حدیث و سنت مفهوم واقسام

0

 


تعارف حدیث و سنت

تحریر:ابراہیم عبد اللہ یوگوی

حدیث کے لغوی مفہوم:

            لغوی طور پر حدیث درج ذیل معانی میں مستعمل ہے۔

(۱) بات چیت ’ گفتگو ’ کلام ’ واقعہ یا قصہ کے مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔مثلا قرآن کریم میں ہے

            فبأی حديث بعده يؤمنون۔ (المرسلات:50)

یعنی وہ اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے۔

            اس آیت کریمہ میں کلام الٰہی کو ‘‘حدیث’’ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرماتے۔

            عن جابربن عبد الله  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في خطبته بعد التشهد فان احسن الحديث كتاب الله...۔ (مسند احمدحديث نمبر 14431)

 حضرت جابر بن عبد الله سے روايت هے كه رسول الله صلي الله عليه وسلم اپنے خطبه ميں شهادت كے بعد كها كرتے تھے،بلا شبه  سب سے بہترین کلام کتاب اللہ ہے۔

            اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے:

 و هل اتاك حديث موسى. (طہ:۹)

 یعنی اور کیا تمہارے پاس موسی کی خبر آئی؟

            اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام کو بھی حدیث کہا جاتا ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے خود فرمایا۔  بخاری شریف میں ہے۔

            عن ابی هریرة رضی اللہ عنہ انہ قال قلت یا رسول اللہ من اسعد الناس بشفاعتك یوم القیامۃ؟ فقال: لقد ظننت یا اباهریرۃ ان لا یسألنی عن هذا الحدیث احد اول منك’ لما رأیت من حرصك علی الحدیث ’ اسعد الناس بشفاعتی یوم القیامۃ من قال لا الہ الا اللہ خالصا من قبل نفسہ۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ و النار حدیث نمبر 6570۔ و کتاب العلم باب الحرص علی الحدیث)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا کہ میں نے کہا یا سول اللہ قیامت کے دن آپ کی شفاعت کے لحاظ سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوش نصیب کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ میرا اندازہ تھا کہ اس بات کے بارے میں کوئی بھی تم سے پہلے مجھ سے سوال نہیں کرے گا کیونکہ میں حدیث کے بارے میں تمہارا شوق دیکھتا ہوں۔میری شفاعت کے لحاظ سے قیامت کے دن سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہوگا جو خلوص دل سے لا الہ الا اللہ کہے گا۔

(۲) نئی چیز اورنئی بات کو بھی حدیث کہتے ہیں۔اس لحاظ سے حدیث قدیم کی ضد ہے۔اسی لئے دین میں نئی ایجاد کی جانے والی چیز یعنی بدعت حدث کہتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد نبوی ہے :

             من احدث حدثا فعلیہ لعنۃ اللہ و الملائکۃ و الناس اجمعین۔ (صحیح بخاری باب حرم المدینہ حدیث نمبر 1867)

            جو کوئی وہاں کسی بدعت کا ارتکاب کرے گا یا ظلم کرے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں دین میں نئی چیز ایجاد کرنے کو حدث قرار دیتے ہوئے فرمایا:

            من احدث فی امرنا هذا ما لیس منہ فهو رد۔ (صحیح بخاری کتاب الصلح باب اذا اصلحواعلی جور حدیث نمبر 2697)

            جو شخص ہمارے اس دین کے معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو وہ مردود یعنی قابل مسترد ہے۔

حدیث کا اصطلاحی مفہوم:

            اصطلاح میں علم حدیث سے مراد وہ علم ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال’ افعال اوراحوال و تقریرات بیان کئے گئے ہوں۔

            حدیث کی ایک تعریف یوں کی جاتی ہے:

            ما اضيف الى النبي صلى الله عليه و آله من قول او فعل او تقرير او وصف خلقي او خلقي۔(علامہ کرمانی)

            ہر وہ بات جو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کیا جائے خواہ وہ قول ہو یا فعل ہو یا تقریر(سکوت) ہو یا جسمانی یا اخلاقی وصف ہو۔

اقسام حدیث:

            حدیث کی تین قسمیں ہیں:

