سیاست شرعیہ
ضرورت و اهميت
سیاست شرعیہ کا مفهوم:
لغوی تعریف:
لفظ سیاست ،
جسے عربي ميں "السياسة" لكھا
جاتا هے ،ساس يسوس ،کا مصدر ہے اور کئی معانی پر
اطلاق ہوتا ہے’ اور تمام اطلاقات میں اس کے معنی تدبر و انتظام کے ہیں۔ مثلا کہا
جاتا ہے
ساس
القوم: قوم کے امور کی تدبیر و انتظام کرنا۔
ساس
الامر سياسة: معاملات کی تدبیر کرنا’ انتظام کرنا اور اس کے
اصلاح میں اپنی کوشش صرف کرنا۔
ساس
الرعية: رعیت کا حاکم بننا اور ان کے امور میں تصرف کرنا’
ان کے اندر امر و نہی کرنا۔
ساس
فلان الدابة: کہ فلان نے چوپائے کی دیکھ بھال کی’ سدھایا۔(۱)
صحيح مسلم میں ہے:
ان
اسماء قالت: کنت اخدم الزبیر خدمۃ البیت و کان لہ فرس وکنت اسوسہ فلم یکن لی من
الخدمۃ شیء اشد علی من سیاسۃ الفرس، کنت احتش لہ و اقوم علیہ و اسوسہ.(۲)
اسماء بنت
ابی بکر کہتی ہیں کہ میں زبیر کے لئے گھر کے کام کاج کیا کرتی تھی اور اس کا ایک
گھوڑا تھا جس کی دیکھ بھال میں کرتی تھی اور میرے لئے گھوڑے کی دیکھ بھال سے زیادہ
مشکل کام کوئی نہ تھا’ میں اس کے لئے چارہ لاتی ’ اس کی ضروریات کا خیال رکھتی اور
اس کی دیکھ بھال کرتی۔
سنن الترمذی
میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے میں پیش پیش اور تہمت لگانے کی قیادت
کرنے والا رئیس المنافقین کے بارے میں ہے:
.... و المنافق عبد اللہ بن ابی بن سلول و هو
الذی کان یسوسہ و یجمعہ و هو الذی تولی کبرہ.(۳)
اور منافق
عبد اللہ بن ابی بن سلول وہی ہے جس نے اس کی تدبیر کی اس کو سوچا اور اس کے بڑے
حصے کو سر انجام دیا۔
حدیث میں
سیاست بمعنی قیادت و حکومت وارد ہوا ہے’ کہ بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء
علیہم السلام کیا کرتے تھے۔
کانت
بنو اسرائیل تسوسهم الانبیاء کلما هلك نبی خلفہ نبی و انہ لا نبی بعدی.(۴)
یعنی بنی
اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کرتے تھے اور ان کے معاملات کی دیکھ بھال اور
انتظام و انصرام وہ اسی طرح کرتے جس طرح امراء و ولاۃ الامور رعایا کے ساتھ کرتے
ہیں۔
شرح الشفاء میں ہے:
‘‘السیاسۃ
مصدر ساس الناس یسوسهم اذا دبر امورهم و تصرف فیها، قالت حرقۃ بنت النعمان:
فبینا نسوس الناس و الامر امرنا
ذا نحن فیهم سوقۃ ننتصف(۵)
یعنی سیاست
ساس الناس یسوسہم سے مصدر ہے’ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ لوگوں کے امور کی
تدبیر کرے اور ان کے امور میں تصرف کرے۔ چنانچہ حرقہ بنت نعمان کہتی ہیں جب ہم
لوگوں کی قیادت کرتے تھے اور ہمار ا حکم ہی چلتا تھا جب ہم ان کو چلاتے اور ان کی
قیادت کرتے تو ہم انصاف سے کام لیتے ۔
المقریزی (۶) کہتے
ہیں:
‘‘و
یقال ساس الامر سیاسۃ بمعنی قام بہ، و ہو سائس من قوم ساسۃ و سوس و سوّس القوم
جعلوہ یسوسهم ...’’(۷)
اور کہا جاتا ہے کہ ساس الامر سیاسۃ بمعنی اس نے اس امر کو
انجام دیا’ اس کا فاعل سائس آتا ہے کہ قوم کی قیادت کرنے والا’ اور سوس القوم کے
معنی ہیں کہ قوم نے اس کو اپنا قائد بنایا۔
اصطلاحی تعریف:
اصطلاح میں
سیاست کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
‘‘فهی
اسم للاحکام و التصرفات التی تدبر بها شوؤن الامۃ حکومتها و تشریعها و قضائها و فی
جمیع سلطاتها التنفیذیۃو الاداریۃ و فی علاقاتها الخارجیۃ التی تربطها بغیرها من
الامم’’.(۸)
گویا سیاست
ان احکام اور تصرفات کو کہتے ہیں جو حکومتی قانون سازی اور قضائی معاملات کی
تدبیرمیں’ تمام تنفیذی اور ادارتی اختیارات میں اور دوسرے اقوام کے ساتھ خارجی
معاملات میں تعلق اور رابطہ کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔
صاحب لغات الحدیث والے نے سیاست کی تعریف یوں کی ہے: السیاسۃ:
ملکی انتظام اچھی طرح کرنا۔(۹)
درج بالا
تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کا میدان بہت وسیع ہے’ مثلاً دستوری سیاست’
تشریعی (قانون سازی) سیاست ’ قضائی سیات’ مالی سیاست’ خارجی سیاست وغیرہ’ اور ان
میں بھی ہر ایک کے لئے الگ الگ احکام ہیں۔اور ان تمام امور میں امت کے معاملات کی
تنظیم و تدبیر کرنا سیاست کہلاتی ہے۔ اوربلا شبہ اسلام نے ان تمام امور میں اپنے
خاص قوانین اورنظام مرتب کیا ہے۔
عبدالحفیظ
بلیاوی لکھتے ہیں:
السیاسۃ: پالیٹکس (Politics) ملکی
