قصص القرآن

0

 

قصص القرآن

لفظی اور اصطلاحی تعریف:

            لفظی معنی : قصص ’ قصہ کی جمع ہے اور یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ قصص کے لفظی معنی ہیں قدموں کے نشانات پر چلنا۔

             اصطلاح میں اس سے مرادانبیاء سابقین اور پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے وہ واقعات اور حکایات ہیں جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔یہ ایک نہایت اہم مضمون ہے جو قرآن میں بعض تفصیل اور بعض اجمال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اقسام قصص القرآن:

            قرآن کریم میں تین طرح کے قصے اور واقعات بیان ہوئے ہیں۔

۱۔ انبیاء کرام کے قصے اور واقعات

            انبیاء کرام کے واقعات کے سلسلے میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان کا تعلق دعوت الی اللہ کے میدان میں ان کی مساعی ’ ان کو درپیش مسائل و مشکلات’ ان کے معجزات ’ ان کے مخالفین اور معاندین کے موقف انبیاء کے خلاف ان کی سازشیں’ دعوت دین کے مراحل’ اور مؤمنین و مکذبین کے عواقب و انجام وغیرہ بیان ہوئے ہیں۔ مثلا قصہ آدم ؑو نوحؑ’ قصہ ابراہیم ؑ ’ قصہ موسی ؑو ہارون ؑ ’ قصہ عیسی بن مریم ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قصہ وغیرہ۔

۲۔ گزشتہ زمانے کے غیر انبیاء کے قصے اور حکایات

            قرآن میں ان لوگوں کے واقعات اور حکایات بھی بیان ہوئے ہیں جن کی نبوت ثابت نہیں ہے۔ گزشتہ اقوام یا اشخاص میں نیک و بد سب شامل ہیں جن کے قصے بیان کرنا اللہ تعالی نے مناسب سمجھا ان سب کے واقعات کہیں تفصیل سے اور کہیں اجمالا بیان کیا ہے۔مثلا طالوت اور جالوت کا قصہ’ اصحاب کہف کا واقعہ’ ذو القرنین کا واقعہ’ فرعون اور قارون کا واقعہ’ اصحاب سبت اور واقعہ ذبح بقر کے حالات’ حضرت مریم کا واقعہ’ اصحاب الاخدود اور اصحاب الفیل کا واقعہ وغیرہ

۳۔ عہد رسالت محمدی میں پیش آنے والے واقعات

            قرآن کریم میں ایسے واقعات اور قصوں کا بیان بھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں وقوع پذیر ہوئے۔مثلا واقعہ اسراء ’ واقعہ ہجرت ’ غزوہ بدر’ غزوہ احد غزوہ احزاب ’ غزوہ خیبر’ غزوہ حنین’ غزوہ تبوک وغیرہ۔

قصص القرآن کے مقاصد و فوائد

            قصص القرآن کے درج ذیل مقاصد و فوائد ہیں

۱۔ دعوت الی اللہ کی بنیاد کی وضاحت:

 دعوت الی اللہ کی بنیاد کی وضاحت اور ان اصول و شرائع کا بیان جن کے ساتھ تمام انبیاء و رسل مبعوث کئے گئے۔مثلا ارشاد ربانی ہے:

            ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِك مِنْ رَّسُولٍ اِلاَّ نُوْحِی اِلَیْہِ اَنَّہُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدُونِ﴾(الانبیاء:۲۵)

            تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔

            اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء سابقین کی دعوت ایک ہی تھی یعنی سب نے اپنی اپنی امت کو اللہ تعالی کی طرف بلایا اور توحید کا درس دیا۔اور ان امتوں نے اپنے انبیاء کے ساتھ مخالفت توحید الوہیت کے سلسلے میں ہی کی تھی۔

۲۔ ان قصص کا ایک مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کی ہمت بڑھانا ہے۔حق کی نصرت اور باطل کی شکست کے واقعات سے مسلمانوں کو حوصلہ ملتا ہے اور ان کے دل مضبوط ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کی نصرت پر ان کے ایقان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہی مقصد اللہ تعالی نے قرآن میں بھی بیان فرمایا ہے:

            ﴿وَ کُلاَّ نَقُصُّ عَلَیْك مِنْ اَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَك وَ جَاءَ ك فِی هذِہِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَۃٌ وَّ ذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾(ہود:۱۲۰)

            رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کو مضبوط کرنے کے لئے بیان کر رہے ہیں ۔ آپ کے پاس اس سورۃ میں بھی حق پہنچ چکا ہے جو مؤمنوں کے لئے وعظ اور نصیحت ہے۔

۳۔  انبیاء سابقین کی تصدیق:

انبیاء سابقین کی تصدیق اور ان کے واقعات کو دوام بخشنا ہے تاکہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔ اس لئے کہ یہ واقعات اور سلسلے حق و باطل کے مجادلوں اور اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان کے معرکوں کے عبرت آموز مجموعے اور بصیرت افروز مرقع ہیں۔ان کے ذریعے ہی اولیاء اللہ کی صداقت اور اولیاء الشیطان کے مکرو فریب اور ان کے انجام کی خبر لوگوں تک پہنچتی ہے۔

۴۔  صداقت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اظہار:

