اصحاب الفیل
ايك عبرت ناك واقعه
تحریر:
ابراہیم عبد اللہ یوگوی
حافظ ابن
کثیر اپنی تفسیر میں محمد بن اسحاق کے حوالے سے لکھتے ہیں اصحاب الاخدود جن کو
عیسائیت قبول کرکے صرف اللہ کی وحدانیت کے قائل ہونے کی وجہ سے سزا کے طور پر جلا
کر قتل کر دیے گئے کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی۔ ان میں سے دوس ذو ثعلبان نامی
صرف ایک آدمی بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ۔ اس نے قیصر روم کے پاس جا کر ملک نجران
میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ سنایا جس کی پاداش میں ہزاروں عیسائیوں کو موت کے
گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور اس نے قیصر سے مدد کرنے کی درخواست کی’ اس لئے کہ قیصر
روم عیسائی تھا اور شاہ یمن نے اہل نجران کو عیسائیت قبول کرنے کی پاداش میں موت
کی نیند سلادیا تھا۔ چنانچہ اس نے دوس ذو ثعلبان سے مدد کرنے کا وعدہ کیا اور اس
وقت یمن کے قریبی ہمسایہ شاہ حبشہ چونکہ عیسائی تھا لہٰذا اس نے اس کو لکھا کہ وہ
ذو ثعلبان کی مدد کرے اور شاہ یمن سے عیسائیوں کے قتل کا انتقام لیا جائے۔ چنانچہ
حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ایک لشکر جرار تیار کیا اور دو آدمیوں کو اس پر امیر بنا
کر ملک یمن پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا ان میں سے ایک کانام اریاط اور دوسرے کا نام
ابرہہ بن صباح تھا۔ اس لشکر جرار نے یمن پر ایسا حملہ کیا کہ اس کو تہس نہس کر کے
رکھ دیا اور قبیلہ حمیر سے بادشاہت اور ملک دونوں چھین لیا۔ حمیر کا آخری فرمانروا
ذو نواس اگرچہ لشکر حبشہ سے جان بچا کر بھاگ نکلا مگر سمندر میں غرق ہوکر مرگیا۔
اس طرح یمن پر حبشہ کا قبضہ ہوگیا اور یہ علاقہ شاہ حبشہ کے زیر نگین آگیا’ اور
عیسائیت کی حکومت شروع ہو گئی۔ اب وہاں شاہ حبشہ کی طرف سے اس کے دونوں امراء
اریاط اور ابرہہ مل کر حکومت کرنے لگے۔ مگر جلد ہی ایک ملک میں دو بادشاہ اور ایک
جنگل میں دو شیرنہیں رہ سکتے کے مصداق ان دونوں کے درمیان بھی اختلاف شروع ہوگیا۔
اور ان کے اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگئے اور باہم جنگ
و جدال کے لئے دونوں اپنی اپنی فوجوں سمیت میدان کارزار میں نکل آئے۔ جب دونوں طرف
کی فوجیں صف باندھے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوگئی تو ان میں سے ایک نے
یہ صلاح دیا کہ ہمیں دونوں طرف کی فوجوں کو لڑانے کی ضرورت نہیں’ ہم دونوں ایک
دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں جو بھی دوسرے کو قتل کرے گا وہ اس ملک کا حکمران بن جائے
گا۔
چنانچہ اس بات پر دونوں راضی ہوگئے اور دونوں کے
درمیان مقابلہ ہوا’ اریاط نے ابرہہ پر ایسا زور دار حملہ کیا کہ اس کے سنبھلنے سے
قبل ہی اس کی ناک اور منہ کاٹ دئیے اور اس کا چہرہ چیر دیا۔ ابرہہ کے غلام عتودہ
نے جب دیکھا کہ اس کا آقا زخمی ہوگیا ہے تو اس نے اریاط پر حملہ کرکے اس کو قتل کر
دیا۔ عربی میں ناک کٹے کو‘‘اشرم ’’ کہتے ہیں چنانچہ بعد میں ابرہہ ‘‘ابرہۃ
الاشرم’’ کے نام سے مشہور ہوگیا۔
ابرہہ زخمی
ہوکر میدان جنگ سے واپس آیا اور علاج و معالجہ کے بعد ٹھیک ہوگیا اور اب وہ حسب
قرار داد یمن میں حبشی فوجوں کا کماندار اور حکمران بن گیا۔
بعض مؤرخین