تدبیر و انتظام ’ السیاسۃ المدنیۃ: شہری انتظام’ عدل و استقامت کے ساتھ اس طرح پر
انتظام کرنا کہ سب کی معاشی حالت اچھی ہو۔(۱۰)
شریعت سے مراد:
سیاست شرعیہ
دو الفاظ کا مرکب ہے’ پہلا لفظ ‘‘سیاست’’ جس کے معنی گزر چکا ’ دوسرا لفظ
‘‘شرعیہ’’ ہے ’ جو شریعت سے بنا ہے۔
لغوی معنی: اس کے لغوی معنی مقرر کرنا’ ظاہر کرنا ’ قانون بنانا
ہے۔کتاب التعریفا ت میں ہے:
الشرع:
فی اللغۃ عبارۃ عن البیان و الاظهار، یقال شرع اللہ کذا ای جعلہ طریقا و مذهبا، و
منہ المشرعۃ. و الشریعۃ: هی الائتمار بالتزام العبودیۃ، و قیل: الشریعۃ، هی الطریق
فی الدین.(۱۱)
شرع لغۃ بیان
و اظہار کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ شرع اللہ کذا یعنی اللہ نے اس کو طریق اور
مذہب بنایا’ اور اسی سے مشروعیت ہے۔ اور شریعت عبودیت کے التزام کے ساتھ اطاعت
کرنا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ شریعت دین کے راستے کو کہتے ہیں۔
امام قرطبی لکھتے ہیں:
‘‘الشریعۃ
فی اللغۃ: الطریق الذی یتوصل منہ الی الماء، و الشریعۃ ما شرع اللہ لعبادہ من
الدین، و قد شرع لهم و شرع شرعا ای سن، و الشارع الطریق الاعظم’’۔(۱۲)
شریعت لغت
میں اس راستے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ پانی تک پہنچے’ اور شریعت وہ ہے جو اللہ
تعالی نے اپنے بندوں کے لئے دین میں مقرر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شرع لہم شرعا
یعنی اس کے لئے طریقہ مقرر کیا۔ اور الشارع بڑے راستے کو کہتے ہیں۔
اصطلاحی تعریف:
اصطلاح میں
شریعت اللہ کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کو کہتے ہیں۔ مختار الصحاح اور المعجم
الوسیط میں ہے:
الشریعۃ:
ایضا ما شرع اللہ لعبادہ من الدین.ما شرع اللہ لعبادہ من العقائد و الاحکام.
(۱۳)
مصباح اللغات میں ہے:
الشرع
:مصـ۔ اللہ کا
مقرر کردہ احکام۔(۱۴)
اور شریعت کی
طرف نسبت کی وجہ سے شرعیہ کہتے ہیں یہ لفظ شرعی کی تانیث ہے’ جس کے معنی مطابق
شریعت کے ہیں۔(۱۵)
لہٰذاسیاست شرعیہ کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سیاست جو شریعت یعنی
احکام الٰہی کے مطابق ہو۔ اگر سیاست شریعت کے مطابق نہ ہو تو وہ سیاست شرعیہ نہیں
بلکہ ظلم پر مبنی ہوگا جیسا کہ اقبال کہتے ہیں۔
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سیاست شرعیۃ سے مراد:
سیاست شرعیہ
سے مراد یہ ہے کہ درج بالا تمام میادین سیاست میں شرعی احکام کو مد نظر رکھاجائے
اگرچہ وہ عرف کے مطابق چلنے والے احکام کیوں نہ ہواگر شریعت میں اس کا لحاظ رکھا
جائے تو بھی سیاست شرعیہ ہے۔ اگر کسی حکم میں شرعی حکم ملحوظ نہیں تو وہ سیاست
شرعیہ نہیں بلکہ سیاست وضعیہ ہے اگرچہ فی ذاتہ شرعی قوانین کے مبادیات کے موافق
کیوں نہ ہو۔(۱۶)
لہٰذا احکام
سیاست شرعیہ پر دلالت کرنے والے نصوص (کتاب و سنت سے) نہ بھی ہو تو اس کو سیاست
شرعیہ کہہ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ حکم روح شریعت کے مطابق ہو اور کتاب و سنت میں اس
کے خلاف کوئی نص نہ ہو۔ ابن القیم لکھتے ہیں:
‘‘السیاسۃ
ما کان فعلا یکون معہ الناس اقرب الی الصلاح و ابعد عن الفساد و ان لم یضعہ الرسول
و لا نزل بہ وحی’’۔(۱۷)
سیاست وہ فعل ہے جس کے ذریعہ لوگ اصلاح کے زیادہ قریب ہو اور
فساد سے دور ہواگرچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو وضع نہ کیا ہو اور نہ ہی اس کے بارے میں
کوئی وحی نازل ہو۔
معلوم ہوا کہ
سیاست شرعیہ ہر وہ حکم ہے جو اسلامی روح کے مطابق ہو اور اسلام کے کسی حکم کے
مخالف نہ ہو۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب تک وہ شریعت کے موافق نہ ہو وہ سیاست شرعیہ
نہیں مغالطہ کا شکار ہے اس لئے کہ اسلام میں ہر چیز مباح ہے جب تک اس کی حرمت یا
کراہیت پر کوئی دلیل نہ ہو۔
علماء اسلام نے سیاست شرعیہ کو کئی معنوں میں استعمال کیا ہے۔
فقہاء کے نزدیک:
سیاست شرعیہ
ولاۃ امور اور حکمرانوں کے وہ اختیارات ہیں جو وہ مصلحت کے تحت اپناتے ہیں اور وہ
دین کے اصول کے منافی نہیں ہوتے۔ خلاف کہتے ہیں:
‘‘و
عند الفقها، السیاسۃ الشرعیۃ هی التوسعۃ علی ولاۃ الامر ان یفعلوا ما تقتضی بہ
المصلحۃ مما لایخالف اصول الدین و ان لم یقم علیہ دلیل خاص’’۔(۱۸)
یعنی سیاست شرعیہ یہ ہے کہ حکمران کو اختیار دیا جائے کہ وہ
