خلافت و امامت

0

 

خلافت و امامت

خلافت کے معنی و مفہوم:

خلافت کے لغوی معنی:

            خلف يخلف  خلفا و خلوفا، سے خلافت ہے اور خلف الشیء اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شے بدل جائے اور اس میں فساد پیدا ہو جائے۔ خلف (پیچھے) قدّام (آگے) کی ضد ہے۔ ایک صدی کا دوسری صدی کے بعد آنے کو بھی الخلف کہتے ہیں۔ اور الخلف (بسکون اللام) ردی اور بے کار چیز کے لئے بولا جاتا ہے’ مثلاً عربی کہاوت ہے: سكت الفا و نطق خلفا ۔ اور الخلف (بالتحريك) مااستخلفه من شيء ، یعنی جو کسی کے پیچھے آئے اور اس کا نائب بنے۔ کہتے ہیں خلف فلان اخرہ ای جعلہ خلفہ و جعلہ خلیفۃ، یعنی اس نے اس کو پیچھے کیا اور اس کو اپنا خلیفہ بنایا۔ جب کسی کے پیچھے آئے تو اس کے لئے خلفتہ کہتے ہیں۔ اور الخلیفی وہ ہے جوکسی کا خلیفہ بنے ۔ اور الخلیفۃ کے بارے میں کہتے ہیں: هو الذی یستخلف ممن قبلہ ’ یعنی وہ جو پہلے والے کا جانشین بنے۔ اس کی جمع خلائف اور خلفاء آتے ہیں۔(1)

مصباح اللغات میں ہے:

خلفه(ن) خلافۃ و خلیفی: جانشین ہونا۔ ربہ فی قومہ:جانشین بنانا۔ الرجل: قائم مقام ہونا (خلفا و خلفۃ) الفاکہۃ بعضہا بعضا : ایک دوسرے کے قائم مقام ہونا۔ خلّفہ: جانشین بنانا۔ الخلافۃ: امارت’ قائم مقامی’ امامت۔ الخلیفۃ: جانشین’ قائم مقام’ بڑا بادشاہ اس سے اوپر کوئی بادشاہ نہ ہو’ یہ مذکر ہے کہا جاتا ہے ہذا خلیفۃ آخر۔ اورکبھی لفظ کی رعایت سے مؤنث استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں خلیفۃ أخری۔ ج خلفاء و خلائف۔ پہلے کے لحاظ سے عدد مذکر لاتے ہیں اورکہتے ہیں ثلاثۃ خلفاء ، اور دوسرے کے لحاظ سے مذکر ومؤنت دونوں لانا جائز ہے ’ کہوگے ثلاثۃ او ثلاث خلائف۔(2)

خلافت کی اصطلاحی تعریف:

            علماء اسلام نے عموما ً خلافت کو حراست دین و سیاست دنیا قرار دیا ہے۔ بعض علماء کی تعریفا ت پیش خدمت ہے جس سے اندازہ ہو گا کہ خلاف کی اصطلاحی تعریف کیا ہے۔

٭ الماوردی کی تعریف: ماوردی خلاف کو امامت ہی قر ار دیتاہے اور اس کی تعریف یوں کرتا ہے:

            ‘‘الامامۃ موضوعۃ لخلافۃ النبویۃ فی حراسۃ الدین و سیاسۃ الدنیا’’۔(3)

            دین کی حفاظت اور دنیا وی معاملات کی تدبیر و انتظام میں نبوت کی جانشینی کے لئے امامت وضع کیا گیا ہے۔

٭ ابن خلدون کی تعریف:

            ‘‘و هی حمل الکافۃ علی مقتضی النظر الشرعی فی مصالحهم الاخرویۃ و الدنیویۃ الراجعۃ الیها،اذ احوال الدنیا کلها عند الشارع الی اعتبارہا بمصالح الأخرۃ فهی فی الحقیقۃ خلافۃ عن صاحب الشرع فی حراسۃ الدین و سیاسۃ الدنیا’’۔(4)