لکھتے ہیں کہ نجاشی نے نجران کے بادشاہ سے انتقام لینے کے لئے ستر ہزار کا ایک
لشکر تیار کیا اور اپنے ایک جنرل اریاط کی قیادت میں یمن پر حملہ کر نے کے لئے
بھیجا ۔ ذو نواس مارا گیا اور یمن پر حبشہ کی عیسائی حکومت کا قبضہ ہو گیا ۔ نجاشی
کے جنرل اریاط نے بیس برس تک حکومت کی ۔ اریاط کی فوج میں بغاوت ہو گئی جس کی
قیادت ابرہہ کر رہا تھا ۔ ابرہہ نے اپنے غلام کے ہاتھوں اریاط کو قتل کرایا اور
خود یمن کا گورنر بن بیٹھا۔
نجاشی کو جب
اریاط اور ابرہہ کے درمیان ہونے والے ان سارے معاملات کا علم ہوا توسخت غضبناک ہوا
اور ابرہہ کو نہایت سخت سست کہا ملامت کے ساتھ دھمکی بھی دی اور قسم کھائی کہ وہ
خود اس ملک پر حملہ کرکے اس کے دار الحکومت کو روند ڈالے گا اور اس کی پشانی کاٹ
ڈالے گااور اس کا خون بہائے گا۔
ابرہہ نجاشی
کی دھمکی سے سخت گھبرا گیا اور اس کواپنے اوپر ترس کھانے اور رحم کرنے کی درخواست
کے ساتھ اس کی خدمت میں بیش بہا تحائف اور ہدیے بھیجے ’ ساتھ ہی ایک تھیلے میں یمن
کی مٹی بھر ی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر قاصد کے ہاتھ نجاشی کے پاس بھیج دیا
اوراس کو رحم کی التجا کے ساتھ لکھا کہ یمن کی مٹی اس لئے بھیج رہا ہوں کہ آپ میری
خطا معاف کریں اور اس مٹی کے تھیلے پر بیٹھ کر اپنی قسم پوری کریں اس کے ساتھ آپ
کی قسم براری کے واسطے میری پیشانی کے بال بھی ارسال خدمت ہے۔جس طرح اریاط آپ کا
تابع و فرمانبردار تھا اسی طرح یہ غلام بھی ہمیشہ آپ کا تابع و فرمانبرادر رہے گا۔
نجاشی ابرہہ کے رویے ’ تحفے تحائف اور مذکورہ چیزیں دیکھ کرراضی ہوگیا ’ اس کا غصہ
جاتا رہا اور اس کو معاف کر کے اس کے عہدے یعنی یمن کی گورنری پر برقرار رکھا۔ اب
وہ شاہ حبشہ کی طرف سے یمن کے علاقے کا باقاعدہ حکمران تھا اور وہاں کے سیاہ سفید
کا مالک۔ اس نے یمن میں عیسائیت کو فروغ دینے کے کئی اقدامات کئے اور وہاں کے
لوگوں عیسائیت کی طرف راغب کرنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کی۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے
زمانے تک نجران عیسائیوں کا مرکز رہا۔
چونکہ نجاشی
ایک کٹر قسم کا عیسائی تھا اور مذہب سے اس کوبہت زیادہ لگاؤ تھا لہٰذا ابرہہ نے اس
کو خوش کرنے کے لئے صنعا میں بڑے بڑے ستونوں اور کشادہ صحن والا بلند و بالا ایک
عظیم الشان گرجا تعمیر کرایا۔یمن کی بے اندازہ دولت اور بیش بہا زر و جواہر کو اس
پر بے دریغ خرچ کیا۔ یہ قیمتی پتھروں سے بنی ہوئی ایک طویل و عریض عمارت تھی ’ اس
کو عجیب و غریب نقوش سے منقش اور جواہر ریزوں سے مزین کیا گیا تھا۔ہر آنے والا اس
کی خوبصورتی اور جمال سے متاثر ہوتا اور اس پر کی گئی کشید کاری سے حیران رہ جاتا۔
گرجا اتنا اونچا تھا کہ اس کی بلندی دیکھنے والوں کو اپنی ٹوپیاں گرجانے کا اندیشہ
ہو جاتا اس لئے عرب نے اس کا نام ‘‘القلیس’’ (ٹوپی گرانے والی) رکھا۔
گرجا تعمیر
کرنے کے بعد ابرہہ نے عربوں کو حکم دیا کہ وہ خانہ کعبہ کا حج کرنے کی بجائے اس کی
تعمیر کردہ گرجا کا حج کرے۔ ابرہہ کے لئے یہ بات بہت تکلیف دہ تھی کہ کعبہ بندگان
خدا کی پناہ گاہ اور مرکز کی حیثیت سے مرجع خلائق ہو اور لوگ دور دراز مقامات سے
کشاں کشاں ’ کارواں در کارواں وہاں اس کی طرف چلے آئیں ’ اس چور گھر کی زیارت کریں
