اسلامی قانون و فقہ :تعارف ، اهميت و تاريخ
(INTRODUCTION TO ISLAMIC
LAW AND JURISPRUDENCE)
فقہ کے لغوی معنی:
فقہ کے لغوی
معنی ’ سمجھ بوجھ’ بصیرت’ فہم و فراست’ تدبر اور جاننا کے ہیں۔
فقہ کے اصطلاحی مفہوم:
۱۔ ایسے شرعی احکام کا علم جو اس
کے تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہوں۔
۲۔ شریعت کے ان احکام کا علم جو
عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں جو شریعت کے تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہوں۔
یعنی فقہ
انسان کی اس علمی بصیرت و مہارت کا نام ہے جس کے ذریعے وہ شریعت کے احکام کو اس کے
دلائل کے ساتھ جان لیتا ہے۔یعنی ایسا فن جس میں شرعی احکام اور ان کے متعلقات سے
بحث کی جاتی ہے۔
فقیہ:
وہ عالم جو
تدبر اور فکر کے ذریعے احکام کے حقائق کا پتہ چلائے اور مشکل و خفیہ حقائق کو واضح
کرے۔
اسلامی قانون و فقہ کی اہمیت و ضرورت:
فطری ضرورت:
انسان چونکہ
مدنی الطبع ہے اور مل جل کر زندگی بسر کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔اور جب بہت
سے افراد کسی خاص مقصد کے تحت مل جل کر رہتے ہیں تو معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اور
معاشرے میں مختلف طبیعتوں ’ مختلف مزاجوں’ اور مختلف صلاحیتوں کے افراد کا ہونا
لازمی امرہے۔ان مختلف طبائع کی بنا پر آپس میں اختلافات و تنازعات پیدا ہونا بھی ایک
لازمی امر ہے اور معاشرے سے ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے عدل و انصاف کے قیام
کے لئے قاعدوں ’ قوانین اور ضابطوں کا ہونا فطری ضرورت ہے تا کہ افراد معاشرہ کے
درمیان ان اصولوں اور قواعد کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور معاشرے کے ہر فرد کو اس
کا حق ملے اورمعاشرہ پرسکون رہے۔
آداب زندگی سے آشنائی:
اسلامی قانون
اور فقہ انسان کو زندگی گزارنے کے آداب اور قوانین سکھاتاہے۔کہ انسان نے زندگی کیسے
گزارنی ہے’ شریعت اسلامی کے مطابق ہمیں معاملات زندگی اور آداب زندگی کو کیسے بجا
لانا ہے’ یہ ایسے امور ہیں جو اسلامی فقہ کے دائرہ میں آتا ہے اور انسان کو ان
اصولوں اور ضوابط سے آشنا کراتا ہے جو انسان کے لئے ضروری ہے۔
عبادات کی تفصیل:
عبادات الٰہی
کس انجام دینا ہے اور قرآن و حدیث میں جو اجمال آیا ہے ان کی تفصیل کیا ہے یہ سب
علم فقہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل خواہ
ان کا تعلق انسان کی ذاتی زندگی سے ہو ’ انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے’
سیاسی معاملات ہوں یا معاشی اور معاشرتی معاملات’ ہر معاملہ میں پوری طرح رہنمائی
ہمیں فقہ اسلامی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
حقوق سے آگاہی:
اسلامی فقہ کی
ایک اہم ضرورت یہ بھی کہ اس کے ذریعے ہمیں حقوق اللہ مثلا نماز ’ زکوٰۃ ’ روزہ اور
حج ’ اور حقوق العباد مثلا رشتوں کا احترام اور ان کے حقوق’ اکام وراثت’ طلاق ’
نکاح کے مسائل ’ لین دین اور تجارت وغیرہ کے تمام معاملات کو جاننے کے لئے اسلامی
فقہ کی بہت ضرورت ہے۔
جدید دور کے مسائل کا حل:
حالات بدلنے
کے ساتھ بے شمار نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔ ان مسائل کا اسلامی حل تلاش کرنے اور