            دنیاوی اور اخروی مصالح کے مطابق عام لوگوں کو شرعی تقاضے کے مطابق چلانا اس لئے کہ ساری دنیا کے احوال شارع کے نزدیک مصالح اخروی کے اعتبار سے ہے اور حقیقت میں دین کی حفاظت اور دنیا کی سیاست میں صاحب شرع کی طرف سے نائب ہوتے ہیں۔

٭ قلقشندی کی تعریف:

            ‘‘و هی الزعامۃ الکبری و الولایۃ العامۃ علی کافۃ الامۃ و القیام بامورها و النهوض باعبائها’’۔(5)

            یہ سب سے بڑی ذمہ داری اورپوری امت پر عام حکمرانی ہے اور پوری امت کے معاملات کو سلجھانا اور اس کے حل کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہی خلافت ہے۔

٭ خلاف خلافت کی تعریف یوں کرتا ہے:

            ‘‘الامامۃ الکبریٰ و الخلافۃ و امارۃ المؤمنین الفاظ مترادفۃ علی معنی واحد رسمہ العلماء بانہ ریاسۃ عامۃ فی الدین و الدنیا قوامها النظر فی المصالح و تدبیر شوؤن الامۃ و حراسۃ الدین و سیاسۃ الدنیا’’۔(6)

            امت کبریٰ’ خلافت اورمؤمنین کی سربراہی سب ایک ہی معنی کے مترادف الفاظ ہیں۔ علماء نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ یہ دین و دنیا دونوں میں عام سربراہی ہے جس کا اصل مقصد مصالح کو دیکھنا’ امت کے معاملات کی دیکھ بھال اور تدبیر و انتظام کرنا اور دین کی حفاظت کرنا اور دنیاوی معاملات میں تدبیر کرنا ہے۔

امامت:

لغوی تعریف:

            امامت ’ اَمَّ یَؤُمُّ سے ہے۔ الام ۔بالفتح۔: القصد۔ ارادہ کرنا۔ امامۃ و اماما: القوم و بالقوم: امام بننا۔ ائتم بہ: اقتداء کرنا۔ استئام: امام بنانا۔ اسی سے نماز پڑھانے والے کو امام کہتے ہیں کیونکہ وہ سب کے آگے ہوتا ہے اور پیچھے والے اس کی اقتداء کرتے ہیں۔الامام : پیش امام جس کی اقتداء کی جائے’ پیشوا’ دوڑی جس سے معمار عمارت کی سیدھ قائم کرتے ہیں۔ نمونہ’ واضح راستہ’ سبق جتنا لڑکے ہر روز پڑھیں’ قرآن ’ خلیفہ’ امیر لشکر’ مصلح اور منتظم۔ الامامۃ: خلافت و پیشوائی۔(7)

اصطلاحی تعریف:

            بعض نے خلافت اور امامت میں تھوڑا فرق کیا ہے ورنہ عمومی طور پر علماء ان دونوں کو ایک ہی شمار کرتے ہیں۔ ماوردی نے خلافت اورامامت کی ایک ہی تعریف کی ہے جیسا کہ خلافت کی تعریف میں گزر چکی۔

            اسی طرح عبد الوہاب خلاف بھی خلافت اور امامت کو ایک ہی چیز قرار دیتا ہے’ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ‘‘الامامۃ الکبریٰ والخلافۃ و امارۃ المسلمین الفاظ مترادفۃ علی معنی واحد’’۔(8)

            امامت کبریٰ ’ خلافت اور مسلمانوں کی حکومت ایک معنی کے مترادف الفاظ ہیں۔

اسی طرح نواب صدیق حسن خان خلافت کی تعریف لکھنے کے بعد لکھتے ہیں:

            ‘‘و هذہ النیابۃ تمسی خلافۃ و امامۃ و یسمی القائم بها خلیفۃ و اماما’’۔(9)

            اور یہ نیابت خلافت و امامت کہلاتی ہے اور اس کو پورا کرنے والا خلیفہ اور امام کہلاتا ہے۔