مصلحت کے مطابق کام کرے جو دین کے اصول کے خلاف نہ ہو اگرچہ اس کے بارے میں کوئی
خاص دلیل نہ ہو۔
صاحب البحر حد زنا میں لکھتے ہیں:
‘‘و
ظاهر کلامهم ههنا ان السیاسۃ هی فعل شیء من الحاکم لمصلحۃ یراها و ان لم یرد بذلك
الفعل دلیل جزئ’’۔(۱۹)
ان کے ظاہر کلام سے معلوم ہوا کہ سیاست حاکم کسی مصلحت کے تحت
کوئی کام کرنے کا نام ہے اگرچہ اس کام کے بارے میں کوئی جزئی دلیل وارد نہ ہو۔
اس تعریف کے
اعتبار سے سیاست مصالح مرسلہ (۲۰) پر
عمل کرنے کا نام ہے’ اس لئے کہ مصلحت مرسلہ کے لئے شارع کی طرف سے کرنے یا چھوڑنے
پر دلیل قائم نہیں ہوتی۔
فقہاء لفظ
سیاست کو حدود اور تعزیرات میں بھی استعمال کرتے ہیں اور وہ اس لفظ سے ولاۃ امور
اور حکمرانوں کی وہ سخت سزائیں مراد لیتے ہیں جن کے ذریعہ رعایا کی زجر و توبیخ
اورفتنوں اور شرور کا سد باب مقصود ہوتا ہے۔(۲۱)
غیر فقہاء کے نزدیک: غیر فقہاء اس سے آداب ’ مصالح اور حالات کے
انتظام کے لئے وضع کردہ قانون مراد لیتے ہیں۔ خلاف لکھتے ہیں:
‘‘هی
القانون الموضوع لرعایۃ الاداب و المصالح و انتظام الاحوال’’۔(۲۲)
سیاست شرعیہ
سے مراد وہ قانون ہے جو آداب ’ مصالح اور انتظام احوال کے لئے وضع کئے گئے ہوں۔
قدماء کے نزدیک: قدماء کے نزدیک شرع مغلظ ہی سیاست ہے۔(۲۳)
سیاست شرعیہ کی جامع تعریف:
درج بالا
تمام تعریفات کو سامنے رکھا جائے تو جامع تعریف وہ نظر آتی ہے جو عبد الوہاب خلاف
نے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ:
‘‘السیاسۃ
الشرعیۃ علم یبحث فیہ عما تدبر بہ شوؤن الدولۃ الاسلامیۃ من القوانین و النظم التی
تتفق و اصول الاسلام، و ان لم یقم علی کل تدبیر دلیل خاص’’۔(۲۴)
سیاست شرعیہ
وہ علم ہے جس میں اسلامی ریاست میں تدبیر پانے والے ان قوانین اور نظامات سے بحث
کی جاتی ہے جو اصول اسلام کے موافق ہوں اگرچہ ہر تدبیر و انتظام کے لئے الگ سے
دلیل قائم نہ ہو۔
سیاست شرعیہ کی ضرورت و اہمیت:
چونکہ سیاست
کا اصل مقصد جلب المنفعۃ و دفع الضرر ہے’ اس لئے معاشرتی اور معاشی استحکام کے لئے
سیاست شرعیہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ معاشرے سے ظلم و استبداد اور حق تلفیوں کو ختم
کرکے داخلی اور خارجی معاملات میں نظم اور قوانین کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور
پر عادلانہ نظام قائم کرنے کے لئے ایک سیاسی نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو مصالح کے
حصول ’ ترقی وتقدم اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا ضامن ہو’ اور وہ سیاست
شرعیہ (اسلامیہ) سے ہی ممکن ہے جس میں ہر زمان و مکان میں لوگوں کے لئے مصالح کے
حصول اور جلب منفعت کی وسعت اور استطاعت موجود ہے۔ اسی طرح واجبات اورحدود کو
سیاست کے بغیر قائم نہیں کر سکتے’ حدود اللہ کے نفاذ کے لئے ضروری ہے کہ حکومت
اورامارت حاصل ہو’ حکومت اوراختیارات کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور
اقامت دین ممکن نہیں۔ صاحب اکلیل الکرامۃ رقم طراز ہے:
‘‘و
لان اللہ اوجب الامر بالمعروف و النهی عن المنکر و لا یتم ذلك الا بقوۃ و امارۃ، و
کذلك سائر مااوجبہ اللہ من الجهاد و العدل و اقامۃ الحج و الجمع و الاعیاد و نصر
المظلوم و اقامۃ الحدود لاتتم الا بالقوۃ و الامارۃ’’۔(۲۵)
اور اللہ تعالی نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قر
ار دیا ہے اوریہ قوت و حکومت کے بغیر پورا نہیں ہوتا’ اسی طرح اللہ تعالی کے سارے
واجبات جہاد’ عدل’ حج’ جمعہ’جماعت ’ عید اور حدود اللہ کا قائم کرنا قوت اور امارت
کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔
سیاست شرعیہ کے مقاصد:
سیاست شرعیہ
کا بنیادی مقصد حقوق اللہ پر عمل در آمد کرنا اور حقوق العباد کا تحفظ ہے۔ اور
زمین پر دین الٰہی کے قیام کے ساتھ اس کے نظام کو جاری کرنا اور امر بالمعروف و
نہی عن المنکر ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے سیاست شرعیہ کے مقاصد کو ان الفاظ میں
بیان کیا ہے۔
﴿اَلَّذِیْنَ
اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکوٰۃَ وَ
اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(۲۶)
اگر ہم زمین
میں ان کے پاؤں جمادیں (حکومت عطا کریں) تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں اور
زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں۔
اس آیت میں
اسلامی حکومت اور سیاست شرعیہ کے بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصدبیان کئے گئے ہیں’
جو کہ درج ذیل ہیں:
اقامت صلاۃ:
سیاست شرعیہ
کا ایک مقصد نماز کا قیام ہے۔ اس مقصد کے لئے مساجد کی تعمیر و آباد کاری ’ اور
مسجد سے متعلقہ امور کا انتظام و بندو بست ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ہجرت کے بعد سب سے
پہلے مسجد تعمیر کی اور پھر اس کے بعد دوسرے کام شروع کئے۔
‘‘و
اقام رسول اللہ ﷺ بقباء أربعۃ أیام الاثنین و الثلاثاء و الاربعاء و الخمیس و اسس
مسجد قباء و صلی فیہ و هو اول مسجد اسس علی التقوی بعد النبوۃ’’۔(۲۷)
رسول اللہ ﷺ
قباء میں کل چار دن پیر منگل بدھ اور جمعرات ٹھہرے اور اسی دوران آپ نے مسجد قباء
کی بنیاد رکھی اور اس میں نماز پڑھی۔ یہ آپ کی نبوت کے بعد پہلی مسجد ہے جس کی
بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔
قباء سے جب
آپ مدینہ میں داخل ہوئے ’ سارا مدینہ آپ کے استقبال کے لئے امڈ آیا اور ہر ایک نے
خواہش کی کہ آپ اس کے مہمان بن جائے ’ آپ نے فرمایا کہ میری اونٹنی اللہ کی طرف سے
مامور ہے جہاں یہ رکے گی میں وہیں رہوں گا چنانچہ آپ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب
انصاری کے مکان کے پاس ٹھہر گئی اور آپ ابو ایوب کے مہمان بن گئے ۔ بعد میں وہیں
آپ نے ایک مسجد تعمیر کرائی جس میں آپ بنفس نفیس شریک ہوئے اور اب یہ مسجد نبوی کے
نام سے مشہور ہے۔(۲۸)
صاحب الرحیق لکھتے ہیں:
‘‘و
اول خطوۃ خطاہا رسول اللہ ﷺ بعد ذلك هو اقامۃ المسجد النبوی، ففی المکان الذی برکت
فیہ ناقتہ أمر ببناء هذا المسجد و اشتراہ من غلامین یتیمین کانا یملکانہ و ساهم فی
بنائه بنفسہ’’۔(۲۹)
اس کے بعد
نبی ﷺ کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لئے وہی
جگہ منتخب کی جہاں آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ اس زمین کے مالک دو یتیم بچے تھے آپ
نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس نفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ
نے مسجدبنانے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے’ نیز آپ نے فرمایا
: جو شخص مسجد کی دیکھ بھال کرے اس کے لئے ایمان کی شہادت دو۔(۳۰)
رسول اللہ ﷺ
اقامت صلاۃ پر بیعت لیا کرتے تھے۔(۳۱)
رسول کریم ﷺ اقامت صلاۃ کا اس قدر اہتمام کرتے
تھے کہ نماز کو مسلم اورکافر کے درمیان امتیازی فرق قرار دیا۔(۳۲) نیز آپ نے فرمایا : اگر مجھے بچوں
اور عورتوں کا لحاظ نہ ہوتا تو ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگادیتا جو صبح کی نماز سے
پیچھے رہتے ہیں۔(۳۳)
زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم:
سیاست شرعیہ
کا ایک جزء مالیاتی نظام ہے’ لہٰذا اسلامی شریعت ایک مقصد یہ ہے کہ اہل ثروت (صاحب
نصاب) مسلمان سے زکوٰۃ و صدقات جمع کرکے غرباء ’ فقراء ’ مساکین’ نادار اور دوسرے
محتاج لوگوں میں تقسیم کا جائے’ چنانچہ زکوٰۃ و صدقات کی وصولی اور تقسیم کے بارے
میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ:
تؤخذ
من اغنیائهم و ترد علی فقرائهم۔(۳۴)
یعنی زکوٰۃ
امیر مسلمانوں سے لیا جائے گا اور انہی کے غریبوں اور فقراء میں تقسیم کی جائے گی۔
زکوٰۃ کی وصولی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے چنانچہ اللہ تعالی
کا فرمان ہے:
﴿خُذْ
مِنْ اَمْوَالِهمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُهمْ وَ تُزَکِّیْهمْ بِها وَ صَلِّ عَلَیْهمْ﴾(۳۵)
آپ نے مالوں
سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعہ سے آپ ان کوپاک صاف کردین اور ان کے لئے دعاء کیجئے۔
اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ مسلمانوں
کے مالوں سے صدقہ لیکر ان کو پاک صاف کر یں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں۔ یہ
حکم عام ہے اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی امام
وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
اور دیگر صحابہ کرام کے ظرز عمل کی روشنی میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔(۳۶)
احادیث
مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ صدقات اور زکوٰۃ کی وصولی کے لئے باقاعدہ طور پر
عاملین زکوٰۃ مقرر کرتے اور مختلف علاقوں اور قبیلوں میں وصولی صدقات و زکواۃ کے
لئے ان کو بھیجتے۔(۳۷)
امر بالمعروف نہی عن المنکر:
امر بالمعروف
نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا بھی سیاست شرعیہ کے مقاصد میں سے ہے’ اور یہ
نظام حِسبہ کہلاتا ہے جو کہ اسلامی سیاست کے دعائم میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالی کا
ارشاد ہے:
﴿وَ
لْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ
بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(۳۸)
تم میں سے
ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو بھلائی کے کاموں کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم
کرے اور برے کاموں سے روکے۔
دوسری جگہ اس
امت کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ امت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے
کو انجام دیتی ہے۔
﴿کُنْتُمْ
خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لَلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ
عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾(۳۹)
تم بہترین
امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری
باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
حدیث شریف میں ہے:
من
رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ و ان لم یستطع فبقلبہ و ذلك
اضعف الایمان (۴۰)
تم میں سے جو
کوئی برائی دیکھے چاہئے اس کو اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے
منع کرے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے اس کو برا جانے’ اور یہ کمزور
ترین ایمان ہے۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر کے تحت اور بھی بہت سے مقاصد ہو
سکتے ہیں جن کا پورا کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔یہاں ان کا بیان
طوالت کے خوف سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سیاست شرعیہ مختلف ادوار میں:
سیاست شرعیہ
کا آغاز رسول کریم ﷺ کی بعثت سے شروع ہوا اور مختلف ادوار میں مختلف سیاسی مقاصد
کے تحت بہت سارے اجتہادات ہوتے رہے ہم یہاں صرف تین ادوار کا ذکر کریں گے۔
عہد نبوی میں:
رسول اللہ ﷺ
اپنی زندگي میں مسلمانوں کے مرجع تھے۔ اس زمانے میں تمام مسلمان اپنے تمام معاملات
کی تدبیر’ تشریعی’ قضائی اور تنفیذی معاملات میں حضور اکرم ﷺ سے رجوع کرتے اور آپ ﷺ
اللہ کی ہدایت اور وحی کے مطابق ان امور کی تدبیر و انتظام فرماتے اور جہاں اللہ
کا حکم نازل نہ ہوا ہوتا وہاں مصالح کو مد نظر رکھ کر اپنے اجتہاد سے کام لیتے یا
اصحاب الرای صحابہ کرام سے مشورہ کر لیتے اور آپ کی یہ تدبیر اور انتظام مسلمانوں
کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ بذات خود مسلمانوں کے مسائل
حل کرتے اور ان کے امور کی تدبیر کرتے چنانچہ آپ کی سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہی
کہ آپ بیک وقت نبی ہونے کے ساتھ حاکم وقت بھی تھے’ قاضی بھی’ اور سپہ سالار بھی آپ
نے کئی میدان نہیں چھوڑا جس میں سیاست نہ کی ہو۔(۴۱)
عہد خلفاء میں:
رسول اللہ ﷺ
کی وفات کے بعد سے عہد خلافت شروع ہو جاتا ہے اور سنه ۴۰ھ تک جار ی رہتا ہے’ اس کے بعد
امارت اور پھر ملوکیت کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی رہبری
کے لئے دو چیزیں چھوڑی ہیں اور فرمایا ہے کہ جو ان کو مضبوطی سے پکڑے رہے گا وہ
کبھی گمراہ نہ ہوگا۔ فرمایا:
(ترکت
فیكم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ و سنۃ نبیہ)(۴۲)
میں تم میں
دو چیزیں چھوڑے جا رہاہوں جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے کبھی گمراہ ہو ں گے
اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔
اعتصام بالكتاب و السنة كي تاكيد فرمانے كا مقصد يه هے كه يه
دونوں هر دور ميں انسان كي رهبري كے لئے كافي هے، اگر مسلمان هر دور ميں ان كو مضبوطي
سے تھامے رهيں گے تو وه كبھي گمراه نه هوں گے، اور اس كا ايك مطلب يه بھي هے كه انساني
زندگي سے متعلق جتني بھي احكام ضروريه هيں وه سب ان دونوں ميں بيان كر ديئے گئے
