امام اسماعیل بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ

0

 

امام اسماعیل بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ

نام و نسب:۔

            نام: اسماعیل’ والد کا نام: جعفر بن محمد باقر ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: اسماعیل بن جعفر بن محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب الہاشمی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت حسین بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے۔

کنیت: ابو محمد

لقب: المبارک

پیدائش: دفتری کے مطابق ان کی پیدائش کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے مگر بظاہر آپ امام الصادق کے دوسرے فرزند تھے اور آپ کی ولادت ۸۰۔۸۳ھ /۶۹۹۔۷۰۲ء کے درمیان ہوئی تھی۔(اسماعیلی تاریخ و عقائد ص:۱۰۲)

ابتدائی حالات و تعلیم:۔

            امام اسماعیل بن جعفر نے چونکہ ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اس لئے شروع سے ہی تحصیل علم کی طرف متوجہ ہو گئے۔ آپ بہت زیرک اور ذہین تھے۔ آپ شروع سے ہی بہت نیک اور صاحب کردار تھے ۔ آپ نے اپنے والد اور دیگر بزرگوں اور اساتذہ علم و فن سے اکتساب فیض کیا۔ آپ امام جعفر صادق کے بڑے بیٹے ہونے کی وجہ سے امام جعفر کی نظر میں بے حد عزیز تھے۔ اپنے والد بزرگوار کی تربیت اور تعلیم کی وجہ سے آپ علوم دینیہ سے بہرہ مند ہوئے۔

امامت و نظریات:۔

            آپ کی زندگی اور امامت کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اثناء عشریوں کا خیال ہے کہ اسماعیل بن جعفر اپنے والد امام جعفر صادق کی زندگی میں ہی انتقال کر گئے تھے اس لئے امامت کا سلسلہ ان کی نسب کے بجائے امام جعفر کے دوسرے بیٹے موسی کاظم کی نسب میں منتقل ہو گیا ہے۔ جبکہ شیعہ اسماعیلیہ کا کہنا ہے کہ امام اسماعیل بن جعفر کی شادی ہو چکی تھی جن سے آپ کے صاحبزادے محمد بن اسماعیل پیدا ہوئے ’ ان کے فرزند عبد اللہ الوصی ’ ان کے فرزند احمد الوفی اور ان کے بیٹے حسین التقی اور ان کے بیٹے عبد اللہ المہدی ہوئے جو خلفاء فاطمین کے بزرگ تھے۔ اسی وجہ سے اس خاندان کو اسماعیلیہ کہا جاتا ہے۔

            شیعہ اسماعیلیہ آپ ہی کی طرف منسوب ہے۔ اثنا عشری فرقے کے لوگ ان کو ’’شش امامی‘‘بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ یہ لوگ ان بارہ اماموں میں سے جن کو اثنا عشری امام مانتے ہیں صرف چھ کو امام مانتے ہیں اور امام جعفر صادق کے بعد ان کے بیٹے امام موسی کاظم کو امام نہیں مانتے بلکہ ان کے بڑے بیٹے جناب اسماعیل بن جعفر کو اپنا امام مانتے ہیں اور ان کے بعد بیٹے محمد کو امام مانتے ہیں اور اس امر کے قائل ہیں کہ امامت جناب اسماعیل ہی کی اولاد میں قیامت تک رہے گی۔ یہ لوگ حاضر امام کے قائل ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ خلافت مسلسل چلی آرہی ہے اور کوئی دور امام سے خالی نہیں ہوتا۔چونکہ اسماعیلیوں کے نزدیک جناب اسماعیل بن جعفر ساتویں امام ہیں اس لئے ان کو ’’سبعیہ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔

            یہ فرقہ بعد میں دو اور فرقوں میں بٹ گیا جو لوگ مستعلی کے حامی تھے وہ’’مستعلی‘‘کہلائے ۔ جو لوگ خلیفہ المستنصر کے بیٹے نزار کے حامی تھے وہ’’نزاری‘‘کہلائے۔نزاری فرقہ بعد میں کہلائے۔  اس فرقہ کے موجودہ امام پرنس کریم آغا خان ہے جو ان کا انچاسویں امام ہے۔ موجودہ دور میں آغا خان کی نسبت سے ان کے پیرو کار’’آغاخانی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ وہ اپنے دینی رہنمائی حاضر امام سے حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اور باقی فرقوں کے نظریات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔جبکہ مستعلیوں میں تفرقے پھوٹ پڑے ’ ہندوستان میں انہوں نے اہمیت اختیار کر لی۔ جو لوگ سلیمان بن حسن سے وابستہ ہوگئے وہ ‘‘سلیمانی’’ کہلائے اور جو لوگ داؤد بن قطب شاہ کے تابع فرمان ہوگئے وہ’’داؤدی ‘‘کہلائے۔ ہندوستان و پاکستان میں یہ لوگ’’بوھرے‘‘کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