نواب صاحب آگے لکھتے ہیں:

            ‘‘ثم ان الشیعۃ خصوا علیا باسم الامام نعتا لہ بالامامۃ التی هی اخت الخلافۃ’’۔(10)

درج بالا تعریفات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت و امامت دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔

خلافت و امامت میں فرق:

            درج بالا تعریف سے تو دونوں کے درمیان کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ بعض علماء نے ان کے درمیان فرق کیا ہے کہ امامت عام ہے اور خلافت خاص ہے۔ خلیفہ سے مراد خلیفہ رسول ہے۔ صاحب اکلیل لکھتے ہیں:

            ‘‘اما تسمیتہ اماما تشبیها بامام الصلاۃ فی اتباعہ و الاقتداء بہ و لهذا یقال الامامۃ الکبری و تسمیتہ خلیفۃ لکونہ یخلف النبی فی امتہ فیقال: خلیفۃ باطلاق و خلیفۃ رسول اللہ ﷺ’’۔(11)

            حاکم وقت کو اتباع و اقتداء میں امام نماز پر قیاس کرتے ہوئے امام کہتے ہیں اسی لئے خلافت کو امامت کبریٰ کہتے ہیں۔ اور چونکہ وہ امت میں نبی کی نیابت کرتا ہے اس لئے خلیفہ کہتے ہیں’ مطلقا خلیفہ کہا جاتا ہے اور خلیفہ رسول بھی۔

            اور حضرت سفینہ سے مروی اس روایت کے الفاظ سے بھی استدالال کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

            خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یوتی اللہ الملك أو ملکہ من یشاء.(12)

            خلافت نبوت تیس سال ہوں گے پھر اللہ تعالی جس کوچاہے گا بادشاہت اور حکومت عطا کرے گا۔

سنن ترمذی میں اس طرح بھی روایت آئی ہے:

            الخلافۃ فی امتی ثلاثون سنۃ ثم ملك بعد ذلك.(13)

            خلافت میرے بعد تیس سال تک ہوگی۔

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سن ۴۰ھ تک خلافت کا زمانہ ہے اس کے بعد امامت اور ملوکیت کا دور شروع ہوا ہے۔

حواله جات

(1) دیکھئے الرازی، مختار الصحاح ص۱۸۵۔۱۸۶، اابراہیم مصطفی و غیرہ ، المعجم الوسیط ص۲۵۱/۱

(2) دیکھئے بلیاوی عبد الحفیظ، مصباح اللغات ص ۲۱۶۔۲۱۷، اسلامی اکادمی لاہور

(3) الماوردی’ ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب البصری(۴۵۰ھ) ’ الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ ص۵، دار الکتب العلمیۃ بیروت

(4) ابن خلدون، عبد الرحمن بن خلدون، المقدمۃ ص۱۵۱، دار الفکر بیروت

(5) القلقشندی’ ابو العباس احمد بن علی (۸۲۱ھ) معالم الخلافۃ ۸/۱ وزارۃ الثقافۃ المصریۃ

(6) خلاف، السیاسۃ الشرعیۃ ص۵۴ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت

(7) الرازی’ مختار الصحاح ص۲۶، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ابراہیم مصطفی و غیرہ، المعجم الوسیط۲۷/۱ ، بلیاوی عبد الحفیظ، مصباح اللغات ص۳۹۔۴۰

(8) خلاف، السیاسۃ الشرعیۃ ص۵۴ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت

(9) نواب صدیق حسن خان، اکلیل الکرامۃ ص۱۸

(10) م۔ن ص۴۹

(11) المصدر السابق

(12) ابو داود، السنن۳۶/۵کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث رقم ۴۶۴۶، الحاکم، المستدرک علی الصحیحین۷۱/۳، ۱۴۵

(13) الترمذی’ السنن کتاب الفتن باب فی الخلافۃ حدیث رقم۲۱۵۲ ’ احمد بن حنبل ، المسند ۲۲۰/۵۔۲۲۱

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)