هيں خواه اس تعلق انفرادي زندگي سے هو يا اجتماعي زندگي سے، خواه معيشت سے متعلق
هو يا سياست سے ، خواه معاشرت سے متعلق هو يا عدالت سے، كتاب و سنت ميں انساني
زندگي كا كوئي پهلو نهيں چھوڑاجس ميں اسلام كے مخصوص احكام بيان نه كئے گئےهوں۔
اور جس مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو اس کے لئے ایک اور منارہ
نور چھوڑا جسے اجتہاد کہتے ہیں۔ آپ نے نہ خوداجتہاد فرمایا بلکہ اجتہاد کی ترغیب
دی اور اس کے لئے راہ ہموار کیا ۔ جس وقت آپ حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیج رہے تھے
اس وقت آپ نے ان سے پوچھا: ......اگر تجھے حکم کتاب و سنت میں نہ ملے تو کیا
کروگے؟ انہوں نے جواب دیا: اجتهد برأی
(میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الحمد للہ
الذی وفق رسول رسول اللہ ۔(۴۳)
الله كا شكر هے كه
رسول الله صلي الله عليه وسلم كے ايلچي كو توفيق دي۔
تو
گویا اجتہاد کی راہ آپ نے خود ہموار کی اور اپنے قول و عمل سے اس کی طرف دعوت دی’
چنانچہ دیکھتے ہیں آپ بھی حکم اور منع میں علتوں کو ملحوظ رکھتے تھے جو اجتہاد کی
بنیاد ہے۔مثلاً آپ نے بلی اور اس کے جوٹھے کی علت یہ بتائی (انها
من الطوافین علیکم و الطوافات) (۴۴) کہ یہ بلیاں تمہارے پاس بار بار
آنے والی ہیں لہٰذا اگر اس کے جوٹھے کو نجس قرار دیا جائے تو عام لوگ بہت زیادہ
متاثر ہوں گے اور تکلیف میں پڑ جائیں گے ۔ اس لئے اسی جلب منفعت اور دفع ضرر کو مد
نظر رکھ کر اس کو اور اس کے جوٹھے کو پاک قرار دیا گیا ہے۔
انہی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خلفاء راشدین نے بھی اسلامی
حکومت کے معاملات کی تدبیرو انتظام میں اجتہاد سے کام لیا’ مثلاً ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ نے اجتہاد کرکے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ نامزد کیا جبکہ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے بھی اجتہاد کر کے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا بلکہ معاملہ ان میں
سے چھ آدمیوں کے مشورے پر چھوڑ دیا۔(۴۵)
اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر کے مشورے سے
قرآن کو جمع کرنا بھی اجتہاد ہی تھا(۴۶) ،
اور حضرت عثمان کا لوگوں کو ایک قرأت
پر جمع اکھٹا کرنا بھی اجتہاد ہی سے تھا (۴۷) ورنہ
حدیث میں تو ہے کہ قرآن کو سات حروف (لہجوں) میں نازل کیا گیا ہے۔(۴۸)
عہد نبوی اور عہد خلافت دونوں میں دین و سیاست جدا جدا نہیں تھے
بلکہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام تھے۔ عبد الوہاب خلاف لکھتے ہیں:
"ما
عرف اذ ذاك حکم شرعی و آخر سیاسی و انما کانت الاحکام کلها شرعیۃ مصدرها ما شرعہ
اللہ فی کتابہ و علی لسان رسولہ و ما اهتدی الیہ اولو الرأی باجتہادهم الذی تحروا
بہ المصلحۃ، و بذلوا اقصی الجهد لتحقیقها و اللہ ما شرع الشرائع الا لمصلحۃ عبادہ"۔(۴۹)
اس زمانہ میں
شرعی اور سیاسی کوئی اختلاف نہیں تھا جو کچھ حکومت میں ہوتا سب شرعی ہوتے اس کا
مصدر اللہ کا اپنی کتاب میں مشروع کیا ہوا ہوتا یا اپنے رسول کی زبانی اور اہل
الرائے اپنی کوشش اور اجتہاد سے جو رہنمائی پاتے جس کے ذریعہ وہ کسی مصلحت کو تلاش
کرتے اور اس کے ثبوت کے لئے وہ اپنی انتہائی کوشش کو صرف کرتے۔ اور اللہ نے اپنے
شرائع محض بندوں کی مصلحت کے لئے بنائے ہیں۔
حوالہ جات
(۱) دیکھئے الرازی’ محمد بن ابی بکر بن عبد القادر’ مختار الصحاح ص۳۲۱’ مؤسسۃ علوم القرآن بیروت’ بلیاوی’ ابو الفضل عبد الحفیظ’ مصباح اللغات ص۴۰۶ اسلامی اکادمی لاہور ۱۹۸۸ء’ وحید الزمان، لغات الحدیث ۲۰۶/۲حرف س، مطبعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی
(۲) مسلم بن الحجاج القشیری(۲۶۱ھ)’ صحیح مسلم کتاب السلام باب جواز ارداف المرأۃ الاجنبیۃ اذا اعیت فی الطریق حدیث رقم۴۰۵۱
(۳) الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی(۲۷۹ھ)، السنن کتاب التفسیر باب من تفسیر سورۃ النور حدیث رقم ۳۱۰۴
(۴) البخاری’ محمد بن اسماعیل (۲۵۶ھ) الجامع الصحیح کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، مسلم بن الحجاج القشیری ، صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلفاء الاول فالاول حدیث رقم ۳۴۲۹، ابن ماجہ ابو عبد اللہ یزید بن ماجہ القزوینی(۲۷۵ھ)، السنن کتاب الجہاد باب الوفاء بالبیعۃ حدیث رقم ۲۸۶۲،