اسلامی احکام کو ان پر محیط کرنے کے لئے اسلامی شریعت میں ‘‘اجتہاد’’ کی اجازت دی
گئی ہے’ تاکہ معاشرہ رواں دواں رہے۔ ہر دور اور ہر خطے کے مسائل مختلف ہوتے ہیں اسی
لئے اسلام نے انسانی عقل و فکر پر پابندی عائد نہیں کی بلکہ قرآن و سنت کے دائرے میں
رہتے ہوئے ان احکام کی روشنی میں مزید رہنمائی حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے
تاکہ معاشرے میں جمود طاری نہ ہو اور پیش آنے والے جدید مسائل سے مسلمان اچھی طرح
نمٹ لے۔
علم فقہ کے مشمولات:
علم فقہ میں
بنیادی طور پر دو امور سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔ پہلے عقائد پر بھی بات ہوتی تھی’
بعد ازاں عقائد کو الگ علم کا درجہ دیا گیا اب علم فقہ میں عبادات اور معاملات سے
متعلق بحث کی جاتی ہے۔معاملات کی مزید تین شاخیں بنتی ہیں۔
۱۔ عبادات: اس میں نماز’ روزہ’
زکوٰۃ ’ حج وغیرہ کے مسائل و احکامات کے متعلق بحث کی جاتی ہے۔
۲۔ معاملات: معاملات ميں درج ذيل اقسام معاملات كے بارے ميں
بحث كي جاتي هے۔
الف) مالیاتی معاملات: اس میں خرید و فروخت’ لین
دین’ تجارت کے مسائل و احکام سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔
ب) عائلی قوانین: اس میں نکاح ’ طلاق’ خلع’
وراثت’ وصیت وغیرہ احکام سے متعلق بحث ہوتی ہے۔
ج) معاشرتی معاملات: اس میں لوگوں کے ساتھ میل
جول’ لباس’ خوراک’ رہن سہن وغیرہ سے متعلق احکام بیان کئے جاتے ہیں۔
اسلامی فقہ کی مختصر تاریخ
اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات اور دستور العمل ’ اور آفاقی دین ہے اس لئے اس میں ہر دور میں پیش
آنے والے مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ انسانی ضروریات کے مطابق ان کا
مناسب حل بھی مہیا کیا گیا ہے۔
قرآن کریم کا
طریق نزول اسلام کے مزاج کی واضح نمائندگی کرتا ہے جیسے جیسے معاشرے میں مسائل پیش
آتے گئے اللہ تعالی کی طرف سے وحی کی صورت میں ان کے حل کے لئے ہدایات اور رہنمائی
بھی نازل ہوتی رہی۔تاریخی اعتبار سے اسلامی قانون سازی کو چھ مختلف ادورا میں تقسیم
کیا جاتا ہے۔
پہلا دور: عہد رسالت از بعثت نبوی تا وفات
النبی ﷺ یعنی 11 ھ
اسلام کی آمد
سے قبل عرب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے ’ وہاں لا قانونیت کا راج تھا’
بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ‘‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس ’’ والی صورت حال تھی۔اسلام
نے آکر عربوں میں موجود بہت سی برائیوں کو ختم کردیا ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ
اسلام نے ان کو قانون کا پابند بنایا اور انہیں شریعت اسلامی کے تابع کر دیا۔
صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے براہ راست شاگرد تھے اور جو کچھ آپ کرتے یا فرماتے اس
کے مطابق عمل کرتے اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آتی تو آپ ﷺ سے دریافت کرتے اور مسئلہ
حل ہو جاتا ۔ آپ ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام کو اجتہاد وغیرہ کی ضرورت پیش نہ آتی۔
عہد رسالت میں اجتہاد:
آپ کی موجودگی
میں چونکہ مسئلہ کا حل آپ سے دریافت کر کے کیا جاتا تھا اس لئے صحابہ کرام کو
اجتہاد کی ضرورت نہ پڑی ہاں البتہ آپ ﷺ سے دور ہونے یا آپ کی عدم موجودگی میں