            اسماعیلی نظام فقہ کی معیاری کتاب قاضی نعمان (م ۳۶۳ھ/۹۷۳ء) کی’’دعائم الاسلام‘‘ہے جو اثنا عشریہ کی روایات کے بہت قریب ہے۔(دیکھئے اردو دائرہ معارف اسلامیہ تحت بعنوان اسماعیلہ  فرقہ  )

نظریات و افکار:

            ٭        ان کے نزدیک ظاہر سے مراد لفظی ترجمہ اور لفظی مطلب لینا مناسب ہے جبکہ باطن سے رموز واشارات جو امام کی مستند تشریحات ہی سے سمجھ آ سکتے ہیں۔

            ٭         بنیادی اور اصول یہ ہیں (۱) اللہ تعالی کی وحدانیت ’ (۲) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت (۳) اور قرآن مجید کی وحی الٰہی ہونے پر غیر متزلزل ایمان۔

٭        تاویل کے ذریعے گہرے اندرونی معانی کا انکشاف فقط اماموں کا حق ہے۔

٭        حقائق عالیہ علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ‘‘احد مطلق’’ کے بعد ‘‘عقل کل’’ اور ‘‘نفس الکل’’ کا ذکر ہے۔

٭        انسان مخلوقات کا سرتاج ہے ۔ انسانیت کا سرتاج ‘‘انسان کامل’’ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

٭        ‘‘نفس الکل’’ کے مثل دنیا میں رسول کے سوا وصی یعنی علی مرتضی ؓ ہیں۔

٭        کرہ ارض میں انتظام عقل فعال کے ذمے ہے اور ائمہ اس کے ممثل ہیں۔

٭         امام سے تعلق قائم کر کے انسان اپنے مصدر اعلی کی طرف مراجعت کرتا ہے اور نجات اخروی حاصل کر سکتا ہے۔(دیکھئے معارف اسلامیہ مادہ اسماعیلیہ)

سلاطین فاطمین:۔

            اسماعیلیہ فرقے کا ظہور مصر میں ہوا اور اس کے پیروؤں نے ‘‘خلافت فاطمیہ’’ کی بنیاد ڈالی۔ دیار مغرب میں فاطمی سلاطین کی حکومت قائم ہوئی ان کا تعلق نسل اسماعیل بن جعفر ہی سے تھااور ان کے پہلے بادشاہ کا نام عبید اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن احمد بن محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق تھا اور اس کا لقب ‘‘مہدی باللہ’’ تھا۔ان حضرات نے بنی عباس کے دور میں ۲۷۴ سال حکومت کی ہے جس کا سلسلہ معتمد اور معتضد کے دور سے شروع ہوا تھا۔ ان بادشاہوں کی تعداد ۱۴ یا ۱۶ ہے اور انہیں اسماعیلیہ یا عبیدیہ کہا جاتا ہے۔

            انتہائے عروج کے زمانہ میں ان کی سلطنت بحر ظلمات سے صحرائے شام تک اور بحیرہ روم سے صحرائے اعظم افریقہ تک پھیل گئی تھی۔ مراکش’ بلاد الجزائر’ تونس’ طبرابلس’ برقہ’ مصر’ شام ’ حجاز’ جزیرہ صقلیہ اور روم کے بعض جزائر اس میں شامل تھے۔ بغداد اور موصل میں بھی ایک سال تک ان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔

وفات:

             امام اسماعیل بن جعفر صادق رحمہ اللہ کی وفات کے بارے میں اثنا عشری اور اسماعیلیوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں آپ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی وفات پا گئے تھے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ امام جعفر صادق ؒ کی وفات سے پانچ سال بعد بھی زندہ رہے۔ابن عنبہ نے عمدۃ الطالب میں اور زاہد علی بوہری نے تاریخ فاطمین مصر میں ان کی وفات کی تاریخ ۱۳۳ھ بیان کیا ہے جبکہ بعض دوسرے مؤرخین نے ۱۴۵ھ بیان کیا ہے۔ دفتری لکھتا ہے: ‘‘اسماعیل ؒ کی قبل از وقت موت غالبا ۱۳۶ھ کے فورا بعد ۱۳۶۔۱۴۵ھ کے درمیان وقوع پذیر ہوئی تھی۔’’(اسماعیلی تاریخ و عقائد ص:۱۰۳)

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)