سبعہ احرف/سات لغات/ سات لہجے
قرآن کریم کو
اللہ تعالی نے عربی زبان کے سات لہجوں میں پڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس لئے کہ
امت محمدیہ کے اولین وہ لوگ جن کے عہد میں نزول قرآن ہوا اور جس حالات و ظروف میں
نزول قرآن شرو ع ہوا وہ امت امی یعنی ناخواندہ تھی۔ مطلب یہ کہ ان میں سے اکثر
ایسے لوگ تھے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی
آسانی کے لئے سات مختلف لہجوں میں قرآن پڑھنا روا رکھا ہوا تھا۔صحیحین کی روایت
ہے۔
عن
ابن عباس رضی اللہ عنہما انہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقرأنی جبریل
علی حرف فراجعتہ ’ لم ازل استزیدہ و یزیدنی حتی انتہی الی سبعۃ احرف.
(بخاری و مسلم)
یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا جبرائیل نے مجھے قرآن ایک حرف /لہجہ میں پڑھایا’ میں نے مزید
لہجہ بڑھانے کا مطالبہ کیا اور وہ بڑھاتے رہے یہاں تک کہ حروف (لہجوں) تک پہنچ
گیا۔
حضرت ابی بن
کعب سے بھی اسی قسم کی ایک روایت صحیح مسلم میں مروی ہے جس میں زیادہ تفصیلی بیان
ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ
جبرائیل آئے اور کہا کہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ آپ اپنی امت کو ایک لہجے میں قرآن
پڑھائیں اس پر آپ نے کہا کہ میں اللہ سے مغفرت و معافات چاہتا ہوں میری امت اس کی
طاقت نہیں رکھتی یعنی صرف ایک حرف یا لہجے میں پڑھنا میری امت کے لئے دشوار ہے۔ اس
طرح بڑھاتے گئے اور سات لہجوں تک پہنچ گیا۔
چنانچہ رسول
کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں لوگ مختلف لہجوں میں پڑھتے تھے اور آپ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو مختلف لہجوں میں پڑھاتے بھی تھے ۔ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا یہ واقعہ اس پر شاہد ہے کہ وہ فرماتے ہیں۔
عن
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاستمعت لقرأتہ فاذا ہو یقرأہا علی حروف کثیرۃ لم
یقرأنیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکدت اساورہ فی الصلاۃ . فانتظرتہ حتی سلم’
ثم لببتہ برداۂ فقلت: من اقرأک ہذہ السورۃ ؟ قال: اقرأنیہا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ’ قلت لہ کذبت فواللہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقرأنی ہذہ
السورۃ التی سمعتک تقرأہا’ فانطلقت اقودہا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت:
یا رسول اللہ انی سمعت ہذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرأنیہا و انت اقرأتنی
سورۃ الفرقان. فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارسلہ یا عمر!اقرأ یا ہشام فقرأ
ہذہ القرأۃ التی سمعتہا یقرأہا. فقال ہکذا انزلت. ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اقرأ یا عمر فقرأت القرأۃ التی اقرأنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہکذا انزلت. ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان
ہذا القرآن انزل علی سبعۃ احرف فاقرأوا ما تیسر منہا. (بخاری
ومسلم و ابو داود و الترمذی و غیرہا)
عمر بن خطاب
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم کو رسول اللہ صلی کی حیات میں ہی
سورہ فرقان پڑھتے سنا تو میں نے غور سے سنا تو معلوم ہوا کہ وہ مختلف حروف / طریقے
پر پڑھے ہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھایاتھا۔ ممکن
تھا کہ میں اس کو نماز میں ہی پکڑتا مگر میں نے انتظار کیا جب اس نے سلام پھیرا تو
میں نے اس کو اس کی چادر سے پکڑ لیا اور کہا کہ تجھے یہ سورہ کس نے سکھایا؟ کہا
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ میں نے کہ تو جھوٹ بولتا ہے اللہ