صحابہ کرام کو جہاں اجتہاد سے کام لینا پڑا انہوں نے اجتہاد بھی کیا ’ لیکن بعد میں
جب آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا جاتا تو بعض موقعوں پر آپ خاموشی اختیار کرتے اور
بعض دفعہ اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کرتے اور اجتہاد میں غلطی کی صورت میں آپ ان
کی تصحیح بھی فرماتے۔ مثلا غزوہ خندق کے موقع پر صحابہ کرام کو بنی قریظہ میں جا
کر نماز عصر ادا کرنے کا حکم دیا۔ ایک گروہ نے نماز فوت ہو جانے کے ڈر سے راستے میں
ادا کر لی اور ایک گروہ نے آپ کے حکم کے مطابق بنو قریظہ میں پہنچ کر نماز عصر پڑھی۔
جب اس بات کا آپ کو پتہ چلا تو آپ نے خاموشی اختیار کی۔
دوسرادور: عہد خلافت راشدہ يعني 11 ھ تا
40 ھ
خلافت راشدہ
کا دور اسلام کا سنہری دور کہلاتا ہے۔اس دور میں فتوحات کی کثرت سے اسلامی سلطنت
کا دائرہ نہایت وسیع ہوگیا ۔ بہت سے اقوام اسلام میں داخل ہوئیں جن کی وجہ سے نئے
نئے مسائل پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے وفات کے بعدمسائل کے حل کے لئے صحابہ کرام کا اصل ذریعہ
قرآن اور سنت تھا۔
رسول کریم ﷺ
کی وفات کے بعد عہد صحابہ میں قرآن و حدیث کو بنیاد بنا کر مسائل کے حل کے لئے راہ
تلاش کی جاتی تھی۔جیسے حالات اورمسائل سامنے آتے صحابہ کرام ان مسائل کا حل قرآن و
حدیث کی روشنی میں حل کرتے’ پہلے کتاب اللہ میں دیکھتے اگر کتاب اللہ میں اس کا حل
نہ ہوتا تو سنت رسول اللہ میں تلاش کرتے اگر اس میں بھی نہ ملتا تو قرآن و حدیث کی
روشنی میں اجتہاد کرکے اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔اس طرح عمل کو بعد میں بھی اختیار
کیا گیا اوراسی بنیاد پر فقہ کی عمارت کو استوار کیا گیا۔
اجتہادعہد صحابہ میں:
اجتہاد کا
مطلب ہے جد و جہد اور کوشش کرنا۔شرعی اصطلاح میں اس سے مراد احکام شریعت کو شرعی
دلائل یعنی قرآن و حدیث سے اخذ و استنباط کرنے کی کوشش اور جد و جہد کرنے کو
اجتہاد کہا جاتا ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں
(۱) احکام
کے ظاہر سے کوئی حکم اخذ کرنا جب کہ محل حکم ان احکام کے مطابق ہو۔
(۲) احکام
کے مفہوم سے کوئی حکم اخذ کرنا جب کہ احکام کی علت موجود ہو جو اس کي صراحت کرے یا
اس سے مستنبط ہواور کسی واقعہ میں وہ علت پائی جائے اور حکم اس کو شامل نہ ہو اور
اسی کو ‘‘قیاس’’ کہا جاتا ہے۔
تیسرا دور: صغار صحابہ اور ان سے استفادہ کرنے
والے تابعین کے عہد میں فقہ
(عہد بنو امیہ 41ھ تا 131ھ)
یہ دور معاویہ
بن ابی سفیان ؓ کی حکومت کے زمانہ میں یعنی 41ھ سے اس وقت تک کا ہے جبکہ دولت عربیہ
میں قرن ثانی کی ابتداء میں کمزوری کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے۔ جمہور اسلام اس بات
پر متفق ہیں کہ یہ دور حضرت معاویہؓ سے شروع ہوتاہے ایسی لئے سال 41 ھ کو ‘‘عام الجماعۃ’’
یعنی اتحاد کا سال کہا جاتا ہے۔
اس عرصے میں
علماء اسلام اسلامی شہروں میں پھیل گئے اس لئے کہ صحابہ کرام مدینہ منورہ سے دوسرے
شہروں میں سکونت کے لئے منتقل ہو گئے جن میں بعض معلم تھے بعض قاری ۔ جب یہ لوگ
نئے شہروں میں آباد ہوگئے تو ان سے استفادہ کرنے والے بہت سے شاگرد پیدا ہوگئے اس
طرح بڑے بڑے تابعین کی ایک جماعت پیدا ہوئی جو فتوی دینے میں ان کے ساتھ شریک ہوئے
۔