(  ۱)   حدیث قولی: وہ حدیث ہے جس میں رسول کریم ﷺ کا کوئی قول بیان کیا جائے جیسے حدیث ہے : صلوا كما رأيتموني اصلي(بخاری  كتاب الاذان باب الاذان للمسافر حديث نمبر 631))

تم اس طرح نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو۔

(۲) حدیث فعلی: وہ حدیث ہے جس میں رسول کریم ﷺ کی کا کوئی فعل یعنی عمل بیان کیا جائے۔ مثلا آپ کے نماز پڑھنے کا طریقہ’ وضو کا طریقہ حج کا طریقہ وغیرہ۔

(۳) حدیث تقریري: حدیث تقریری کا مطلب ہے کہ آپ نے اس عمل کو بر قرار رکھا۔ اس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ آپ ﷺ کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو یا کوئی بات کہی گئی ہو اور آپ ﷺ خاموش رہے اس کو منع نہ کرے۔آپ کی خاموشی اورسکوت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کام جائز ہے اگر نا جائز ہوتا تو آپ ﷺ ضرور اس کو منع فرما دیتے۔مثلا آپ کے سامنے انگوروں کا کھانا ’ یا آپ کے سامنے حضرت خالد بن ولید کا ضب کا کھانا وغیرہ۔

            اس اعتبار سے حديث تقريري كي پھر دو قسميں هيں:                   (۱)        تقريري قولي     (۲)   تقريري فعلي

حدیث تقریری کے ارکان:

            حدیث تقریری کے تین ارکان ہیں

            (۱) وہ کسی صحابی کا قول یا فعل ہو۔

            (۲) یہ قول یا فعل نبی کریم ﷺ کے علم میں ہو۔

            (۳) اس قول یا فعل پر نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشاد سے’ یا خاموش رہ کر یا اظہار مسرت کے ساتھ موافقت فرمائی ہو۔

سنت  اوراس کا مفہوم

سنت کا لغوی مفہوم:

            (۱) وہ راستہ جس پر چلا جائے خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ الطریقۃ المسلوکۃ ۔

            (۲) طریقہ کار’ راہ عمل

            (۳) پختہ اور قطعی عادت

            (۴) امام خطابی کہتے ہیں کہ سنت کے معنی ہیں اچھا راستہ یعنی جب سنت کو مطلقا بولا جائے تو اس سے مراد اچھا راستہ ہے جبکہ دوسرے معنی مراد ہوں تو اس کو مقید کر کے سنت سیئۃ بولا جاتا ہے۔ (ارشاد الفحول)

سنت کا اصطلاحی مفہوم:

            (۱) محدثین کے نزدیک سنت حدیث کا مترادف ہے یعنی جو تعریف حدیث کی ہے وہی تعریف سنت کی ہے۔اسی لئے اس کی تعریف میں کہا جاتا ہے

            ما صدر عن النبي صلى الله عليه  وسلم من قول او فعل او تقرير.

            یعنی نبی کریم ﷺ سے جو قول ’ فعل یا تقریر صادر ہو اسے سنت کہتے ہیں۔

            (۲) اہل فقہ کے نزدیک سنت کا اطلاق ان امور پر کیا جاتا ہے جو واجب نہ ہوں۔

            (۳) سنت بدعت کے مقابلے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

حدیث اور سنت میں فرق:

            ٭       بعض لوگ حدیث اور سنت میں فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اعمال/افعال سنت کو کہتے ہیں اور آپ ﷺ کے اقوال کوحدیث کہتے ہیں۔

يعني جو آپ نے فرمايا هو اس كو وه حديث كهتے هيں جو آپ نے عملا كيا هو اس كو سنت كهتے هيں۔

             مگر یہ بات درست نہیں ہے یہ فن حدیث سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔

            ٭       قول صحیح یہ ہے کہ حدیث اور سنت مترادف ہیں۔ اصول حدیث و فقہ کے علماء کے نزدیک حدیث و سنت کے الفاظ ہم معنی ہیں ۔ رسول کریم ﷺ کے اقوال و افعال دونوں کو سنت کہتے ہیں (منہاج از قاضی بیضاوی )

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)