(۵) دیکھئے الخفاجی’ابو العباس احمد بن محمد بن عمر شہاب الدین(۱۰۶۹ھ)’ نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض۳۶۸/۱، المطبعۃ الأزہریۃ مصر
(۶) المقریزی کا نام احمد بن علی ہے آپ ۷۶۶ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور ۸۴۵ھ میں آپ کا انتقال ہوا’ آپ کی کتاب الخطط کے علاوہ کتاب النقودالقدیمۃ و الاسلامیۃ اور الاوزان و الاکیال الشرعیۃ بھی مشہور ہیں۔
(۷) المقریزی ، ابو العباس احمد بن علی بن عبد القادر (۸۴۵ھ) کتا ب المواعظ والاعتبار فی ذکر الخطط والامصار۳۳/۱، مطبعۃ النیل القاہرۃ مصر
(۸) عبدالرحمن التاج، السیاسۃ الشرعیۃ ص ۷، بیروت
(۹) وحید الزمان، لغات الحدیث ۲۰۶/۲حرف س، مطبعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی
(۱۰) بلیاوی’ ابو الفضل عبد الحفیظ ’ مصباح اللغات ص ۴۰۶، اسلامی اکادمی لاہور
(۱۱) الجرجانی، السید الشریف علی بن محمد بن علی أبو الحسن’ کتاب التعریفات ص۹۱، دار المنار للطباعۃ و النشر
(۱۲) القرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری الاندلسی (۶۷۱ھ) الجامع لاحکام القرآن، الدار القومیۃ للطباعۃ والنشر مصر
(۱۳) الرازی’ مختار الصحاح ص۳۳۵’ ابراہیم مصطفی، احمد حسن الزیات، حامد عبد القادر، محمد علی النجار، المعجم الوسیط ص۴۷۹/۱، دار المعارف، مصر۱۹۸۰ء
(۱۴) عبد الحفیظ بلیاوی’ مصباح اللغات ص۴۲۷، اسلامی اکادمی لاہور
(۱۵) م۔ ن (مصدر نفسہ) ص۴۲۸
(۱۶) عبدالرحمن التاج، السیاسۃ الشرعیۃ ص ۱۱
(۱۷) ابن القیم’ ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر الجوزیۃ (۷۵۱ھ) الطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ ۳/۱ مطبعۃ جامعۃ دمشق
(۱۸) عبد الوہاب خلاف(۱۹۵۶ء) ، السیاسۃ الشرعیۃ ص۶، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۹۹۱ء
(۱۹) احمد بن یحییٰ بن المرتضیٰ (۸۴۰ھ) البحر الزخار الجامع لمذاہب علماء الامصار ۲۰۲/۴، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(۲۰) مصالح مرسلہ ایسی مصالح کو کہتے ہیں جن کے بارے میں کوئی شرعی نص موجود نہ ہو ’ ان میں نفع کے پائے جانے اور نقصان کے دور کرنے کی مصلحت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔(الوجیز فی اصول الفقہ ص۱۱۲)
(۲۱) دیکھئے عبد الرحمن التاج ’ السیاسۃ الشرعیۃ ص۲۸
(۲۲) عبد الوہاب خلاف ’ السیاسۃ الشرعیہ ص۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(۲۳) دیکھئے علاؤالدین علی بن خلیل الطرابلسی’ معین الحکام فیما یتردد الخصمین من الاحکام ص ۱۶۴
(۲۴) عبد الوہاب خلاف ’ السیاسۃ الشرعیہ ص۷، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(۲۵) صدیق حسن خان نواب’ اکلیل الکرامۃ فی تبیان مقاصد الامامۃ ص ۱۱، بدون تاریخ و المطبعۃ
(۲۶) الحج:۴۱
(۲۷) دیکھئے البخاری’ الجامع الصحیح۵۵۵/۱۔۵۶۰، المکتبۃ الرحیمیۃ، ابن ہشام ، ابو محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب الحمیری (۲۱۸ھ) السیرۃ النبویۃ ۴۹۴/۱، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی و اولادہ مصر، ابن القیم ’ ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر بن ایوب الجوزیۃ (۷۵۱ھ) زاد المعاد فی ہدی خیر العباد۵۵/۲، المطبعۃ المصریۃ الطبعۃ الاولی ۱۹۲۸ء
(۲۸) تفصیل کے لئے دیکھئے البخاری’ الجامع الصحیح۵۵۵/۱۔۵۶۰، المکتبۃ الرحیمیۃ، ابن ہشام ، ابو محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب الحمیری (۲۱۸ھ) السیرۃ النبویۃ ۴۹۴/۱، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی و اولادہ مصر، ابن القیم ’ ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر بن ایوب الجوزیۃ (۷۵۱ھ) زاد المعاد فی ہدی خیر العباد۵۵/۲، المطبعۃ المصریۃ
(۲۹) المبارکفوری’
صفی الرحمن’ الرحیق المختوم ص۱۷۲،
مکتبۃ دار السلام الریاض ۱۹۹۳ء
(۳۰) الترمذی’ السنن۲۷۷/۵ کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ التوبۃ حدیث رقم ۳۰۹۳، ابن ماجہ ابو عبد اللہ یزید القزوینی ، السنن ۲۶۳/۱، کتاب المساجد و الجماعات باب لزوم المساجد و انتظار الصلاۃحدیث رقم ۸۰۲، احمد بن حنبل المسند۶۸/۳۔۷۶
(۳۱) البخاری’