تابعین وہ
لوگ ہیں جنہوں نے براہ راست صحابہ کرام سے تربیت حاص کی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن
عباس نے مکہ میں ’ حضرت عبد اللہ بن عمر نے مدینہ میں’ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود
نے کوفہ میں وسیع پیمانے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کی بدولت تابعین
کی ایک بڑی جماعت نے ان اصحاب رسول سے کسب فیض کیا اور عرب کے کونے کونے تک پھیل
گئے۔
صحابہ کرام کی
وفات کے بعد ان کے قائم کردہ تمام مدارس کی ذمہ داری ان کے اخلاف تابعین نے سنبھال
لی۔ اس مختلف علاقوں میں مختلف اصحاب علم و فضل نے مسند تدریس سنبھالا اور ایک
جہاں کو اپنے نور علم سے منورکیا ۔ اس زمانے میں مختلف علاقوں میں جو اصحاب فتوی و
اجتہاد میں مشہور ہوئے وہ درج ذیل ہیں۔
مفتیان مدینہ منوره:
(۱) ام
المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا:
حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی صاحبزادی اور رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔آپ
علم و فضل میں بہت ہی اعلی تھیں۔ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ تمام
لوگوں سے زیادہ فقیہ تھیں اور عام مسائل میں ان کی رائے سب سے بہتر تھی۔ حضرت عروہ
نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ سے بڑھ کر عالم فقہ اور شعر میں کسی کو نہیں پایا۔
رسول کریم ﷺ سے آپ نے بکثرت روایت کی ہے۔آپ کی روایات میں زیادہ تر ان باتوں پر کیا
جاتا ہے جو رسول اللہ ﷺ خانہ مبارک میں انجام دیا کرتے تھے’ اس کے باوجود فقہ کے
ہر پہلو پر آپ کی احادیث موجود ہیں اور فقہاء صحابہ آپ کی طرف رجوع کیا کرتے
تھے۔آپ کا انتفال 57ھ میں ہوا۔
(۲) حضرت
عبد اللہ بن عمر ؓ :
حضرت عبد
اللہ بن عمر ؓ نے اپنے والد کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا جبکہ آپ چھوٹے تھے اور سن
بلوغت کو بھی نہ پہنچے تھے۔آپ بہت ہی پارسا اور نیک تھے۔ دنیا سے ان کو کوئی رغبت
نہیں تھی۔ آپ نے اپنے والد حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام سے بھی روایت کی ہے۔اور
ان سے اکثر تابعین نے روایت اخذ کی ہے جن میں سب سے زیادہ ان سے روایت کرنے والے
ان کے صاحبزادے سالم بن عبداللہ اور ان کے آزاد کردہ غلام نافع تھے۔شعبی کہتے ہیں
کہ ابن عمر حدیث میں بھی جید تھے اور فقہ میں بھی جید تھے۔ آپ کا انتقال 73ھ میں
ہوا۔
۳۔
حضرت سعید بن مسیب مخزومی:
حضرت عمر کی
وفات کے دو سال بعد آپ پیدا ہوئے’ جلیل القدر صحابہ سے حدیث سنی ’ نہایت وسیع
العلم’ حق گو فقیہ تھے۔94ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔
۴۔
عروہ بن زبیر بن عوام الاسدی:
حضرت عثمان
کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے اور کثر صحابہ کرام سے حدیث روایت کی۔ اپنی خالہ حضرت
عائشہ ؓ سے فقہ کا علم حاصل کیا۔ سیرت کے عالم’ حافظ الحدیث تھے۔94ھ میں آپ کا
انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت علی بن حسین بن بن علی الہاشمی:
علی بن حسین
الہاشمی ’ امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت حسین ؓ’
’اپنے تایا حضرت حسنؓ ’ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت
کی ہے۔امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسین ؓ سے زیاد فقیہ کسی کو نہیں پایا۔
آپ نے 94ھ میں وفات پائی۔
۵۔
سالم بن عبد اللہ بن عمر ؓ:
سالم نے اپنے
والد ’ اور حضرت عائشہ ؓ ’ حضرت ابو ہریرہؓ’ حضرت سعید بن مسیب وغیرہم سے حدیثیں
سنیں۔امام مالک فرماتے ہیں کہ زہد و فضل میں سلف صالحین کے مشابہ ان سے زیادہ کوئی
نہیں تھا۔ 106 ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔
۶۔
قاسم بن محمد بن ابی بکر ؓ:
قاسم بن محمد نے اپنی پھوپھی حضرت
عائشہؓ ’ حضرت ابن عباس و ابن عمر وغیرہم سے احادیث سنیں۔ آپ کی پھوپھی نے آپ کی
تربیت کی۔یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ مدینہ میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس کو قاسم
بن محمد پر فوقیت دی جائے۔آپ اپنے زمانے کے بڑے عالم تھے۔ 106ھ میں آپ کا انتقال
ہوا۔
۷۔
محمد بن مسلم المعروف بہ ابن شہاب الزہری:
ابن شہاب کی
50 ھ میں ولادت ہوئی۔ آپ نے عبد اللہ بن عمر’ انس بن مالک’ سعید بن مسیب وغیرہ سے
روایت کی۔لیث بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے کسی عالم کو حضرت زہری سے زیادہ جامع علوم
نہیں پایا۔124ھ میں آپ نے وفات پائی۔
ان کے علاوہ
مدینہ میں ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی’ عبد اللہ بن عبد اللہ بن
مسعود’ سلیمان بن یسار مولی میمونہ’ نافع مولی ابن عمر’ ابو جعفر بن محمد بن علی
بن حسین المعروف بہ الباقر’ ابو الزناد’ یحیی بن سعید انصاری’ ربیعہ بن ابی عبد
الرحمن فروخ بھی فتاوی دینے میں مشہور تھے۔
مفتیان مکہ مكرمه:
۱۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ:
آپ ہجرت سے
دو سال بعد پیدا ہوئے۔ رسول کریم ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی کہ اللہ ان کو دین کی
سمجھ اور تاویل کا علم عطا فرمائے۔ آپ اگرچہ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں مگر علم
میں با کمال تھے اسی لئے آپ کو ‘‘حبر الامۃ’’ کہا جاتا تھا۔تفسیر و فقہ میں اہل
مکہ کے علم کا دار و مدار حضرت عبد اللہ بن عباس پر ہے۔ 68ھ میں آپ نے وفات پائی۔
۲۔
مجاہد بن جبیر:
آپ نے حضرت
سعد’ حضرت عائشہ ’ ’ حضرت ابو ہریرہ’ اور ابن عباس وغیرہم سے حدیثیں سنیں۔ اور
حضرت ابن عباس کے پاس ایک مدت رہے۔قتادہ فرماتے ہیں کہ باقی لوگوں میں تفسیر میں
سب سے زیادہ عالم مجاہد ہیں۔ 103ھ میں آپ نے وفات پائی۔
۳۔
عکرمہ مولی ابن عباس:
آپ نے حضرت
عبد اللہ بن عباس اور حضرت عائشہ صدیقہ ’ ابو ہریرہ رضی اللہ عہنم سے روایت کی اور
ابن عباس سے فقہ کا علم حاصل کیا۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عکرمہ مجھ سے بڑھ کر
عالم ہیں۔ بعض کہتے کہ ان کی رائے خوارج کی رائے کے موافق تھی اسی لئے امام مالک
اور امام مسلم بن حجاج نے ان سے حدیث نہیں لی۔ 107ھ میں آپ نے وفات پائی۔
ان کے علاوہ
مکہ کے مفتیوں میں مشہور مفتی عطاء بن ابی رباح اور حکیم بن حزام بھی ہیں۔
4. عطاء بن ابي رباح:
آپ 27 هجري
بمطابق 647 عيسوي يمن ميں پيدا هوئے، بعد
ميں آپ كا خاندان مكه مكرمه منتقل هو گيا جهاں ان كي پرورش اور تربيت هوئي۔ آپ تابعي،
محدث اور فقيه تھے ۔ آپ كے اساتذه ميں حضرت عبد الله بن عباس رض مشهور هيں۔ عبد
الرحمن اوزاعي اور ايوب سختياني وغيره نے