کی قسم مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورہ سکھائی ہے ۔ پھر میں اس
کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا یا رسول اللہ میں نے اس
کو سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا ہے اور یہ اس طریقے پر نہیں پڑھ رہا تھا جس طرح آپ
نے مجھے پڑھایا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر اسے چھوڑ دے۔
ہشام تو پڑھ ’ اس نے اسی طریقے پر پڑھا جس طر ح میں نے سنا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ
اسی طرح اتاری گئی ہے۔پھرفرمایا اے عمر تو پڑھ’ میں نے اسی طرح پڑھا جس طر ح آپ نے
مجھے سکھایا تھا۔ آپ نے فرمایا اسی طرح یہ نازل کی گئی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے پس تمہیں جو آسان
لگے تم اسی میں پڑھو۔
سبعہ احرف سے کیا مرادہے؟
سبعہ احرف کی
تعبیر میں علماء کے مابین اختلاف ہے۔ان میں سے چند بیانات درج ذیل ہیں
۱۔
سات لغات ہیں جن کے معنی ایک ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد عرب کے سات مشہور
قبائل کی زبان ہے۔جن میں درج شامل ہیں۔
(۱) قریش (۲) ہذیل (۳) ثقیف (۴) ہوازن (۵) کنانہ (۶) تمیم (۷) یمن
جبکہ دوسرے
بعض لوگ جن میں ابو حاتم سجستانی وغیرہ شامل ہیں نے سبعہ احرف سے درج ذیل قبائل
عرب کے لہجے مراد لی ہے۔
(۱) قریش (۲) ہذیل (۳) ازد (۴) ہوازن (۵) ربیعہ (۶) تمیم (۷) سعد بن بکر
۲۔
سات قبائل کی زبان جو نزول قرآن کے وقت فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھے۔ اور ان میں
جو کلمہ /لفظ بھی جس قبیلے کی زبان زیادہ فصیح ہو اس قبیلے کے لہجے میں وہ لفظ
پڑھنے کی اجازت ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر لفظ سات لغات میں پڑھا جائے یبلکہ
سات مختلف لغات میں جو لفظ افصح ہے وہ لفظ اسی لغت میں پڑھا جائے۔مثلا بعض الفاظ
قریش کی زبان میں زیادہ فصیح ہیں تو بعض الفاظ ہذیل کی زبان میں’ بعض ہوازن کی’
بعض لغت یمن میں وغیرہ
۳۔
بعض نے سبعہ احرف سے مراد سات طرح کے مضامین لیا ہے۔جس کی تعیین میں اختلاف ہے۔
٭
بعض علما کا کہنا ہے کہ وہ مضامین درج ذیل ہیں
(۱) امر (۲) نہی (۳) وعدہ (۴) وعید (۵) جدل (۶) قصص (۷) امثال (مثالیں)
٭
جبکہ کچھ علما کہتے ہیں اس سے مراد ہیں
(۱) امر (۲) نہی (۳) حلال (۴) حرام (۵) محکم (۶) متشابہ (۷) امثال (مثالیں)
٭
ابن مسعود کہتے ہیں اس سے مراد ہے
(۱) زجر (۲) امر (۳) حلال (۴) حرام (۵) محکم (۶) متشابہ (۷) امثال (مثالیں)
۴۔
بعض کا کہنا ہے کہ سبعہ احرف سے مراد الفاظ و معانی اور جملوں میں پائے جانے والے
فرق ہے ۔ کہیں افراد’ تثنیہ اور جمع کی صورت میں’ اور کہیں صرف و نحو کی صورت میں
’ کہیں تقدیم و تاخیر کی صورت میں اور کہیں ابدال کی صورت میں اور کہیں زیادتی اور
نقصان کی صورت میں اور کہیں لہجوں میں تفخیم و ترقیق اورامالہ کی شکل میں۔
۵۔
بعض علماء کہتے کہ یہاں سبعہ سے محض کثرت بیان کرنا مراد ہے کوئی عدد معین مراد
نہیں ہے۔
سبعہ احرف (سات حروف/لہجوں) میں قرآن نازل ہونے کی حکمت:
۱۔
حفظ و قراءت میں آسانی اور سہولت
۲۔
فطرت لغوی کے ضمن میں ایک معجزہ یہ ہے کہ ایک ہی کتاب ایک ہی مضمون مختلف لہچوں
اور لغات میں پڑھنا جب کہ ان کے معانی کوئی فرق نہ آئے۔
۳۔
معانی کے اعتبار سے مختلف لہجوں میں پڑھنے کی اجازت میں ایک حکمت یہ پنہاں ہے کہ
اگر کوئی مجتہد کسی مسئلہ کے سلسلے میں الفاظ کے معانی کو مد نظر رکھ کر اجتہاد
کرنا چاہے تو اس کے لئے آسانی ہوتی ہے۔
۴۔
قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس کے تلفط اور لہجے کی پابندی کرنا غیر
عربوں کے لئے قدر مشکل ہے ۔ اس فرمان نبوی کے ذریعے ان کے لئے آسانی پیدا کی گئی
ہے کہ اگر تلاوت میں کوئی معمولی فرق پڑجائے تو مضائقہ نہیں۔