’ اس کی تعظیم کریں اور وہاں نذرانے اور چڑھاوے چڑھائیں۔ اس کی خواہش تھی یہ رتبہ
بلند تر اور مرکزیت اس کی تعمیر کردہ گرجا ‘‘القلیس’’ کو حاصل ہو۔ دور دراز سے لوگ
اس کی زیارت کو آئیں کعبہ کی بجائے اس کی تعمیر کردہ گرجا کی حرمت و عزت کریں’ اس
کے گرجے کا طواف ہو۔ مگر عربوں کے لئے یہ بات بہت شاق تھی کہ وہ کعبہ کو چھوڑ کر
اور کسی جگہ کو اپنے لئے مرجع و مرکز بنائے۔ کعبہ جو صدیوں سے ان کے لئے جائے امن
و سکون’ مرکز و مرجع تھا جسے ان کے دادا ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ
السلام نے تعمیر کیا تھا۔ لہٰذا وہ کسی گھر ’ معبد اور مذہبی مرکز کو اس کے برابر
نہ سمجھتے تھے۔ اس لئے ابرہہ کے حکم نے ان کے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان
کا ذہن اس کو قبول کرنے لئے ہرگز تیار نہ تھے۔ ہرجگہ یہی موضوع سخن بنا رہا’ ہر
کوئی اس کے بارے میں گفتگو کرتا’ رائے دیتا اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتا۔ بنو
کنانہ کے ایک آدمی سے نہ رہا گیا اسک و ابرہہ کے اس فرمان پر بڑا طیش آیالہٰذا وہ
ایک منصوبے کے تحت صنعا پہنچا اور کسی طرح رات کے وقت اس گرجا میں گھس کر اس کے
قبلہ میں پاخانہ پوت کر اس کو پلید کر دیا۔ اس کے اس عمل میں ابرہہ کے لئے یہ
پیغام تھا کہ عربوں کے نزدیک اس گرجے کی کیا قدر و منزلت ہے اور عرب اس کے حکم سے
کتنے نالاں ہیں۔
صبح جب گرجے
کے خادموں نے دیکھا کہ ان کے معبد کے قبلہ میں رات کسی نے پاخانہ پوت دیا ہے ’ تو
اس معاملہ کو ابرہہ کے سامنے پیش کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ کام کسی قریشی کا ہو
سکتا ہے’ اس نے اپنے کعبہ کے ساتھ اس کی برابری سے غصے میں آکر ایسا کیا ہے۔ کنانی
کے اس عمل سے ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ ابرہہ کو اس بات پر بڑا غصہ آیا اور اس
نے اسی وقت قسم کھائی کہ وہ کعبہ پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دم لے
گا۔
کعبہ پر فوج
کشی کرنے اور اس کو گرانے کے لئے اس نے ساٹھ ہزار فوج کا ایک لشکر جرار تیار کیا ’
ان کو سامان حرب و ضرب سے لیس کیااور کعبہ کو ڈھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے
اپنے لئے ایک بہت بڑا زبردست عظیم الجثہ ہاتھی بھی منتخب کیا اس کا نام ‘‘محمود’’
تھا۔ اس کو شاہ حبشہ نجاشی نے اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا۔ لشکر میں بعض روایات کے
مطابق محمود سمیت کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے۔ بعض مؤرخین کی اس کی تعداد زیادہ بتائی
ہے۔ ابرہہ نے ہاتھیوں کو کعبہ گرانے میں استعمال کرنے کے لئے ساتھ لیا تھا کہ کعبہ
کے ستونوں کو زنجیروں سے باندھ کر ہاتھیوں کی گردنوں میں باندھ کر ہاتھیوں کو ہانک
دیا جائے تاکہ کہ کعبہ کے ستوں ایک ساتھ گریں اور وہ یکدم منہدم ہو جائے ۔
عربوں نے جب سنا کہ ابرہہ ایک لشکر جرار کے ساتھ
کعبہ پر حملہ کرنے اور اس کو منہدم کرنے لئے یمن سے روانہ ہو گیا ہے۔ اس خبر نے
عربوں میں سراسمگی پھیلا دی اور بہت سے قبائل عرب نے اس کو اس فعل شنیع سے روکنا
چاہا ۔چنانچہ یمن کا ایک حاکم ذو نفر نے اپنی قوم کے ساتھ سارے عرب کو دعوت دی کہ
کعبہ کو گرانے اور برباد کرنے سے روکنے کی خاطر ابرہہ سے لڑنے اور جہاد کرنے میں
اس کے ساتھ دیں چنانچہ وہ سب مل کر اس سے لڑے مگر اللہ کا کرنا کہ ان کو شکست
ہوگئی اور ذو نفرکو گرفتار کر لیا گیا چنانچہ ابرہہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔ جب
ابرہہ خثعم کی سرزمین پر پہنچا تو نفیل بن حبیب خثعمی اپنی قوم کے ساتھ اس کو
روکنے کے لئے اس کے مقابلہ پر آیا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ وہ بھی
شکست کھا کر قیدی بن گیا۔ پہلے تو ابرہہ نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اپنا
ارادہ بدل کر اسے اپنے ساتھ لیا تاکہ سرزمین حجاز میں اس کی رہنمائی کر ے۔ جب
ابرہہ طائف کے قریب پہنچا تو اہل طائف بنو ثقیف کو اپنے معبد خانہ ‘‘لات’’ کے بارے
میں فکر لاحق ہوگئی کہیں وہ اس کو بھی تباہ و برباد نہ کردے چنانچہ وہ لوگ اس کے
پاس آئے اور اس کے ساتھ نرمی اور خوشامدی کا برتاؤ کرتے ہوئے ابو رغال نامی شخص کو
اس کے ساتھ بطور رہبر بھیج دیا۔
ابرہہ جب مکہ کے قریب مغمس میں پہنچا تو وہاں
پڑاؤ ڈالا اور اس کے لشکر نے اس کے حکم سے مکہ والوں کے مال مویشیوں اونٹ وغیرہ پر
ہلہ بول دیا لوٹ مچایا اور بہت سارے اونٹ ’ بھیڑ بکری وغیرہ پکڑ کر لے گئے ان میں
سردار مکہ عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھی تھے۔
ابرہہ نے
حناطہ حمیری کو مکہ کی طرف بھیجا کہ وہ وہاں کے کسی بڑے آدمی کو لیکر آئے نیز ان
کو یہ بھی بتائے کہ وہ لوگ اگر انہدام کعبہ کی راہ میں حائل نہ ہوں تو ان سے لڑنے
کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حناطہ عبد الملطب کے پاس پاس آیا اور اس نے ابرہہ کا پیغام
پہنچایا۔ عبد المطلب نے کہا: قسم بخدا! ہم اس سے لڑنا نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم میں
اس سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت ہے۔ یہ اللہ اور اس کے خلیل ابراہیم (علیہ
السلام) کا گھر ہے اگر وہ اس کو بچائے تو اسی کا گھر ہے اور اگر اس کو تباہ ہونے
دے تب بھی اسی کی مرضی ہے’ ہم اس کا دفاع نہیں کر سکتے۔
حناطہ نے عبد
المطلب سے کہا میرے ساتھ اس (ابرہہ) کے پاس چلو۔ چونکہ ابرہہ نے عبد الملطب کے دو
سو اونٹ ہتھیا لیے تھے اس لئے اس کو چھڑانے کی کوشش بھی کرنی تھی لہٰذا عبد المطلب
ابرہہ کے پاس چلا گیا۔ ابرہہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مکہ کا سردار ہے اور اس کے پاس
آیا ہے تو اس نے عبد المطلب کی بہت عزت کی ’ اپنے تخت سے اتر آیا’ پہلو میں بٹھایا
اور ترجمان کے ذریعہ آنے کی وجہ پوچھی۔ عبد المطلب نے کہا: میرے دو سو اونٹ بادشاہ
نے لے لئے ہیں وہ مجھے واپس کئے جائیں۔حاکم یمن نے عبد المطلب کے اس حقیر سے ذاتی
مطالبہ پر اپنی حیرت اور استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: تم دو سو اونٹوں کی بات
کرتے ہوجو ہم نے لئے ہیں اور اس گھر کی فکر نہیں کرتے جس پر تمہارا اور تمہارے
آباء و اجداد کا دین قائم ہے؟ اور جس کو ڈھانے کے لئے ہم یہاں آئے ہیں’ اس کے بارے
میں تم کوئی بات نہیں کرتے؟
ابرہہ کا
خیال تھا کہ سردار مکہ اس کے پاس آئے ہیں تو اس گھر کے بارے میں گفتگو کریں گے’ اس
کو بچانے کی فکر کریں گے’ رحم کی اپیل کریں گے’ تاوان کی بات ہوگی’ مال و زر کی
پیشکش کریں گے’ جزیہ اور لگان طے کریں گے اور اپنی اور اپنے خانہ خدا کی جان بخشی
کرائیں گے۔ مگر عبد المطلب نے ابرہہ کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے بڑی خود
اعتمادی کے ساتھ جواب دیا۔ میں تو اونٹوں کا مالک ہوں اس لئے اس کی فکر کرتا ہوں
جو اس گھر کا مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔
ابرہہ نے کہا: وہ مجھ سے کیسے بچا سکتا ہے؟
عبد المطلب نے جواب دیا: یہ تم جانو اور وہ (ربِّ کعبہ) جانے۔
اس کے بعد
ابرہہ نے عبد المطلب کے اونٹ واپس کر دئیے اور عبد المطلب قریش کے پاس آکر ان کو
مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹیوں اور گھاٹیوں میں پناہ لینے کے لئے کہا تاکہ لشکر کی
دست درازیوں اور مظالم سے بچ سکیں۔ اس کے بعد عبد المطلب اور قریش کے چند دوسرے
لوگوں نے باب کعبہ کا حلقہ پکڑ کر اللہ سے اپنے گھر کی حفاظت کرنے اور ابرہہ اور
اس کے لشکر کو شکست دینے اور اس کو اپنے مقصد میں ناکام و نامراد کرنے کی دعائیں
کی ۔ پھر وہ لوگ بھی گھاٹیوں میں جا کر پناہ گزیں ہوگئے۔ اور اس بات کے منتظر رہے
کہ دیکھیں اللہ اپنے گھر کی حفاظت کس طرح کرتا ہے۔
دوسرے دن
ابرہہ اپنے لشکر کو ترتیب دے کر اور ہاتھیوں کو تیار کرکے مکہ میں داخل ہونے کے
لئے چل پڑا۔ جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محسر میں پہنچا تو ابرہہ کا ہاتھی
‘‘محمود’’ زمین پر بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لئے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا
رخ شمال یا جنوب کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا لیکن کعبے کی طرف کیا جاتا
تو بیٹھ جاتا۔
اسی اثناء
میں اللہ تعالی نے سمندر (بحر احمر) کی طرف سے چڑیوں کا ایک جھنڈ اور غول بھیج
دیا’ جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ تعالی نے انہیں کھائے ہوئے
بھس کی طرح بنا دیا جس کا ذکر قرآن کے سورہ فیل میں آیا ہے۔ یہ چڑیاں ابابیل اور
قمری جیسی تھیں۔ ہر چڑیا کے پاس تین کنکریاں تھیں ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں
اور یہ کنکریاں چنے جیسی اور جتنی تھیں مگر گولی اور توپ سے بھی زیادہ خطر ناک
تھیں جس کسی کو لگ جاتی تھیں اس کے اعضاء کٹنا شروع ہو جاتے تھے ’ سر میں لگتیں تو
مقعد سے نکل جاتیں اور پہلو میں لگتیں تو دوسری طرف سے نکل جاتیں اور جسم میں
سوراخ کر دیتیں۔ لشکر میں ایسی بھگڈر مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا ہوا جدھر سے
آیا تھا اسی طرف گرتا پڑتا بھاگ رہاتھا ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر
رہے تھے۔ ادھر ابرہہ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کا جسم چھلنی ہوگیا ’ اس کی
انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعا پہنچتے پہنچتے چوزے کی طرح ہوگیا ۔ پھر اس کا
سینہ پھٹ گیا’ دل باہر آگیا اور وہ مرگیا۔
اہل مکہ جو
ابرہہ اور اس کے لشکر کے خوف اور جور و ستم سے بچنے کے لئے پہاڑ کی چوٹیوں اور
گھاٹیوں میں جا چھپے تھے انہوں نے اللہ کے عذاب کا خود مشاہدہ کیا ’ جب لشکر ابرہہ
ناکام و نامراد ہو کر واپس چلا گیا تو اطمینان کے ساتھ اپنے گھروں کو پلٹ آئے۔ اور
یہ واقعہ بیشتر اہل سیر کے نزدیک نبی کریم ا کی ولادت سے پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ
محرم میں پیش آیا۔