آپ سے كسب فيض كيا۔ مكه كے نامور متفيوں ميں آپ كا شمار هوتا هے۔ آپ نے مكه ميں114 ھ بمطابق 732ء ميں وفات پائي۔
مفتیان کوفہ: کوفہ
کے مفتیوں میں درج ذیل حضرات مشہور تھے:
علقمہ بن قیس
نخعی’ مسروق بن اجدع’ اسود بن یزید نخعی’ شریح بن حارث کندی’ ابراہیم بن یزید نخعی’
عامر بن شراحیل شعبی’ وغیرہم۔
مفتیان بصرہ: بصرہ
کے مفتیوں میں جو اس عہد میں مشہور ہوئے ان میں۔
حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ’ ابو العالیہ رفیع بن مہران’ حسن بن ابو الحسن مولی زیدبن ثابت’
جابر بن زید ’ محمد بن سیرین اور قتادۃ بن دعامہ الدوسی شامل ہیں۔
مفتیان شام: اس
عہد کے مفتیان شام کے نام درج ذیل ہیں:
عبد الرحمن
بن غنم اشعری’ ابو ادریس خولانی’ قبیصہ بن ذویب’ مکحول بن ابی مسلم’ رجاء بن حیاۃ
کندی’ عمر بن عبد العزیز ’ وغیرہ
مفتیان مصر:
عبد اللہ بن
عمرو بن العاص’ ابو الخیر مرشد بن عبد اللہ مفتی مصر’ یزید بن ابی حبیب’ وغیرہم
مفتیان یمن:
طاؤس بن کیسان
الجندی’ وہب بن منبہ صنعانی’ یحیی بن ابی کثیر’ وغیرہ
چوتھا دور: عہد عباسیہ 132ھ تا 350ھ
اس دور کی
ابتداء دوسری صدی ہجری کے شروع سے بنو امیہ کے خاتمہ سے ہوئی اور چوتھی صدی کے درمیان
میں اس کا اختتام ہوا۔یہ دور فقہ اسلامی اور دیگر اسلامی علوم و فنون کی ترقی و
ترویج کا نہایت اہم دور ہے۔فقہ اور اصول فقہ کے ساتھ حدیث اور اصول حدیث نیز تفسیر
اصول تفسیر وغیرہ کے فن کو کمال حاصل ہوا۔اس دور کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں:
۱۔
جمع و تدوين حديث:
تدوین حدیث
پر باضابطہ کام شروع ہوا اور مختلف محدثین نے حدیثیں جمع کرنی شروع کیں۔اگرچہ یہ
کام عہد رسالت میں ہی شروع ہو چکا تھا مگر اس عرصہ میں اتنا کام نہیں ہوا نیز عہد
صحابہ میں بھی مختلف صحابہ نے اپنے طور پر جمع حدیث پر کام کیا تھا اسی طرح عہد
بنو امیہ میں بھی عمر بن عبد العزیز نے باقاعدہ سرکاری طور پر اس کام کا آغاز کرایا
تھا مگر پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکا۔
۲۔
اصول حديث و فن جرح و تعديل:
تدوین حدیث کے ساتھ اصول حدیث اور
اصول جرح و تعدیل کے فن کی بنیادپڑی’اس فن کے سب سے بڑے امام یحیی بن سعید القطان
(م ۸۹ھ) اسی
عہد کے تھے۔ اسی طرح عبد الرحمن بن مہدی (م ۱۹۸ھ) یحیی بن معین (م ۲۳۰ھ) اور امام احمد بن حنبل (م ۲۴۱ھ) بھی جو اس فن کے اولین معماروں
میں شمار ہوتے ہیں اسی عہد کے تھے۔
۳۔
فن قراءت كو فروغ:
مسائل کے استنباط اوراستخراج و
اجتہاد میں قرآن مجید کی مختلف قرأتوں کا بھی بڑا دخل ہے چنانچہ اسی عہد میں فن
قرأت کو بھی بڑا عروج حاصل ہوا۔
۴۔
فقه و اصول فقه كي تدوين:
اصول فقہ کی باقاعدہ و باضابطہ
تدوین بھی ااسی عہد میں ہوئی۔امام شافعی کا الرسالہ اصول فقہ پر اس عہد کی اہم
کتاب شمار کی جاتی ہے۔
۵۔
فقهي اصطلاحات كي ايجاد:
فقہی اصطلاحات کی ایجاد ہوئی اور
احکام میں فرض’ واجب’ سنت ’ مباح’ مستحب ’ مکروہ اور حرام جیسی اصطلاحات نے رواج
پایا۔عہد تابعین میں عام طور پر ایسے اصطلاحات قائم نہیں ہوئی تھیں بلکہ شریعت میں
جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا لوگ بلا تفریق اس پر عمل کرتے اور جن باتوں
سے منع کیا گیا بلا کسی فرق کے ان سے اجتناب کرتے تھے۔
