت مذکور ہے۔
عن
عروۃ ان ابا بکر الصدیق اعتق سبعۃ کلہم یعذب فی اللہ : بلال و عامر بن فہیرۃ و
النہدیۃ و ابنتہا و ام عیسی و امۃ بنی المؤمل و فیہ نزلت و سیجنبہا الاتقی الی اخر
السورۃ.(ابن ابی حاتم فی صححیہ)
عروہ بیان
کرتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سات لوگوں کو خرید کر آزاد کردیا جن کو
اللہ کے لئے عذاب دیا جا رہا تھا حضرت بلال’ حضرت عامر بن فہیرہ’ نہدیہ’ اور اس کی
بیٹی ’ ام عیسی اور بنی مؤمل کی لونڈی ’ چنانچہ اسی کے بارے میں آیت و سیجنبہا
الاتقی سے لیکر آخر سورۃ تک نازل ہوئی۔(دیکھئے مناع القطان ’ مباحث فی علوم القرآن
ص:۸۳)
اگر نزول کا
سبب خاص ہو مگر صیغہ عموم کے ساتھ ہو تو کس کا اعتبار ہوگا اس صورت میں جمہور کے
نزدیک عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے خصوص سبب کا نہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔
جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ خصوص سبب کا اعتبار ہوگا عمومیت لفظ کا نہیں۔اس صورت میں یہ
حکم اس شخص کے ساتھ خاص ہوگا جب تک کہ کوئی اور دلیل اس کی عمومیت کے لئے وارد نہ
ہو جائے۔
سبب نزول کے متعلق کن کا قول معتبر ہے؟
واحدی کا
کہنا ہے کہ قرآن کے اسباب نزول کی بابت بجز ان لوگوں کی روایت اور سماعی بیان کے
جنہوں نے قرآن کے نزول کو بچشم خود دیکھا اور اسباب نزول میں درک پیدا کیا اوراس
علم کی تحقیق کی ہے کہ دوسری بات کہنا ہرگز روا نہیں ۔
امام ابن تیمیہ
رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا یہ قول کہ اس آیت کا نزول فلاں امر میں ہوا
ہے ۔ کبھی یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کے نزول کا فلاں سبب تھا اور کبھی اس سے مراد یہ
ہوتی ہے کہ اگرچہ یہ سبب نزول نہیں ہے لیکن ایسا مفہوم آیت میں داخل ہے۔اوراس کی
مثال یہ ہے کہ جس طرح کہا جائے کہ اس آیت سے یہ مراد لی گئی ہے۔
زرکشی کہتے ہیں
کہ صحابہ و تابعین کی عادت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ‘‘نزلت ہذہ
الأیۃ فی کذا’’ یعنی یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ’ تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے
کہ وہ آیت فلاں حکم کو شامل ہے’ نہ یہ کہ اس کی بتائی ہوئی وجہ آیت کا سبب نزول
ہے۔