الجامع الصحیح کتاب الایمان باب الدین النصیحۃ حدیث رقم ۵۵، و کتاب مواقیت الصلاۃ باب
البیعۃ علی اقامۃ الصلاۃ حدیث رقم ۴۹۳
(۳۲) دیکھئے مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم ۸۸/۱ کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃحدیث رقم ۸۲، ابو داود ، السنن ۲۱۹/۴ کتاب السنۃ باب فی رد الارجاء حدیث رقم ۴۶۷۸، الترمذی ، السنن ۱۳/۵ کتاب الایمان باب ما جاء فی ترک الصلاۃ حدیث رقم ۲۶۱۸۔۲۶۲۰، ابن ماجہ ، السنن ۳۴۲/۱ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃفیہا باب ما جاء فیمن ترک الصلاۃ حدیث رقم ۱۰۷۸، احمد بن حنبل ، المسند ۳۷۰/۳
(۳۳) البخاری، الجامع الصحیح ۱۲۵/۲ کتاب الاذان باب وجوب صلاۃ الجماعۃ حدیث رقم۶۴۴، مسلم بن الحجاج ، صحیح مسلم ۴۵۱/۱ کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ و بیان التشدید فی التخلف عنہاحدیث رقم ۶۵۱، ابو داود ، السنن ۱۵۰/۱ کتاب الصلاۃ باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ، حدیث رقم ۵۴۸، الترمذی،
السنن ۴۲۲/۱۔۴۲۳ کتاب الصلاۃ باب ما جاء فیمن یسمع النداء فلایجیب، ابن ماجہ، السنن ۲۵۹/۱ کتاب المساجد و الجماعات باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃحدیث رقم ۷۹۱، مالک بن انس، الموطأ۱۲۹/۱ کتاب صلاۃ الجماعۃ باب فضل الجماعۃ علی صلاۃ الفذ حدیث رقم۳، احمد بن حنبل، المسند ۲۴۴/۲، ۳۷۶، ۵۲۶۴۷۹، ۵۳۱،۵۳۷۔
(۳۴) البخاری، الجامع الصحیح ۲/۳ ۳۲کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا حدیث رقم۱۴۵۸، مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم۵۰/۱ کتاب الایمان باب الدعاء الی الشہادتین و شرائع الاسلام حدیث رقم ۲۹، ابو داود ، السنن ۱۰۴/۲۔۱۰۵، کتاب الزکوٰۃ باب زکاۃ السائمۃ حدیث رقم ۱۵۸۴، الترمذی،السنن ۲۱/۳ کتاب الزکوٰۃ باب ما جاء فی کراہیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ حدیث رقم ۶۲۵،
(۳۵) التوبۃ:۱۰۳
(۳۶) دیکھئے
ابن کثیر ’ ابو الفداء اسماعیل ، تفسیر القرآن العظیم ۴۰۰/۲ ، دار المعرفۃ بیروت ۱۹۸۷ء
(۳۷) البخاری، الجامع الصحیح۳۶۰/۳ کتاب الزکوٰۃ باب قول اللہ تعالی و العاملین علیہا و محاسبۃ المصدقین، و کتاب الاحکام باب ہدایا العمال، مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم ۶۷۵/۲ کتاب الزکوٰۃ باب ارضاء السعاۃ حدیث رقم ۹۸۹، و ۱۴۶۳/۳۔۱۴۶۵کتاب الامارۃ باب تحریم ہدایا العمال حدیث رقم ۱۸۳۲، ابو داود ، السنن ۱۰۶/۲ کتاب الزکوٰۃ باب رضی المصدق، النسائی، السنن ۳۱/۵ کتاب الزکوٰۃ باب اذا جاوز فی الصدقۃ.
(۳۸) آل
عمران:۱۰۴
(۳۹) آل
عمران:۱۱۰
(۴۰) مسلم
بن الحجاج ، صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان
(۴۱) مزید
تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے ابن ہشام ’ السیرۃ النبویۃ ’ ابن القیم الجوزیہ ’ زاد
المعاد ’ سلیمان منصور پوری رحمۃ للعالمین’ صفی الرحمن مبارکپوری الرحیق
المختوم’وغیرہ
(۴۲) مالک
بن انس، الموطأ کتاب الجامع باب النہی عن القول بالقدر حدیث رقم ۱۳۹۵
(۴۳) الترمذی’
السنن کتاب الاحکام باب ما جاء فی القاضی کیف یقضی حدیث رقم ۱۲۴۹
(۴۴) ابو داود، السنن کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی سؤر الہرۃ حدیث رقم ۶۸، الترمذی، السنن کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی سؤر الہرۃ حدیث رقم ۸۵، النسائی ، السنن کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی سؤر الہرۃ حدیث رقم ۶۷.
(۴۵) دیکھئے
البخاری، الجامع الصحیح ’ کتاب المناقب باب قصۃ البیعۃ علی عثمان بن عفان حدیث رقم
۳۴۲۴، و کتاب الاحکام باب کیف یباع
الامام الناس حدیث رقم ۶۶۶۷،
(۴۶) ملاحظہ
ہو البخاری، الجامع الصحیح کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن حدیث رقم ۴۶۰۳، الترمذی، السنن کتاب التفسیر
باب و من سورۃ التوبۃ حدیث رقم ۳۰۲۸۔
(۴۷) م۔
ن۔ حدیث رقم ۴۶۰۴، ۳۰۲۹۔
(۴۸) دیکھئے البخاری، الجامع الصحیح کتاب الخصومات باب کلام الخصوم بعضہم فی بعض حدیث رقم ۲۲۴، کتاب فضائل القرآن باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف، حدیث رقم ۴۷۰۸۔
(۴۹) عبد الوہاب خلاف، السیاسۃ الشرعیۃ ص۱۳، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت