اعجاز القرآن ، قرآن كريم كے اعجازى پهلو

0

اعجاز القرآن

       تحرير: ابراهيم عبد الله يوگوي

            اعجاز القرآن سے مراد قرآن کا وہ اعجازی پہلو ہے جس نے دنیا کو اس کا معارضہ اور مقابلہ کرنے سے عاجز کر دیا ہے۔ اس طرح قرآن کریم رسالت محمدی کے اثبات اور دین اسلام کی حقانیت و صداقت کا ایک دائمی اور ابدی معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔

اعجاز القرآن کا پس منظر:

            دنیا میں اللہ تعالی نے جتنے انبیاء کرام مبعوث کئے ان میں سے بیشتر کو اپنے دین کی حقانیت کے ثبوت کے طور پر معجزات عطا کئے۔اور عطاء معجزات کے سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالی نے ہر نبی کو اپنے زمانے اورماحول کے مطابق معجزات عطا کئے ہیں۔مثلا حضرت موسی علیہ السلام کو جو معجزات عطا کئے وہ اس زمانے میں رائج علوم کے مطابق تھے جیسا کہ قرآن شاہد ہے کہ ان کے زمانے میں جادو کا بڑا زور اور چرچا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت موسی کو جو معجزات عطا کئے عصا کا سانپ بن جانا’ یا ہاتھ کا بغل میں دے کر نکالنے پر چمکنا وغیرہ یہ عمل ظاہرا دیکھنے والے کو جادو ہی لگتا تھا جبکہ وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ تھا۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد میں علم طب کا زور اور چرچا تھا چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے وہ اسی قبیل سے تھے جیسا کہ مادر زاد اندھے کو ٹھیک کرنا’ کوڑھ کی بیمار کو صحت یاب کرنا’ مردوں کوزندہ کرنا وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں عربوں میں عربی ادب شناسی ’ شعر و شاعری اورزورِ خطابت کے چرچے تھے۔اسی بنا پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوسب سے پڑا معجزہ عطا کیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو عربی ادب’ حسن نظم اورحسن بیان میں اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ اس کے معنی خیزی اور تاثیر معنوی کا اعتراف بڑے بڑے دشمنان اسلام نے بھی کیا ہے۔

            جب مخالفین نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر افترا پردازی شروع کی کہ قرآن مجید اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خود کا گھڑا ہوا ہے اور اساطیر الاولین میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے سن کر بیا کر دیتے ہیں۔ اس پر قرآن مجید میں ہی ان کو تہدیدا کہا گیا کہ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھڑا ہوا کلام ہے تو تم بھی اس جیسا کوئی کلام کوئی فقرہ کوئی سورہ بنا کر پیش کر دواس لئے کہ تم دنیا کے بہترین ادیب ’ بہتر فصیح و بلیغ زبان بولنے والے لوگ ہو۔

            ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہِ وَ ادْعُوا شُہَدٓاءَ کُمْ مِنْ دُونِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾(البقرۃ:۲۳)

            ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ’ تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالی کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لو۔

            اس آیت کریمہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ کتاب کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے تو تم اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک سورۃ بنا کر دکھادو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ واقعی یہ کلام اللہ ہے کسی انسان کی کاوش نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقینا قیامت تک قاصر رہیں گے۔

وجوہ اعجاز/قرآن کے اعجازی پہلو

            قرآن مجید کے بہت سے اعجازی پہلو ہیں ان سب کا احاطہ کرنا بشری استطاعت سے باہر ہے البتہ ن میں سے چند اہم وجوہ اعجاز درج ذیل ہیں۔

۱۔ فصاحت و بلاغت:

            قرآن کریم اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہت بڑا معجزہ ہے۔یہ تنافر کلمات اور غیر ضروری بیانات سے منزہ و مبرا ہے۔ اس میں ہر موقع و محل پر یکساں طور پر فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے جس کا مقابلہ و معارضہ کرنے سے عرب و عجم کے سارے فصیح و بلیغ’ ادیب و خطیب’ شاعر اور علماء عاجز اور بے بس رہے۔ قران کریم میں تمام مخالفین کو عام دعوت مبارزت دی گئی کہ وہ اس جیسی کوئی ایک سورت بھی بنا کر پیش کر دو ۔ مگر کوئی آج تک اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے کسی بندے کا بنایا ہوا کلام نہیں پھر کوئی بشر اس کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟خالق اور مخلوق کا کیا مقابلہ؟

            عرب میں بڑے زبان آور خطیب و شاعر تھے اور وہ اپنے مقابلے میں دوسروں کو عجمی یعنی گونگے کہتے تھے۔لیکن جب قرآن مجید نازل ہوا تو وہ خود گونگے بن گئے ’ ان کی زبانیں گونگ ہو گئیں۔

            جب سورۃ ‘‘الکوثر’’ نازل ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کر دیا۔ تو عرب کے نامور شاعر لبید نے اسے دیکھا تو دریائے حیرت و استعجاب میں گم ہو کر رہ گیا اور بے ساختہ وہی دیوار پر لکھ دیا: ‘‘ما ہذا کلام البشر’’ یعنی یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔

۲۔ ندرت اسلوب/ طرز نگارش کی ندرت

            قرآن کریم نے عرب میں مروجہ اسلوب بیان سے ہٹ کر ایک نیا انداز اوراسلوب اختیار کیا اور پھر اسے آـخر تک نبھایا۔ الفاظ کی بندش’ جملوں کی برجستگی’ عالمانہ انداز بیان اور پھر موقع محل کے مطابق انداز تخاطب نے نظم قرآن کو جو حسن اور رعنائی بـخشا ہے اس کی مثال دنیا پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اسی ندرت اسلوب کی بنا پر اہل عرب فصاحت و بلاغت میں ید طولی رکھنے کے باوجود وہ اس جیسی ایک آیت نہیں بنا سکے ۔

۳۔ پیشین گوئیاں/ مستقل میں پیش آنے والے واقعات کا بیان

            قرآن کریم میں آئندہ پیش آنے والے واقعات کے متعلق جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں وہ سب حرف بحرف صحیح ثابت ہوئیں اور اہل دنیا نے اس کا مشاہدہ بھی کیا’ مثلا دین اسلام کے غلبہ و استحکام’ معرکہ بدر میں فتح و کامرانی’ اہل روم کی فتح جیسا کہ سورہ روم میں اس کی پیش گوئی کی گئی تھی’ اسی طرح فتح مکہ’ کہ سورہ الفتح میں صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کی خوشخبری دی گئی تھی۔اسی طرح قرآن میں جو بھی پیش گوئی کی گئی تھی سب پوری طرح ثابت ہو چکی ہیں اور قرب قیامت آنے والے حالات و واقعات بھی رو نما ہو رہے ہیں۔

۴۔ امم سابقہ کے حالات و اقعات کا  درست بیان

            رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی استاد کے پاس بیٹھ کر تعلیم حاصل نہیں کی اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی (ناخواندہ) کہا جاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امی ہونے کے باوجود قرآن کریم نے امم سابقہ کے جو حالات و واقعات جس طرح بیان کئے ہیں تاریخ ان کی صداقت کا اعتراف کرتی ہے۔ قرآن کریم میں بیان کردہ سابقہ امتوں کے حالات و واقعات میں سے کوئی ایک واقعہ بھی خلاف واقعہ بیان نہیں ہوا۔ ان پیش آمدہ واقعات کے بیان کا یہ پہلو بھی یقینا بہت بڑا معجزہ ہے۔

            کفار مکہ نے گزشتہ زمانے کے واقعات کے سلسلے میں بعض ایسے سوالات بھی کئے جن کا علم سوائے یہود کے کسی اور کو نہیں تھا’ خصوصا اہل مکہ کو ان کے متعلق کچھ بھی پتہ نہیں تھا مثلا اصحاب کہف اور ذوالقرنین وغیرہ کے متعلق کہ ان کا واقعہ کیا ہے۔ مگر قرآن مجید نے ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا جس سے نہ صرف یہ کہ کفار حیران رہ گئے بلکہ یہود بھی ششدر رہ گئے۔

۵۔ قوت تاثیر/ اثر انگیزی

            قرآن کریم کی اثر انگیزی کی اس کے عظیم محاسن اور معجزات میں سے ہے۔ اسے سن کر بڑے بڑے مخالفین اسلام نہ صرف یہ کہ دنگ رہ گئے بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا’ اور بہت سے لوگ اپنی کفریات سے تائب ہو گئے۔ مثلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی بہن کے گھر قرآن پڑھا اور پھر اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔اسی طرح اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو قرآن اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کرحلقہ بگوش اسلام ہوگئے ہیں۔

            اسی طرح بعض لوگ اگرچہ قرآن سے متاثر ضرور ہوئے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی اور دنیاوی مفاد کی خاطر حق کو قبول نہ کیا بلکہ اس کی مخالفت کرتے رہے۔ مثلا قریش مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق روکنے کے لئے بہت سے حربے استعمال کئے مگر جب ناکام ہوگئے تو انہوں نے قریش کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ کہیں معاہدے کی صورت بن جائے اس لئے کہ عتبہ قریش میں اپنی دانائی اور اثر و رسوخ کی وجہ سے مشہور تھا۔اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو یہ پیش کش کی  كه

            ’’اگر آپ مال چاہتے ہیں تو ہم اتنا مال دیں گے کہ آپ ہم سے سب سے زیادہ مال دار بن جائیں گے اور اگر آپ سرداری چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں اور اگر آپ کسی اعلی خاندان کی حسین ترین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں۔بس ہمار ی شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے پرانے آبائی دین پر قائم رہنے دیں اور اپنا نیا دین پیش نہ کریں۔ورنہ ہمیں بتائیں کہ آپ کے پاس کوئی جن بھوت آتا ہے تو آپ کا علاج کرا سکتے ہیں۔‘‘

            رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں سورہ حم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جب آپ ﷺ اس آیت پر پہنچے:

            ﴿فَاِنْ اَعْرَضُوا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمَوُدَ﴾(حم السجدة:13)

            پس اگر وہ رو گردانی کریں تو تم کہہ دو کہ میں تمہیں عاد و ثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگاہ کررہا ہوں۔

            تو عتبہ تھرا کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منہ پر رکھ دیا کہ میں آپ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں کہ ایسا نہ کریں۔اسے خطرہ تھا کہ کہیں یہ ڈراوا آن نہ پڑے۔ پھر عتبہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہا : میں نے جو کلام سنا ہے ایسا کبھی نہیں سنا۔ خدا کی قسم وہ نہ شعر ہے نہ دجادو نہ کہانت۔ تم اس شخص کو اپنے حال پر چھوڑدو ۔ کوئی زبردست انقلاب آنے والا ہے ۔ اگر کسی نے اس شخص کا خاتمہ کر دیا تو خیر ’ ورنہ وہ غالب آکر بادشاہ بن گیا تو اس میں تمہاری عزت ہے۔ لوگوں نے کہا : عتبہ پر بھی اس کی زبان کا جادو چل گیا۔(مسند ابی یعلی ص:۳۴۹/۳ بحوالہ تفسیر ابن کثیر متعلقہ سورۃ حم)

            ڈاکٹر عینیہ ایک یورپی اسکالر تھا جس کی ساری عمر سمندری سفروں میں گزری۔ اس نے جب قرآن مجید کی آیت

            ﴿ اَوْ ظُلُمٰت فِی بَحْرٍ لُجِّیِّ یّغْشٰہُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِہِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا اَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاها﴾(النور:۴۰)

ترجمہ: یا جیسے ان اندھـیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو’ پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اپر تلے پے در پے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو قریب ہے کہ اسے بھی نہ دیکھ سکے۔

            سنی تو اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام قبول کر لیا۔ وہ سمندر کے مناظر سے خوب آگاہ تھا ۔ اس آیت میں سمندر کا وہ منظر بیان کیا گیا ہے جب بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہو۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی بحری سفر نہیں کیا ۔ اس لئے ایسی منظر کشی صرف اللہ ہی کر سکتا ہے اور یہ لا محالہ کلام الٰہی ہے۔

۶۔ بقات و ثبات/ محفوظ کتاب

            قرآن کریم کا ایک اعجازی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اپنے نزول کے وقت سے لے کر اب تک محفوظ چلی آ رہی ہے۔ اس لئے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

            ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾(الحجر:9)

            بلا شبہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

            چونکہ اس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے اس لئے یہ اپنے نزول کے وقت سے لے کر اب تک بالکل محفوظ و مصون ہے۔ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ایسا بندوبست کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے تحریف یعنی رد و بدل سے محفوظ ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس میں ایک شوشہ ’ اور زیر و زبر کی بھی تحریف نہیں ہوئی ۔ یہ اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ دنیا میں موجود ہے اور قیامت تک رہے گا۔قرآن مجیدایک زندہ معجزہ ہے ’ اس کے مقابلے میں دوسری آسمانی کتابوں میں بڑا رد و بدل ہو چکا ہے اور وہ بھی ان کے علماء نے بدست خود کئے ہیں۔

 ۷۔ لذت تکرار

            قرآن مجید میں بہت سے بنیادی مضامین میں تکرار پائی جاتی ہے۔ تکرار سے عام طور پر قاری اکتا جاتا ہے۔اچھی اور دلچسپ کتابیں بھی ایک دو بار پڑھنے کے بعد پھر سے اس کو پڑھنے کو دل نہیں کرتالیکن قرآن مجید کا معاملہ مختلف ہے یہ کتاب جتنی بار پڑھی جائے ہر بار نئی لذت و فرحت حاصل ہوتی ہے۔قرآن مجید کی اس تکرار میں ایک عجیب کیفیت اور اثر پایا جاتا ہے۔ کچھ بنیادی باتیں بار بار کہی گئی ہیں لیکن ہر بار نئے الفاظ ’ نئے اسلوب اورنئی آن بان پائی جاتی ہے جس سے اکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ ایک نہایت خوشگوار طریقے سے دل میں بیٹھ جاتی ہیں’اور انسان کا من کرتا ہے کہ اس کو بار بار پڑھے اور سنے۔ یہ ایک معجزاتی پہلو ہے کہ کثرت تکرار سے اکتاہٹ کی بجائے فرحت محسوس ہو۔

۸۔ نظم و تالیف

            قرآن مجید نظم و تالیف میں بھی یکتا و یگانا ہے اور اس کا یہ انداز نہ تو اشعار کے مشابہ ہے اور نہ ہی نثر کے بلکہ اس کا اسلوب و انداز سب سے منفرد اور نرالہ ہے۔ جہاں ہرحکم و احکام اور بات کو برمحل اور موقع کی مناسبت سے کہی گئی ہے وہیں ماقبل آیت اور سورتوں کے ساتھ باہمی ربط اور تعلق بھی انسانی عقل کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

۹۔ سہولت حفظ

            قرآن مجید کا ایک اعجاز یہ ہے کہ یہ کتاب زبانی یاد کرنے اوریاد رکھنے میں بھی آسانی ہے۔یہ نہ صرف اوراق میں محفوظ ہے بلکہ دلوں اور سینوں میں بھی محفوظ ہے۔ ایک چھ’ سات سال کے بچے سے لے کر ساٹھ’ ستر سال کے آدمی تک اس کو با آسانی حفظ کر سکتا ہے۔ اسی طرح اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جلد یاد ہو جاتا ہے۔تاریخ بہت سی شخصیات کا ذکر ملتا جنہوں نے ایک ماہ میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جودنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے ہزاروں بچے لفظ بلفظ یاد کر لیتے ہیں اور یاد رکھ بھی لیتے ہیں ورنہ چھوٹی سی چھوٹی کتاب کو بھی اس طرح یاد کر لینا اور اسے اس طرح یاد رکھنا نہایت مشکل ہے جس طرح قرآن مجید کو یاد رکھا جاتا ہے۔

۱۰۔ آسان اور عام فہم معانی و مطالب

            قرآن مجید کا اسلوب بیان اتنا سادہ اور عام فہم ہے کہ کوئی بھی شخص اس کو سمجھنا چاہے تو وہ بہت با آسانی قرآن کے مفاہیم کو سمجھ سکتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے اس کی آسانی اور تییسیر کا یوں ذکر کیا ہے۔

            ﴿وَ لَقَدْ یَسَّرْناَ الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَهلْ مِنْ مُّدَّکِّرٍ﴾(القمر:۱۷)

            اور بیشک ہم نے قرآن کو سمجھنے والوں کے لئے آسان کر دیا ہے پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟

            مطلب یہ ہے کہ‘‘ اس کے مطالب و معانی کو سمجھنا ’ اس سے عبرت حاصل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا ہم نے آسان کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ قرآن کریم اعجاز و بلاغت کے اعتبار سے نہایت اونچے درجے کی کتاب ہونے کے باوجود کوئی شخص تھوڑی سی توجہ دے تو وہ عربی گرامر اورمعانی و بلاغت کی کتابیں پڑھے بغیر بھی اسے آسانی سے سمجھ لیتا ہے’ اسی طرح یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو لفظ بلفظ یاد کر لی جاتی ہے ورنہ چھوٹی سی چھوٹی کتاب کو بھی اس طرح یاد کر لینا اور اسے یاد رکھنا نہایت مشکل ہے۔ اور انسان اگر اپنے قلب و ذہن کے دریچے وا رکھ کر اسے عبرت کی آنکھوں سے پڑھے’ نصیحت کے کانوں سے سنے اور سمجھنے والے دن سے اس پر غور کرے تو دنیا و آـخرت کی سعادت کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور یہ اس کے قلب و دماغ کی گہرائیوں میں اتر کر کفر و معصیت کی تمام آلودگیوں کو صاف کر دیتی ہے۔’’(تفسیر احسن البیان متعلقہ آیت نمبر ۱۷ سورہ القمر)

۱۱۔ انقلاب آفرینی

            قرآن کریم ایک انقلاب آفرین کتاب ہے جس نے اس کو سمجھ کر پڑھا اور اس پر عمل کیا ان کی زندگی ہی بدل گئی۔یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار ’ اخلاق ’ تہذیب اور معاشرتی زندگی پر اتنی وسعت ’ اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا جس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔پہلے اس نے ایک قوم کو بدلا اور پھر قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں انقلاب برپا کر دیا۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اس نے جاہل اور وحشی عربوں کی اخلاقی اورعملی کایا پلٹ کر کے ان کو تہذیب و انسانیت کے اعلی مدارج تک پہنچا دیا۔ جن کو لوگ غیر مہذب سمجھتے تھے وہ اس قرآن کی بدولت تہذیب کے امام و پیشوا بن گئے’ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے چرواہے اس قرآن کی بدولت قیصر و کسری کے ایوانوں کے مالک بن گئے۔قرآن مجید کے اسی اعجازی پہلو کے متعلق ارشاد نبوی ہے۔

            ان اللہ یرفع بهذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین.(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا باب فضل من یقوم بالقرآن و یعلمہ )

            یعنی اللہ تعالی اس کتاب کی بدولت بعض اقوام کو رفعت و بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں کو اس کی وجہ سے ذلت ورسوائی میں ڈالتا ہے۔

            قرآن کریم کے اس اعجازی پہلو کا ساری دنیا اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس کتاب ہدی نے کس طرح ایک وحشی قوم کو دنیا کی مہذب ترین قوم بنا دیا اور ساری دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔

            اس حدیث کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس نے اس قرآن کریم کو چھوڑ دیا وہ زمانے میں ذلیل اور رسوا ہوں گے۔تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح عرب کے گڈریوں نے روم اور فارس کے تخت کو تاراج کیا اور وہاں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا اور جو اس زمانے میں بڑے معزز شمار کئے جاتے تھے وہ ذلیل و خوار ہوئے ’ شاہ فارس یزد گرد کس طرح در بدر ہوتے رہے۔ اسی طرح اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس کوماننے کا دعوی کرتے ہیں اور پھر اس پر صحیح طرح عمل پیرا نہیں ہوتے وہ بھی زمانہ بھر میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اس کی مثال ہماری آج کی مسلم دنیا ہے کہ دعوی تو بہت کرتے ہیں کہ ہم قرآن کو اپنا سب کچھ مانتے ہیں مگر عمل کے موقع پر اس کو چھوڑ کر اپنی من مانیاں کرتے ہیں اسی لئے اقبال نے کہا تھا۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان قرآن ہو کر       اورتم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

۱۲۔ فنی محاسن

            عصر حاضر میں قرآن کے فنی محاسن و جمال کو بھی اس کے وجوہ اعجاز میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ علامہ سیوطی نے قرآن کے بلاغی پہلوؤں کو متقدمین کی کتب سے اخذ کر کے یکجا کر یا ہے۔ چنانچہ سیوطی نے قرآن کے تشبیہ’ استعارہ’ کنایہ و تعریض’ حقیقت و مجاز’ تخصیص’ ایجاز و اطناب’ خبر و انشاء ’ جدل و مناظرہ اور امثال و اقسام سب مباحث پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

۱۳۔ عدم اختلاف

            قرآن کریم ایک ضخیم و مفصل کتاب ہونے کے باوجود اس کے بیانات ’ مضامین میں اختلاف نہ پایا جانا اور اسی طرح اس کے تمام بیانات کا حالات و اقعات کے ساتھ مطابقت رکھنا اور کسی ایک بیان میں بھی عدم مطابقت کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے۔ کلام الٰہی کی یہ خوبی بھی اس کا ایک اعجازی پہلو ہے۔

            اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض و تناقض ہوتا۔ قرآن مجید میں ایک ہی واقعہ کو کئی مقامات پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے مگر کہیں بھی تناقض اور تضاد نہیں پایا جاتا اور اسی طرح مختلف علوم بھی بیان ہوئے ہیں خصوصا بہت سے سائنسی معلومات بھی پائے جاتے ہیں عصر حاضر میں جن لوگوں نے قرآنے کے فراہم کردہ معلومات کو سائنسی فارمولے کی بنیاد پر جانچا انہوں نے ان کے درمیان تطابق کے سوا کچھ نہ پایا اسی لئے وہ ورطہ حیرت میں ہیں۔قرآن کریم کے نہ اپنے بیانات میں اختلاف ہے اور نہ ہی پیش آنے والے واقعات سے اس کے بیانات مختلف ہیں اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن میں اسی چیز کو مد نظر رکھ بھی اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:

            ﴿اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا﴾(النساء:۸۲)

            کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینااس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

            صاحب احسن البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ‘‘اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا جیساکہ کفار کا خیال ہے تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض و تناقض ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے’ ایک ضخیم اور مفصل کتاب ہے’ جس کا ہر حصہ اعجاز و بلاغت میں ممتاز ہے۔حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت و بلاغت قائم نہیں رہتی۔ دوسرے اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں جنہیں اللہ علام الغیوب کے سوا کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ تیسرے ان حکایات و قصص میں نہ باہمی تعارض و تضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی اصل سے ٹکرا تا ہے’ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض و تضاد واقع ہو جاتا ہے۔قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبرا ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقینا کلام الٰہی ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ناز فرمایا ہے۔’’(احسن البیان متعلقہ آیت ۸۲ سورۃ النساء)


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)