۶۔اجتهاد
و استنباطات كو فروغ:
پچھلے ادوار کے مقابلے میں اس دور میں اجتہاد
اور استنباط کی کثرت ہوئی اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عباسی حکومت کا علمی ذوق اور
فقہ سے تعلق نیز اس عہد میں پیدا ہونے والے مختلف فرق بھی اس کا سبب ہے۔علمی ذوق ہی
کی وجہ سے خلیفہ منصور اور پھر ہارون رشید نے امام مالک کی مؤطا کوملکی دستور کی حیثیت
دینی چاہی مگر امام مالک نے اس سے منع کیا ۔ اسی طرح ہارون رشید نے ابو یوسف سے
حکومت کے مالیاتی قوانین کے موضوع پر تالیف کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اپنی
مشہور کتاب ‘‘کتاب الخراج’’ تالیف فرمائی۔
دوسرا سبب
عالم اسلام کی وسعت تھی اب مسلمانوں کی حکومت یورپ میں اسپین سے لیکر کرایشیاء میں
مشرق بعید چین تک پھیل چکی تھی۔مختلف تہذیبوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ
اسلام میں داخل ہو رہے تھے ۔ اس لئے ان نومسلموں کی طرف سے بہت سے سوالات اٹھائے
جاتے تھے جن کا تعلق فقہی اجتہادات سے ہوتا چنانچہ اجتہادات کا دائرہ وسیع سے وسیع
تر ہوتا گیا۔
فقهي مذاهب كاآغاز:
چار مشہور
فقہی مذاہب بھی اسی دور میں پیدا ہوئے ۔اب تک قائم ہے اور مسلمانوں ان فرقوں میں
بٹے ہوئے ہیں۔اس عرصے میں
اس دور کے مشہور فقہاء:
امام ابو حنیفہ’
(۸۰ھ ۔ ۱۵۰ھ) امام مالک بن انس (۹۳ھ۔۱۷۹ھ) امام اوزاعی (۸۸ھ۔ ۱۵۷ھ) سفیان ثوری (۹۷ھ۔ ۱۴۱ھ) ’ امام محمد بن ادریس الشافعی
(۱۵۰ھ۔۲۰۴ھ) لیث بن سعد (م ۱۷۵ھ) امام احمد بن حنبل (۱۶۴ھ۔ ۲۴۱ھ)’ داود ظاہری (۲۰۰ھ۔۲۷۰ھ) ابو جعفر محمد بن جریر طبری (۲۲۴ھ۔۳۱۰ھ)
غرض یہ دور
علم فقہ کے لحاظ سے سنہری دور تھا ۔ اسی دور میں بہت سے علمی امور انجام پائے جن
کا تعلق مختلف اسلامی علوم سے تھاخصوصا حدیث’ فقہ ’ تفسیر ’ اصول حدیث ’ اصول فقہ
وغیرہ پر بہت سے کتابیں تالیف ہوئیں لیکن سقوط بغداد جیسے واقعہ نے اس علمی ترقی میں
ایسا خلا پیدا کر دیا جس کی تلافی آج تک نہ ہو سکی۔
پانچواں دور: عہد جمود ’ سقو ط بغداد (۶۵۶ھ )تک
فقہ کی تدوین
کا پانچواں دور چوتھی صدی ہجری کے اوئل سے شروع ہوتا ہے اور ۶۵۶ھ سقوط بغداد پر ختم ہو جاتا
ہے۔جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تھا اور قتل و غارت گری کی
نئی تاریخ رقم کی تھی۔ یہ دور جمود کا دور کہلاتا ہے اس لئے اس عرصہ میں علمی ترقی
رک سی گئی تھی۔ اس دور کی چند خصوصیات یہ ہیں۔
۱۔
اس عہد میں شخصی تقلید کا رواج ہوا اور لوگ تمام احکام میں ایک متعین مجتہد کی تقلید
کرنے لگے۔
۲۔
علمی طور پر انحطاط پذیری نے لوگوں کو تقلید شخصی کی طرف مائل کردیا۔
۳۔
فقہی تعصب اور جنگ و جدل نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ ايك دوسرے پر
مختلف الزامات لگاتے ، گلي محلوں اورچوك چوراهوں ميں مناظره اور مجادله كي محلفيں برپا
رهتيں۔
۴۔
فقہی تعصب میں اپنے امام كے حق ميں اور مخالف امام كي مخالفت ميں مختلف قسم کی
جھوٹی حدیثیں وضع کرنے لگے۔
۵۔
فقہی کتب کی تالیفات شروع ہوگئیں ۔ فقہی اقوال کے ساتھ ان کتابوں کی شروحات کا بھی
آغاز ہوگیا۔
علمی انحطاط
اور جمود کی وجہ سے مسلمان پسماندگی کا شکار ہونے لگے ’ جس کی وجہ سے مسلمان علمی
میدانوں میں مزید جھنڈے گارنے کی صلاحیت سے محروم ہونے لگے ۔
چھٹا دور: دور بیداری