صداقت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اظہار ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم جو کچھ لیکر آئے ہیں اور ماضی کے واقعات اور سابق امتوں کے حالات جو آپ بیان کر رہے ہیں وہ ساری درست ہیں ۔ ایک امی (ان پڑھ) شخص کاجس نے کبھی کسی مدرسہ/اسکول کا گیٹ بھی نہ دیکھا ہو اور نہ ہی کسی استاد کے پاس بیٹھ کر کوئی تعلیم حاصل کی ہو’ تاریخ کی صداقتیں بیان کرنا اس کی حقانیت کی دلیل اور معجزہ ہے۔

۵۔  حق كا اظهار  و اكتشاف:

اہل کتاب نے جو کچھ چھپایا اور کتمان حق کے مرتکب ہوئے ان کو دلائل و براہین کے ساتھ واضح کرنا اور بیان کرنا اور ان کی خرابیوں کو طشت از بام کرنا بھی ایک مقصد ہے۔

۶۔  بيان ادب:

قصص اور واقعات کا بیان ادب کی ایک قسم بھی ہے۔ اگر ان واقعات کو ادیبانہ طرز میں بیان کئے جائیں تو لوگ ان کو سنتے ہیں اور عبرت حاصل کرتے ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:

            ﴿لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهمْ عِبْرَۃٌ لِاُولِی الْاَلْبَابِ﴾(یوسف:۱۱۱)

            ان کے قصوں کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقینا نصحیت اور عبرت ہے۔

            یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان انبیاء کرام کے واقعات کے بیان کرنے میں اور اسی طرح ان کے مخالفین کے انجام کے بارے میں جو ہم واقعات اور قصے بیان کرتے ہیں ان میں یقینا اہل بصیرت اور ارباب عقل و شعور کے لئے عبرت کا سامان ہے۔لوگ ان سے ضرور نصیحت کرتے ہیں۔

تکرار قصص کی حکمت

            اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بعض واقعات اور قصے مختلف مقامات پر مکرر بیان کیا ہے اور بعض تو مختلف انداز میں کئی دفعہ دھرایا ہے۔ اور اس طرح ان قصوں کے تکرار میں بھی درج ذیل حکمت الٰہی پنہاں ہیں۔

۱۔ بلاغت قرآن کا اظہار:

            بلاغت کے خصائص میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ہی واقعہ یا قصے کو مختلف انداز میں بیان کر دیا جائے۔ اور اس میں ایسا طریقہ اور انداز اختیار کیا جائے کہ انسان اس سے اکتاہٹ محسوس نہ کرے’ بلکہ اس سے سامع کو مزید فوائد ’ ایقان اور معانی حاصل ہو۔

۲۔ قوت اعجاز کا اظہار:

            تکرار قصص کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایک ہی مطلب کو مختلف انداز میں بیان کیا جائے اور اس کو اس طرح بیان کرے کہ عرب کے مشہور فصحا و بلغاء بھی اس جیسے کلام پیش کرنے سے قاصر رہ جائیں۔ یہ قوت اعجاز کا اظہار ہے کہ سارے لوگو ں چیلنج دیا کہ اس جیسی ایک سورت بھی بنا کر پیش کر دو مگر سارے لوگ اس سے قاصر رہے۔

۳۔ قصے کی اہمیت کو اجاگر کرنا:

قصے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تاکہ ان واقعات سے عبرت حاصل ہو اور یہ عبرت لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں ہو۔مثلا حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ مختلف سورتوں میں مختلف مقامات پر بار بار دھرایا گیا ہے۔یہ حق و باطل کے درمیان ایک اہم معرکہ ہے اور اس میں سننے والوں کے لئے بہت سی عبرتیں ہیں۔

۴۔ مختلف اغراض کے تحت واقعات کو مختلف انداز میں بیان :

مختلف اغراض کے تحت واقعات کو مختلف انداز میں بیان کرنا ۔ بعض مقامات پر کسی مسئلہ کے متعلق بطور دلیل یہ واقعہ پیش کرنا’ بعض مقام پر معانی کے اظہار کے لئے اور بعض مقام پر بطور تذکیر و توبیخ ۔ الغرض تکرار قصص کا ایک مقصد مختلف مقاصد کے بیان کے لئے بھی ہے جیسا کہ امام بخاری ایک ہی حدیث کو فقہی استدلال میں کئی مقامات پر بیان کر دیتے ہیں۔

تعلیم و تربیت میں قصص القرآن کا کر دار

            قصے اور حکایات لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں خصوصا بچے بہت ہی اشتیاق اور لگن کے ساتھ سنتے ہیں اور ان ابتدائی ایام میں سنائے گئے حکایات سے بچے سبق بھی حاصل کرتے ہیں اور یہ قصے اورکہانیاں بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں یہی وجہ ہے کہ بچوں کو ابتدائی عمر جن پریوں کے قصے سنائے جائیں تو وہ آگے جاکر ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں اور جنوں سے ڈرتے بھی ہیں۔ اسی لئے ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں اوائل عمری میں سنائے گئے واقعات اور حکایات بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر اچھے لوگوں کے واقعات سنائے جائیں تو وہ نیک بننے کی کوشش کرتے ہیں اوراگر برے لوگوں کے واقعات سنائے جائیں تو ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے واقعات اور حکایات سے بچے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کو شروع سے قرآن میں بیان کئے گئے قصے اور واقعات سنائے جائیں اور قرآن میں بیان کئے گئے ان کے انجام سے آگاہ کئے جائیں تو یہ ان کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)